خدا مایوس نہیں ہے
ان کو غالباً مشیر اطلاعات اس لیے بنایا گیا کہ گہما گہمی اور دلچسپی برقرار رہے
یہ تو پتہ نہیں کہ وہ اب بھی مشیر اطلاعات صوبہ سندھ ہیں یا نہیں، کیوں کہ یہاں تو سرکاری وکیل کا پتہ نہیں چلتا کہ کب بدل دیا ۔ یہ بات ہم 21 دسمبر کی کررہے ہیں اور سال بھی بدل چکا ہے، مگر سال کے لطیفے بلکہ سیاسی لطیفے نہیں بدلے، کئی سال پہلے لطیفہ ''ڈگری ڈگری ہوتی ہے'' پھر حکومت سندھ ''حالت بھنگ'' میں ہے اور پھر ان وزیر اطلاعات نے ڈاکٹر عاصم کے کیس کے فیصلے پر اس دن کہا اس فیصلے میں انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا، دوسری بات کہی ایسے فیصلوں سے اشتعال میں اضافہ ہوگا، تیسری بات کہی ہم رینجرز کی عزت اور احترام کرتے ہیں۔
ہمیں ان پر فخر ہے اور اسی دن خبر بھی تھی کہ رینجرز سندھ میں سے دہشت گردی کی دفعات ختم کرنے والے پولیس آفیسر کے خلاف عدالت میں جائے گی اور ان کے خلاف کارروائی کا آرڈر حاصل کرے گی۔ مشیر اطلاعات وہی اپنے مولابخش چانڈیو۔ ایک تو مولابخش کا نام اسکول میں مشہور تھا اب بھی ہے اور پھر چانڈیو کا تڑکا بھی لگا ہوا ہے۔ ان کے بارے میں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے جو کچھ کہا وہ ان دونوں کے نجی معاملات ہیں اور پھر مرزا صاحب بادشاہ آدمی ہیں اور مجھ سمیت باقی لکھنے والے بھی عوام ہیں۔ تو اب ان لطیفوں میں سے مولا بخش صاحب کی باتیں لے لیتے ہیں۔
ان کو غالباً مشیر اطلاعات اس لیے بنایا گیا کہ گہما گہمی اور دلچسپی برقرار رہے، مقدمے کے دوسرے لوگ خالصتاً سیاسی یا انتظامی بیانات دیتے تھے، جو دلچسپ اور مزے دار نہیں ہوتے تھے، اب عدالت کو وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ آپ نے اچھا نہیں کیا کیوں کہ آپ کو ایسا ہی اچھا کرنا چاہیے تھا جیسا عدالتوں نے آصف زرداری اور نواز شریف کے بارے میں اچھا کیا۔ تو عدالت کو ڈاکٹر عاصم کو Clean Chit دینا چاہیے تھی، جیسی کہ انھوں نے ان دونوں ملک کے شہنشاہوںکو دی تھی۔
دراصل یہ Chit بہت ساری ایان اور مردانہ ایان کو بھی چاہیے ہیں، جن میں سے ایک شاید ڈاکٹر عاصم ہیں۔ قرائن سے یہ معلوم ہورہا ہے اور کیوں کہ یہ Chit جاری نہیں ہوئی اس وجہ سے ان کے اشتعال میں اضافہ ہوگا، ''ان'' کون ہیں؟ عوام کو تو ڈاکٹر عاصم سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کیوں کہ وہ رینجرز کی درست کرائی گئی کراچی میں خوش ہیں اور ان کو دعا دیتے ہیں اس تاریخ تک۔ بلکہ تعجب یہ ہے کہ وہ حکومت کے فیصلوں کے خلاف ہیں کہ رینجرز کو اختیارات کیوں پورے نہیں دیے جارہے ہیں اور کیوں کمی کی گئی ہے۔ یہ عوام کا خیال ہے۔
