دونوں ٹھیک ہیں
آرمی چیف کا ’’سوال‘‘ پہلے آیا۔ چیف جسٹس کا جواب بعد میں.
آرمی چیف کا ''سوال'' پہلے آیا۔ چیف جسٹس کا جواب بعد میں اور بعض حلقوں کی اس ''تفتیش'' سے معاملے کی سنجیدگی میں خوف کا عنصر ذرا کم ہو جاتا ہے کہ چیف جسٹس کا جواب دراصل پہلے سے لکھا جا چکا تھا۔
بس اتفاق سے (سوئے اتفاق سے بالکل نہیں) یہ بعد میں آیا، اس لیے میڈیا اور دوسرے لوگوں نے اس ماجرے کو سوال جواب سمجھا ورنہ ایسی کوئی بات نہیں ہے جیسی بعض لوگ سمجھ رہے ہیں۔ اس دریافت پر یقین کر لیا جائے تب بھی یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ ایسے اتفاقات بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں کہ ایک ہی روز ملک کے دو اہم ترین اداروں کے سربراہوں کے دو بیان ایسے آ جائیں جو پڑھنے والے چہروں کو سوالیہ نشان بنا دیں۔
بہرحال، یہ محض اتفاق ہے تو بلاشبہ تاریخی اتفاق ہے۔ بس اتنی دُعا کی ضرورت ہے کہ یہ اتفاق تاریخی ہی رہے، تاریخ ساز نہ ہو جائے۔ آرمی چیف کے بیان میں دو باتیں سب سے اہم ہیں۔ ایک یہ کہ کسی ایک فرد یا ادارے کو یہ حق نہیں کہ وہ ملکی مفاد کا تعین کر سکے۔ آرمی کا ادارہ اتنا قابل احترام اور با رعب ہے کہ اگر کوئی ایک شخص اُس کا نام نہ لے تو کوئی دوسرا جرات نہیں کر سکتا لیکن خیال کا کیا کیجیے، خیال تو خیال ہے اور اس کی مرضی ہے کہ چاہے عدلیہ کی طرف نکل جائے یا کسی اور کی طرف اور اسی بے مہار خیال کا خیال ہے کہ عدلیہ میں اصغر خاں کیس اور ریلوے اراضی کیس کی سماعت جس طریقے سے ہوئی اور ان دونوں معاملات میں جو پیشرفت ہوئی، اس کا ردعمل ہونا ہی تھا۔
اصغر خاں کیس میں فوج کے اس وقت کے کماندار اور ایک خفیہ ایجنسی کے سربراہ پر بادی النظر میں یہ الزام ثابت ہو گیا تھا کہ انھوں نے پیپلز پارٹی کا مقابلہ کرنے کے لیے آئی جے آئی نامی سیاسی اتحاد بنوایا، اب سپریم کورٹ نے اس کیس میں ذمے داروں کے خلاف کارروائی کا حکم بھی دے دیا ہے اور یہ بھی کہا کہ اب کسی کو آئی جے آئی بنانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس کیس کی سماعت میں بین السطور یہ واضح پیغام تھا کہ اگر مذکورہ افراد نے آئی جے آئی قومی مفاد کے تحت بنایا تھا تو غلط کیا تھا۔ دوسرے لفظوں میں فوج یا خفیہ ادارے کو حق نہیں کہ وہ ''مفاد'' کی اپنی مرضی کی تشریح کر کے ایسے فیصلے کرے جو جمہوریت پر اثر انداز ہوں۔
دوسرے کیس میں ریٹائر فوجی جرنیلوں پر الزام ہے کہ انھوں نے ریلوے کی اراضی کوڑیوں کے بھائو فروخت کرکے 5 ارب کا کمیشن کھا لیا اور قومی خزانے کو 25 ارب کا نقصان پہنچایا۔ اس کیس کی تفتیش سپریم کورٹ کے حکم پر اب نیب کر رہا ہے۔ اس کیس میں ''ملزم'' جرنیل اتنے مشتعل تھے کہ ان میں سے ایک نے صحافی کو شٹ اپ 'ایڈیٹ کہہ کر چپ کرا دیا۔
