بھاگتے شہر شہری اور لٹیرے
اس سے پہلے آپ نے بھاگتے ہوئے، چور دیکھے ہوں گے بھاگتے مظلوم دیکھے ہوں گے،
اس سے پہلے آپ نے بھاگتے ہوئے، چور دیکھے ہوں گے بھاگتے مظلوم دیکھے ہوں گے، اب آپ بھاگتے شہر دیکھ رہے ہیں چوروں، لٹیروں، بھتہ خوروں ، کمیشن ایجنٹوں اور انتہا پسندوں سے بھاگتے شہر بدامنی، نفسانفسی، شور شرابے سے بھاگتے شہر امن ، سکون، چین کی تلاش میں بھاگتے شہر اور ان کے پیچھے لاکھوں ہانپتے کانپتے بھاگتے شہر ی اور ان کا پیچھا کرتے چوروں، لٹیروں، انتہا پسندوں کے غول کے غول اور ان سب کے پیچھے بالکل آخر میں رینگتی لڑکھڑاتی شرافت، دیانت داری، ایمانداری، وفا، خلو ص، تہذیب جس سے صحیح طریقے سے چلا بھی نہیں جا رہا، باہر بیٹھے کوئی صاحب اگر پاکستان میں جھانکیں تو انھیں یہ منظر دیکھنے کو نصیب ہو گا۔
معاف کیجیے گا ایک بات تو بتانا ہی بھول گیا کہ بھاگتے شہریوں کے ہاتھوں اور کاندھوں پر ماضی کی شان و شوکت، آن بان کے قصے اور ماضی کی جھوٹی سچی کہانیوں کے بنڈل کے بنڈل بھی ہیں، یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا منظر ہمارے نصیب میں لکھا تھا کیا یہ منظر ہماری کہانی کے اسکرپٹ میں پہلے ہی سے شامل تھا، یا ہم نے اسے زور زبردستی سے شامل کروا دیا ہے اور ہم اس منظر کو کہانی میں شامل کرنے کے لیے گزشتہ 68 سالوں سے انتھک محنت اور جدوجہد کر رہے تھے کیا ہماری یہ ہی منزل تھی یا ہم بھٹک کر یہاں آ گئے ہیں۔
کیا یہ ہمارا پسندیدہ ترین سین ہے یا پھر ڈراؤنا ترین اس کے ساتھ ہی ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ظاہر ہے ان خرابیوں، برائیوں اور بدیوں نے ایک روز میں تو جنم لیا نہیں ہے اور نہ ہی ملک دشمنوں نے یہ سب ایک ہی رات میں ملک میں پھیلا دی ہیں اور نہ ہی یہ برائیاں، خرابیاں زمین پھاڑ کر نکل آئی ہیں اور نہ ہی یہ آسمان سے آ گری ہیں۔ ظاہر ہے ان خرابیوں، برائیوں، بدیوں کا کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی روز ہمارے سامنے آغاز ہوا ہو گا اور جب آغاز ہوا تھا تو ہم نے اسی روز سوال کیوں نہ کیا گو نگے کیوں بنے رہے۔
سقراط کہتا ہے ''زندگی کے بارے میں سوال اٹھائے بغیر زندگی گزارنا آدمی کے شایان شان نہیں کیونکہ آدمی سوال کرنے والی مخلو ق ہے'' جب کہ ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ ہم دنیا کی واحد قوم ہیں جو گونگے پیدا ہوئے ہیں ورنہ جب قرار داد مقاصد منظور ہوئی تھی جس کی وجہ سے ملک میں انتہاپسندی نے زور پکڑا ہم نہ بولتے ہم نہ چلاتے جب ذہنی اور جسمانی طور پر مفلوج غلام محمد ہم پر حکمرانی کر رہا تھا ہم نہ چیختے ہم نہ چلاتے ہم نہ سوال کرتے۔ جب ضیا ء الحق سماج کو زہر آلود کر رہا تھا۔
