فلم ’’خوش نصیب‘‘ جس نے مجھے بھی خوشی دی
لاہور کی فلم انڈسٹری جنرل ضیا الحق کے دور حکومت میں کافی عرصے تک کسمپرسی کا شکار رہی تھی
لاہور کی فلم انڈسٹری جنرل ضیا الحق کے دور حکومت میں کافی عرصے تک کسمپرسی کا شکار رہی تھی، اس دوران بہت سے آرٹسٹ ٹیکنیشنز اور اولین شاعرلاہور چھوڑگئے تھے اور دوسرے شعبوں سے منسلک ہوگئے تھے۔ کچھ واپس کراچی آگئے تھے جو کراچی کی انڈسٹری چھوڑ کر لاہور کی فلم انڈسٹری کا حصہ بن گئے تھے۔
موسیقار نثار بزمی نے بھی لاہور کو خیرباد کہہ دیا تھا اور پھر انھوں نے مستقل رہائش کراچی ہی میں اختیارکرلی تھی۔ میں بھی اب کراچی واپس آچکا تھا۔ کراچی کے ایسٹرن اسٹوڈیو میں پھر سے رونقیں شروع ہوگئی تھیں۔ اسی دوران میرا ایک دیرینہ دوست پرویز چوہدری میرے گھر آیا اور اس نے ہدایت کار اے ایچ صدیقی کا پیغام پہنچایا کہ صدیقی صاحب کو میری فوری ضرورت ہے اور انھوں نے کل تمہیں اپنے گھر بلایا ہے۔
پھر میں دوسرے دن اے ایچ صدیقی سے ملنے ان کے گھر پہنچا، میری ایک طویل عرصے کے بعد صدیقی صاحب سے ملاقات ہوئی تھی۔وہ مجھ سے مل کر بڑے خوش ہوئے۔ پھر انھوں نے کہا یونس ہمدم! میں آیندہ ماہ اپنی نئی فلم ''خوش نصیب'' شروع کر رہا ہوں، نثار بزمی کو موسیقار لیا ہے۔ دو ایک دن بعد نثار بزمی سے تمہاری بیٹھک ہوگی اور فلم کے گانے تم لکھو گے۔ میں یہ سن کر بڑا خوش ہوا اور پھر ماضی میں کھو گیا، جب میری پہلی ملاقات بطور فلمی صحافی ان کی ایک فلم ''پریتم آن ملو'' کی مہورت کے موقعے پر ہوئی تھی۔
یسٹرن فلم اسٹوڈیو میں جس کے پہلے گیت کی ریکارڈنگ ہو رہی تھی اور اس گیت کی ریکارڈنگ ہندوستان کے نامور گلوکار سی ایچ آتما کی آواز میں ہو رہی تھی۔
صدیقی صاحب نے ہندوستان سے بڑے طویل عرصے کے بعد سی ایچ آتما کے کراچی آنے پر ان کی آواز سے فائدہ اٹھانے کی ایک اچھی کوشش کی تھی اور اپنی فلم کا نام بھی سی ایچ آتما کے ایک مقبول ترین گیت کے مکھڑے پر رکھا تھا۔ مگر بدقسمتی کچھ کاروباری اونچ نیچ کی وجہ سے مذکورہ فلم پایہ تکمیل کے مراحل تک نہ پہنچ سکی اور نہ ہی وہ گیت ریلیز ہوسکا تھا۔
اس کے بعد فلم ''لاڈلا'' کی شوٹنگ کے دوران میری ہدایت کار اے ایچ صدیقی صاحب سے بھی کافی بے تکلفی ہوچکی تھی پھر وقت گزرتا رہا اور میں کراچی کی ایک دو فلموں میں گانے لکھنے کے بعد لاہور چلا گیا تھا اور پھر وہاں بارہ سال کا ایک طویل عرصہ گزارا اب جب میں کراچی واپس آیا تو ہدایت کار صدیقی صاحب نے مجھے یاد رکھا اور اپنی نئی فلم کے لیے میرے دوست کے ذریعے اپنے گھر بلوایا پھر وہ مجھے اپنے ساتھ لے کر موسیقار نثار بزمی کے گھر پہنچے، نثار بزمی