روشن خیالی سے سیاسی رویہ تبدیل کیا جا سکتا ہے شرمیلا ٹیگور
بھارت میں پاکستانی کلچر، فیشن، ڈرامے بہت مقبول ہیں، بھارتی اداکارہ
ISLAMABAD:
بھارتی اداکارہ شرمیلا ٹیگور نے کہا ہے کہ آگے بڑھنے کے لیے آزادی اظہار اور روشن خیالی ضروری ہے، ہم مل کر خطے کا سیاسی اور ثقافتی رویہ تبدیل کر سکتے ہیں۔
بھارت میں پاکستانی کلچربہت مقبول ہے وہ چاہے میوزک کی صورت میں ہو یا فیشن ، بھارت میں پاکستانی ڈرامے بہت زیادہ پسند کیے جاتے ہیں میں خود فریدہ خانم کی غزلوں سے لے کر پاکستانی میوزک پسند کرتی ہوں۔ بھارتی عوام نشر ہونے والے پاکستانی ڈراموں کے پرستار ہیں، اسی طرح پاکستانی فیشن بھی بھارت میں بہت مقبول ہے، انھوں نے کہا کہ میرے 60 سالہ کیریئر میں بہت سی حیران کن اور یادگارباتیں ہیں جوآج بھی میرے ذہن میں محفوظ ہیں، میرا تعلق جوائنٹ فیملی سے تھا اور میرے دادا اپنے بہن بھائیوں اور دوسرے رشتے داروں کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتے تھے۔ ساتھ مل کر کھانا پینا اور کھیلنا کودنا بہت اچھا لگتا تھا، میرے دادا نہایت بااصول آدمی تھے اور اکثر لوگ انہیں انگریزوں کی طرح سمجھتے تھے، انھیں حقہ اور وسکی بہت پسند تھی۔ وہ سار ادن گھر کے صحن میں موجود رہتے تھے، اس زمانے میں ریڈیو ہی تفریح کا واحد ذریعہ تھا، ہمیں فلم دیکھنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ میرے والد جی ایم ٹیگور کا تعلق کلکتہ کی ایک لبرل فیملی سے تھا۔
شرمیلا ٹیگور نے بتایا کہ میں نے کیریئر کا آغاز بنگالی فلموں سے کیا ۔میری پہلی فلم''اوپو سنسار''تھی جس کے ڈائریکٹر ستیہ جیت رائے تھے،انکا شمار عظیم ڈائریکٹرز میں ہوتا ہے۔پہلی فلم میں ہی ان کے ساتھ کام کرنا میرے لیے عزت کی بات تھی، لوگوں نے میری اس فلم میں پرفارمنس کو پسند کیا۔ اس کے بعد''شکتی سمانتا''ایک بہت ہی مختلف طرز کی فلم تھی جو مجھے آج بھی پسند ہے۔
فلموں کی شوٹنگ کے دوران میں نے بھارت میں بہت سفر کیا جہاں مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا کیونکہ انڈیا میں سو کلومیٹر کے بعد زبان اور کلچر تبدیل ہوجاتا ہے جبکہ انڈین فلموں سے بھی میں بہت کچھ سیکھا۔ اس زمانے میں بھی بھارتی فلمیں دوسرے ممالک میں بہت مقبول تھیں، جنوبی افریقہ کی آزادی کے بعد جب میں اپنے شوہر کے ہمراہ پہلی بار وہاں گئی تو لوگوں نے بتایا کہ ہم ہراتوار کو بہت اہتمام سے آپ کی فلم دیکھنے کے لیے جاتے ہیں۔ 1971 میں بننے والی فلم''آنند'' بہت مقبول ہوئی تھی جس میں مجھے اپنا کردار بہت مشکل لگا کیونکہ یہ ایک ایسی لڑکی کا کردار تھا جو ایک ایسے شخص سے پیار کرتی ہے جو کینسر کا مریض ہے جبکہ میری شادی کسی اور سے ہوچکی ہوتی ہے۔ وہ آنسوؤں کا ٹائم تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ نواب منصور علی خان پٹودی سے پہلی ملاقات ایک کرکٹ پارٹی میں ہوئی تھی کیونکہ مجھے بھی کرکٹ بہت پسند تھی، ہم جلد دوست بن گئے، اس وقت میری عمر 23 سال تھی، منصور نے مجھے پابندی وقت سمیت بہت کچھ سکھایا، وہ زیادہ تر بنگالی میں ہی مجھے سمجھاتے تھے۔ ہماری پریم کہانی بھی عام کہانیوں کی طرح تھی کیونکہ پیار ہر جگہ ایک جیسا ہوتا ہے، پاکستان آکر بہت اچھا لگا ہے، یہاں کی مہمان نوازی، لوگ اور کھانے کمال کے ہیں۔
