بے حسی بڑھتی جاتی ہے
ہم بحیثیت مجموعی غیر محسوس طریقے سے بے حسی کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں
PESHAWAR:
موجودہ حالات کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ ہم بحیثیت مجموعی غیر محسوس طریقے سے بے حسی کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں، اگرکوئی شخص کسی مصیبت و پریشانی میں مبتلا ہو جائے، ابتدا میں تو لوگ مصیبت زدہ شخص سے اظہار ہمدردی کرتے ہیں، لیکن کچھ عرصے کے بعد دیکھنے والوں کے لیے اس شخص کی پریشانی ایک خبر سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی۔ یہ بے حسی ہمارے عمومی مزاج میں شامل ہو گئی ہے۔ ملک میں آئے روز بہت سے افسوسناک واقعات پیش آتے ہیں، جن کے وقوع پذیر ہونے کے بعد میڈیا اور عوام کا رویہ دیکھ کر چند روز تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ بہت جلد سب کچھ بدل جائے گا۔
کچھ روز ہر جانب اسی کا ذکر زبان زد عام رہتا ہے، لیکن رفتہ رفتہ نہ صرف اس کا تذکرہ ختم ہو جاتا ہے، بلکہ وہ معاملہ قصہ پارینہ بن جاتا ہے۔ تھرپارکر میں آئے روز بچوں کی اموات کا معاملہ بھی ایسی ہی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے، جہاں روز پانچ سے دس بچوں کی اموات کی خبر آنا ایک معمول بن گیا ہے۔ حکومت کی عدم توجہ، قلت غذا اور سہولیات صحت کی عدم دستیابی کے سبب تھرپارکر میں ایک عرصے سے موت کا رقص جاری ہے، لیکن تاحال اس کے سدباب کے لیے کچھ نہیں کیا گیا، جس کو صرف بے حسی ہی کہا جا سکتا ہے۔
ہر سال غذائی قلت سے جب صحرائے تھر میں بچوں کی اموات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو اس خبر کو میڈیا پر کافی ہائی لائٹ کیا جاتا ہے، جس کے بعد حکومت اس حوالے سے اقدامات کرنے کے اعلانات کرتی ہے، لیکن آہستہ آہستہ اس خبر کی اہمیت کم ہو کر میڈیا سے تقریبا غائب ہو جاتی ہے اور حکومت تو پہلے سے ہی ''غائب'' ہونے کے لیے تیار ہوتی ہے۔ اس طرح کچھ دنوں کے بعد میڈیا کے خاموش ہونے کی وجہ سے حکومت کی جانب سے بھی مکمل خاموشی چھا جاتی ہے۔
تھر میں ہر سال سیکڑوں بچے حکومتی نااہلی کے باعث اپنی جان جان آفریں کے حوالے کر دیتے ہیں، لیکن حکومت ان کے مصائب کا کوئی مستقل حل تلاش کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ سال گزشتہ تھر کے باسیوں پر قیامت ڈھا گیا تھا اور سال رواں بھی قہر سے کم نہیں ہے۔ 2015ء میں 376 بچوں سمیت لگ بھگ ایک ہزار افراد غذائی قلت سے لقمہ اجل بن گئے تھے۔ صوبائی حکومت نے گزشتہ سال مٹھی میں ہونے والی ہلاکتوں سے کوئی سبق نہ سیکھا اور ایک مرتبہ پھر تھرپارکر میں حکومتی نااہلی، صاف پانی کی قلت، خوراک کی کمی، امراض کی بہتات اور طبی سہولیات کے فقدان کے نتیجے میں سال رواں کے دوران لگ بھگ دو سو بچے موت کی وادی میں چلے گئے ہیں، لیکن حکومت کی طرف سے کچھ اقدامات نظر نہیں آ رہے ہیں، بلکہ سناٹا چھایا ہوا ہے۔
