خیبر پختون خوا کے فنکاروں کی داد رسی
ایسی مثالیں دنیا میں ملتی ہیں ہر کوئی نفسا نفسی کے عالم میں اپنی ہی ذات میں کھو کر رہ گیاہے
RAWALPINDI/ISLAMABAD:
آج کل صوبائی دارالحکومت پشاور سمیت پورے صوبے میں فنون لطیفہ سے وابستہ پانچ سو مرد و خواتین میں ماہانہ تیس ہزار روپے تقسیم کیے جانے کا چرچا ہے۔یہ رقم کیوں دی جا رہی ہے؟کون دے رہا ہے؟اس طرح کے بہت سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں لیکن کالم لکھتے ہوئے کسی ٹیلی وژن چینل پر بھارتی فلم ڈائریکٹر سبھاش گھئی کا ایک انٹرویو چل رہا تھا۔
ان سے سوال کیا گیا کہ اربوں روپے جو انھوں نے اپنی سپرہٹ فلموں سے کمائے وہ کہاں خرچ کیے تو دیکھنے اور سننے والوں نے جواب سننے سے پہلے ہی یہ اخذ کر لیا کہ یقیناً وہ کہیں گے بہت سے بنگلے اور پلازے بنا لیے اور اب اسی آمدنی سے کاروبار زندگی چلا رہے ہیں لیکن جواب کم از کم ہمارے لیے حیران کن ضرور تھا کہ سبھاش کہنے لگے جو رقم انھوں نے کمائی اس سے بچوں کے لیے بڑے بڑے بنگلے کھڑے کرنے کی بجائے ایک فلم انسٹی ٹیوٹ بنا لیا جس میں ہزاروں طلباء فلم پروڈکشن، سیٹ ڈیزائننگ، کمپوزنگ، میوزک، اداکاری، اسٹوڈیوز الغرض فن سے متعلق ہر شعبے کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور اپنا مستقبل تابناک بنا رہے ہیں۔
ایسی مثالیں دنیا میں ملتی ہیں ہر کوئی نفسا نفسی کے عالم میں اپنی ہی ذات میں کھو کر رہ گیاہے ورنہ وطن عزیز پاکستان میں سیکڑوں شخصیات ایسی ہیں جنہوں نے کروڑوں نہیں اربوں روپے کمائے بلکہ اب تو بات کھربوں تک جا پہنچ چکی ہے لیکن آپ کو کہیں کوئی ایسا منصوبہ دکھائی نہیں دے گا جس پر کسی نے اپنی جیب سے خرچ کیا ہو ۔اکثر کیا بلکہ سارے ہی منصوبے جن میں زیادہ تر اسپتال اور باقی ٹرسٹ اور فاؤنڈیشنز ہیں جن کے لیے دنیا بھر سے امداد اکٹھی کی گئی اور پھر بعض بزنس مین اور سیاست دانوں نے اپنی بلیک منی کو وائٹ کر لیا اور بات ختم ہو گئی۔
پاکستان میں فن و ثقافت اور فن کاروں کے نام پر بھی بڑا پیسہ بنایا گیا لیکن آج صورت حال یہ ہے کہ فلم انڈسٹری تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے، سرکاری ٹیلی وژن نے فن کاروں کی سرپرستی سے ہاتھ اٹھا لیا ہے،فن کاروں کی نمایندہ تنظیمیں دم توڑ چکی ہیں،اٹھارہویں ترمیم کے بعد رہی کسر بھی پوری ہو چکی ،صوبے اپنے مسائل سے نکل نہیں پا رہے ایسے میں فن اور فن کار کسی کی کیا ترجیح ہو گی؟بھلا ہو اعظم خان کا جنھیں بلاشبہ دبنگ بیوروکریٹ قرار دیا جا سکتا ہے ۔وہ جنوبی وزیرستان میں پولیٹیکل ایجنٹ رہے،آئی جی جیل خانہ جات کے عہدے پر فائز ہوئے، اکرم خان درانی کے دور میں انھیں کچھ عرصہ کے لیے صوبہ بدر بھی ہونا پڑا لیکن پھر ایم ڈی سیاحت کا عہدہ سنبھالا، سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری کھیل و ثقافت و سیاحت اور کمشنر پشاور سمیت ایڈیشنل چیف سیکریٹری فاٹا بھی رہے۔