ایک ادارے کا چیئرمین شاید لاہور میں اپنے نام سے منسوب بلاک کا اہتمام کرے تو پھر آپ سوچ سکتے ہیں کہ وہ ''عوامی خدمت'' ملک کی کس قدر کررہے ہیں، ادارے ملکی رہنماؤں کے نام پر جو بین الاقوامی شہرت رکھتے ہوں جیسے قائداعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان، علامہ اقبال اور اس طرح کے دوسرے افراد ان کے نام سے منسوب ہوتے ہیں اور وہ بھی سرکاری ادارے کیا کرسکتے ہیں۔ وزیراعظم نہ سہی وزیراعظم کی سی بات سہی، وزیراعظم نے ہی ان کو مقرر کیا ہے تو Advantange تو رہے گا نا، فائلیں تو دفتر میں ہی ہیں کبھی بھی کھل سکتی ہیں۔ نہیں کھل سکتیں تو قائداعظم کی فائل نہیں کھل سکتی۔
ان کو کس نے کس طرح آہستہ آہستہ Murder کیا، لیاقت علی خان کو شہید کرنے والا کون تھا ماسٹر مائنڈ، پھر گورنر ہاؤس میں کیا ہوتا رہا، قصر صدارت میں کیا کچھ ہوا، اب تو وہاں صرف ''ممنون'' ہیں، بھٹو اور بے نظیر کی فائلیں نہیں کھلیںگی اور اب یہ دو فائل اور بند ہونے جارہی ہیں۔ عمران خان کا خیال ہے کہ یہ فائلیں کبھی کھل جائیں۔ نہیں کھلیںگی، ان فائلوں کو ''سیاست کی زنگ'' لگ چکی ہے، اب نہیں کھلیںگی۔ عمران خان بھی چند سال میں ملک کے شاید ناکام لیڈروں میں شامل ہوجائیںگے۔ سیاست اور شادی الگ الگ ضرور ہیں مگر سیاست شادی اور شادی سیاست کا پتہ ضرور دیتی ہے۔ خیر یہ چھوڑیے بہت گہرے جائیںگے تو ابھر نہیں پائیںگے، ہم دوبارہ مولابخش چانڈیو کی سطح پر ابھرتے ہیں۔
اب سندھ میں تو آپ سمجھ گئے کیسا مولابخش چل رہا ہے۔ ذرا حکمران صوبے کو ملاحظہ فرمائیے اور اس کا لطف لیجیے۔ سب کو کہا جارہا ہے کہ ہے تو آپ کے ملک کا ہی صوبہ، اگر ترقی کررہاہے تو آپ کو ہی خوش ہونا چاہیے، تالیاں بجانی چاہئیں۔ ہاں یہ تو ہے مگر چھوٹے بھائیوں کا کیا ہوگا، ان کا بھی تو جائیداد پاکستان میں حصہ ہے۔ ان کو ان کا حصہ کون دے گا، بڑے بھائی کے حصے کے سارے پروجیکٹ بغیر فائل ورک کے شاید پورے ہوجاتے ہیں اور دوسرے صوبوں کے منصوبے سال ہا سال تاخیر کا شکار ہیں کہ فنڈز جاری نہیں ہوتے، وفاق سے۔وفاق کا کہنا ہے کام شروع کرو فنڈ دے دیںگے، یعنی باپ دادا کی جائیداد پر مقدمہ چل رہا ہے اور آخر میں جائیداد وکیل کے پاس مختانہ میں اور ایک پیڑ وارثوں کے حصے میں رہ جائے گا۔
اب چاہے پھل کھالو یا لکڑیاں جلالو، تمہاری اپنی مرضی۔ تو مولابخش چانڈیو سندھ کے حصے میں اور بڑے صوبے کے لوگ وفاق کے وزرا تیل سے لے کر مرغی تک کے کاروبار ان کے پاس۔ وفاق میں حکومت مگر ترجمان اکثر ایک وزیر صاحب کے پاس کم کام ہے کہ وہ حکومتی ترجمان کا کام بھی انجام دیتے ہیں، داخلہ اور خارجہ۔ جب کہ داخلہ کے وزیر ہیں۔ ان کو کیا کہہ سکتے ہیں، مملکت کے داخلی امور پر جو چاہے بیان دے دے وہ کسی کو کچھ نہیں کہتے، وزیرریلوے کو بھی نہیں، وہ بھی آدھے وزیراعظم ہیں، اور حکمران عوام کو اکثر روٹی کے بجائے کیک کھانے کا بندوبست کرنے کا اعلان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کیک تو ہوگا شاید! مگر ''کیک'' کس کا ہوگا؟ یہ ایک الگ مسئلہ ہے، اب ہر کام حکمران تو نہیں کرسکتے۔
