سانحہ بلدیہ فیکٹری لرزہ خیز حقائق
ملک میں کرپشن اور اداروں میں سیاسی مداخلت کے باعث اب کوئی بھی محکمہ شفاف نہیں رہا ہے
کراچی میں ہونے والے سانحہ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں آگ لگنے کے تقریباً ساڑھے تین سال بعد بالآخر فیکٹری کا معائنہ کرنے والی پنجاب فارنسک لیبارٹری اور انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسز (HEJ) لیبارٹری کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ فیکٹری میں آگ کیمیکل کے ذریعے لگائی گئی تھی جس کے پھینکنے سے آگ بھڑکتی چلی گئی اور وہاں پر موجود سیکڑوں ملازمین جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
واضح رہے کہ سانحہ بلدیہ کے بعد کئی اطراف سے چہ میگوئیاں سننے میں آئی تھیں کہ فیکٹری میں لگنے والی آگ حادثہ نہیں بلکہ باقاعدہ سازش تھی اور اس سلسلے میں مبینہ طور پر 'بھتہ' نہ دینے پر فیکٹری کو نشانہ بنایا گیا جس میں 257 افراد جاں بحق جب کہ 600 سے زائد شدید زخمی ہوئے۔ سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے حوالے سے قائم کی جانے والی جوائنٹ انٹروگیشن ٹیم کی جانب سے محکمہ داخلہ سندھ کو ارسال کی جانے والی رپورٹ میں مزید سنسنی خیز انکشافات سامنے آئے ہیں۔ فیکٹری مالکان سے رحمٰن عرف بھولا نے 20 کروڑ روپے بھتہ اور فیکٹری کے منافع میں حصے داری مانگی تھی اور نہ دینے پر فیکٹری کو آگ لگا دی تھی۔
اس بات کا بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ سانحہ بلدیہ ٹاؤن واقعہ کے بعد جو مقدمہ درج کیا گیا تھا اس کے بعد سے تفتیش اندرونی اور بیرونی دباؤ کا بھی شکار رہی۔ ملک میں کرپشن اور اداروں میں سیاسی مداخلت کے باعث اب کوئی بھی محکمہ شفاف نہیں رہا ہے، ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اداروں کو کرپشن سے پاک اور تحقیقات میں سیاسی مداخلتوں کا سدباب کیا جائے تاکہ اصل مجرموں تک پہنچا جاسکے۔ رپورٹ میں فیکٹری مالکان سے سانحے میں جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کو امدادی رقم تقسیم کرنے کے نام پر وصول کی جانے والی رقم 5 کروڑ 98 لاکھ روپے ہڑپ کرنے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔
واضح رہے کہ حادثے کے وقت فیکٹری کے ہنگامی اخراج کا گیٹ بند تھا تاہم فیکٹری کے دیگر دروازے کھلے ہوئے تھے لیکن آگ اتنی شدت سے پھیلی کہ لوگوں کو باہر نکلنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جس کے باعث ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد بڑھ گئی۔ رپورٹ میں دہشت گردی کا پہلو سامنے آنے کے باوجود بھی اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ بہرحال فیکٹری میں بلڈنگ ایکٹ کا خیال نہیں رکھا گیا اور انتظامی امور ناقص تھے۔
اس طرح کے واقعات میں جان بچانے کے لیے فیکٹری مالکان اور ملازمین میں شعور اجاگر کرنے کے لیے تربیتی ورکشاپ کرائے جائیں اور کسی بھی غیر معمولی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ریسکیو اداروں کی افرادی قوت اور جدید مشینری میں بھی اضافہ کیا جائے تاکہ آگ لگنے کے واقعات پر فوری قابو پایا جاسکے۔ مذکورہ رپورٹ کے بعد ضروری ہے کہ سانحہ بلدیہ ٹاؤن کی ری انویسٹی گیشن کرکے انسداد دہشت گردی کے تحت نیا مقدمہ درج کیا جائے اور سانحے میں ملوث کرداروں کے خلاف کارروائی روبہ عمل لائی جائے۔
واضح رہے کہ سانحہ بلدیہ کے بعد کئی اطراف سے چہ میگوئیاں سننے میں آئی تھیں کہ فیکٹری میں لگنے والی آگ حادثہ نہیں بلکہ باقاعدہ سازش تھی اور اس سلسلے میں مبینہ طور پر 'بھتہ' نہ دینے پر فیکٹری کو نشانہ بنایا گیا جس میں 257 افراد جاں بحق جب کہ 600 سے زائد شدید زخمی ہوئے۔ سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے حوالے سے قائم کی جانے والی جوائنٹ انٹروگیشن ٹیم کی جانب سے محکمہ داخلہ سندھ کو ارسال کی جانے والی رپورٹ میں مزید سنسنی خیز انکشافات سامنے آئے ہیں۔ فیکٹری مالکان سے رحمٰن عرف بھولا نے 20 کروڑ روپے بھتہ اور فیکٹری کے منافع میں حصے داری مانگی تھی اور نہ دینے پر فیکٹری کو آگ لگا دی تھی۔
اس بات کا بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ سانحہ بلدیہ ٹاؤن واقعہ کے بعد جو مقدمہ درج کیا گیا تھا اس کے بعد سے تفتیش اندرونی اور بیرونی دباؤ کا بھی شکار رہی۔ ملک میں کرپشن اور اداروں میں سیاسی مداخلت کے باعث اب کوئی بھی محکمہ شفاف نہیں رہا ہے، ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اداروں کو کرپشن سے پاک اور تحقیقات میں سیاسی مداخلتوں کا سدباب کیا جائے تاکہ اصل مجرموں تک پہنچا جاسکے۔ رپورٹ میں فیکٹری مالکان سے سانحے میں جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کو امدادی رقم تقسیم کرنے کے نام پر وصول کی جانے والی رقم 5 کروڑ 98 لاکھ روپے ہڑپ کرنے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔
واضح رہے کہ حادثے کے وقت فیکٹری کے ہنگامی اخراج کا گیٹ بند تھا تاہم فیکٹری کے دیگر دروازے کھلے ہوئے تھے لیکن آگ اتنی شدت سے پھیلی کہ لوگوں کو باہر نکلنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جس کے باعث ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد بڑھ گئی۔ رپورٹ میں دہشت گردی کا پہلو سامنے آنے کے باوجود بھی اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ بہرحال فیکٹری میں بلڈنگ ایکٹ کا خیال نہیں رکھا گیا اور انتظامی امور ناقص تھے۔
اس طرح کے واقعات میں جان بچانے کے لیے فیکٹری مالکان اور ملازمین میں شعور اجاگر کرنے کے لیے تربیتی ورکشاپ کرائے جائیں اور کسی بھی غیر معمولی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ریسکیو اداروں کی افرادی قوت اور جدید مشینری میں بھی اضافہ کیا جائے تاکہ آگ لگنے کے واقعات پر فوری قابو پایا جاسکے۔ مذکورہ رپورٹ کے بعد ضروری ہے کہ سانحہ بلدیہ ٹاؤن کی ری انویسٹی گیشن کرکے انسداد دہشت گردی کے تحت نیا مقدمہ درج کیا جائے اور سانحے میں ملوث کرداروں کے خلاف کارروائی روبہ عمل لائی جائے۔