بھی مجھ سے کافی دنوں کے بعد ملے تھے اور انھوں نے بھی بڑی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا یونس میاں! جب صدیقی صاحب نے اپنی نئی فلم ''خوش نصیب'' کے لیے شاعر کے بارے میں پوچھا تو میں نے اس وقت انھیں تمہارا نام دے دیا تھا کہ مجھے پتہ تھا کہ اب تم بھی لاہور چھوڑ کرکراچی آچکے ہو اور کراچی ٹیلی ویژن کے لیے لکھ رہے ہو۔
پھر صدیقی صاحب کہنے لگے بس یونس ہمدم! شاعر کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ اب تم بزمی صاحب کے ساتھ مل کر اپنا ٹائم سیٹ کرلو اورکل سے فلم کے پہلے گیت کے لیے بیٹھ جاؤ۔
پہلا گیت دو دوستوں کی دوستی کے جذبات پر مبنی ہے۔پھرکچھ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد صدیقی صاحب نثار بزمی صاحب سے یہ کہہ کر چلے گئے بزمی صاحب! کل پہلا گیت تیار ہوجائے گا تو میں آکر سن لوں گا۔ اس مہینے ہم فلم کے زیادہ سے زیادہ گیت ریکارڈ کرلیں گے آیندہ ماہ ندیم اور کویتا کراچی آرہے ہیں اور پھر میں فلم کی مسلسل شوٹنگ میں مصروف ہوجاؤں گا۔ صدیقی صاحب کے جانے کے بعد میں بزمی صاحب کے ساتھ گیت کی تیاری میں مصروف ہوگیا، چند گھنٹوں کے بعد ایک خوبصورت دھن کے ساتھ فلم ''خوش نصیب'' کا پہلا گیت تیار ہوگیا تھا اور اس گیت کا مکھڑا تھا:
دوستی تیری میری دوستی
اس پر آنچ کبھی نہ آئے
چاہے جان ہماری جائے
چاہے لینی پڑے دنیا سے دشمنی' ہو ہو ہو
یہ گیت دھن پر لکھا گیا تھا اور اس گیت کی تیاری میں چار پانچ گھنٹے صرف ہوئے تھے۔ دوسرے دن اے ایچ صدیقی آئے گیت سنا اور پھر اسی ہفتے وہ گیت عالمگیر اور سلیم شہزاد کی آوازوں میں یسٹرن اسٹوڈیو میں ریکارڈ کرلیا گیا۔ اب ہمیں دو ہفتوں میں فلم ''خوش نصیب'' کے چار گیت مکمل کرنے تھے تاکہ آیندہ ماہ فلم کی لگاتار شوٹنگ کے دوران وہ گیت فلم بند کیے جاسکیں۔ نثار بزمی صاحب نے ہنستے ہوئے کہا یونس ہمدم! ایسا کرو تم اپنا بوریا بسترا یہیں لے آؤ تاکہ تمہیں اپنے گھر نہ جانا پڑے۔ میں نے بھی مسکراتے ہوئے کہا لگتا ہے صدیقی صاحب اپنی اس نئی فلم کی شوٹنگ ایکسپریس ٹرین کا انجن لگا کرکریں گے۔
دو دن کے بعد ہم مذکورہ فلم کے دوسرے گیت کی تیاری میں مصروف ہوگئے یہ گیت بھی ایک ہنگامہ خیز سچویشن کا گیت تھا۔ ہیرو ندیم اور کویتا کی اس گیت میں بڑی تکرار ہوتی ہے دونوں ہیرو اور ہیروئن اپنی اپنی ٹیم کے ساتھ ایک گیت گاتے ہیں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں یہ طنزومزاح سے مرقع ایک گیت ہوتا ہے، ہیرو اور ہیروئن ایک دوسرے پر غالب آنے کی کوشش کرتے ہیں۔