کس قدر محنت کرتے ہیں، دن رات غیر ملکی دورے کرتے ہیں، ہر وہ کام میں جن کی منصوبہ بندی وہ فارغ وقت یعنی اپوزیشن کے دور میں کرتے رہے تھے، پورے خاندان کو Activate کرنا آسان تو نہیں ہے، آصف زرداری نے نواب آصفہ کو یوتھ ونگ میں لگایا ہے شاید، مشیر کو یہ سمجھنے میں خاصی دیر لگی کہ اس کے اپنے بچے ہیں، ان کو پروان چڑھانا ہے، مگر قاعدہ تو سیاست کے جنگل کا بھی یہی ہے کہ شیر بوڑھا ہوجائے تو جوان شیر اس کی جگہ لے لیتے ہیں۔ ممتاز بھٹو کی مثال آپ کے سامنے ہے، کتنا ہی وہ شوروغوغا کرلیں وہاں نہیں پہنچ سکتے جہاں دوسرے پہنچ گئے۔
Chance کی بات ہے، آپ ٹیلنٹڈ کزن تھے، پہلی بار پاکستان میں، اب تو خیر ان کا جمعہ بازار لگا ہوا ہے، اگر آپ بھٹو کے بعد یا اس دوران ہمت اور وفاداری دکھاتے تو آپ بھی اس طرح ہوتے جو مخدوم فہیم ہوئے، آپ سے سیاسی غلطی ہوگئی، جس کا خمیازہ اب تک آپ سیاسی طور پر بھگت رہے ہیں۔ مخدوم صاحب کو خدا معاف کرے اور مغفرت کرے، چند چیزیں وہ بھی نہ کرتے اور احتیاط کرتے اور بھی نامور ہوتے۔ آج بھی ان کا نام اس کے باوجود پی پی پی کے عظیم فرزندوں اور وفاداروں میں ہے۔
کچھ جماعتیں ایسی بھی ہیں کہ جن کے بارے میں ہم کچھ نہیں لکھتے، در اصل ہم ان لوگوں کے بارے میں لکھتے ہیں زیادہ تر جو بہت بڑے محب وطن ہوتے ہیں یا بہت بڑے...! جانے دیں کیا فائدہ آپ اپنی پسند سے خالی جگہ پر کرلیں! پاکستان بھی ایک عجیب مملکت خداداد ہے کہ جو تباہی کے دہانے پر پہنچتی ہے تو خدا خود Rescue کو آجاتا ہے۔ یقین مانیے ہم سچ کہہ رہے ہیں۔
ہم نے ملک کو برباد کرنے میں حسب توفیق حکمران اور عوام کوئی کسر کبھی اٹھا نہیں رکھی اور ہر بار یوں لگا کہ اب ناؤ ڈوبی کہ اب ڈوبی! مگر ایک نادیدہ ہاتھ اس کشتی کو پھر سر آب لے آیا اور کنارے کی طرف گامزن کردیا، شاید خدا ابھی انسانوں سے مایوس نہیں ہوا ہے۔ اور پاکستان میں شاید اس کے وہ لوگ ہیں جن سے وہ مایوس نہیں ہوسکتا اور جب وہ چاہے گا وہ لوگ آجائیںگے اس کشتی کو پھر کنارے لگانے۔ شاید!
ہمیں ان پر فخر ہے اور اسی دن خبر بھی تھی کہ رینجرز سندھ میں سے دہشت گردی کی دفعات ختم کرنے والے پولیس آفیسر کے خلاف عدالت میں جائے گی اور ان کے خلاف کارروائی کا آرڈر حاصل کرے گی۔ مشیر اطلاعات وہی اپنے مولابخش چانڈیو۔ ایک تو مولابخش کا نام اسکول میں مشہور تھا اب بھی ہے اور پھر چانڈیو کا تڑکا بھی لگا ہوا ہے۔ ان کے بارے میں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے جو کچھ کہا وہ ان دونوں کے نجی معاملات ہیں اور پھر مرزا صاحب بادشاہ آدمی ہیں اور مجھ سمیت باقی لکھنے والے بھی عوام ہیں۔ تو اب ان لطیفوں میں سے مولا بخش صاحب کی باتیں لے لیتے ہیں۔
ان کو غالباً مشیر اطلاعات اس لیے بنایا گیا کہ گہما گہمی اور دلچسپی برقرار رہے، مقدمے کے دوسرے لوگ خالصتاً سیاسی یا انتظامی بیانات دیتے تھے، جو دلچسپ اور مزے دار نہیں ہوتے تھے، اب عدالت کو وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ آپ نے اچھا نہیں کیا کیوں کہ آپ کو ایسا ہی اچھا کرنا چاہیے تھا جیسا عدالتوں نے آصف زرداری اور نواز شریف کے بارے میں اچھا کیا۔ تو عدالت کو ڈاکٹر عاصم کو Clean Chit دینا چاہیے تھی، جیسی کہ انھوں نے ان دونوں ملک کے شہنشاہوںکو دی تھی۔
