سامراجی بحران اور پاکستان
اس وقت دنیا میں زائد پیداواری بحران تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
KARACHI:
اس وقت دنیا میں زائد پیداواری بحران تیزی سے بڑھ رہا ہے۔اس لیے پیداوار تو زیادہ ہے مگر عوام کی قوت خرید بہت کم ہوگئی ہے۔ چونکہ عوام پہلے کی قیمت میں خریدنے سے قاصر ہیں، اس لیے کم چیزیں خریدتے ہیں۔ جیسا کہ اکثر لوگ دال ایک کلو خریدنے کے بجائے ایک پاؤخریدنے پہ مجبور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اشیائے خورونوش کی عالمی قیمتیں جنوری دوہزار سولہ میں ایک عشاریہ نو فیصد کی کمی کے نتیجے میں تقریبا سات سال کی کم ترین سطح پرآگئیں۔
گزشتہ ماہ سیریلز بشمول گندم، مکئی، گوشت اور ڈیری سمیت تمام اشیاء کی عالمی قیمتوں میں کمی آئی، چینی کی قیمت سب سے زیادہ کم ہوئی۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطا بق کھپت میں کمی اوراچھی پیداوار کے با عث رواں سال اناج کے عالمی ذخائر میں اضافے کا امکان ہے۔ ایف اے اوفوڈ انڈیکس میں جنوری کے دوران ماہانہ بنیادوں پر ایک عشاریہ نوفیصد کمی آئی۔ جنوری میں چینی کے نرخ چارعشاریہ ایک فیصد، ڈیری تین فیصد، مکئی اورگندم کے دام میں ایک عشاریہ سات فیصد، بناسپتی تیل ایک عشاریہ سات فیصد اوگوشت کی قیمتوں میں ایک عشاریہ ایک فیصد کمی آئی۔
پاکستان میں کسی بھی اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں کمی نہیں کی گئی۔ادھرآئی ایم ایف کی شرائط پر ایک سوبیس ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کا جائزہ لینا شروع ہوگیا ہے۔ یعنی کہ مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا۔ایندھن کے تیل اورگیس کی عالمی قیمتوں میں کمی کے باوجود ہمارے ملک میں برائے نام کمی کی گئی ہے اور متعلقہ اشیاء خوردنی کی قیمتوں میں کمی نہیں کی گئی ہے۔
عالمی طور پہ سرمایہ ایک جانب مرکوز ہورہا ہے تو دوسری جانب افلاس زدہ لو گوں کی فوج۔ امریکا میں روزانہ ڈیڑھ لاکھ ٹن کھانا ضایع ہوتا ہے، جب کہ اسی دنیا میں ہر ماہ ڈیڑھ لا کھ انسان بھوک سے مر جاتے ہیں۔ سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ میں جوکھانا ضایع ہوتا ہے، اس سے اڑتالیس لا کھ بچے کھاسکتے ہیں ۔ عرب نیوزکی رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے مکہ مکرمہ میں خوراک کی امدادی پروجیکٹ کے سربراہ احمد المطرفی کا کہنا ہے کہ یہاں ہر سال تقریبات میں جتنا کھانا ضایع ہوتا ہے، اس سے اٹھارہ ترقی پزیر ممالک کے سترہ فیصد بچوں کو خوراک مہیا کی جا سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایشیا، افریقہ اورلاطینی امریکا کے ممالک کے بچوں کی بڑی تعداد خوراک کی کمی کا شکار ہے۔ عالمی سرمایہ داری اپنی بدترین اقتصادی انحطاط پزیری کی جانب گامزن ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے ممالک کی شرح نمو میں خاصی کمی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ جرمنی کی شرح نمو ایک فیصد، امریکا کی دوفیصد، جاپان کی صفرعشاریہ ایک تین فیصد، چین کی گیارہ فیصد سے گھٹ کر آٹھ فیصد اور بھارت کی نوفیصد سے گرکرچھ فیصد پر آگئی ہے، جب کہ جن ملکوں نے اپنی معیشت کو خود مختار اورآئی ایم ایف سے پاک کر رکھا ہے۔ ان کی شرح نمو سب سے زیادہ ہے۔ جیسا کہ منگولیہ کی شرح نمو نو فیصد اور موزمبیق کی آٹھ فیصد ہوگئی ہے۔