بھارتی اداکارہ شرمیلا ٹیگور نے کہا ہے کہ آگے بڑھنے کے لیے آزادی اظہار اور روشن خیالی ضروری ہے، ہم مل کر خطے کا سیاسی اور ثقافتی رویہ تبدیل کر سکتے ہیں۔
بھارت میں پاکستانی کلچربہت مقبول ہے وہ چاہے میوزک کی صورت میں ہو یا فیشن ، بھارت میں پاکستانی ڈرامے بہت زیادہ پسند کیے جاتے ہیں میں خود فریدہ خانم کی غزلوں سے لے کر پاکستانی میوزک پسند کرتی ہوں۔ بھارتی عوام نشر ہونے والے پاکستانی ڈراموں کے پرستار ہیں، اسی طرح پاکستانی فیشن بھی بھارت میں بہت مقبول ہے، انھوں نے کہا کہ میرے 60 سالہ کیریئر میں بہت سی حیران کن اور یادگارباتیں ہیں جوآج بھی میرے ذہن میں محفوظ ہیں، میرا تعلق جوائنٹ فیملی سے تھا اور میرے دادا اپنے بہن بھائیوں اور دوسرے رشتے داروں کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتے تھے۔ ساتھ مل کر کھانا پینا اور کھیلنا کودنا بہت اچھا لگتا تھا، میرے دادا نہایت بااصول آدمی تھے اور اکثر لوگ انہیں انگریزوں کی طرح سمجھتے تھے، انھیں حقہ اور وسکی بہت پسند تھی۔ وہ سار ادن گھر کے صحن میں موجود رہتے تھے، اس زمانے میں ریڈیو ہی تفریح کا واحد ذریعہ تھا، ہمیں فلم دیکھنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ میرے والد جی ایم ٹیگور کا تعلق کلکتہ کی ایک لبرل فیملی سے تھا۔
شرمیلا ٹیگور نے بتایا کہ میں نے کیریئر کا آغاز بنگالی فلموں سے کیا ۔میری پہلی فلم''اوپو سنسار''تھی جس کے ڈائریکٹر ستیہ جیت رائے تھے،انکا شمار عظیم ڈائریکٹرز میں ہوتا ہے۔پہلی فلم میں ہی ان کے ساتھ کام کرنا میرے لیے عزت کی بات تھی، لوگوں نے میری اس فلم میں پرفارمنس کو پسند کیا۔ اس کے بعد''شکتی سمانتا''ایک بہت ہی مختلف طرز کی فلم تھی جو مجھے آج بھی پسند ہے۔
فلموں کی شوٹنگ کے دوران میں نے بھارت میں بہت سفر کیا جہاں مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا کیونکہ انڈیا میں سو کلومیٹر کے بعد زبان اور کلچر تبدیل ہوجاتا ہے جبکہ انڈین فلموں سے بھی میں بہت کچھ سیکھا۔ اس زمانے میں بھی بھارتی فلمیں دوسرے ممالک میں بہت مقبول تھیں، جنوبی افریقہ کی آزادی کے بعد جب میں اپنے شوہر کے ہمراہ پہلی بار وہاں گئی تو لوگوں نے بتایا کہ ہم ہراتوار کو بہت اہتمام سے آپ کی فلم دیکھنے کے لیے جاتے ہیں۔ 1971 میں بننے والی فلم''آنند'' بہت مقبول ہوئی تھی جس میں مجھے اپنا کردار بہت مشکل لگا کیونکہ یہ ایک ایسی لڑکی کا کردار تھا جو ایک ایسے شخص سے پیار کرتی ہے جو کینسر کا مریض ہے جبکہ میری شادی کسی اور سے ہوچکی ہوتی ہے۔ وہ آنسوؤں کا ٹائم تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ نواب منصور علی خان پٹودی سے پہلی ملاقات ایک کرکٹ پارٹی میں ہوئی تھی کیونکہ مجھے بھی کرکٹ بہت پسند تھی، ہم جلد دوست بن گئے، اس وقت میری عمر 23 سال تھی، منصور نے مجھے پابندی وقت سمیت بہت کچھ سکھایا، وہ زیادہ تر بنگالی میں ہی مجھے سمجھاتے تھے۔ ہماری پریم کہانی بھی عام کہانیوں کی طرح تھی کیونکہ پیار ہر جگہ ایک جیسا ہوتا ہے، پاکستان آکر بہت اچھا لگا ہے، یہاں کی مہمان نوازی، لوگ اور کھانے کمال کے ہیں۔