یہ چار قریبی دوست ہوا کرتے تھے جن میں اعظم خان کے علاوہ شہید ملک سعد خان جو ڈی آئی جی پولیس تھے، ڈاکٹر سلیمان اس وقت ایس ایس پی اور آج کل آئی بی میں جوائنٹ ڈائریکٹر ہیں اور چوتھے عطاء اللہ خان طورو جو ایڈیشنل چیف سیکریٹری کے عہدے پر پہنچ کر ریٹائر اور بعد میں خیبر پختون خوا پبلک سروس کمیشن کے چئیرمین بنے اکثر اکٹھے دکھائی دیتے بعد میں ملک سعد خودکش دھماکے میں شہید ہو گئے تو ان کی زندگی کے یہ ساتھی بھی انھیں بھول بھال گئے البتہ ان چاروں کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ اپنے صوبے کے لیے کچھ کرنا ان کی ترجیح رہی اس حوالے سے یہ بیورو کریٹ نرالے بھی تھے ساتھ میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔
اعظم خان کو جب ایڈیشنل چیف سیکریٹری فاٹا تعینات کیا گیا تو وہ کچھ ہی عرصہ اپنی ذمے داریاں نبھا سکے، گورنر سے ان کی نہ بنی اور وہ عہدہ چھوڑ کر گھر بیٹھ گئے لیکن عمران خان نے انھیں بلایا اور پیش کش کی کہ اگر وہ صوبے میں سیاحت، کھیل اور ثقافت کے لیے کچھ کریں تو مناسب رہے گا ۔چنانچہ انھوں نے تیسری بار سیکریٹری کھیل ، ثقافت و سیاحت کاعہدہ سنبھالا اس بار وہ کچھ کرنے کا عزم لے کر آئے اور سب سے پہلے صوبے کے ان فن کاروں، ہنرمندوں پر نظر پڑی جنہوں نے دہشت گردی کے دور میں اپنا سب کچھ کھو دیا،کئی بے گھر ہو گئے تو کئی نے صوبہ ہی چھوڑ دیا۔
بہت سے بیماریوں میں مبتلا ہو گئے اور کافی سارے دال روٹی کمانے کی چکر میں فن سے کنارا کشی اختیار کر گئے ۔اعظم خان نے پانچ سو شعراء، فن کاروں اورہنرمندوں کو ماہانہ وظیفہ دینے کا فیصلہ کیا اور عمران خان نے ایک تقریب میں ان فن کاروں کو ماہانہ تیس ہزار روپے دے کر ایک نئی مثال قائم کر دی۔بعض لوگوں کا خیال تھا کہ ماہانہ وظیفہ دے کر فنکاروں،گلوکاروں، ادیبوں ، شاعروں اور موسیقاروں کو بھکاری بنا دیا گیا ہے لیکن اعظم خان کا مؤقف واضح ہے کہ یہ معمولی رقم جو صوبے کی تاریخ میں پہلی بار حق داروں کو دی جا رہی ہے نہ تو بھیک ہے اور نہ ہی ریوارڈ، یہ ان کا حق ہے۔
فنکارصوبے میں جاری دس سال سے زیادہ کی دہشت گردی کا شکار رہے ہیں سارے ملک میں سب سے زیادہ ہماری فنکار کمیونٹی متاثر ہوئی ہے۔جس میں اداکار ہیں ، گلوکار ہیں، میوزیشنز ہیں،فن و ادب سے منسلک افراد ہیں۔دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ وظیفہ کوئی مستقل بنیادوں پر نہیں ہے صرف نو دس ماہ کے لیے ہے جو ان کا حق بھی ہے تاکہ ان کے کچن کے مسئلے حل ہوں اور یہ دوبارہ اپنی سرگرمیوں کی جانب لوٹ آئیںاور دوسری طرف حکومت ان کو سراہنا چاہتی ہے، یہ اعزاز کی بات ہے کہ مشکل حالات میں فنکاریہاں رہے ہیں اور انھوں نے قوم کی سوچ بدلنے کی کوشش کی اور کر رہے ہیں۔