سماج میں تیزاب کا چھڑکاؤ کر رہا تھا، جب مذہبی انتہا پسندی کے بیج گلی گلی میں پھینکے جا رہے تھے ہم نہ چلاتے ہم نہ چیختے ہم نہ سوال کرتے۔ جب لوگوں کی عزتوں کے بیج اتارے جا رہے تھے جب لوگوں کے حقوق تار تار کیے جا رہے تھے جب لوگوں کو ذلیل کیا جا رہا تھا ان کی سرعام تذلیل کی جا رہی تھی جب گلی گلی فتوے بک رہے تھے، جب لاؤڈ اسپیکروں سے زہر اگلا جا رہا تھا ہم نہ چیختے ہم نہ چلاتے ہم نہ سوال کرتے۔ ہمارا کردار بنیادی طور پر ہماری عادات کا مرکب ہے ایک کہاوت ہے کہ ''ایک سوچ بوؤ اور ایک عمل کاٹو ایک عمل بوؤ اور ایک عادت کاٹو اور ایک عادت بوؤ اورکردار کاٹوکردار بوؤ اور قسمت کاٹو'' جیسے کہ عظیم ماہر تعلیم ہوریس مان نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ''عادات رسی کی طرح ہوتی ہیں روزانہ ہم اس رسی کی ایک لڑی بنتے ہیں اور جلد ہی اسے توڑنا ناممکن ہو جاتا ہے۔''
معاشرتی زاویہ نظر پر مبنی سوچ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ہم محض اپنی تربیت اور ماحول کی پیداوار ہیں، اگر ہم اپنی زندگیو ں پر اپنے حالات کے قوی اثر کو مان لیں اور اس بات کا اقرارکر لیں کہ ہم جو کچھ بھی ہیں، محض اپنے حالات اور ماحول کا نتیجہ ہیں تو اس نقطہ نظر سے ایک بہت مختلف قسم کا نقشہ تخلیق پاتا ہے، انسان کی فطرت کو دراصل تین قسم کے معاشرتی نقشے تشکیل کرتے ہیں یہ نقشے یا مفروضے اکیلے اکیلے یا پھر مختلف طریقوں سے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔
پہلا نقشہ یا مفروضہ موروثیت کا ہے جس کے مطابق یہ سب کچھ تمھارے بزرگوں کا کیا دھرا ہے یہ سب کچھ تمھارے DNA میں ہے یہ نسل در نسل چلتا ہے اور تمہیں ورثے میں ملا ہے چونکہ تم پاکستانی ہو اور چپ اور خا موش رہنا پاکستانیوں کی فطرت کا حصہ ہے۔ دوسرا نقشہ یا مفروضہ نفسیاتی ہے جو بنیادی طور پر ماں باپ کو قصور وار ٹہراتا ہے تمہارے میلانات اور کردار کا ڈھانچہ تمہاری پرورش اور بچپن کے تجربات کے عین مطابق ڈھلتا ہے تمہارے ماں باپ نے تمہاری تربیت ہی اس طرح کی ہے ۔
اس لیے کہ تم جب چھوٹے تھے کمزور تھے اور ہر طرح تمہارا انحصار اپنے ماں باپ پر تھا تو انھوں نے تمہار ے ذہن اور جذبات میں یہ بات گہرے طریقے سے اتار دی اور اب تمہاری یادداشت میں یہ پتھر کی لکیر کی طرح نقش ہو چکی ہے۔ تیسرا نقشہ یا مفروضہ ماحول کا ہے جو بنیادی طور پر یہ کہتا ہے کہ تمہارے ساتھ جو بھی ہو رہا ہے۔
اس کے قصوروار تمہاری معاشی صورت حال ہے یا پھر قومی پالیساں ہیں اگر ہم اپنی تلاش میں نکلیں اور ان تینوں نقشوں کو سامنے رکھیں تو ہم اپنی توقعات سے زیادہ جلدی اپنے آپ کو تلاش کر لیں گے کیونکہ ہم ان ہی تینوں نقشوں میں کہیں نہ کہیں چھپے ہوئے ہیں ٹی ایس ایلیٹ کہتا ہے ''ہمیں کہیں بھی اپنی کھو ج روکنی نہیں چاہیے اور اپنی تمام کھوج کے اختتام پر ہم خود کو وہیں پائیں گے جہاں سے ہم نے سفر شروع کیا تھا اور ہمیں یوں احساس ہو گا جیسے ہم اس جگہ کو پہلی دفعہ جان رہے ہوں''۔ جب کہ البرٹ آئن اسٹائن کا کہنا ہے کہ ''ہم در پیش اہم مسائل کا حل سو چ کی اسی سطح پر رہ کر نہیں کر سکتے جس پر ہم اس وقت تھے جب ہم نے اپنے ان مسائل کو پیدا کیا تھا۔'
