سیاست سے کھیل تک وفاق اور بلوچستان آمنے سامنے
یہ کھیل کا میدان ہے جہاں بلوچستان اپنا حق بالکل بھی نہیں مانگ رہا بلکہ وفاق کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا ہے۔
ویسے تو یہ داستان بہت پرانی ہے، یہ کہنا بھی ہرگز غلط نہیں ہوگا کہ برصغیر کی تقسیم کے ساتھ جو پیچیدہ معاملات شروع ہوئے ان میں سے ایک مسئلہ بلوچستان بھی تھا۔ بہت سے دانشوروں اور اندرونی حالات سے واقف لوگوں کے خیال میں رقبے اور وسائل کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ طاقت کے نشے میں مست مقامی حکمرانوں اور بلوچستان کے وسائل پر ہر لمحہ نظر رکھنے والی وفاقی حکومتوں کے زیرِ عتاب رہا اور اِسکو کبھی بھی وہ حقوق نہ مل سکے جو ملک میں بسنے والے دوسرے شہریوں کو میّسر تھے۔
اسی وجہ سے یہاں شورش اور علیحدگی کی تنظیموں کو بڑھنے اور پھلنے پھولنے کا موقع ملا، جس وجہ سے یہاں اندرونی اور بیرونی طاقتوں نے نہ صرف علیحدگی پسندوں کی سرپرستی کی بلکہ انہیں ریاست سے جتنا ہوسکتا تھا دور کھڑا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ایک ملک میں رہتے ہوئے ہماری پہچان اپنے شہروں سے بہت عجیب طرح سے ہوگئی ہے۔ یقیناً ہم میں سے زیادہ تر لوگ کبھی کوئٹہ یا بلوچستان نہیں گئے ہوں گے، مگر جو تصویر پچھلی ایک دہائی سے ہمارے ذہنوں کےعکس پر محفوظ ہو گئی ہے، وہ ایک خوفناک حقیقت کی عکاسی کرتی ہے۔
بلوچستان کا جب بھی نام آئے گا ایف سی، عسکریت پسند، شدت پسند، علیحدگی پسند اور اس طرح کے اور کئی القابات ذہن میں فوراً اُبھر آئیں گے۔ کوئٹہ کا جب بھی ذکر ہوگا تو کوئٹہ ہزارہ کی محرومیوں اور ان پر ظلم کی داستان سننے کو ملے گی۔ انہی الفاظ اور حادثات کے پسِ منظر ہم نے کتنا کچھ کھو دیا ہمیں اسکا اندازہ ہوتے ہوئے بھی عرصہ لگے گا۔
سیاست اور سنجیدہ زندگی کے ان پہلوؤں سے تھوڑا دور کھیل کے میدان کی طرف چلیں تو یہاں کچھ اصول اور ضابطے متعین ہیں۔ یہ اصول نہ بدلتے ہیں نہ بدلے جاتے ہیں۔ اس لئے یہاں حق لینے کے لئے نہ تو بڑے بڑے نعروں کی ضرورت ہوتی ہے نہ کسی تحریک کی۔ یہ جنگ اپنے زورِ بازو پر لڑی اور جیتی جاتی ہے۔ اسی طرح کا ایک معرکہ جسے ''پاکستان سپر لیگ'' کا نام دیا گیا، اس ماہ کے شروع میں جب اسکا ''بھرپور'' آغاز ہوا تو میڈیا اور کرکٹ کے حلقوں کی جانب سے کوئٹہ کی ٹیم کو (جو کہ بولی کے لحاظ سے پی ایس ایل کی سب سے سستی ٹیم بھی تھی) کمزور ٹیم کا خطاب دیا گیا۔ کیونکہ اس کے مقابلے میں دوسری ٹیموں کے پاس کرکٹ کے بڑے ناموں کےعلاوہ سرمائے کی بھی کوئی کمی نہیں تھی۔
یہ معرکہ شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے بازی اس طرح سے پلٹی کہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ کبھی ایسا بھی ہوسکتا ہے۔ 26 ملین ڈالر میں خریدی گئی ٹورنامنٹ کی سب سے مہنگی ٹیم کراچی کنگز اور دوسرے نمبر پر 25 ملین ڈالر میں خریدی گئی لاہور قلندرز کو ہرا کر کوئٹہ کی ٹیم نے نہ صرف سب کو حیرت میں ڈال دیا ہے بلکہ اپنا لوہا منوانے میں کامیاب بھی ہوگئی۔ کرکٹ میں ایسا نام جسے تعارف کی ضرورت نہیں، سر ویوین رچرڈ جن کی رہنمائی میں کوئٹہ گلیڈیٹرز نے پی ایس ایل میں اپنی شاندار کارکردگی سے یہ ثابت کردیا ہے کہ کھیل میں صرف لگن اور محنت سے تاریخ لکھی بھی جاسکتی ہے اور بدلی بھی جا سکتی ہے۔ اس کے لئے صرف اہل لوگوں کا انتخاب ضروری ہے نہ کہ بڑے ناموں کا۔