دراصل یہ Chit بہت ساری ایان اور مردانہ ایان کو بھی چاہیے ہیں، جن میں سے ایک شاید ڈاکٹر عاصم ہیں۔ قرائن سے یہ معلوم ہورہا ہے اور کیوں کہ یہ Chit جاری نہیں ہوئی اس وجہ سے ان کے اشتعال میں اضافہ ہوگا، ''ان'' کون ہیں؟ عوام کو تو ڈاکٹر عاصم سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کیوں کہ وہ رینجرز کی درست کرائی گئی کراچی میں خوش ہیں اور ان کو دعا دیتے ہیں اس تاریخ تک۔ بلکہ تعجب یہ ہے کہ وہ حکومت کے فیصلوں کے خلاف ہیں کہ رینجرز کو اختیارات کیوں پورے نہیں دیے جارہے ہیں اور کیوں کمی کی گئی ہے۔ یہ عوام کا خیال ہے۔
ایک ادارے کا چیئرمین شاید لاہور میں اپنے نام سے منسوب بلاک کا اہتمام کرے تو پھر آپ سوچ سکتے ہیں کہ وہ ''عوامی خدمت'' ملک کی کس قدر کررہے ہیں، ادارے ملکی رہنماؤں کے نام پر جو بین الاقوامی شہرت رکھتے ہوں جیسے قائداعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان، علامہ اقبال اور اس طرح کے دوسرے افراد ان کے نام سے منسوب ہوتے ہیں اور وہ بھی سرکاری ادارے کیا کرسکتے ہیں۔ وزیراعظم نہ سہی وزیراعظم کی سی بات سہی، وزیراعظم نے ہی ان کو مقرر کیا ہے تو Advantange تو رہے گا نا، فائلیں تو دفتر میں ہی ہیں کبھی بھی کھل سکتی ہیں۔ نہیں کھل سکتیں تو قائداعظم کی فائل نہیں کھل سکتی۔
ان کو کس نے کس طرح آہستہ آہستہ Murder کیا، لیاقت علی خان کو شہید کرنے والا کون تھا ماسٹر مائنڈ، پھر گورنر ہاؤس میں کیا ہوتا رہا، قصر صدارت میں کیا کچھ ہوا، اب تو وہاں صرف ''ممنون'' ہیں، بھٹو اور بے نظیر کی فائلیں نہیں کھلیںگی اور اب یہ دو فائل اور بند ہونے جارہی ہیں۔ عمران خان کا خیال ہے کہ یہ فائلیں کبھی کھل جائیں۔ نہیں کھلیںگی، ان فائلوں کو ''سیاست کی زنگ'' لگ چکی ہے، اب نہیں کھلیںگی۔ عمران خان بھی چند سال میں ملک کے شاید ناکام لیڈروں میں شامل ہوجائیںگے۔ سیاست اور شادی الگ الگ ضرور ہیں مگر سیاست شادی اور شادی سیاست کا پتہ ضرور دیتی ہے۔ خیر یہ چھوڑیے بہت گہرے جائیںگے تو ابھر نہیں پائیںگے، ہم دوبارہ مولابخش چانڈیو کی سطح پر ابھرتے ہیں۔
اب سندھ میں تو آپ سمجھ گئے کیسا مولابخش چل رہا ہے۔ ذرا حکمران صوبے کو ملاحظہ فرمائیے اور اس کا لطف لیجیے۔ سب کو کہا جارہا ہے کہ ہے تو آپ کے ملک کا ہی صوبہ، اگر ترقی کررہاہے تو آپ کو ہی خوش ہونا چاہیے، تالیاں بجانی چاہئیں۔ ہاں یہ تو ہے مگر چھوٹے بھائیوں کا کیا ہوگا، ان کا بھی تو جائیداد پاکستان میں حصہ ہے۔ ان کو ان کا حصہ کون دے گا، بڑے بھائی کے حصے کے سارے پروجیکٹ بغیر فائل ورک کے شاید پورے ہوجاتے ہیں اور دوسرے صوبوں کے منصوبے سال ہا سال تاخیر کا شکار ہیں کہ فنڈز جاری نہیں ہوتے، وفاق سے۔وفاق کا کہنا ہے کام شروع کرو فنڈ دے دیںگے، یعنی باپ دادا کی جائیداد پر مقدمہ چل رہا ہے اور آخر میں جائیداد وکیل کے پاس مختانہ میں اور ایک پیڑ وارثوں کے حصے میں رہ جائے گا۔