جب کہ گزشتہ برس بھی تھر میں قحط سالی اور بیماریوں سے بچوں کی ہلاکتوں کے واقعات کے بعد سندھ حکومت کی جانب سے تھر کے لیے خصوصی پیکیج، اسپتالوں کی بہتری اور اْن کے بجٹ میں اضافے کا اعلان کیا گیا تھا، لیکن اِن میں سے اکثر پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔
تھر میں زندگی کو سسکنے، بلکنے اور دم توڑنے کے سیکڑوں بہانے میسر ہیں۔ غذائی قلت چہار سو موت کا خوفناک سایہ بنی ہوئی ہے، لیکن حکمران دو چار دن میڈیا کے سامنے تصاویر بنوانے کے بعد تھری عوام کو بھول کر اپنی سیاسی دھینگا مشتی میں مگن ہو جاتے ہیں۔ تھر میں بچوں اور ماؤں کی اموات کے بڑے اسباب میں سے صاف پانی کی قلت، خوراک کی کمی اور طبی سہولیات کا فقدان ہے۔ تھر کی 80 فیصد آبادی کا دار و مدار بارش کے پانی یا کنوؤں پر ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران حکومت کی جانب سے نصب گیے گئے صاف پانی کے پلانٹس میں سے اکثر خراب ہو گئے ہیں اور جو باقی بچے ہیں، وہ ناکافی ہیں۔ جو پانی میسر ہے۔
اس میں سنکھیا اور فلورائیڈ کی آمیزش اوسط سے زیادہ ہے۔ اس پانی سے پیاس تو بجھ جاتی ہے لیکن انسانی جسم طرح طرح کی امراض میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ بے انتہا غربت کی وجہ سے کھانے کو کچھ نہیں ہے، جب کہ حکومت ایک من گندم اور پانی کی4 بوتلیں تھرکے عوام کو دے کر اپنی ذمے داری سے سبکدوش ہونا چاہتی ہے۔ غذائی قلت اور غیرمعیاری پانی پینے سے بیماریاں بڑھ جاتی ہیں، لیکن امراض کے علاج کے لیے ان کو طبی سہولیات میسر نہیں ہیں۔
کہنے کو تو تھر میں کاغذ پر 350 کے لگ بھگ چھوٹی بڑی ڈسپنسریاں ہیں، لیکن 70 فیصد بند اور جو کھلی ہیں، ان میں عملہ ہی نہیں یا عملہ غیر حاضر ہے۔ تھر کے حالات مستقل اقدامات کے متقاضی ہیں۔ حکومت کو تھر کے عوام کو مصائب سے چھٹکارہ دلانے کے لیے ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جن سے وہاں کے عوام مستقل طور پر اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں اور غذائی قلت، پانی کی کمی اور سہولیات صحت کے فقدان کے خوف سے آزاد ہوکر اپنی زندگی گزار سکیں۔
بھوک وپیاس سے جان دیتے بچوں کو موت کے منہ سے نکالنا حکمرانوں ہی کی ذمے داری ہے، لیکن یہ اپنی ذمے داری ادا کرنے، تھر میں غربت، بھوک، غذائی قلت کے اسباب کو ختم کرنے اور طبی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کی بجائے نت نئی تاویلیں کرنے میں مشغول ہیں۔ حکومت سندھ کا کہنا ہے کہ تھر میں صورت حال اتنی خراب نہیں ہے، جتنی دکھائی جا رہی ہے۔
یہ مانا کہ میڈیا پر بہت سے معاملات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے، لیکن جو حقیقت میں خراب صورتحال موجود ہے، کیا اس کا سدباب کرنا حکومت کی ذمے داری نہیں؟ یہ صوبائی حکومت کی غفلت و کوتاہی کا شاخسانہ ہی تو ہے کہ تھریوں کو مسلسل غذائی قلت کا سامنا ہے اور سرکاری شفاخانوں میں عوام کو علاج کی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ شفاخانوں میں کوالیفائڈ ڈاکٹرز کی کمی ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر روز کسی نہ کسی ماں کی گود اجڑ جاتی ہے۔ تھر معدنیات سے مالا مال علاقہ ہے، لیکن حکومت تھر کے عوام کی ترقی کے لیے کچھ نہیں کر رہی۔ اگر حکومت کچھ کر رہی ہوتی تو تھر میں قحط سالی ہوتی، نہ بچے مرتے۔ ناقص پالیسیوں کی وجہ سے صورتحال اس قدر سنگین ہو گئی ہے کہ اب حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہے۔