آج وہ تاریخی دن ہے جب کوئٹہ اور اسلام آباد کی ٹیمیں پی ایس ایل کے پہلے سیزن کے فائنل میں آمنے سامنے آئیں گی، اور اِس اہم ترین مقابلے میں کوئٹہ کو اسلام آباد پر فوقیت دی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر یہ بات زبان زد عام ہے کہ 1947ء کے بعد یہ پہلا موقع ہوگا جب وفاق بلوچستان کو سنجیدگی سے لے گا۔ ویسے بات میں دم تو ہے، کیونکہ آج تک ہم یہی نیم مردار نعرے سنتے آئے ہیں کہ بلوچوں کو انکا حق دیا جائے گا، دینا چاہیئے، ضرور دیں گے، ضرور ملنا چاہیئے۔ مگر جیسے ہی ان نعروں کی حامل پارٹی اقتدار میں آتی ہے تو انہی پرانے چہروں، بڑے ناموں اور نااہل لوگوں کو ساتھ ملا کر مسندِ اقتدار پر بٹھا دیا جاتا ہے اور یوں بلوچوں کے حقوق کے تحفظ کا نعرہ لگانے والے لوگ عام بلوچ کو پسِ پشت ڈال کر پوری دلجمعی سے امورِ حکومت میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ ہمارا المیہ یہ رہا ہے کہ سیاست کو ہمیشہ کھیل سمجھا گیا اور کھیل میں جہاں ہم آگے بڑھتے نظر آرہے ہیں، وہاں سیاست کو گھسا لیا گیا۔
مگر اس بار چونکہ ایسا نہیں ہے، بلوچستان اپنا حق بالکل بھی نہیں مانگ رہا بلکہ وفاق کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا ہے۔ خدا نہ کرے کہ عام زندگی میں ایسا کوئی مقابلہ دیکھنے کو ملے۔ (ویسے ہم نے تو کوئی کسر نہیں چھوڑی، بات اس نہج تک پہنچانے میں) مگر پھر بھی اس دھرتی کے باشندوں میں اتنا صبر تو ہے کہ وہ حکمرانوں کو چاہے وہ جو بھی ہے، جیسا بھی ہے، جانتے سمجھتے ہوئے بھی برداشت کر رہے ہیں۔
خیر بات ہو رہی ہے کھیل کے میدان کی تو وفاق کو اس دفعہ بلوچستان کی طرف سے سخت اور مشکل اپوزیشن کا سامنا ہے۔ وفاقی حکومت کی طرح وفاق کی ٹیم بھی گرتی پڑتی فائنل میں پہنچ گئی ہے مگر ابھی زور کا جھٹکا لگنا باقی ہے۔ ٹورنامنٹ میں نان اسٹاپ کامیابیاں سمیٹتی کوئٹہ کی ٹیم جس نے اب تک سب سے زیادہ رنز اسکور کیے ہیں، سب سے بڑے ہدف کا کامیابی سے تعاقب کیا اور سب سے زیادہ میچ بھی جیتے ہیں اور جو اپنے پچھلے میچوں میں وفاق کی ٹیم کو شکست بھی دے چکی ہے، یہی وجہ ہے کہ کوئٹہ آج کے میچ کی فیورٹ بھی ہے اور وفاق کو للکارنے کے لئے تیار بھی ہے۔
دوسری طرف وفاق کو دیکھا جائے تو پلے آف میں اسلام آباد کی پرفارمنس پہلے مرحلے کی نسبت شاندار رہی اور اسے دیکھ کر 1992ء کے ورلڈ کپ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی یاد آگئی۔ عمران خان کی کپتانی میں ورلڈ کپ جیتنے والی قومی ٹیم کی حالت بھی پہلے مرحلے میں کوئی تسّلی بخش نہیں تھی مگر ایک بار اپنی فارم میں آئے تو کارکردگی سے ساری دنیا کو حیران کردیا۔
پاکستان سپر لیگ اب تک ہر لحاظ سے کامیاب ٹورنامنٹ ثابت رہا ہے۔ اِس نے نہ صرف پاکستان کا مثبت رخ دنیا کے سامنے پیش کیا بلکہ پاکستان میں موجود ٹیلنٹ کو بھی موقع دیا ہے کہ وہ بڑے پلیٹ فارم پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکیں۔ ساتھ ہی ساتھ پی ایس ایل نے ایک اور جو بہت بڑا کام کیا ہے وہ کوئٹہ کا ایک نیا چہرہ دنیا بھر کے سامنے پیش کیا ہے۔