اعظم خان نے فن سے متعلق حق دار شخصیات کے انتخاب میں بھی شفافیت کا عنصر واضح رکھا ہے اور اس سلسلے میں سرکار کا کوئی عمل دخل نہیں تھا بلکہ ان کا انتخاب انھی کی بنائی ہوئی کمیٹیوں نے کیا ،ایک مرکزی کمیٹی تھی اور متعدد سب کمیٹی ،صوبائی حکومت کا اس حوالے سے یہ کہنا ہے کہ جو معاشرہ فنون لطیفہ سے وابستہ افراد کو عزت نہیں دیتا وہ کبھی ترقی نہیں کرتا اور حکومت پہلی بار یہ اعتراف کر رہی ہے کہ ان ہی سے معاشرے قائم ہوتے ہیں اور ترقی کرتے ہیں۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ فنکار اس وظیفے پر تکیہ کرنے کی بجائے خود کو پھر سے فن و ثقافت کی خدمت کی جانب راغب کریں اور دوسری طرف حکومت کا فرض بھی ہے کہ وہ فن و ادب کی ترقی و ترویج کے لیے مستقل بنیادوں پر اقدامات کرے ،فنکاروں کی تنظیمیں بنائی جائیں ان کی سرپرستی کی جائے ،اسٹیج کو فروغ دیا جائے اور عوام کو تفریح کے مواقع فراہم کیے جائیں، اگر نشتر ہال میں معیاری اور تفریحی ڈرامے شروع ہو جائیں تو فنکاروں کی روٹی روزی بھی شروع ہو جائے گی اور حکومت پر کوئی بوجھ بھی نہیں پڑے گا تاہم مشکل حالات میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے فن سے متعلق افراد کی مدد کر کے بہرطور قابل ذکر قدم اٹھایا ہے جو لائق ستائش قرار دیا جا سکتا ہے۔
آج کل صوبائی دارالحکومت پشاور سمیت پورے صوبے میں فنون لطیفہ سے وابستہ پانچ سو مرد و خواتین میں ماہانہ تیس ہزار روپے تقسیم کیے جانے کا چرچا ہے۔یہ رقم کیوں دی جا رہی ہے؟کون دے رہا ہے؟اس طرح کے بہت سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں لیکن کالم لکھتے ہوئے کسی ٹیلی وژن چینل پر بھارتی فلم ڈائریکٹر سبھاش گھئی کا ایک انٹرویو چل رہا تھا۔
ان سے سوال کیا گیا کہ اربوں روپے جو انھوں نے اپنی سپرہٹ فلموں سے کمائے وہ کہاں خرچ کیے تو دیکھنے اور سننے والوں نے جواب سننے سے پہلے ہی یہ اخذ کر لیا کہ یقیناً وہ کہیں گے بہت سے بنگلے اور پلازے بنا لیے اور اب اسی آمدنی سے کاروبار زندگی چلا رہے ہیں لیکن جواب کم از کم ہمارے لیے حیران کن ضرور تھا کہ سبھاش کہنے لگے جو رقم انھوں نے کمائی اس سے بچوں کے لیے بڑے بڑے بنگلے کھڑے کرنے کی بجائے ایک فلم انسٹی ٹیوٹ بنا لیا جس میں ہزاروں طلباء فلم پروڈکشن، سیٹ ڈیزائننگ، کمپوزنگ، میوزک، اداکاری، اسٹوڈیوز الغرض فن سے متعلق ہر شعبے کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور اپنا مستقبل تابناک بنا رہے ہیں۔
