فاطمہ ثریا بجیا

ہماری علمی، ادبی، تہذیبی و ثقافتی دنیا کا ایک اور چراغ بجھ گیا، ایک اور روشن ستارہ ڈوب گیا۔

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

PESHAWAR:
ہماری علمی، ادبی، تہذیبی و ثقافتی دنیا کا ایک اور چراغ بجھ گیا، ایک اور روشن ستارہ ڈوب گیا۔ 10 فروری بروز بدھ ہم سب کی پیاری ہر دلعزیز فاطمہ ثریا بجیا نے طویل علالت کے بعد داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے اپنی جان، جان آفریں کے سپرد کی اور جہان فانی سے جہان ابدی کی جانب کوچ کیا اور اپنے پیچھے ایک دنیا کو سوگوار چھوڑ گئیں۔

بجیا جی نے 85 برس کی عمر پائی۔ انھوں نے یکم ستمبر 1930 کو حیدرآباد دکن کے علاقے رائے پورکے ایک ممتاز تہذیبی، علمی وادبی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ زانوائے تلمذ اپنی والدہ کی آغوش اور بزرگوں کے زیرسایہ طے کیا۔ کسی مکتب و مدرسے کا رخ کیا نا ہی اسکول،کالج و یونیورسٹی کا، لیکن بجیا جی کی شخصیت کی ہمہ گیریت اور تخلیقی صلاحیتوں کا یہ عالم تھا کہ گویا بجائے خود اپنی ذات میں وہ ایک مکمل یونیورسٹی تھیں۔ تیرہ برس کی عمر میں جب بجیا کی ہم عمر بچیاں گڈے گڑیوں سے کھیل رہی تھیں، بجیا جی نے اپنی ادبی زندگی کا پہلا ناول لکھ ڈالا۔''اقبال اور فلسفہ خودی ''کے عنوان سے پہلا مضمون لکھا۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے مقبولیت کی بلندیوں کو چھوتی ہی چلی گئیں۔ مختلف اخبارات، رسائل و جرائد میں ناول اورکہانیاں لکھیں۔

ٹی وی اور ریڈیو کے لیے لاتعداد ڈرامے، سیریلز، فیچرز اور مختلف پروگرامز لکھے۔ بچوں، خواتین اور عام ناظرین سب کے لیے لکھا۔ تقریباً 300 سے زائد سبق آموز ڈرامے لکھے۔ اسٹیج ڈرامے، ناولوں کی ڈرامائی تشکیل، مختلف شخصیات پر تحقیقی کام، جاپانی اور سندھی لوک کہانیوں کے اردو میں تراجم، سماجی خدمات، اصلاح معاشرہ اور خواتین کی بہتری کے لیے کام بجیا جی کا طرہ امتیاز تھے۔ غیر رسمی تعلیم کے باوجود قابل قدر تخلیقی خدمات پر عبداللہ دادا بھائی انسٹیٹیوٹ نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا۔

بجیا جی کی انکساری کا یہ عالم تھا کہ حیرت انگیز قابلیت اور صلاحیتوں کے باوجود کہتیں کہ ''میں تو کسی لائق ہی نہیں کہ میرے پاس پہلی جماعت کا بھی سرٹیفکیٹ نہیں۔'' تاہم وہ اس کا برملا اظہار فرماتیں کہ ''مجھے کیا کچھ نہیں سکھایا گیا، حتیٰ کہ فرنیچر پالش کرنا، ٹوٹے برتنوں کو استعمال کرکے کارآمد بنانا، کپڑا بننا، اور زندگی بنانا سنوارنا تک سکھایا گیا'' کسی رسمی تعلیم کے باوجود بجیا جی کا ماننا تھا کہ ''کوئی ڈگری نہ ہو مگر مجھے جینے کا سلیقہ اور انسانوں سے محبت تو آئی اور اپنا رب اور اپنا رسولؐ تو یاد رہے۔''

بجیا جی کی تعلیم وتربیت گھر ہی میں بزرگوں، سرپرستوں اور استادوں کی بدولت ہوئی یہ آپ کی خاندانی روایت تھی، لہٰذا بچپن ہی سے بہت قدآور شخصیات سے وابستہ رہیں، روایتی روایتی علم کے علاوہ خطاطی اور دیگر علوم پر بھی دسترس حاصل کی، طرح طرح کے کھانے پکانے اور 50 سے زائد اقسام کے دوپٹے رنگنے کے فن پر بھی عبور حاصل کیا، گڑیاں بنانا اورکپڑوں کی ڈیزائننگ اور کشیدہ کاری سے بھی خوب واقفیت تھی بلکہ وہ پاکستان میں کپڑوں کی ڈیزائننگ کرنے والی پہلی شخصیت تھیں۔ بجیا جی نے اپنے ڈراموں کے ذریعے ہماری روایات، خاندانی اقدار اور تہذیب و ثقافت کو فروغ دیا۔ وہ ہمہ گیر شخصیت اور وسیع حلقہ احباب کی مالک تھیں، حکومت پاکستان کی جانب سے ان کی خدمات کے اعتراف میں پرائڈ آف پرفارمنس اور ہلال امتیاز سے نوازا گیا، حکومت سندھ نے انھیں مشیر تعلیم و ثقافت مقرر کیا اور جاپان کی حکومت نے بجیا جی کو ملک کا اعلیٰ سول ایوارڈ دیا۔


