امریکی محاورے اور روزمرہ میں تشدد کے عناصر

تاریخ میں کسی قوم کے اذہان پر دہشت گردی، تشدد اور بہیمیت کا ایسا غلبہ نظر نہیں آتا جیسا کہ امریکیوں کے ہاں ہے۔

shaikhjabir@gmail.com

واقعہ یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں کسی قوم نے اِس درجہ بہیمیت کا مظاہرہ نہیں کیا جیسا کہ گزشتہ صدی سے امریکیوں کے ہاں نظر آتا ہے۔

مثال کے طور پر اوہایو کی ایک ماں چینا آرنلڈ نے اپنے ایک ماہ کے لختِ جگر پیرس کو مائیکروویو اَوون میں زندہ جلا ڈالا، گرین ویلی کے علاقے میں ٹیری رابنسن نے اپنے 3 برس کے بیٹے کو اَوون میں زندہ جلادیا، ایک اور ماں اپنے دو بچوں کو غرقاب کردیتی ہے وغیرہ۔ یہ واقعات مستثنیات میں سے نہیں ہیں بلکہ حالیہ برسوں میں امریکا میں کی گئی بہیمانہ قتل کی وارداتوں میں سے چند ہیں۔ اِن واقعات نے ایک جانب مضبوط ترین جذبے، ممتا کے بارے میں نئے سوالات کو جنم دیا ہے تو دوسری جانب خود امریکی تہذیب و ترقی پر ایک بڑا سوالیہ نشان چسپاں کردیا ہے۔ اِس طرح کے واقعات انسانی تاریخ اور دیگرمعاشروں میں عُنقا ہیں۔

تاریخ میں کسی قوم کے اذہان پر دہشت گردی، تشدد اور بہیمیت کا ایسا غلبہ نظر نہیں آتا جیسا کہ امریکیوں کے ہاں ہے۔ گزشتہ صرف نصف صدی میں امریکا میں ہونے والے جرائم کی خبروں کا جائزہ لیں، آپ کو نظر آئے گا کہ ایک بیٹی اپنی ماں کا سر تن سے جدا کردیتی ہے، کَٹی ہوئی گردن بالوں سے پکڑ کر بڑے اسٹائل سے وہ پولیس اسٹیشن جاتی ہے اور فٹ پاتھ پر کٹا ہوا سر پھینک دیتی ہے۔ دو بیٹے اپنے والدین کو قتل کردیتے ہیں۔ ایک سیریل کِلر دو طوائفوں کو اپنا نشانہ بناتا ہے۔

ایک ہم جنس پرست بدکاری کی ترغیب دیتا ہے، اپنے نوجوان شکار کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے فریزر میں محفوظ کرلیتا ہے اور پھر یہ گوشت کھاتا رہتا ہے۔ ایک خاموش پراسرار قاتل یونیورسٹی میں 15 افراد کو قتل کردیتا ہے۔ کولمبین ہائی اسکول کولوراڈو میں بھاری ہتھیاروں سے مسلح لڑکے 13 ہم جماعتوں کو قتل اور 28 کو زخمی کرکے خودکشی کرلیتے ہیں۔ ایک شخص اسکول کے بچوں کا اُن کے کھیل کے میدان میں خودکار اسلحے سے قتلِ عام کردیتا ہے۔ ویت نام جنگ میں حصہ لینے والا ایک فوجی فاسٹ فوڈ فیملی ریسٹورنٹ میں موجود گاہکوں کو مشین گن سے بھون ڈالتا ہے، 20 ہلاک 13زخمی۔ دُوبدو فوجی لڑائی کا ماہر چرچ میں گھس کر عبادت میں مصروف لوگوں کا قتلِ عام کرتا ہے، ساتھ ہی بلند آواز میں کہتا جاتا ہے ''میں نے اِس سے قبل ایک ہزار قتل کیے ہیں، ایک ہزار قتل اور کروں گا'' وغیرہ وغیرہ۔

یہ سب آخر کیا ہے؟ یہ کیسا معاشرہ ہے؟ یہ کیسی ترقی ہے؟ یہ ذہنیت کس چیز کی غماز ہے؟ انسانی تاریخ نے ایسی ہلاکت خیز ذہینت کے حامل افراد کبھی نہیں دیکھے۔ 1961 میں امریکا میں فی ایک لاکھ افراد پُرتشدد جرائم کی شرح 158.1 تھی جو 2010 میں 403.6 ہوگئی۔ امریکی حکومت کے یہ اعداد و شمار غماز ہیں کہ معاشرہ کس سمت میں ترقی کر رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر امریکی ایسا کیوں کرتے ہیں؟ جواب کی تلاش میں امریکیوں کی زبان و بیان، محاورے اور روزمرہ کا بھی جائزہ لے لیا جائے۔