دوسرے نے قوم سے کسی ہیجڑے کو اپنا رہنما منتخب کرنے کی ''دردمندانہ'' اپیل کی۔ ان جرنیل حضرات کی باڈی لینگویج یہ صاف بتا رہی تھی کہ حقیر بلکہ بہت ہی حقیر قسم کے سویلینز کے ہاتھوں احتساب کو وہ توہین سمجھتے ہیں۔ حالانکہ انھیں اس بات کے رعایتی نمبر تو دینے ہی چاہئیں تھے کہ نیب کا سربراہ بھی ان کا ایک ریٹائرڈ پیٹی بھائی ہے۔
دوسری اہم بات آرمی چیف کے خطاب میں یہ سوال تھا کہ ہم ادارے مضبوط کر رہے ہیں یا کمزور، آئین کی بالادستی ہو رہی ہے یا نہیں۔ ذرا دوسرے لفظوں میں یہی بات حکومت بھی کرتی رہی ہے۔ شاید یہ نتیجہ نکالنا ٹھیک نہ ہو کہ ایک ادارے کے بارے میں دو دوسرے ادارے ہم خیال ہو گئے ہیں۔ لیکن اتنا کہنے میں کوئی ہرج نہیں کہ ایک ادارے کی ''بہت زیادہ آگے بڑھ کر لیے گئے از خود نوٹس'' پالیسی کی وجہ سے باقی دو اداروں کے کان کھڑے ہو گئے ہیں۔
چیف جسٹس کے خطاب میں شامل سوال پہلے ہی تیار ہو چکا تھا۔ اتفاق سے جاری بعد میں ہوا۔ انھوں نے واضح ترین الفاظ میں اپنے اختیارات کا دفاع کیا اور کہا کہ سپریم کورٹ ہی اس ملک میں حتمی اختیارات کی حامل عدالت ہے اور اب وہ دور گیا جب ملکی استحکام کا تعین ٹینکوں، میزائلوں اور اسلحے سے کیا جاتا تھا، اب قومی سلامتی کے تصور بدل گئے ہیں۔ انھوں نے موجودہ نظام کے بددیانت افراد کی حوصلہ شکنی کرنے کی صلاحیت پر سوالیہ نشان لگایا اور کہا کہ انتظامیہ کئی شعبوں میں ناکام نظر آتی ہے۔ انھوں نے آئین کی بالادستی اور فوقیت پر اصرار کیا۔
اس سوال و جواب کی کوئی اور تشریح ہو سکے یا نہیں، اتنی تو ہو گئی کہ قومی مفاد ایسی شے ہے جس کا مفہوم ہر ادارے کے لیے مختلف ہو سکتا ہے۔ فوج جس بات کو قومی مفاد کے مطابق سمجھتی ہے، عدلیہ اسے غیر آئینی قرار دے سکتی ہے جیسا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ یا جیسے کہ وہ لمحہ جو ''میرے عزیز ہم وطنو'' کے عنوان سے آ جایا کرتا تھا، فوج کے نزدیک قومی مفاد کا تقاضا تھا لیکن عدلیہ نے اسے ناجائز قرار دیا۔ پچھلے چار پانچ سال اس اعتماد کے ساتھ گزرے کہ اب جو بھی ہو، عزیز ہم وطنو کی صدا گونجنے کا وقت گزر گیا لیکن سوال و جواب کی تازہ نشست نے نئی تشویش پیدا کر دی ہے۔
کیا قومی مفاد کی الگ الگ تشریح سے اداروں کے درمیان سہ فریقی سرد جنگ تو نہیں چھڑ گئی۔ آرمی چیف کا یہ کہنا درست ہے کہ حتمی حق ایک فرد یا ادارے کو نہیں، اور چیف جسٹس کا یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ آئین ہی بالادست ہے۔ ہم خاک نشین اس سے زیادہ محفوظ تبصرہ نہیں کر سکتے کہ ''بات تم بھی صحیح کر رہے ہو لیکن غلط وہ بھی نہیں کہہ رہا۔''
