جاننے کا بنیادی حق کب ملے گا
محتسب کے لیے اطلاعات کے حصول سے متعلق عرضداشتوں پر فوری توجہ دینا مشکل ہوتا ہے
کینیڈا کے سینٹر برائے قانون اور جمہوریت نے سینٹ کے تیار کردہ اطلاعات کے حصول کے قانونی مسودے کو مثالی قرار دے دیا، یہ مسودہ قانون کی شکل میں وفاق میں کب نافذ ہو گا، اس بات کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے، کینیڈا کے اس ادارے کے سربراہ ٹوبی مینڈل نے اسلام آباد میں ایک غیر سرکاری تنظیم پلڈاٹ کے زیر اہتمام ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سینٹ کا تیار کردہ اطلاعات کے حصول کے قانون کے مسودے نے بین الاقوامی معیار کی مکمل پابندی کی ہے اور اس مسودے کو 150 درجے میں سے 148 ویں درجے پر فائز کیا گیا ہے۔
اس مسودے کو قانون کی شکل دینے کے لیے مسلم لیگ کی حکومت کو قومی اسمبلی سے اس کی منظوری کے طریقہ کار پر عمل کرنا ہو گا، مگر موجودہ حکومت نے اس بارے میں اپنی حکمت عملی واضح نہیں کی ہے، شہریوں کے ریاستی امور کے بارے میں جاننے کے بنیادی حق کو 1946ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرار داد نمبر 591 میں تسلیم کیا گیا تھا جنرل اسمبلی نے آزادی صحافت کو بنیادی حق قرار دیتے ہوئے اس حق کو شہریوں کے جاننے کے حق سے منسلک کیا تھا۔
یوں انسانی حقوق کے آرٹیکل 19 کی تشکیل ہوئی تھی، جنرل اسمبلی کے اس بنیادی حق کے بارے میں آگاہی کے لیے بین الاقوامی کانفرنس بلانے کی تجویز پیش کی تھی، دنیا بھر کے بہت سے جمہوری ملکوں نے اس آرٹیکل 19 میں جاننے کے حق کو بنیادی حق قرار دیا تھا، پاکستان میں نافذ ہونے والے مختلف آئین مثلاً1956، 1964 اور 1973 کے آئین کے آرٹیکل 19 میں اس حق کی توثیق کی گئی تھی، مگر ملک میں اس حق کو عملی شکل دینے کے لیے قانون سازی بہت عرصے تک نہیں کی گئی۔
پاکستان میں یہ ریاستی اداروں کے بارے میں حقائق کو پوشیدہ رکھنے کے استعماری تصور کو مکمل تحفظ فراہم کیا گیا، ہر ملک میں نافذ کیے جانے والے قوانین میں اس تصور کی حفاظت کرنے میں جماعت اسلامی کے رکن پروفیسر خورشید احمد نے 1986 میں سینیٹ میں جاننے کے حق کے بارے میں قانون سازی کے لیے ایک مسودہ قانون پیش کیا تھا، مگر سینیٹ کے ایجنڈے میں یہ مسودہ جگہ حاصل نہیں کر سکا، جنرل ضیاء الحق نے 1988کے اوائل میں قومی اسمبلی کو توڑ دیا، اس طرح یہ مسودہ سینیٹ کے کاغذات میں کھو گیا۔
1988 سے 1999 کے 11 سالہ عرصے میں پی پی اور مسلم لیگ 2، 2 دفعہ بر سر اقتدار رہیں، دوسرے دور میں مسلم لیگ کو دونوں ادوار میں قومی اسمبلی اور سینیٹ پر قطعی اکثریت حاصل رہی، مگر جاننے کے حق کے لیے کوئی قانون سازی نہیں ہوئی، ملک معراج خالد کی نگرانی میں عبوری حکومت نے ممتاز قانون دان فخرالدین جی ابراہیم کے تیار کردہ اطلاعات کے حصول کے قانون کو آرڈیننس کی شکل میں نافذ کیا، مگر انتخابات میں قطعی اکثریت حاصل کرنے والی مسلم لیگ ن کی حکومت نے اس آرڈیننس کو پارلیمنٹ میں پیش کر کے قانون کی شکل نہیں دی۔