اب چاہے پھل کھالو یا لکڑیاں جلالو، تمہاری اپنی مرضی۔ تو مولابخش چانڈیو سندھ کے حصے میں اور بڑے صوبے کے لوگ وفاق کے وزرا تیل سے لے کر مرغی تک کے کاروبار ان کے پاس۔ وفاق میں حکومت مگر ترجمان اکثر ایک وزیر صاحب کے پاس کم کام ہے کہ وہ حکومتی ترجمان کا کام بھی انجام دیتے ہیں، داخلہ اور خارجہ۔ جب کہ داخلہ کے وزیر ہیں۔ ان کو کیا کہہ سکتے ہیں، مملکت کے داخلی امور پر جو چاہے بیان دے دے وہ کسی کو کچھ نہیں کہتے، وزیرریلوے کو بھی نہیں، وہ بھی آدھے وزیراعظم ہیں، اور حکمران عوام کو اکثر روٹی کے بجائے کیک کھانے کا بندوبست کرنے کا اعلان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کیک تو ہوگا شاید! مگر ''کیک'' کس کا ہوگا؟ یہ ایک الگ مسئلہ ہے، اب ہر کام حکمران تو نہیں کرسکتے۔
کس قدر محنت کرتے ہیں، دن رات غیر ملکی دورے کرتے ہیں، ہر وہ کام میں جن کی منصوبہ بندی وہ فارغ وقت یعنی اپوزیشن کے دور میں کرتے رہے تھے، پورے خاندان کو Activate کرنا آسان تو نہیں ہے، آصف زرداری نے نواب آصفہ کو یوتھ ونگ میں لگایا ہے شاید، مشیر کو یہ سمجھنے میں خاصی دیر لگی کہ اس کے اپنے بچے ہیں، ان کو پروان چڑھانا ہے، مگر قاعدہ تو سیاست کے جنگل کا بھی یہی ہے کہ شیر بوڑھا ہوجائے تو جوان شیر اس کی جگہ لے لیتے ہیں۔ ممتاز بھٹو کی مثال آپ کے سامنے ہے، کتنا ہی وہ شوروغوغا کرلیں وہاں نہیں پہنچ سکتے جہاں دوسرے پہنچ گئے۔
Chance کی بات ہے، آپ ٹیلنٹڈ کزن تھے، پہلی بار پاکستان میں، اب تو خیر ان کا جمعہ بازار لگا ہوا ہے، اگر آپ بھٹو کے بعد یا اس دوران ہمت اور وفاداری دکھاتے تو آپ بھی اس طرح ہوتے جو مخدوم فہیم ہوئے، آپ سے سیاسی غلطی ہوگئی، جس کا خمیازہ اب تک آپ سیاسی طور پر بھگت رہے ہیں۔ مخدوم صاحب کو خدا معاف کرے اور مغفرت کرے، چند چیزیں وہ بھی نہ کرتے اور احتیاط کرتے اور بھی نامور ہوتے۔ آج بھی ان کا نام اس کے باوجود پی پی پی کے عظیم فرزندوں اور وفاداروں میں ہے۔
کچھ جماعتیں ایسی بھی ہیں کہ جن کے بارے میں ہم کچھ نہیں لکھتے، در اصل ہم ان لوگوں کے بارے میں لکھتے ہیں زیادہ تر جو بہت بڑے محب وطن ہوتے ہیں یا بہت بڑے...! جانے دیں کیا فائدہ آپ اپنی پسند سے خالی جگہ پر کرلیں! پاکستان بھی ایک عجیب مملکت خداداد ہے کہ جو تباہی کے دہانے پر پہنچتی ہے تو خدا خود Rescue کو آجاتا ہے۔ یقین مانیے ہم سچ کہہ رہے ہیں۔
ہم نے ملک کو برباد کرنے میں حسب توفیق حکمران اور عوام کوئی کسر کبھی اٹھا نہیں رکھی اور ہر بار یوں لگا کہ اب ناؤ ڈوبی کہ اب ڈوبی! مگر ایک نادیدہ ہاتھ اس کشتی کو پھر سر آب لے آیا اور کنارے کی طرف گامزن کردیا، شاید خدا ابھی انسانوں سے مایوس نہیں ہوا ہے۔ اور پاکستان میں شاید اس کے وہ لوگ ہیں جن سے وہ مایوس نہیں ہوسکتا اور جب وہ چاہے گا وہ لوگ آجائیںگے اس کشتی کو پھر کنارے لگانے۔ شاید!