بس اتفاق سے (سوئے اتفاق سے بالکل نہیں) یہ بعد میں آیا، اس لیے میڈیا اور دوسرے لوگوں نے اس ماجرے کو سوال جواب سمجھا ورنہ ایسی کوئی بات نہیں ہے جیسی بعض لوگ سمجھ رہے ہیں۔ اس دریافت پر یقین کر لیا جائے تب بھی یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ ایسے اتفاقات بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں کہ ایک ہی روز ملک کے دو اہم ترین اداروں کے سربراہوں کے دو بیان ایسے آ جائیں جو پڑھنے والے چہروں کو سوالیہ نشان بنا دیں۔
بہرحال، یہ محض اتفاق ہے تو بلاشبہ تاریخی اتفاق ہے۔ بس اتنی دُعا کی ضرورت ہے کہ یہ اتفاق تاریخی ہی رہے، تاریخ ساز نہ ہو جائے۔ آرمی چیف کے بیان میں دو باتیں سب سے اہم ہیں۔ ایک یہ کہ کسی ایک فرد یا ادارے کو یہ حق نہیں کہ وہ ملکی مفاد کا تعین کر سکے۔ آرمی کا ادارہ اتنا قابل احترام اور با رعب ہے کہ اگر کوئی ایک شخص اُس کا نام نہ لے تو کوئی دوسرا جرات نہیں کر سکتا لیکن خیال کا کیا کیجیے، خیال تو خیال ہے اور اس کی مرضی ہے کہ چاہے عدلیہ کی طرف نکل جائے یا کسی اور کی طرف اور اسی بے مہار خیال کا خیال ہے کہ عدلیہ میں اصغر خاں کیس اور ریلوے اراضی کیس کی سماعت جس طریقے سے ہوئی اور ان دونوں معاملات میں جو پیشرفت ہوئی، اس کا ردعمل ہونا ہی تھا۔
اصغر خاں کیس میں فوج کے اس وقت کے کماندار اور ایک خفیہ ایجنسی کے سربراہ پر بادی النظر میں یہ الزام ثابت ہو گیا تھا کہ انھوں نے پیپلز پارٹی کا مقابلہ کرنے کے لیے آئی جے آئی نامی سیاسی اتحاد بنوایا، اب سپریم کورٹ نے اس کیس میں ذمے داروں کے خلاف کارروائی کا حکم بھی دے دیا ہے اور یہ بھی کہا کہ اب کسی کو آئی جے آئی بنانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس کیس کی سماعت میں بین السطور یہ واضح پیغام تھا کہ اگر مذکورہ افراد نے آئی جے آئی قومی مفاد کے تحت بنایا تھا تو غلط کیا تھا۔ دوسرے لفظوں میں فوج یا خفیہ ادارے کو حق نہیں کہ وہ ''مفاد'' کی اپنی مرضی کی تشریح کر کے ایسے فیصلے کرے جو جمہوریت پر اثر انداز ہوں۔
دوسرے کیس میں ریٹائر فوجی جرنیلوں پر الزام ہے کہ انھوں نے ریلوے کی اراضی کوڑیوں کے بھائو فروخت کرکے 5 ارب کا کمیشن کھا لیا اور قومی خزانے کو 25 ارب کا نقصان پہنچایا۔ اس کیس کی تفتیش سپریم کورٹ کے حکم پر اب نیب کر رہا ہے۔ اس کیس میں ''ملزم'' جرنیل اتنے مشتعل تھے کہ ان میں سے ایک نے صحافی کو شٹ اپ 'ایڈیٹ کہہ کر چپ کرا دیا۔