جنرل مشرف نے اقتدار سنبھالا تو ماہر ابلاغیات جاوید جبار وزیر اطلاعات کے عہدے پر فائز ہوئے، جاوید جبار نے اطلاعات کے حصول کے قانون کی تیاری کے لیے اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی مگر انھیں جلد ہی مستعفی ہونا پڑا، ان کے پیشرو نثار میمن نے اس مسودے کو عملی شکل دی، یہی وجہ ہے کہ 2002کے عام انتخابات کے بعد ابلاغ عامہ سے متعلق 6 قوانین پی سی او کے تحت نافذ ہوئے، ان میں اطلاعات کے حصول کا قانون شامل تھا ، پھر 2006 میں سندھ اور بلوچستان نے وفاق کے قانون کے چربہ قوانین اپنے اپنے صوبوں میں نافذ کیے، پاکستان جنوبی ایشیا میں پہلا ملک تھا جہاں یہ قانون نافذ ہوا ہے۔
مگر ماہرین اس قانون کو انتہائی کمزور قانون قرار دیتے ہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ اہم وزارتیں اس قانون کے دائرے سے خارج کر دی گئیں، پھر اس قانون کے تحت متعلقہ وزارتوں سے اطلاعات کے حصول کے لیے مخصوص افسر کے تقرر کی شق شامل نہیں نہ اطلاعات حاصل کرنے کا طریقہ کار درج ہے، بہت عرصے تک اس قانون کے ذیلی قواعد و ضوابط نافذ نہیں ہوئے، اطلاعات کی فراہمی کے لیے 21 روز کی شرط رکھی گئی، جو بہت زیاد ہ ہے، پھر متعلقہ وزارت کی جانب سے اطلاعات فراہم نہ کرنے پر وفاقی محتسب سے اپیل کا حق دیا گیا، ماہرین کا کہنا ہے کہ وفاقی محتسب کے فرائض بہت زیادہ ہیں۔
محتسب کے لیے اطلاعات کے حصول سے متعلق عرضداشتوں پر فوری توجہ دینا مشکل ہوتا ہے اور محتسب کے پاس توہین عدالت کے اختیارات نہیں ہیں یوں کسی افسر کی جانب سے اطلاعات فراہم نہ کرنے پر محتسب کو اس کی سرزنش کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ محتسب کے فیصلے کے خلاف صدر پاکستان کو اپیل کرنے کا حق ہے، صدر پاکستان وزارتوں اور محتسب دونوں کے آئینی سربراہ ہیں، یہی صورتحال سندھ اور بلوچستان کے قوانین کی بنا پر ہوئی، پھر افسروں اور عوام میں ان قوانین سے متعلق آگاہی کا عمل نہیں ہو سکا۔
2002 کی قومی اسمبلی میں پی پی اور مسلم لیگ ن دونوں اپوزیشن جماعتیں تھیں، لیکن پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی شیری رحمن اور سینیٹ کے رکن فرحت اللہ بابر نے اطلاعات کے حصول کے قانون پر بہت شدید تنقید کی، مسلم لیگ ن کے اراکین پیپلز پارٹی کی اس رہنما کی اس تنقید کی زور و شور سے حمایت کرتے تھے، شیری رحمن اور سینیٹر فرحت اللہ بابر نے مخالف جماعتوں کے اراکین، صحافیوں، ایڈیٹروں اور میڈیا مالکان کے مشورے سے اطلاعات کے حصول کے قانون کا ایک مسودہ تیار کر لیا تھا، 2008 میں پی پی کی حکومت سندھ اور بلوچستان میں قائم ہوئی مگر اس دوران اطلاعات کے حصول کے قانون کو موثر بنانے کے لیے قانون سازی نہیں ہوئی۔
2010میں 18 ویں ترمیم میں ایک شق جاننے کے حق کے بارے میں شامل کی گئی، یہ شق 19 A کہلائی، اس شق کو اس میں شامل کر کے پی پی کی سربراہ بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان2003میں لندن میں ہونے والے میثاق جمہوریت کی توثیق کی گئی، 2013میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اطلاعات کے حصول کے قوانین نافذ ہوئے۔