ایک جانب کھربوں ڈالرکی اسلحہ سازی کی جاتی ہے جب کہ یواین اوکی رپورٹ کے مطابق اس دنیا میں ایک ارب بیس کروڑ لوگ پینے کے پانی سے محروم ہیں۔ادھر عالمی سرمایہ داری نیو ورلڈآرڈرکے تحت دنیا بھر میں نجکاری کرکے عوام کو بے روزگار اور پیداوار کے نرخوں میں اضافہ کرکے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے منافعے میں دن دگنا اور رات چوگنا اضافہ کیا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کے پچاسی ارب پتی دنیا کی آدھی دولت کے مالک ہیں۔ پاکستان میں بھی بے نظیر بھٹوکے دور سے نواز شریف کے دور تک بڑے پیمانے پر نجکاری جاری ہے۔ جس کے نتیجے میں لاکھوں مزدور بے روزگار ہوچکے ہیں۔
مزدورطبقہ جب اپنے مفادات کے لیے یکجا ہوتا ہے تو وہ پارٹی، رنگ، نسل، مذہب، فرقہ یا زبان سے بالاتر ہوکر اپنی طبقاتی مفادات کی لڑائی میں جڑجاتا ہے۔ یہی صورتحال پی آئی اے کی ہے۔ یہاں دیگر جماعتوں کے لوگ تو نجکاری کے خلاف ہیں ہی مگر حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے کارکنان بھی نہ صرف ڈٹ گئے ہیں بلکہ آ گے آ گے ہیں۔ مزدورکارکنان کسی بھی جماعت کے ہوں وہ اپنے مفادات کے لیے متحد ہوجاتے ہیں لیکن ان جماعتوں کے رہنما گر گٹ کی طرح رنگ بدلتے رہتے ہیں۔ اس لیے کہ انھیں بھی اقتدار میں آکر یہی کرنا ہوتا ہے اور جب یہ حزب اختلاف میں ہوتے ہیں تو نجکاری کے خلاف بولتے ہیں۔
مثال کے طور پر ذوالفقار علی بھٹو جب وزیراعظم تھے اور روس کی مدد سے اسٹیل مل کو قومی ملکیت کے تحت قائم کیا جانا تھا تو ایک مذہبی سیاسی جماعت نے اس کی بھرپورمخالفت کی تھی جب کہ آج وہ اسٹیل مل کی نجکاری کی مخالفت کررہی ہے۔ کے ای ایس سی کی جب نجکاری ہورہی تھی، تب نجکاری کے خلاف کے ای ایس سی کے مزدوروں کی جانب سے چارماہ تک چلائی جانے والی تحریک میں ایم کیو ایم اور اس کی ملحقہ یونین اس تحریک میں شریک نہیں تھی۔ اسی طرح جب پی ٹی سی ایل کی نجکاری ہورہی تھی تو پی ٹی سی ایل کی نام نہاد سی بی اے یونین کے صدر اور جنرل سیکر یٹری جن کا تعلق مسلم لیگ ق اور ایم کیوایم سے تھا نے مزدور تحریک سے الگ ہوکر حکو مت سے سمجھوتہ کرلیا تھا، جس کے نتیجے میں ان دونوں اداروں کی نجکاری ہوئی اور وہ اب پی آئی اے کی نجکاری کی مخالفت کررہے ہیں ۔