دوسرے نے قوم سے کسی ہیجڑے کو اپنا رہنما منتخب کرنے کی ''دردمندانہ'' اپیل کی۔ ان جرنیل حضرات کی باڈی لینگویج یہ صاف بتا رہی تھی کہ حقیر بلکہ بہت ہی حقیر قسم کے سویلینز کے ہاتھوں احتساب کو وہ توہین سمجھتے ہیں۔ حالانکہ انھیں اس بات کے رعایتی نمبر تو دینے ہی چاہئیں تھے کہ نیب کا سربراہ بھی ان کا ایک ریٹائرڈ پیٹی بھائی ہے۔
دوسری اہم بات آرمی چیف کے خطاب میں یہ سوال تھا کہ ہم ادارے مضبوط کر رہے ہیں یا کمزور، آئین کی بالادستی ہو رہی ہے یا نہیں۔ ذرا دوسرے لفظوں میں یہی بات حکومت بھی کرتی رہی ہے۔ شاید یہ نتیجہ نکالنا ٹھیک نہ ہو کہ ایک ادارے کے بارے میں دو دوسرے ادارے ہم خیال ہو گئے ہیں۔ لیکن اتنا کہنے میں کوئی ہرج نہیں کہ ایک ادارے کی ''بہت زیادہ آگے بڑھ کر لیے گئے از خود نوٹس'' پالیسی کی وجہ سے باقی دو اداروں کے کان کھڑے ہو گئے ہیں۔
چیف جسٹس کے خطاب میں شامل سوال پہلے ہی تیار ہو چکا تھا۔ اتفاق سے جاری بعد میں ہوا۔ انھوں نے واضح ترین الفاظ میں اپنے اختیارات کا دفاع کیا اور کہا کہ سپریم کورٹ ہی اس ملک میں حتمی اختیارات کی حامل عدالت ہے اور اب وہ دور گیا جب ملکی استحکام کا تعین ٹینکوں، میزائلوں اور اسلحے سے کیا جاتا تھا، اب قومی سلامتی کے تصور بدل گئے ہیں۔ انھوں نے موجودہ نظام کے بددیانت افراد کی حوصلہ شکنی کرنے کی صلاحیت پر سوالیہ نشان لگایا اور کہا کہ انتظامیہ کئی شعبوں میں ناکام نظر آتی ہے۔ انھوں نے آئین کی بالادستی اور فوقیت پر اصرار کیا۔
اس سوال و جواب کی کوئی اور تشریح ہو سکے یا نہیں، اتنی تو ہو گئی کہ قومی مفاد ایسی شے ہے جس کا مفہوم ہر ادارے کے لیے مختلف ہو سکتا ہے۔ فوج جس بات کو قومی مفاد کے مطابق سمجھتی ہے، عدلیہ اسے غیر آئینی قرار دے سکتی ہے جیسا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ یا جیسے کہ وہ لمحہ جو ''میرے عزیز ہم وطنو'' کے عنوان سے آ جایا کرتا تھا، فوج کے نزدیک قومی مفاد کا تقاضا تھا لیکن عدلیہ نے اسے ناجائز قرار دیا۔ پچھلے چار پانچ سال اس اعتماد کے ساتھ گزرے کہ اب جو بھی ہو، عزیز ہم وطنو کی صدا گونجنے کا وقت گزر گیا لیکن سوال و جواب کی تازہ نشست نے نئی تشویش پیدا کر دی ہے۔
کیا قومی مفاد کی الگ الگ تشریح سے اداروں کے درمیان سہ فریقی سرد جنگ تو نہیں چھڑ گئی۔ آرمی چیف کا یہ کہنا درست ہے کہ حتمی حق ایک فرد یا ادارے کو نہیں، اور چیف جسٹس کا یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ آئین ہی بالادست ہے۔ ہم خاک نشین اس سے زیادہ محفوظ تبصرہ نہیں کر سکتے کہ ''بات تم بھی صحیح کر رہے ہو لیکن غلط وہ بھی نہیں کہہ رہا۔''