پنجاب کے مقابلے میں خیبرپختونخوا کا قانون زیادہ موثر ہے اور اس قانون کے تحت قائم ہونے والے شکایتی کمیشن کے سربراہ اور اراکین کی خصوصی حیثیت ہے، مگر کے پی کے اور پنجاب کے انفارمیشن کمیشن نے عوام کے اطلاعات حاصل کرنے کے حق کے لیے قابل رشک فیصلے کیے، پنجاب کے ایک فیصلے کے تحت گورنر ہاؤس اور وزیر اعلیٰ ہاؤس کو اطلاعات فراہم کرنا پڑیں اور محکمہ تعلیم کے افسر کو اطلاعات فراہم نہ کرنے پر تنخواہ ضبط کر لی گئی۔
سول سوسائٹی کی کوششوں کے باوجود وفاق ، سندھ اور بلوچستان میں اطلاعات کے حصول کے فرسودہ قانون کے بجائے بین الاقوامی معیار کے قانون کے نفاذ کے لیے کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ بد قسمتی سے مخالف سیاسی جماعتیں بھی قانون کی تیاری کی تحریک میں شامل ہونے کو تیار نہیں، پڑوسی ملک بھارت نے اطلاعات کے حصول کے قانون کے نفاذ کے بعد سرکاری اداروں میں بدعنوانی میں کمی آئی ہے اور طرز حکمرانی بہتر ہوئی ہے۔
بھارت میں گزشتہ دنوں بھارتی وزیر اعظم مودی کی اہلیہ نے اپنے شوہر کے کوائف معلوم کرنے کے لیے اس قانون کے تحت عرضداشت داخل کی تا کہ وزیر اعظم کے کوائف کے مطابق اپنے پاسپورٹ کے حصول کے لیے فارم میں متعلقہ معلومات فراہم کی جا سکیں، اس طرح دیہاتوں میں عوام میں سرکاری فنڈز سے متعلق معلومات حاصل کر کے ترقی کے عمل میں رکاوٹوں کو دور کیا، جمہوری نظام میں ریاستی اداروں میں شفافیت اور اچھی طرز حکمرانی کے لیے عوام کے جاننے کے حق کا تحفظ ضروری ہے اور ایک معیاری قانون سے اس حق کا تحفظ حاصل ہو سکتا ہے، سینیٹ نے ایک بہتر قانون کا مسودہ تیار کیا ہے۔
اس قانون کو قومی اسمبلی سے منظور کرانے کے لیے ایک تحریک کی ضرورت ہے، وزیر اعظم نواز شریف نے نیب کی کارکردگی پر تنقید کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ نیب کے اہلکار افسروں کو ہراساں کرتے ہیں، پیپلز پارٹی اس مسئلے پر میاں نواز شریف کی ہم نوا ہے، مگر دونوں رہنما وفاق اور سندھ میں ایک قانون کے نفاذ کے لیے تیار نہیں جس سے بد عنوانی کا معاملہ خود کار طریقے سے سامنے آئے گا، بد عنوانی کے خاتمے اور اچھی طرز حکومت کے لیے اطلاعات کے حصول کا قانون ضروری ہے۔
اس مسودے کو قانون کی شکل دینے کے لیے مسلم لیگ کی حکومت کو قومی اسمبلی سے اس کی منظوری کے طریقہ کار پر عمل کرنا ہو گا، مگر موجودہ حکومت نے اس بارے میں اپنی حکمت عملی واضح نہیں کی ہے، شہریوں کے ریاستی امور کے بارے میں جاننے کے بنیادی حق کو 1946ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرار داد نمبر 591 میں تسلیم کیا گیا تھا جنرل اسمبلی نے آزادی صحافت کو بنیادی حق قرار دیتے ہوئے اس حق کو شہریوں کے جاننے کے حق سے منسلک کیا تھا۔
یوں انسانی حقوق کے آرٹیکل 19 کی تشکیل ہوئی تھی، جنرل اسمبلی کے اس بنیادی حق کے بارے میں آگاہی کے لیے بین الاقوامی کانفرنس بلانے کی تجویز پیش کی تھی، دنیا بھر کے بہت سے جمہوری ملکوں نے اس آرٹیکل 19 میں جاننے کے حق کو بنیادی حق قرار دیا تھا، پاکستان میں نافذ ہونے والے مختلف آئین مثلاً1956، 1964 اور 1973 کے آئین کے آرٹیکل 19 میں اس حق کی توثیق کی گئی تھی، مگر ملک میں اس حق کو عملی شکل دینے کے لیے قانون سازی بہت عرصے تک نہیں کی گئی۔