میں کافی دیر تک گیت کی سچویشن پر مکھڑے سوچتا رہا، چند نثار بزمی کو سنائے بھی مگر وہ خوب سے خوب تر کی کوشش پر زور دیتے رہے۔ پھر بزمی صاحب بولے یونس ہمدم! تم ایسا کرو، دھن سے ہٹ کر گیت کا مکھڑا سوچو، جو مکھڑا منتخب ہوجائے گا پھر اس مکھڑے کے حساب سے ہم دھن بنائیں گے۔ میں پھر سچویشن میں کھو گیا۔ پھر چند مکھڑے لکھے جن میں ایک مکھڑا مجھے سچویشن کے عین قریب لگا میں نے ہیرو اور ہیروئن کے حساب سے پھر دو مکھڑے بزمی صاحب کو سنائے۔
ہیرو کا مکھڑا تھا:
تم لڑکی کیا ہو رسموں کی زنجیر لگتی ہو
جو دل میں ٹوٹ کے رہ جائے وہ تیر لگتی ہو
ہیروئن اس مکھڑے کا جواب کچھ یوں دیتی ہے:
تم لڑکے کیا ہو جھوٹوں کے سردار لگتے ہو
تم اونگے بونگے چہروں کے شاہکار لگتے ہو
بزمی صاحب نے دونوں مکھڑے سن کر کہا۔ ہاں یہ بات بنی ہے۔ بہت خوب اچھی تکرار ہے۔ اب میں اس کی دھن بناتا ہوں اور تم اسی میٹر کو ذہن میں رکھتے ہوئے دو دو یا تین تین لائنوں کے انترے سوچ میں دو تین انترے منتخب کرلوں گا۔ پھر تین چار گھنٹوں کی محنت کے بعد مذکورہ سچویشن کے اعتبار سے تین انترے بھی فائنل ہوگئے ۔
ہدایت کار صدیقی صاحب رات کو آئے اور وہ مکمل گیت سن کر بڑے محظوظ ہوئے۔ بزمی صاحب نے دوسرے دن اس گیت کی ریہرسل کے لیے عالمگیر اور حمیرا چنا کو بھی گھر پر بلالیا۔ پھر جب تیسرے دن یہ گیت یسٹرن اسٹوڈیو میں ریکارڈ کیا گیا تو کورس کی آوازوں کے لیے ایک درجن ایکسٹرا لڑکے اور ایک درجن ایکسٹرا لڑکیوں کو بھی ریکارڈنگ میں شامل کیا گیا۔
اور اس طرح اس گیت کو کورس کی آوازوں کے ساتھ رات گئے تک ریکارڈ کیا گیا۔ اب دو گیت رہ گئے تھے، صدیقی صاحب کی خواہش تھی کہ یہ دو گیت بھی اسی ہفتے ریکارڈ کرلیے جائیں، میں نے نثار بزمی سے کہا۔ بزمی صاحب اب تو آپ کی بات پر عمل کرنا ہی پڑے گا۔ لگتا ہے بوریا بسترا منگانا ہی پڑے گا۔ نثار بزمی کہنے لگے بھئی یہ تو آپ کے لیے بھی خوشی کی بات ہے کہ آپ فلم ''خوش نصیب'' کے سارے گیت لکھ رہے ہیں۔
ورنہ صدیقی صاحب تو کہہ رہے تھے فلم کے آدھے گیت یونس ہمدم اور بقیہ آدھے گیت لکھنے کے لیے مسرور انور کو لاہور سے بلا لیتے ہیں۔ مگر میں نے ہی صدیقی صاحب کو منع کردیا تھا کہ شاید مسرور انور زیادہ وقت نہ دے سکے، اور آپ کی شوٹنگ بھی اگلے مہینے شروع ہو رہی ہے۔ میں روزانہ صبح کا ناشتہ کرکے نثار بزمی کے گھر چلا جاتا تھا۔ ہم دونوں نارتھ ناظم آباد میں ہی جے اور آر بلاک میں رہتے تھے۔ بقیہ دو گیت جن میں ایک گیت حمیرا چنا نے سولو ریکارڈ کرایا اس کا مکھڑا تھا۔
آج خوشی کی محفل ہے دل جھوم کے گائے
سال نیا جو آئے وہ خوش نصیب آئے
اور اس کے بعد جو گیت ریکارڈ کیا گیا وہ عالمگیر اور حمیرا چنا دونوں کا ڈوئیٹ تھا جس کے بول تھے:
جیون ہے اپنا ہنسنا گانا 'خوشیوں کا ہے دل دیوانہ
کلیاں بھی ساتھی کانٹے بھی اپنے' پھولوں سے بھی یارانہ
بہرحال مجھے اس بات کی بڑی خوشی تھی کہ لیجنڈ موسیقارنثار بزمی کی امیدوں پرمیں کھرا اترا تھا۔
موسیقار نثار بزمی نے بھی لاہور کو خیرباد کہہ دیا تھا اور پھر انھوں نے مستقل رہائش کراچی ہی میں اختیارکرلی تھی۔ میں بھی اب کراچی واپس آچکا تھا۔ کراچی کے ایسٹرن اسٹوڈیو میں پھر سے رونقیں شروع ہوگئی تھیں۔ اسی دوران میرا ایک دیرینہ دوست پرویز چوہدری میرے گھر آیا اور اس نے ہدایت کار اے ایچ صدیقی کا پیغام پہنچایا کہ صدیقی صاحب کو میری فوری ضرورت ہے اور انھوں نے کل تمہیں اپنے گھر بلایا ہے۔
پھر میں دوسرے دن اے ایچ صدیقی سے ملنے ان کے گھر پہنچا، میری ایک طویل عرصے کے بعد صدیقی صاحب سے ملاقات ہوئی تھی۔وہ مجھ سے مل کر بڑے خوش ہوئے۔ پھر انھوں نے کہا یونس ہمدم! میں آیندہ ماہ اپنی نئی فلم ''خوش نصیب'' شروع کر رہا ہوں، نثار بزمی کو موسیقار لیا ہے۔ دو ایک دن بعد نثار بزمی سے تمہاری بیٹھک ہوگی اور فلم کے گانے تم لکھو گے۔ میں یہ سن کر بڑا خوش ہوا اور پھر ماضی میں کھو گیا، جب میری پہلی ملاقات بطور فلمی صحافی ان کی ایک فلم ''پریتم آن ملو'' کی مہورت کے موقعے پر ہوئی تھی۔
یسٹرن فلم اسٹوڈیو میں جس کے پہلے گیت کی ریکارڈنگ ہو رہی تھی اور اس گیت کی ریکارڈنگ ہندوستان کے نامور گلوکار سی ایچ آتما کی آواز میں ہو رہی تھی۔
صدیقی صاحب نے ہندوستان سے بڑے طویل عرصے کے بعد سی ایچ آتما کے کراچی آنے پر ان کی آواز سے فائدہ اٹھانے کی ایک اچھی کوشش کی تھی اور اپنی فلم کا نام بھی سی ایچ آتما کے ایک مقبول ترین گیت کے مکھڑے پر رکھا تھا۔ مگر بدقسمتی کچھ کاروباری اونچ نیچ کی وجہ سے مذکورہ فلم پایہ تکمیل کے مراحل تک نہ پہنچ سکی اور نہ ہی وہ گیت ریلیز ہوسکا تھا۔
اس کے بعد فلم ''لاڈلا'' کی شوٹنگ کے دوران میری ہدایت کار اے ایچ صدیقی صاحب سے بھی کافی بے تکلفی ہوچکی تھی پھر وقت گزرتا رہا اور میں کراچی کی ایک دو فلموں میں گانے لکھنے کے بعد لاہور چلا گیا تھا اور پھر وہاں بارہ سال کا ایک طویل عرصہ گزارا اب جب میں کراچی واپس آیا تو ہدایت کار صدیقی صاحب نے مجھے یاد رکھا اور اپنی نئی فلم کے لیے میرے دوست کے ذریعے اپنے گھر بلوایا پھر وہ مجھے اپنے ساتھ لے کر موسیقار نثار بزمی کے گھر پہنچے، نثار بزمی بھی مجھ سے کافی دنوں کے بعد ملے تھے اور انھوں نے بھی بڑی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا یونس میاں! جب صدیقی صاحب نے اپنی نئی فلم ''خوش نصیب'' کے لیے شاعر کے بارے میں پوچھا تو میں نے اس وقت انھیں تمہارا نام دے دیا تھا کہ مجھے پتہ تھا کہ اب تم بھی لاہور چھوڑ کرکراچی آچکے ہو اور کراچی ٹیلی ویژن کے لیے لکھ رہے ہو۔