بے نظیر بھٹو جب وزیراعظم تھیں تو انھوں نے سب سے پہلے اپنے والدکی جانب سے قومیائے گئے اداروں کی نجکاری شروع کی اورآج خورشید شاہ مخالفت کررہے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کے ہی دور میں ایک بینک کی نجکاری کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے موجودہ سینیٹر سعیدغنی کے والد عثمان غنی مرحوم گرفتار ہوکر قید ہوئے اور میرے ( راقم) کے ساتھ بیرک نمبر بائیس کراچی سینٹرل جیل میں مقید رہے۔کچھ باتیں اکسانے کے لیے نامناسب ہوتی ہیںجیسا کہ کہا گیا کہ ہڑتالیوں کے پر کاٹ دیں گے۔ پھر دوسرے دن دو افراد کے واقعی پر کاٹ دیے گئے۔ وہ ہم سے جسمانی طور پر جدا تو ہوگئے لیکن شکاگوکے مزدوروں کی طرح اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر امرہوگئے اور تحریک کو جلابخشی۔
مزدور ایکشن کمیٹی کا یہ مطالبہ درست ثابت ہواکہ چارلاپتہ مزدوررہنماؤں کو حکومتی کارندوں نے اغواکیا ہے۔ دوسرے دن احتجاجی جلوس نکالنے سے قبل ہی ان چار رہنماؤں کو آنکھوں پر پٹی باندھ کر سڑک پہ چھوڑدیا گیا ۔ پی آئی اے کے مزدوروں کی جدوجہد کی خاصیت یہ تھی کہ یہاں ساری یونین متحد ہوگئی تھیں جب کہ پی ٹی سی ایل اور کے ای ایس سی کی ساری یونین متحد ہونے کے بجائے کچھ یونینوں نے سیٹھوں کا ساتھ دیا ۔
جنوبی امریکا میں اثاثوں کو قومی ملکیت میں لیا جارہا ہے، برطانیہ میں زیر زمین چلنے والی ٹرین کو ازسر نو قومی ملکیت میں لے لیا گیا ہے، مشرق بعید میں نجکاری کے عمل کو مزدوروں نے ہڑتالوں کے ذریعے رکوایا ہے۔ ہرچند کہ مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی سماج میں مضمر ہے۔ جب ساری دولت سارے لوگوں کی ہوگی،کوئی ارب پتی ہوگا اور نہ کوئی گداگر۔ کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست، تب لوگ جینے لگیں گے اور یہ کام صرف کمیونسٹ سماج ( امداد باہمی کا سماج) میں ہی ممکن ہے ۔
اس وقت دنیا میں زائد پیداواری بحران تیزی سے بڑھ رہا ہے۔اس لیے پیداوار تو زیادہ ہے مگر عوام کی قوت خرید بہت کم ہوگئی ہے۔ چونکہ عوام پہلے کی قیمت میں خریدنے سے قاصر ہیں، اس لیے کم چیزیں خریدتے ہیں۔ جیسا کہ اکثر لوگ دال ایک کلو خریدنے کے بجائے ایک پاؤخریدنے پہ مجبور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اشیائے خورونوش کی عالمی قیمتیں جنوری دوہزار سولہ میں ایک عشاریہ نو فیصد کی کمی کے نتیجے میں تقریبا سات سال کی کم ترین سطح پرآگئیں۔
گزشتہ ماہ سیریلز بشمول گندم، مکئی، گوشت اور ڈیری سمیت تمام اشیاء کی عالمی قیمتوں میں کمی آئی، چینی کی قیمت سب سے زیادہ کم ہوئی۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطا بق کھپت میں کمی اوراچھی پیداوار کے با عث رواں سال اناج کے عالمی ذخائر میں اضافے کا امکان ہے۔ ایف اے اوفوڈ انڈیکس میں جنوری کے دوران ماہانہ بنیادوں پر ایک عشاریہ نوفیصد کمی آئی۔ جنوری میں چینی کے نرخ چارعشاریہ ایک فیصد، ڈیری تین فیصد، مکئی اورگندم کے دام میں ایک عشاریہ سات فیصد، بناسپتی تیل ایک عشاریہ سات فیصد اوگوشت کی قیمتوں میں ایک عشاریہ ایک فیصد کمی آئی۔