ایسی مثالیں دنیا میں ملتی ہیں ہر کوئی نفسا نفسی کے عالم میں اپنی ہی ذات میں کھو کر رہ گیاہے ورنہ وطن عزیز پاکستان میں سیکڑوں شخصیات ایسی ہیں جنہوں نے کروڑوں نہیں اربوں روپے کمائے بلکہ اب تو بات کھربوں تک جا پہنچ چکی ہے لیکن آپ کو کہیں کوئی ایسا منصوبہ دکھائی نہیں دے گا جس پر کسی نے اپنی جیب سے خرچ کیا ہو ۔اکثر کیا بلکہ سارے ہی منصوبے جن میں زیادہ تر اسپتال اور باقی ٹرسٹ اور فاؤنڈیشنز ہیں جن کے لیے دنیا بھر سے امداد اکٹھی کی گئی اور پھر بعض بزنس مین اور سیاست دانوں نے اپنی بلیک منی کو وائٹ کر لیا اور بات ختم ہو گئی۔
پاکستان میں فن و ثقافت اور فن کاروں کے نام پر بھی بڑا پیسہ بنایا گیا لیکن آج صورت حال یہ ہے کہ فلم انڈسٹری تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے، سرکاری ٹیلی وژن نے فن کاروں کی سرپرستی سے ہاتھ اٹھا لیا ہے،فن کاروں کی نمایندہ تنظیمیں دم توڑ چکی ہیں،اٹھارہویں ترمیم کے بعد رہی کسر بھی پوری ہو چکی ،صوبے اپنے مسائل سے نکل نہیں پا رہے ایسے میں فن اور فن کار کسی کی کیا ترجیح ہو گی؟بھلا ہو اعظم خان کا جنھیں بلاشبہ دبنگ بیوروکریٹ قرار دیا جا سکتا ہے ۔وہ جنوبی وزیرستان میں پولیٹیکل ایجنٹ رہے،آئی جی جیل خانہ جات کے عہدے پر فائز ہوئے، اکرم خان درانی کے دور میں انھیں کچھ عرصہ کے لیے صوبہ بدر بھی ہونا پڑا لیکن پھر ایم ڈی سیاحت کا عہدہ سنبھالا، سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری کھیل و ثقافت و سیاحت اور کمشنر پشاور سمیت ایڈیشنل چیف سیکریٹری فاٹا بھی رہے۔
یہ چار قریبی دوست ہوا کرتے تھے جن میں اعظم خان کے علاوہ شہید ملک سعد خان جو ڈی آئی جی پولیس تھے، ڈاکٹر سلیمان اس وقت ایس ایس پی اور آج کل آئی بی میں جوائنٹ ڈائریکٹر ہیں اور چوتھے عطاء اللہ خان طورو جو ایڈیشنل چیف سیکریٹری کے عہدے پر پہنچ کر ریٹائر اور بعد میں خیبر پختون خوا پبلک سروس کمیشن کے چئیرمین بنے اکثر اکٹھے دکھائی دیتے بعد میں ملک سعد خودکش دھماکے میں شہید ہو گئے تو ان کی زندگی کے یہ ساتھی بھی انھیں بھول بھال گئے البتہ ان چاروں کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ اپنے صوبے کے لیے کچھ کرنا ان کی ترجیح رہی اس حوالے سے یہ بیورو کریٹ نرالے بھی تھے ساتھ میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔
اعظم خان کو جب ایڈیشنل چیف سیکریٹری فاٹا تعینات کیا گیا تو وہ کچھ ہی عرصہ اپنی ذمے داریاں نبھا سکے، گورنر سے ان کی نہ بنی اور وہ عہدہ چھوڑ کر گھر بیٹھ گئے لیکن عمران خان نے انھیں بلایا اور پیش کش کی کہ اگر وہ صوبے میں سیاحت، کھیل اور ثقافت کے لیے کچھ کریں تو مناسب رہے گا ۔چنانچہ انھوں نے تیسری بار سیکریٹری کھیل ، ثقافت و سیاحت کاعہدہ سنبھالا اس بار وہ کچھ کرنے کا عزم لے کر آئے اور سب سے پہلے صوبے کے ان فن کاروں، ہنرمندوں پر نظر پڑی جنہوں نے دہشت گردی کے دور میں اپنا سب کچھ کھو دیا،کئی بے گھر ہو گئے تو کئی نے صوبہ ہی چھوڑ دیا۔