پھر صدیقی صاحب کہنے لگے بس یونس ہمدم! شاعر کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ اب تم بزمی صاحب کے ساتھ مل کر اپنا ٹائم سیٹ کرلو اورکل سے فلم کے پہلے گیت کے لیے بیٹھ جاؤ۔
پہلا گیت دو دوستوں کی دوستی کے جذبات پر مبنی ہے۔پھرکچھ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد صدیقی صاحب نثار بزمی صاحب سے یہ کہہ کر چلے گئے بزمی صاحب! کل پہلا گیت تیار ہوجائے گا تو میں آکر سن لوں گا۔ اس مہینے ہم فلم کے زیادہ سے زیادہ گیت ریکارڈ کرلیں گے آیندہ ماہ ندیم اور کویتا کراچی آرہے ہیں اور پھر میں فلم کی مسلسل شوٹنگ میں مصروف ہوجاؤں گا۔ صدیقی صاحب کے جانے کے بعد میں بزمی صاحب کے ساتھ گیت کی تیاری میں مصروف ہوگیا، چند گھنٹوں کے بعد ایک خوبصورت دھن کے ساتھ فلم ''خوش نصیب'' کا پہلا گیت تیار ہوگیا تھا اور اس گیت کا مکھڑا تھا:
دوستی تیری میری دوستی
اس پر آنچ کبھی نہ آئے
چاہے جان ہماری جائے
چاہے لینی پڑے دنیا سے دشمنی' ہو ہو ہو
یہ گیت دھن پر لکھا گیا تھا اور اس گیت کی تیاری میں چار پانچ گھنٹے صرف ہوئے تھے۔ دوسرے دن اے ایچ صدیقی آئے گیت سنا اور پھر اسی ہفتے وہ گیت عالمگیر اور سلیم شہزاد کی آوازوں میں یسٹرن اسٹوڈیو میں ریکارڈ کرلیا گیا۔ اب ہمیں دو ہفتوں میں فلم ''خوش نصیب'' کے چار گیت مکمل کرنے تھے تاکہ آیندہ ماہ فلم کی لگاتار شوٹنگ کے دوران وہ گیت فلم بند کیے جاسکیں۔ نثار بزمی صاحب نے ہنستے ہوئے کہا یونس ہمدم! ایسا کرو تم اپنا بوریا بسترا یہیں لے آؤ تاکہ تمہیں اپنے گھر نہ جانا پڑے۔ میں نے بھی مسکراتے ہوئے کہا لگتا ہے صدیقی صاحب اپنی اس نئی فلم کی شوٹنگ ایکسپریس ٹرین کا انجن لگا کرکریں گے۔
دو دن کے بعد ہم مذکورہ فلم کے دوسرے گیت کی تیاری میں مصروف ہوگئے یہ گیت بھی ایک ہنگامہ خیز سچویشن کا گیت تھا۔ ہیرو ندیم اور کویتا کی اس گیت میں بڑی تکرار ہوتی ہے دونوں ہیرو اور ہیروئن اپنی اپنی ٹیم کے ساتھ ایک گیت گاتے ہیں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں یہ طنزومزاح سے مرقع ایک گیت ہوتا ہے، ہیرو اور ہیروئن ایک دوسرے پر غالب آنے کی کوشش کرتے ہیں۔
میں کافی دیر تک گیت کی سچویشن پر مکھڑے سوچتا رہا، چند نثار بزمی کو سنائے بھی مگر وہ خوب سے خوب تر کی کوشش پر زور دیتے رہے۔ پھر بزمی صاحب بولے یونس ہمدم! تم ایسا کرو، دھن سے ہٹ کر گیت کا مکھڑا سوچو، جو مکھڑا منتخب ہوجائے گا پھر اس مکھڑے کے حساب سے ہم دھن بنائیں گے۔ میں پھر سچویشن میں کھو گیا۔ پھر چند مکھڑے لکھے جن میں ایک مکھڑا مجھے سچویشن کے عین قریب لگا میں نے ہیرو اور ہیروئن کے حساب سے پھر دو مکھڑے بزمی صاحب کو سنائے۔