پاکستان میں کسی بھی اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں کمی نہیں کی گئی۔ادھرآئی ایم ایف کی شرائط پر ایک سوبیس ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کا جائزہ لینا شروع ہوگیا ہے۔ یعنی کہ مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا۔ایندھن کے تیل اورگیس کی عالمی قیمتوں میں کمی کے باوجود ہمارے ملک میں برائے نام کمی کی گئی ہے اور متعلقہ اشیاء خوردنی کی قیمتوں میں کمی نہیں کی گئی ہے۔
عالمی طور پہ سرمایہ ایک جانب مرکوز ہورہا ہے تو دوسری جانب افلاس زدہ لو گوں کی فوج۔ امریکا میں روزانہ ڈیڑھ لاکھ ٹن کھانا ضایع ہوتا ہے، جب کہ اسی دنیا میں ہر ماہ ڈیڑھ لا کھ انسان بھوک سے مر جاتے ہیں۔ سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ میں جوکھانا ضایع ہوتا ہے، اس سے اڑتالیس لا کھ بچے کھاسکتے ہیں ۔ عرب نیوزکی رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے مکہ مکرمہ میں خوراک کی امدادی پروجیکٹ کے سربراہ احمد المطرفی کا کہنا ہے کہ یہاں ہر سال تقریبات میں جتنا کھانا ضایع ہوتا ہے، اس سے اٹھارہ ترقی پزیر ممالک کے سترہ فیصد بچوں کو خوراک مہیا کی جا سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایشیا، افریقہ اورلاطینی امریکا کے ممالک کے بچوں کی بڑی تعداد خوراک کی کمی کا شکار ہے۔ عالمی سرمایہ داری اپنی بدترین اقتصادی انحطاط پزیری کی جانب گامزن ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے ممالک کی شرح نمو میں خاصی کمی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ جرمنی کی شرح نمو ایک فیصد، امریکا کی دوفیصد، جاپان کی صفرعشاریہ ایک تین فیصد، چین کی گیارہ فیصد سے گھٹ کر آٹھ فیصد اور بھارت کی نوفیصد سے گرکرچھ فیصد پر آگئی ہے، جب کہ جن ملکوں نے اپنی معیشت کو خود مختار اورآئی ایم ایف سے پاک کر رکھا ہے۔ ان کی شرح نمو سب سے زیادہ ہے۔ جیسا کہ منگولیہ کی شرح نمو نو فیصد اور موزمبیق کی آٹھ فیصد ہوگئی ہے۔
ایک جانب کھربوں ڈالرکی اسلحہ سازی کی جاتی ہے جب کہ یواین اوکی رپورٹ کے مطابق اس دنیا میں ایک ارب بیس کروڑ لوگ پینے کے پانی سے محروم ہیں۔ادھر عالمی سرمایہ داری نیو ورلڈآرڈرکے تحت دنیا بھر میں نجکاری کرکے عوام کو بے روزگار اور پیداوار کے نرخوں میں اضافہ کرکے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے منافعے میں دن دگنا اور رات چوگنا اضافہ کیا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کے پچاسی ارب پتی دنیا کی آدھی دولت کے مالک ہیں۔ پاکستان میں بھی بے نظیر بھٹوکے دور سے نواز شریف کے دور تک بڑے پیمانے پر نجکاری جاری ہے۔ جس کے نتیجے میں لاکھوں مزدور بے روزگار ہوچکے ہیں۔
مزدورطبقہ جب اپنے مفادات کے لیے یکجا ہوتا ہے تو وہ پارٹی، رنگ، نسل، مذہب، فرقہ یا زبان سے بالاتر ہوکر اپنی طبقاتی مفادات کی لڑائی میں جڑجاتا ہے۔ یہی صورتحال پی آئی اے کی ہے۔ یہاں دیگر جماعتوں کے لوگ تو نجکاری کے خلاف ہیں ہی مگر حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے کارکنان بھی نہ صرف ڈٹ گئے ہیں بلکہ آ گے آ گے ہیں۔ مزدورکارکنان کسی بھی جماعت کے ہوں وہ اپنے مفادات کے لیے متحد ہوجاتے ہیں لیکن ان جماعتوں کے رہنما گر گٹ کی طرح رنگ بدلتے رہتے ہیں۔ اس لیے کہ انھیں بھی اقتدار میں آکر یہی کرنا ہوتا ہے اور جب یہ حزب اختلاف میں ہوتے ہیں تو نجکاری کے خلاف بولتے ہیں۔