پاکستان میں یہ ریاستی اداروں کے بارے میں حقائق کو پوشیدہ رکھنے کے استعماری تصور کو مکمل تحفظ فراہم کیا گیا، ہر ملک میں نافذ کیے جانے والے قوانین میں اس تصور کی حفاظت کرنے میں جماعت اسلامی کے رکن پروفیسر خورشید احمد نے 1986 میں سینیٹ میں جاننے کے حق کے بارے میں قانون سازی کے لیے ایک مسودہ قانون پیش کیا تھا، مگر سینیٹ کے ایجنڈے میں یہ مسودہ جگہ حاصل نہیں کر سکا، جنرل ضیاء الحق نے 1988کے اوائل میں قومی اسمبلی کو توڑ دیا، اس طرح یہ مسودہ سینیٹ کے کاغذات میں کھو گیا۔
1988 سے 1999 کے 11 سالہ عرصے میں پی پی اور مسلم لیگ 2، 2 دفعہ بر سر اقتدار رہیں، دوسرے دور میں مسلم لیگ کو دونوں ادوار میں قومی اسمبلی اور سینیٹ پر قطعی اکثریت حاصل رہی، مگر جاننے کے حق کے لیے کوئی قانون سازی نہیں ہوئی، ملک معراج خالد کی نگرانی میں عبوری حکومت نے ممتاز قانون دان فخرالدین جی ابراہیم کے تیار کردہ اطلاعات کے حصول کے قانون کو آرڈیننس کی شکل میں نافذ کیا، مگر انتخابات میں قطعی اکثریت حاصل کرنے والی مسلم لیگ ن کی حکومت نے اس آرڈیننس کو پارلیمنٹ میں پیش کر کے قانون کی شکل نہیں دی۔
جنرل مشرف نے اقتدار سنبھالا تو ماہر ابلاغیات جاوید جبار وزیر اطلاعات کے عہدے پر فائز ہوئے، جاوید جبار نے اطلاعات کے حصول کے قانون کی تیاری کے لیے اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی مگر انھیں جلد ہی مستعفی ہونا پڑا، ان کے پیشرو نثار میمن نے اس مسودے کو عملی شکل دی، یہی وجہ ہے کہ 2002کے عام انتخابات کے بعد ابلاغ عامہ سے متعلق 6 قوانین پی سی او کے تحت نافذ ہوئے، ان میں اطلاعات کے حصول کا قانون شامل تھا ، پھر 2006 میں سندھ اور بلوچستان نے وفاق کے قانون کے چربہ قوانین اپنے اپنے صوبوں میں نافذ کیے، پاکستان جنوبی ایشیا میں پہلا ملک تھا جہاں یہ قانون نافذ ہوا ہے۔
مگر ماہرین اس قانون کو انتہائی کمزور قانون قرار دیتے ہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ اہم وزارتیں اس قانون کے دائرے سے خارج کر دی گئیں، پھر اس قانون کے تحت متعلقہ وزارتوں سے اطلاعات کے حصول کے لیے مخصوص افسر کے تقرر کی شق شامل نہیں نہ اطلاعات حاصل کرنے کا طریقہ کار درج ہے، بہت عرصے تک اس قانون کے ذیلی قواعد و ضوابط نافذ نہیں ہوئے، اطلاعات کی فراہمی کے لیے 21 روز کی شرط رکھی گئی، جو بہت زیاد ہ ہے، پھر متعلقہ وزارت کی جانب سے اطلاعات فراہم نہ کرنے پر وفاقی محتسب سے اپیل کا حق دیا گیا، ماہرین کا کہنا ہے کہ وفاقی محتسب کے فرائض بہت زیادہ ہیں۔
محتسب کے لیے اطلاعات کے حصول سے متعلق عرضداشتوں پر فوری توجہ دینا مشکل ہوتا ہے اور محتسب کے پاس توہین عدالت کے اختیارات نہیں ہیں یوں کسی افسر کی جانب سے اطلاعات فراہم نہ کرنے پر محتسب کو اس کی سرزنش کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ محتسب کے فیصلے کے خلاف صدر پاکستان کو اپیل کرنے کا حق ہے، صدر پاکستان وزارتوں اور محتسب دونوں کے آئینی سربراہ ہیں، یہی صورتحال سندھ اور بلوچستان کے قوانین کی بنا پر ہوئی، پھر افسروں اور عوام میں ان قوانین سے متعلق آگاہی کا عمل نہیں ہو سکا۔