فائنل مرحلہ آن پہنچا ہے اور آج شام کو اس ایونٹ کے پہلے سیزن کا اختتام ہوجائے گا، مگر ابھی فائنل میں پوری قوم زور کے جھٹکے اور ایک اچھے میچ کی منتظر ہے۔ دیکھتے ہیں کہ یہ جھٹکا کون برداشت کرتا ہے اور کون اس کے دباو میں کپ دوسرے کی جھولی میں ڈال دیتا ہے۔
اسی وجہ سے یہاں شورش اور علیحدگی کی تنظیموں کو بڑھنے اور پھلنے پھولنے کا موقع ملا، جس وجہ سے یہاں اندرونی اور بیرونی طاقتوں نے نہ صرف علیحدگی پسندوں کی سرپرستی کی بلکہ انہیں ریاست سے جتنا ہوسکتا تھا دور کھڑا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ایک ملک میں رہتے ہوئے ہماری پہچان اپنے شہروں سے بہت عجیب طرح سے ہوگئی ہے۔ یقیناً ہم میں سے زیادہ تر لوگ کبھی کوئٹہ یا بلوچستان نہیں گئے ہوں گے، مگر جو تصویر پچھلی ایک دہائی سے ہمارے ذہنوں کےعکس پر محفوظ ہو گئی ہے، وہ ایک خوفناک حقیقت کی عکاسی کرتی ہے۔
بلوچستان کا جب بھی نام آئے گا ایف سی، عسکریت پسند، شدت پسند، علیحدگی پسند اور اس طرح کے اور کئی القابات ذہن میں فوراً اُبھر آئیں گے۔ کوئٹہ کا جب بھی ذکر ہوگا تو کوئٹہ ہزارہ کی محرومیوں اور ان پر ظلم کی داستان سننے کو ملے گی۔ انہی الفاظ اور حادثات کے پسِ منظر ہم نے کتنا کچھ کھو دیا ہمیں اسکا اندازہ ہوتے ہوئے بھی عرصہ لگے گا۔
سیاست اور سنجیدہ زندگی کے ان پہلوؤں سے تھوڑا دور کھیل کے میدان کی طرف چلیں تو یہاں کچھ اصول اور ضابطے متعین ہیں۔ یہ اصول نہ بدلتے ہیں نہ بدلے جاتے ہیں۔ اس لئے یہاں حق لینے کے لئے نہ تو بڑے بڑے نعروں کی ضرورت ہوتی ہے نہ کسی تحریک کی۔ یہ جنگ اپنے زورِ بازو پر لڑی اور جیتی جاتی ہے۔ اسی طرح کا ایک معرکہ جسے ''پاکستان سپر لیگ'' کا نام دیا گیا، اس ماہ کے شروع میں جب اسکا ''بھرپور'' آغاز ہوا تو میڈیا اور کرکٹ کے حلقوں کی جانب سے کوئٹہ کی ٹیم کو (جو کہ بولی کے لحاظ سے پی ایس ایل کی سب سے سستی ٹیم بھی تھی) کمزور ٹیم کا خطاب دیا گیا۔ کیونکہ اس کے مقابلے میں دوسری ٹیموں کے پاس کرکٹ کے بڑے ناموں کےعلاوہ سرمائے کی بھی کوئی کمی نہیں تھی۔
یہ معرکہ شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے بازی اس طرح سے پلٹی کہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ کبھی ایسا بھی ہوسکتا ہے۔ 26 ملین ڈالر میں خریدی گئی ٹورنامنٹ کی سب سے مہنگی ٹیم کراچی کنگز اور دوسرے نمبر پر 25 ملین ڈالر میں خریدی گئی لاہور قلندرز کو ہرا کر کوئٹہ کی ٹیم نے نہ صرف سب کو حیرت میں ڈال دیا ہے بلکہ اپنا لوہا منوانے میں کامیاب بھی ہوگئی۔ کرکٹ میں ایسا نام جسے تعارف کی ضرورت نہیں، سر ویوین رچرڈ جن کی رہنمائی میں کوئٹہ گلیڈیٹرز نے پی ایس ایل میں اپنی شاندار کارکردگی سے یہ ثابت کردیا ہے کہ کھیل میں صرف لگن اور محنت سے تاریخ لکھی بھی جاسکتی ہے اور بدلی بھی جا سکتی ہے۔ اس کے لئے صرف اہل لوگوں کا انتخاب ضروری ہے نہ کہ بڑے ناموں کا۔