آئیں! بھاگنا بند کریں اسی جگہ پرکھڑے ہو جائیں اور واپس پلٹیں اور جو چور، لٹیرے، قبضہ خور، بھتہ خور، کمیشن ایجنٹ آپ کا تعاقب کر رہے ہیں، انھیں للکاریں اور ان کی طرف غصے سے بڑھیں پھر آپ دیکھیں گے کہ وہ سب کسی طرح اپنی اپنی جوتیاں چھوڑ کر بھاگتے ہیں۔
معاف کیجیے گا ایک بات تو بتانا ہی بھول گیا کہ بھاگتے شہریوں کے ہاتھوں اور کاندھوں پر ماضی کی شان و شوکت، آن بان کے قصے اور ماضی کی جھوٹی سچی کہانیوں کے بنڈل کے بنڈل بھی ہیں، یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا منظر ہمارے نصیب میں لکھا تھا کیا یہ منظر ہماری کہانی کے اسکرپٹ میں پہلے ہی سے شامل تھا، یا ہم نے اسے زور زبردستی سے شامل کروا دیا ہے اور ہم اس منظر کو کہانی میں شامل کرنے کے لیے گزشتہ 68 سالوں سے انتھک محنت اور جدوجہد کر رہے تھے کیا ہماری یہ ہی منزل تھی یا ہم بھٹک کر یہاں آ گئے ہیں۔
کیا یہ ہمارا پسندیدہ ترین سین ہے یا پھر ڈراؤنا ترین اس کے ساتھ ہی ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ظاہر ہے ان خرابیوں، برائیوں اور بدیوں نے ایک روز میں تو جنم لیا نہیں ہے اور نہ ہی ملک دشمنوں نے یہ سب ایک ہی رات میں ملک میں پھیلا دی ہیں اور نہ ہی یہ برائیاں، خرابیاں زمین پھاڑ کر نکل آئی ہیں اور نہ ہی یہ آسمان سے آ گری ہیں۔ ظاہر ہے ان خرابیوں، برائیوں، بدیوں کا کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی روز ہمارے سامنے آغاز ہوا ہو گا اور جب آغاز ہوا تھا تو ہم نے اسی روز سوال کیوں نہ کیا گو نگے کیوں بنے رہے۔
سقراط کہتا ہے ''زندگی کے بارے میں سوال اٹھائے بغیر زندگی گزارنا آدمی کے شایان شان نہیں کیونکہ آدمی سوال کرنے والی مخلو ق ہے'' جب کہ ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ ہم دنیا کی واحد قوم ہیں جو گونگے پیدا ہوئے ہیں ورنہ جب قرار داد مقاصد منظور ہوئی تھی جس کی وجہ سے ملک میں انتہاپسندی نے زور پکڑا ہم نہ بولتے ہم نہ چلاتے جب ذہنی اور جسمانی طور پر مفلوج غلام محمد ہم پر حکمرانی کر رہا تھا ہم نہ چیختے ہم نہ چلاتے ہم نہ سوال کرتے۔ جب ضیا ء الحق سماج کو زہر آلود کر رہا تھا۔
سماج میں تیزاب کا چھڑکاؤ کر رہا تھا، جب مذہبی انتہا پسندی کے بیج گلی گلی میں پھینکے جا رہے تھے ہم نہ چلاتے ہم نہ چیختے ہم نہ سوال کرتے۔ جب لوگوں کی عزتوں کے بیج اتارے جا رہے تھے جب لوگوں کے حقوق تار تار کیے جا رہے تھے جب لوگوں کو ذلیل کیا جا رہا تھا ان کی سرعام تذلیل کی جا رہی تھی جب گلی گلی فتوے بک رہے تھے، جب لاؤڈ اسپیکروں سے زہر اگلا جا رہا تھا ہم نہ چیختے ہم نہ چلاتے ہم نہ سوال کرتے۔ ہمارا کردار بنیادی طور پر ہماری عادات کا مرکب ہے ایک کہاوت ہے کہ ''ایک سوچ بوؤ اور ایک عمل کاٹو ایک عمل بوؤ اور ایک عادت کاٹو اور ایک عادت بوؤ اورکردار کاٹوکردار بوؤ اور قسمت کاٹو'' جیسے کہ عظیم ماہر تعلیم ہوریس مان نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ''عادات رسی کی طرح ہوتی ہیں روزانہ ہم اس رسی کی ایک لڑی بنتے ہیں اور جلد ہی اسے توڑنا ناممکن ہو جاتا ہے۔''