بجیا جی کا گھرانہ علم و فضل میں نہایت ممتاز اور اعلیٰ خاندانی روایات کا حامل گھرانہ تھا۔ ان کے دادا کو قابلیت کی بنیاد پر نظام حیدرآباد دکن میر عثمان علی نے اعلیٰ حکومتی عہدے پر فائز کیا، ان کے نانا اعلیٰ سرکاری اہل کار رہے، والد قمر مقصود حمیدی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے۔

والدہ اردو اور فارسی زبان کی نثرنگار اور شاعرہ تھیں۔ بجیا جی اپنے دس بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں۔ انور مقصود، زہرہ نگاہ اور زبیدہ طارق المعروف زبیدہ آپا کسی تعارف کے محتاج نہیں،ان کے علاوہ سارہ نقوی بی بی سی کی اردو سروس سے وابستہ رہیں جب کہ احمد مقصود حمیدی معروف بیوروکریٹ ہیں اور ایک بہن مسز کاظمی فیشن ڈیزائننگ کے شعبے میں ممتاز مقام اور نمایاں حیثیت کی حامل ہیں، پورا خاندان کیسی کیسی نابغہ روزگار شخصیات پر مشتمل ہے گویا بجائے خود وطن عزیزکا فخر ہے، ان قابل فخر بہن بھائیوں کی کامیابیوں اور کامرانیوں کا سہرا بھی درحقیقت بجیا جی کے سر ہی سجتا ہے۔

تقسیم ہند/قیام پاکستان کے بعد 1948 میں جب بھارتی حکومت نے نظام حیدرآباد دکن کا تختہ الٹ دیا تو بجیا جی کا خاندان ہجرت کرکے پاکستان آگیا، 1960 میں بجیا جی کے نانا اور 1963 میں والد کے انتقال کے بعد تمام کنبے کی ذمے داری بجیا جی پر ہی آگئی، مصائب وآلام کا بجیا جی نے کیسے مقابلہ کیا اورکس بلند ہمتی سے مردانہ وار تمام فرائض سے سبکدوش ہوئیں یہ خود معروف صداکار واداکار و صحافی و ڈرامہ نگار ومزاح نگار انور مقصود کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں ''ہم دس بہن بھائیوں میں بجیا سب سے بڑی تھیں۔ والدہ کا انتقال 42 برس کی عمر میں ہوگیا تھا۔

اس کے بعد بجیا نے خاندان کے بزرگ کی حیثیت سے ہم سب کی دیکھ بھال کی۔ وہ ملازمت بھی کرتیں اور پڑھاتیں بھی، ابتدا ہی سے ہمارے گھر میں پڑھنے لکھنے کو ضروری سمجھا جاتا تھا۔ صرف کتابیں تھیں (ہجرت کے وقت گھریلو سامان میں 80,000 سے زائد کتب تھیں جن کا ذکر بجیا جی اکثر کیا کرتی تھیں) گھر میں فرنیچر بھی نہیں تھا مگر بجیا کی محبت اور محنت نے ہم کو کبھی یہ احساس ہی نہیں ہونے دیا کہ گھر میں کچھ نہیں ہے۔

ہم بہن بھائیوں کی آپس میں جو محبت، جو خلوص کا رشتہ ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے والدین صرف ہم لوگوں کو چھوڑ گئے زمین چھوڑی نہ مکان اور نہ بینک بیلنس۔ محبت ان بہن بھائیوں میں کم ہوتی ہے جن کے والدین بہت کچھ ان کے لیے چھوڑ جاتے ہیں، میں پچاس برس سے لکھ رہا ہوں شاید ہی میری کوئی تحریر ایسی ہو جو میں نے بجیا کو نہ دکھائی ہو، ان کی ڈانٹ بھی بہت سنی، مجھ سے کہتیں کہ ''تم جس حکومت میں رہتے ہو، اسی کی برائی کرتے ہو۔'' میرا ہمیشہ یہی جواب ہوتا کہ ''بجیا! اگر حکومت اچھی ہوگی تو میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ برائی نہیں کروں گا۔''

''جب بجیا کی طبیعت ناساز تھی تو اس کا مطلب تھا محبت، خلوص، پیار، ایمان داری، محنت سب ناساز تھے، اب اکیلا ہوگیا ہوں۔'' بجیا کی فطرت میں ''نہیں'' تو تھا ہی نہیں، عمر عزیز کے آخری حصے میں سرطان جیسے مہلک مرض سے مسلسل جنگ کے باوجود بجیا لوگوں کی فلاح و بہبود میں مشغول رہیں، کسی کو کسی ضرورت کے وقت آخری عمر تک کبھی منع یا انکار نہ کیا، شدید بیماری سے دوچار ہونے کے باوجود مسلسل لوگوں کے کام آتی رہیں، بجیا جی جیسے انسان کبھی نہیں مرتے یہ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں، انسانوں کے دلوں میں، کتابوں میں، تاریخ میں یہ امر ہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ۔ بجیا جی نے بالکل درست کہا ''بڑے لوگ کبھی نہیں مرتے، کیونکہ ان سے ہمارا تعلق محض جسمانی نہیں ہوتا، وہ جسمانی طور پر اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں لیکن اس وقت تک ان کی شخصیت ہماری زندگی میں رنگ بھر چکی ہوتی ہے۔ اللہ عزوجل بجیا جی کے درجات بلند فرمائے۔ (آمین)
Load Next Story