مثال کے طور پر ذوالفقار علی بھٹو جب وزیراعظم تھے اور روس کی مدد سے اسٹیل مل کو قومی ملکیت کے تحت قائم کیا جانا تھا تو ایک مذہبی سیاسی جماعت نے اس کی بھرپورمخالفت کی تھی جب کہ آج وہ اسٹیل مل کی نجکاری کی مخالفت کررہی ہے۔ کے ای ایس سی کی جب نجکاری ہورہی تھی، تب نجکاری کے خلاف کے ای ایس سی کے مزدوروں کی جانب سے چارماہ تک چلائی جانے والی تحریک میں ایم کیو ایم اور اس کی ملحقہ یونین اس تحریک میں شریک نہیں تھی۔ اسی طرح جب پی ٹی سی ایل کی نجکاری ہورہی تھی تو پی ٹی سی ایل کی نام نہاد سی بی اے یونین کے صدر اور جنرل سیکر یٹری جن کا تعلق مسلم لیگ ق اور ایم کیوایم سے تھا نے مزدور تحریک سے الگ ہوکر حکو مت سے سمجھوتہ کرلیا تھا، جس کے نتیجے میں ان دونوں اداروں کی نجکاری ہوئی اور وہ اب پی آئی اے کی نجکاری کی مخالفت کررہے ہیں ۔
بے نظیر بھٹو جب وزیراعظم تھیں تو انھوں نے سب سے پہلے اپنے والدکی جانب سے قومیائے گئے اداروں کی نجکاری شروع کی اورآج خورشید شاہ مخالفت کررہے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کے ہی دور میں ایک بینک کی نجکاری کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے موجودہ سینیٹر سعیدغنی کے والد عثمان غنی مرحوم گرفتار ہوکر قید ہوئے اور میرے ( راقم) کے ساتھ بیرک نمبر بائیس کراچی سینٹرل جیل میں مقید رہے۔کچھ باتیں اکسانے کے لیے نامناسب ہوتی ہیںجیسا کہ کہا گیا کہ ہڑتالیوں کے پر کاٹ دیں گے۔ پھر دوسرے دن دو افراد کے واقعی پر کاٹ دیے گئے۔ وہ ہم سے جسمانی طور پر جدا تو ہوگئے لیکن شکاگوکے مزدوروں کی طرح اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر امرہوگئے اور تحریک کو جلابخشی۔
مزدور ایکشن کمیٹی کا یہ مطالبہ درست ثابت ہواکہ چارلاپتہ مزدوررہنماؤں کو حکومتی کارندوں نے اغواکیا ہے۔ دوسرے دن احتجاجی جلوس نکالنے سے قبل ہی ان چار رہنماؤں کو آنکھوں پر پٹی باندھ کر سڑک پہ چھوڑدیا گیا ۔ پی آئی اے کے مزدوروں کی جدوجہد کی خاصیت یہ تھی کہ یہاں ساری یونین متحد ہوگئی تھیں جب کہ پی ٹی سی ایل اور کے ای ایس سی کی ساری یونین متحد ہونے کے بجائے کچھ یونینوں نے سیٹھوں کا ساتھ دیا ۔
جنوبی امریکا میں اثاثوں کو قومی ملکیت میں لیا جارہا ہے، برطانیہ میں زیر زمین چلنے والی ٹرین کو ازسر نو قومی ملکیت میں لے لیا گیا ہے، مشرق بعید میں نجکاری کے عمل کو مزدوروں نے ہڑتالوں کے ذریعے رکوایا ہے۔ ہرچند کہ مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی سماج میں مضمر ہے۔ جب ساری دولت سارے لوگوں کی ہوگی،کوئی ارب پتی ہوگا اور نہ کوئی گداگر۔ کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست، تب لوگ جینے لگیں گے اور یہ کام صرف کمیونسٹ سماج ( امداد باہمی کا سماج) میں ہی ممکن ہے ۔