تھر میں ہر سال غذائی قلت، مختلف مہلک بیماریوں اور مناسب علاج کی سہولت نہ ملنے کے سبب سیکڑوں بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ہمیشہ تھر کے علاقے کو نظر انداز کیا گیا اور اس علاقے کے مسائل کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کی جستجو نہیں کی گئی۔ حکومت میڈیا کی نشاندہی کے بعد خواب غفلت سے بیدار ہوتی ہے اور کچھ روز میڈیا کے سامنے ہلچل نظر آتی ہے۔ جب تک میڈیا تھر کے معاملے کو نمایاں کیے رکھتا ہے، حکومت بھی حرکت میں دکھائی دیتی ہے، لیکن میڈیا خاموش ہو جاتا ہے تو حکومت بھی تھر کے عوام سے کیے گئے تمام وعدوں کو بھول جاتی ہے۔
تھر میں پانی و خوراک کی قلت کو ختم کرنا، سہولیات صحت کی فراہمی اور تھریوں کے دیگر مسائل پر قابو پانا حکومت کی ذمے داری ہے، لیکن ایسے مسائل سے نمٹنے کی منصوبہ بندی ریاست کی ترجیحات کا حصہ ہی نہیں ہوتی۔ تھر میں معاملے کی سنگینی صرف بیڈ گورننس اور غیر سنجیدگی کی وجہ سے ہے۔ تھر میں خوراک کے قحط سے زیادہ احساس ذمے داری کا قحط ہے، جو بے حسی کی صورت اختیار کر گیا ہے، ورنہ اگر حکومت تہیہ کر لے تو تھر کے حالات کو بہتر انداز میں بدلنا ہے ناممکن نہیں ہے۔
موجودہ حالات کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ ہم بحیثیت مجموعی غیر محسوس طریقے سے بے حسی کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں، اگرکوئی شخص کسی مصیبت و پریشانی میں مبتلا ہو جائے، ابتدا میں تو لوگ مصیبت زدہ شخص سے اظہار ہمدردی کرتے ہیں، لیکن کچھ عرصے کے بعد دیکھنے والوں کے لیے اس شخص کی پریشانی ایک خبر سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی۔ یہ بے حسی ہمارے عمومی مزاج میں شامل ہو گئی ہے۔ ملک میں آئے روز بہت سے افسوسناک واقعات پیش آتے ہیں، جن کے وقوع پذیر ہونے کے بعد میڈیا اور عوام کا رویہ دیکھ کر چند روز تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ بہت جلد سب کچھ بدل جائے گا۔
کچھ روز ہر جانب اسی کا ذکر زبان زد عام رہتا ہے، لیکن رفتہ رفتہ نہ صرف اس کا تذکرہ ختم ہو جاتا ہے، بلکہ وہ معاملہ قصہ پارینہ بن جاتا ہے۔ تھرپارکر میں آئے روز بچوں کی اموات کا معاملہ بھی ایسی ہی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے، جہاں روز پانچ سے دس بچوں کی اموات کی خبر آنا ایک معمول بن گیا ہے۔ حکومت کی عدم توجہ، قلت غذا اور سہولیات صحت کی عدم دستیابی کے سبب تھرپارکر میں ایک عرصے سے موت کا رقص جاری ہے، لیکن تاحال اس کے سدباب کے لیے کچھ نہیں کیا گیا، جس کو صرف بے حسی ہی کہا جا سکتا ہے۔