زبان، ہلاکت آفرینی کو راسخ کرتی ہے اور اسے تقویت پہنچاتی ہے اور ایسا وہ فطری پن اور ناگزیریت کے احساس کے ذریعے کرتی ہے۔ امریکی معیشت کی بنیاد، آزاد انٹر پرائز کیپٹل ازم پر قائم ہے۔ امریکی روزمرہ کی زبان میں بولتے ہیں ''اسٹاک مارکیٹ میں قتل عام کرنا''، وال اسٹریٹ کی ایک کہاوت ہے ''گلیوں میں جب خون بہہ رہا ہو تو آپ خریداری کرتے ہیں''، اور تجارتی ادارے ''قیمتوں کی جنگ'' میں مقابلہ کرتے ہیں۔ امریکی صدارتی انتخابی مہمات زوروں پر ہیں۔ انتخابی مہم چلانے والے کارکنوں کو ''فوجی دستہ'' یا ''پیدل سپاہی'' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ مجالسِ قانون ساز میں بل ''قتل'' کردیے جاتے ہیں۔ غربت، جرائم، منشیات اور دیگر مسائل پر قوم ''جنگ جاری رکھتی ہے''۔

بیس بال امریکا کا قومی کھیل ہے، ناخوش اور ناراض پرستار اپنے غصے کا اظہار کرتے ہوئے نعرہ لگاتے ہیں کہ ''ایمپائر کو قتل کردو!'' کھیل پر رواں تبصرہ کرنے والے مبصر فٹ بال کی مضبوط ٹیموں کو ''قاتل'' کہہ کر پکارتے ہیں۔ کھلاڑیوں کو ''جنگی ہتھیار'' کہا جاتا ہے، گیند ایک کھلاڑی سے دوسرے کھلاڑی کے ہاتھ میں منتقل ہوتے ہوئے ''لانگ بم'' کہلاتی ہے۔ ناکام ٹیموں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ''قاتلانہ جبلت سے محروم'' تھیں۔ زندگی میں فارغ لمحوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے امریکی اسے ''وقت کا قتل'' کہتے ہیں۔

نسل پرستی اور جنس پرستی کی زبان کے نقصان دہ اثرات کی بڑھتی ہوئی آگہی کے باوجود، امریکی فراٹے سے ہلاکت آفرینی کی زبان بولتے رہتے ہیں۔ امریکی انگلش کے لسانی ''اسلحہ خانے'' میں ایسی اصطلاحات پائی جاتی ہیں جن میں معلوم تاریخ کے تمام اسلحے کا تذکرہ محفوظ ہے۔ ان کے استعمال کے طریقے اور ان کے اثرات سامنے آجاتے ہیں، مثال کے طور پر، غداری ''پشت میں خنجر پیوست کرنا'' ہے۔ بجٹ پر کلہاڑی چلائی جاتی ہے۔ کسی معاملے میں کوشش کا مطلب ہے ''نشانے پر گولی چلانا''۔ نظریات کو ''تارپیڈو'' کر دیا جاتا ہے''۔ حزب اختلاف کے لیے ''طیارہ شکن گولہ باری'' کی اصطلاح رائج ہے۔ عمل کے نتائج کو ''صف سے باہر نکل جانا'' کہا جاتا ہے۔ وکلا ''کرائے کی بندوقیں'' ہیں۔ کسی خوبصورت فلم اسٹار کو اصطلاحاً ''گورے رنگ اور سنہرے بالوں والا بم'' کہا جاتا ہے۔ وغیرہ

دوسری جانب، حقیقی قتل کو رواجاً خوش گفتاری کا لبادہ پہنا دیا جاتا ہے۔ دنیا کا پہلا ایٹم بم بی۔29 بمبار طیارے سے ہیروشیما پر گرایا جاتا ہے اور اسے ''ننھا بچہ'' کے نام سے پکارا جاتا ہے، طیارے کو پائلٹ کی ماں کے حوالے سے ''اینولا گے'' (Enola Gay) کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس کے بعد اگلا پلوٹونیم بم ''موٹا آدمی'' ناگا ساکی پر ''بوک کی کار'' کے ذریعے گرایا جاتا ہے۔ شہری آبادی کے بے تحاشا قتل عام کی صلاحیت کے حامل بین البراعظمی جوہری میزائلوں کو ''صلح جو'' کہا جاتا ہے۔ جنگ و جدل کی زبان کی جگہ کھیلوں کی اصطلاحیں استعمال کی جاتی ہیں۔ قتل عام کے لیے تیاری کی فوجی مشقوں کو ''کھیل'' کہا جاتا ہے۔ دوران جنگ شہری آبادی یا خود اپنے فوجیوں کے قتل کو ''ضمنی ہرجانہ'' Collateral Damage کہا جاتا ہے۔ سابق صدر رونالڈریگن نے اس بارے میں یوں اظہار خیال کیا تھا ''جدید تاریخ میں امریکا جنگ کے لیے کم سے کم تیار، انتہائی پرامن ملک ہے''۔ (پی بی ایس1993)۔

بیسویں صدی کے اہم آسٹرین برطانوی فلسفی -26/04/1951)Ludwig Wittgenstein (26/04/1889 نے کہا تھا۔ meaning of language lies in the form of life منطق اور فلسفے کے اِس اہم اصول کا اطلاق کیا جائے اور تاریخ سے رہنمائی لی جائے تو پتا چلتا ہے کہ اِس تہذیب کی بنیاد 15 کروڑ سرخ ہندیوں کے قتل پر رکھی گئی تھی۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ جس تہذیب کی بنیاد ہی ایک پوری تہذیب اور نسل کو صفحہ ہستی سے مٹا کر رکھی گئی ہو وہ اپنے عمل، زبان، محاورے اور روزمرہ میں دہشت، بربریت، تشدد اور بہیمیت کا مظاہرہ نہ کرے تو کیا ''اہنسا ''کی پرچارک بن جائے؟
Load Next Story