بہت سے بیماریوں میں مبتلا ہو گئے اور کافی سارے دال روٹی کمانے کی چکر میں فن سے کنارا کشی اختیار کر گئے ۔اعظم خان نے پانچ سو شعراء، فن کاروں اورہنرمندوں کو ماہانہ وظیفہ دینے کا فیصلہ کیا اور عمران خان نے ایک تقریب میں ان فن کاروں کو ماہانہ تیس ہزار روپے دے کر ایک نئی مثال قائم کر دی۔بعض لوگوں کا خیال تھا کہ ماہانہ وظیفہ دے کر فنکاروں،گلوکاروں، ادیبوں ، شاعروں اور موسیقاروں کو بھکاری بنا دیا گیا ہے لیکن اعظم خان کا مؤقف واضح ہے کہ یہ معمولی رقم جو صوبے کی تاریخ میں پہلی بار حق داروں کو دی جا رہی ہے نہ تو بھیک ہے اور نہ ہی ریوارڈ، یہ ان کا حق ہے۔
فنکارصوبے میں جاری دس سال سے زیادہ کی دہشت گردی کا شکار رہے ہیں سارے ملک میں سب سے زیادہ ہماری فنکار کمیونٹی متاثر ہوئی ہے۔جس میں اداکار ہیں ، گلوکار ہیں، میوزیشنز ہیں،فن و ادب سے منسلک افراد ہیں۔دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ وظیفہ کوئی مستقل بنیادوں پر نہیں ہے صرف نو دس ماہ کے لیے ہے جو ان کا حق بھی ہے تاکہ ان کے کچن کے مسئلے حل ہوں اور یہ دوبارہ اپنی سرگرمیوں کی جانب لوٹ آئیںاور دوسری طرف حکومت ان کو سراہنا چاہتی ہے، یہ اعزاز کی بات ہے کہ مشکل حالات میں فنکاریہاں رہے ہیں اور انھوں نے قوم کی سوچ بدلنے کی کوشش کی اور کر رہے ہیں۔
اعظم خان نے فن سے متعلق حق دار شخصیات کے انتخاب میں بھی شفافیت کا عنصر واضح رکھا ہے اور اس سلسلے میں سرکار کا کوئی عمل دخل نہیں تھا بلکہ ان کا انتخاب انھی کی بنائی ہوئی کمیٹیوں نے کیا ،ایک مرکزی کمیٹی تھی اور متعدد سب کمیٹی ،صوبائی حکومت کا اس حوالے سے یہ کہنا ہے کہ جو معاشرہ فنون لطیفہ سے وابستہ افراد کو عزت نہیں دیتا وہ کبھی ترقی نہیں کرتا اور حکومت پہلی بار یہ اعتراف کر رہی ہے کہ ان ہی سے معاشرے قائم ہوتے ہیں اور ترقی کرتے ہیں۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ فنکار اس وظیفے پر تکیہ کرنے کی بجائے خود کو پھر سے فن و ثقافت کی خدمت کی جانب راغب کریں اور دوسری طرف حکومت کا فرض بھی ہے کہ وہ فن و ادب کی ترقی و ترویج کے لیے مستقل بنیادوں پر اقدامات کرے ،فنکاروں کی تنظیمیں بنائی جائیں ان کی سرپرستی کی جائے ،اسٹیج کو فروغ دیا جائے اور عوام کو تفریح کے مواقع فراہم کیے جائیں، اگر نشتر ہال میں معیاری اور تفریحی ڈرامے شروع ہو جائیں تو فنکاروں کی روٹی روزی بھی شروع ہو جائے گی اور حکومت پر کوئی بوجھ بھی نہیں پڑے گا تاہم مشکل حالات میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے فن سے متعلق افراد کی مدد کر کے بہرطور قابل ذکر قدم اٹھایا ہے جو لائق ستائش قرار دیا جا سکتا ہے۔