آج وہ تاریخی دن ہے جب کوئٹہ اور اسلام آباد کی ٹیمیں پی ایس ایل کے پہلے سیزن کے فائنل میں آمنے سامنے آئیں گی، اور اِس اہم ترین مقابلے میں کوئٹہ کو اسلام آباد پر فوقیت دی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر یہ بات زبان زد عام ہے کہ 1947ء کے بعد یہ پہلا موقع ہوگا جب وفاق بلوچستان کو سنجیدگی سے لے گا۔ ویسے بات میں دم تو ہے، کیونکہ آج تک ہم یہی نیم مردار نعرے سنتے آئے ہیں کہ بلوچوں کو انکا حق دیا جائے گا، دینا چاہیئے، ضرور دیں گے، ضرور ملنا چاہیئے۔ مگر جیسے ہی ان نعروں کی حامل پارٹی اقتدار میں آتی ہے تو انہی پرانے چہروں، بڑے ناموں اور نااہل لوگوں کو ساتھ ملا کر مسندِ اقتدار پر بٹھا دیا جاتا ہے اور یوں بلوچوں کے حقوق کے تحفظ کا نعرہ لگانے والے لوگ عام بلوچ کو پسِ پشت ڈال کر پوری دلجمعی سے امورِ حکومت میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ ہمارا المیہ یہ رہا ہے کہ سیاست کو ہمیشہ کھیل سمجھا گیا اور کھیل میں جہاں ہم آگے بڑھتے نظر آرہے ہیں، وہاں سیاست کو گھسا لیا گیا۔
مگر اس بار چونکہ ایسا نہیں ہے، بلوچستان اپنا حق بالکل بھی نہیں مانگ رہا بلکہ وفاق کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا ہے۔ خدا نہ کرے کہ عام زندگی میں ایسا کوئی مقابلہ دیکھنے کو ملے۔ (ویسے ہم نے تو کوئی کسر نہیں چھوڑی، بات اس نہج تک پہنچانے میں) مگر پھر بھی اس دھرتی کے باشندوں میں اتنا صبر تو ہے کہ وہ حکمرانوں کو چاہے وہ جو بھی ہے، جیسا بھی ہے، جانتے سمجھتے ہوئے بھی برداشت کر رہے ہیں۔
خیر بات ہو رہی ہے کھیل کے میدان کی تو وفاق کو اس دفعہ بلوچستان کی طرف سے سخت اور مشکل اپوزیشن کا سامنا ہے۔ وفاقی حکومت کی طرح وفاق کی ٹیم بھی گرتی پڑتی فائنل میں پہنچ گئی ہے مگر ابھی زور کا جھٹکا لگنا باقی ہے۔ ٹورنامنٹ میں نان اسٹاپ کامیابیاں سمیٹتی کوئٹہ کی ٹیم جس نے اب تک سب سے زیادہ رنز اسکور کیے ہیں، سب سے بڑے ہدف کا کامیابی سے تعاقب کیا اور سب سے زیادہ میچ بھی جیتے ہیں اور جو اپنے پچھلے میچوں میں وفاق کی ٹیم کو شکست بھی دے چکی ہے، یہی وجہ ہے کہ کوئٹہ آج کے میچ کی فیورٹ بھی ہے اور وفاق کو للکارنے کے لئے تیار بھی ہے۔
دوسری طرف وفاق کو دیکھا جائے تو پلے آف میں اسلام آباد کی پرفارمنس پہلے مرحلے کی نسبت شاندار رہی اور اسے دیکھ کر 1992ء کے ورلڈ کپ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی یاد آگئی۔ عمران خان کی کپتانی میں ورلڈ کپ جیتنے والی قومی ٹیم کی حالت بھی پہلے مرحلے میں کوئی تسّلی بخش نہیں تھی مگر ایک بار اپنی فارم میں آئے تو کارکردگی سے ساری دنیا کو حیران کردیا۔
پاکستان سپر لیگ اب تک ہر لحاظ سے کامیاب ٹورنامنٹ ثابت رہا ہے۔ اِس نے نہ صرف پاکستان کا مثبت رخ دنیا کے سامنے پیش کیا بلکہ پاکستان میں موجود ٹیلنٹ کو بھی موقع دیا ہے کہ وہ بڑے پلیٹ فارم پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکیں۔ ساتھ ہی ساتھ پی ایس ایل نے ایک اور جو بہت بڑا کام کیا ہے وہ کوئٹہ کا ایک نیا چہرہ دنیا بھر کے سامنے پیش کیا ہے۔
فائنل مرحلہ آن پہنچا ہے اور آج شام کو اس ایونٹ کے پہلے سیزن کا اختتام ہوجائے گا، مگر ابھی فائنل میں پوری قوم زور کے جھٹکے اور ایک اچھے میچ کی منتظر ہے۔ دیکھتے ہیں کہ یہ جھٹکا کون برداشت کرتا ہے اور کون اس کے دباو میں کپ دوسرے کی جھولی میں ڈال دیتا ہے۔
[poll id="972"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