2002 کی قومی اسمبلی میں پی پی اور مسلم لیگ ن دونوں اپوزیشن جماعتیں تھیں، لیکن پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی شیری رحمن اور سینیٹ کے رکن فرحت اللہ بابر نے اطلاعات کے حصول کے قانون پر بہت شدید تنقید کی، مسلم لیگ ن کے اراکین پیپلز پارٹی کی اس رہنما کی اس تنقید کی زور و شور سے حمایت کرتے تھے، شیری رحمن اور سینیٹر فرحت اللہ بابر نے مخالف جماعتوں کے اراکین، صحافیوں، ایڈیٹروں اور میڈیا مالکان کے مشورے سے اطلاعات کے حصول کے قانون کا ایک مسودہ تیار کر لیا تھا، 2008 میں پی پی کی حکومت سندھ اور بلوچستان میں قائم ہوئی مگر اس دوران اطلاعات کے حصول کے قانون کو موثر بنانے کے لیے قانون سازی نہیں ہوئی۔
2010میں 18 ویں ترمیم میں ایک شق جاننے کے حق کے بارے میں شامل کی گئی، یہ شق 19 A کہلائی، اس شق کو اس میں شامل کر کے پی پی کی سربراہ بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان2003میں لندن میں ہونے والے میثاق جمہوریت کی توثیق کی گئی، 2013میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اطلاعات کے حصول کے قوانین نافذ ہوئے۔
پنجاب کے مقابلے میں خیبرپختونخوا کا قانون زیادہ موثر ہے اور اس قانون کے تحت قائم ہونے والے شکایتی کمیشن کے سربراہ اور اراکین کی خصوصی حیثیت ہے، مگر کے پی کے اور پنجاب کے انفارمیشن کمیشن نے عوام کے اطلاعات حاصل کرنے کے حق کے لیے قابل رشک فیصلے کیے، پنجاب کے ایک فیصلے کے تحت گورنر ہاؤس اور وزیر اعلیٰ ہاؤس کو اطلاعات فراہم کرنا پڑیں اور محکمہ تعلیم کے افسر کو اطلاعات فراہم نہ کرنے پر تنخواہ ضبط کر لی گئی۔
سول سوسائٹی کی کوششوں کے باوجود وفاق ، سندھ اور بلوچستان میں اطلاعات کے حصول کے فرسودہ قانون کے بجائے بین الاقوامی معیار کے قانون کے نفاذ کے لیے کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ بد قسمتی سے مخالف سیاسی جماعتیں بھی قانون کی تیاری کی تحریک میں شامل ہونے کو تیار نہیں، پڑوسی ملک بھارت نے اطلاعات کے حصول کے قانون کے نفاذ کے بعد سرکاری اداروں میں بدعنوانی میں کمی آئی ہے اور طرز حکمرانی بہتر ہوئی ہے۔
بھارت میں گزشتہ دنوں بھارتی وزیر اعظم مودی کی اہلیہ نے اپنے شوہر کے کوائف معلوم کرنے کے لیے اس قانون کے تحت عرضداشت داخل کی تا کہ وزیر اعظم کے کوائف کے مطابق اپنے پاسپورٹ کے حصول کے لیے فارم میں متعلقہ معلومات فراہم کی جا سکیں، اس طرح دیہاتوں میں عوام میں سرکاری فنڈز سے متعلق معلومات حاصل کر کے ترقی کے عمل میں رکاوٹوں کو دور کیا، جمہوری نظام میں ریاستی اداروں میں شفافیت اور اچھی طرز حکمرانی کے لیے عوام کے جاننے کے حق کا تحفظ ضروری ہے اور ایک معیاری قانون سے اس حق کا تحفظ حاصل ہو سکتا ہے، سینیٹ نے ایک بہتر قانون کا مسودہ تیار کیا ہے۔
اس قانون کو قومی اسمبلی سے منظور کرانے کے لیے ایک تحریک کی ضرورت ہے، وزیر اعظم نواز شریف نے نیب کی کارکردگی پر تنقید کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ نیب کے اہلکار افسروں کو ہراساں کرتے ہیں، پیپلز پارٹی اس مسئلے پر میاں نواز شریف کی ہم نوا ہے، مگر دونوں رہنما وفاق اور سندھ میں ایک قانون کے نفاذ کے لیے تیار نہیں جس سے بد عنوانی کا معاملہ خود کار طریقے سے سامنے آئے گا، بد عنوانی کے خاتمے اور اچھی طرز حکومت کے لیے اطلاعات کے حصول کا قانون ضروری ہے۔