معاشرتی زاویہ نظر پر مبنی سوچ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ہم محض اپنی تربیت اور ماحول کی پیداوار ہیں، اگر ہم اپنی زندگیو ں پر اپنے حالات کے قوی اثر کو مان لیں اور اس بات کا اقرارکر لیں کہ ہم جو کچھ بھی ہیں، محض اپنے حالات اور ماحول کا نتیجہ ہیں تو اس نقطہ نظر سے ایک بہت مختلف قسم کا نقشہ تخلیق پاتا ہے، انسان کی فطرت کو دراصل تین قسم کے معاشرتی نقشے تشکیل کرتے ہیں یہ نقشے یا مفروضے اکیلے اکیلے یا پھر مختلف طریقوں سے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔
پہلا نقشہ یا مفروضہ موروثیت کا ہے جس کے مطابق یہ سب کچھ تمھارے بزرگوں کا کیا دھرا ہے یہ سب کچھ تمھارے DNA میں ہے یہ نسل در نسل چلتا ہے اور تمہیں ورثے میں ملا ہے چونکہ تم پاکستانی ہو اور چپ اور خا موش رہنا پاکستانیوں کی فطرت کا حصہ ہے۔ دوسرا نقشہ یا مفروضہ نفسیاتی ہے جو بنیادی طور پر ماں باپ کو قصور وار ٹہراتا ہے تمہارے میلانات اور کردار کا ڈھانچہ تمہاری پرورش اور بچپن کے تجربات کے عین مطابق ڈھلتا ہے تمہارے ماں باپ نے تمہاری تربیت ہی اس طرح کی ہے ۔
اس لیے کہ تم جب چھوٹے تھے کمزور تھے اور ہر طرح تمہارا انحصار اپنے ماں باپ پر تھا تو انھوں نے تمہار ے ذہن اور جذبات میں یہ بات گہرے طریقے سے اتار دی اور اب تمہاری یادداشت میں یہ پتھر کی لکیر کی طرح نقش ہو چکی ہے۔ تیسرا نقشہ یا مفروضہ ماحول کا ہے جو بنیادی طور پر یہ کہتا ہے کہ تمہارے ساتھ جو بھی ہو رہا ہے۔
اس کے قصوروار تمہاری معاشی صورت حال ہے یا پھر قومی پالیساں ہیں اگر ہم اپنی تلاش میں نکلیں اور ان تینوں نقشوں کو سامنے رکھیں تو ہم اپنی توقعات سے زیادہ جلدی اپنے آپ کو تلاش کر لیں گے کیونکہ ہم ان ہی تینوں نقشوں میں کہیں نہ کہیں چھپے ہوئے ہیں ٹی ایس ایلیٹ کہتا ہے ''ہمیں کہیں بھی اپنی کھو ج روکنی نہیں چاہیے اور اپنی تمام کھوج کے اختتام پر ہم خود کو وہیں پائیں گے جہاں سے ہم نے سفر شروع کیا تھا اور ہمیں یوں احساس ہو گا جیسے ہم اس جگہ کو پہلی دفعہ جان رہے ہوں''۔ جب کہ البرٹ آئن اسٹائن کا کہنا ہے کہ ''ہم در پیش اہم مسائل کا حل سو چ کی اسی سطح پر رہ کر نہیں کر سکتے جس پر ہم اس وقت تھے جب ہم نے اپنے ان مسائل کو پیدا کیا تھا۔'
آئیں! بھاگنا بند کریں اسی جگہ پرکھڑے ہو جائیں اور واپس پلٹیں اور جو چور، لٹیرے، قبضہ خور، بھتہ خور، کمیشن ایجنٹ آپ کا تعاقب کر رہے ہیں، انھیں للکاریں اور ان کی طرف غصے سے بڑھیں پھر آپ دیکھیں گے کہ وہ سب کسی طرح اپنی اپنی جوتیاں چھوڑ کر بھاگتے ہیں۔