ہیرو کا مکھڑا تھا:
تم لڑکی کیا ہو رسموں کی زنجیر لگتی ہو
جو دل میں ٹوٹ کے رہ جائے وہ تیر لگتی ہو
ہیروئن اس مکھڑے کا جواب کچھ یوں دیتی ہے:
تم لڑکے کیا ہو جھوٹوں کے سردار لگتے ہو
تم اونگے بونگے چہروں کے شاہکار لگتے ہو
بزمی صاحب نے دونوں مکھڑے سن کر کہا۔ ہاں یہ بات بنی ہے۔ بہت خوب اچھی تکرار ہے۔ اب میں اس کی دھن بناتا ہوں اور تم اسی میٹر کو ذہن میں رکھتے ہوئے دو دو یا تین تین لائنوں کے انترے سوچ میں دو تین انترے منتخب کرلوں گا۔ پھر تین چار گھنٹوں کی محنت کے بعد مذکورہ سچویشن کے اعتبار سے تین انترے بھی فائنل ہوگئے ۔
ہدایت کار صدیقی صاحب رات کو آئے اور وہ مکمل گیت سن کر بڑے محظوظ ہوئے۔ بزمی صاحب نے دوسرے دن اس گیت کی ریہرسل کے لیے عالمگیر اور حمیرا چنا کو بھی گھر پر بلالیا۔ پھر جب تیسرے دن یہ گیت یسٹرن اسٹوڈیو میں ریکارڈ کیا گیا تو کورس کی آوازوں کے لیے ایک درجن ایکسٹرا لڑکے اور ایک درجن ایکسٹرا لڑکیوں کو بھی ریکارڈنگ میں شامل کیا گیا۔
اور اس طرح اس گیت کو کورس کی آوازوں کے ساتھ رات گئے تک ریکارڈ کیا گیا۔ اب دو گیت رہ گئے تھے، صدیقی صاحب کی خواہش تھی کہ یہ دو گیت بھی اسی ہفتے ریکارڈ کرلیے جائیں، میں نے نثار بزمی سے کہا۔ بزمی صاحب اب تو آپ کی بات پر عمل کرنا ہی پڑے گا۔ لگتا ہے بوریا بسترا منگانا ہی پڑے گا۔ نثار بزمی کہنے لگے بھئی یہ تو آپ کے لیے بھی خوشی کی بات ہے کہ آپ فلم ''خوش نصیب'' کے سارے گیت لکھ رہے ہیں۔
ورنہ صدیقی صاحب تو کہہ رہے تھے فلم کے آدھے گیت یونس ہمدم اور بقیہ آدھے گیت لکھنے کے لیے مسرور انور کو لاہور سے بلا لیتے ہیں۔ مگر میں نے ہی صدیقی صاحب کو منع کردیا تھا کہ شاید مسرور انور زیادہ وقت نہ دے سکے، اور آپ کی شوٹنگ بھی اگلے مہینے شروع ہو رہی ہے۔ میں روزانہ صبح کا ناشتہ کرکے نثار بزمی کے گھر چلا جاتا تھا۔ ہم دونوں نارتھ ناظم آباد میں ہی جے اور آر بلاک میں رہتے تھے۔ بقیہ دو گیت جن میں ایک گیت حمیرا چنا نے سولو ریکارڈ کرایا اس کا مکھڑا تھا۔
آج خوشی کی محفل ہے دل جھوم کے گائے
سال نیا جو آئے وہ خوش نصیب آئے
اور اس کے بعد جو گیت ریکارڈ کیا گیا وہ عالمگیر اور حمیرا چنا دونوں کا ڈوئیٹ تھا جس کے بول تھے:
جیون ہے اپنا ہنسنا گانا 'خوشیوں کا ہے دل دیوانہ
کلیاں بھی ساتھی کانٹے بھی اپنے' پھولوں سے بھی یارانہ
بہرحال مجھے اس بات کی بڑی خوشی تھی کہ لیجنڈ موسیقارنثار بزمی کی امیدوں پرمیں کھرا اترا تھا۔