ہر سال غذائی قلت سے جب صحرائے تھر میں بچوں کی اموات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو اس خبر کو میڈیا پر کافی ہائی لائٹ کیا جاتا ہے، جس کے بعد حکومت اس حوالے سے اقدامات کرنے کے اعلانات کرتی ہے، لیکن آہستہ آہستہ اس خبر کی اہمیت کم ہو کر میڈیا سے تقریبا غائب ہو جاتی ہے اور حکومت تو پہلے سے ہی ''غائب'' ہونے کے لیے تیار ہوتی ہے۔ اس طرح کچھ دنوں کے بعد میڈیا کے خاموش ہونے کی وجہ سے حکومت کی جانب سے بھی مکمل خاموشی چھا جاتی ہے۔
تھر میں ہر سال سیکڑوں بچے حکومتی نااہلی کے باعث اپنی جان جان آفریں کے حوالے کر دیتے ہیں، لیکن حکومت ان کے مصائب کا کوئی مستقل حل تلاش کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ سال گزشتہ تھر کے باسیوں پر قیامت ڈھا گیا تھا اور سال رواں بھی قہر سے کم نہیں ہے۔ 2015ء میں 376 بچوں سمیت لگ بھگ ایک ہزار افراد غذائی قلت سے لقمہ اجل بن گئے تھے۔ صوبائی حکومت نے گزشتہ سال مٹھی میں ہونے والی ہلاکتوں سے کوئی سبق نہ سیکھا اور ایک مرتبہ پھر تھرپارکر میں حکومتی نااہلی، صاف پانی کی قلت، خوراک کی کمی، امراض کی بہتات اور طبی سہولیات کے فقدان کے نتیجے میں سال رواں کے دوران لگ بھگ دو سو بچے موت کی وادی میں چلے گئے ہیں، لیکن حکومت کی طرف سے کچھ اقدامات نظر نہیں آ رہے ہیں، بلکہ سناٹا چھایا ہوا ہے۔
جب کہ گزشتہ برس بھی تھر میں قحط سالی اور بیماریوں سے بچوں کی ہلاکتوں کے واقعات کے بعد سندھ حکومت کی جانب سے تھر کے لیے خصوصی پیکیج، اسپتالوں کی بہتری اور اْن کے بجٹ میں اضافے کا اعلان کیا گیا تھا، لیکن اِن میں سے اکثر پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔
تھر میں زندگی کو سسکنے، بلکنے اور دم توڑنے کے سیکڑوں بہانے میسر ہیں۔ غذائی قلت چہار سو موت کا خوفناک سایہ بنی ہوئی ہے، لیکن حکمران دو چار دن میڈیا کے سامنے تصاویر بنوانے کے بعد تھری عوام کو بھول کر اپنی سیاسی دھینگا مشتی میں مگن ہو جاتے ہیں۔ تھر میں بچوں اور ماؤں کی اموات کے بڑے اسباب میں سے صاف پانی کی قلت، خوراک کی کمی اور طبی سہولیات کا فقدان ہے۔ تھر کی 80 فیصد آبادی کا دار و مدار بارش کے پانی یا کنوؤں پر ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران حکومت کی جانب سے نصب گیے گئے صاف پانی کے پلانٹس میں سے اکثر خراب ہو گئے ہیں اور جو باقی بچے ہیں، وہ ناکافی ہیں۔ جو پانی میسر ہے۔
اس میں سنکھیا اور فلورائیڈ کی آمیزش اوسط سے زیادہ ہے۔ اس پانی سے پیاس تو بجھ جاتی ہے لیکن انسانی جسم طرح طرح کی امراض میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ بے انتہا غربت کی وجہ سے کھانے کو کچھ نہیں ہے، جب کہ حکومت ایک من گندم اور پانی کی4 بوتلیں تھرکے عوام کو دے کر اپنی ذمے داری سے سبکدوش ہونا چاہتی ہے۔ غذائی قلت اور غیرمعیاری پانی پینے سے بیماریاں بڑھ جاتی ہیں، لیکن امراض کے علاج کے لیے ان کو طبی سہولیات میسر نہیں ہیں۔
کہنے کو تو تھر میں کاغذ پر 350 کے لگ بھگ چھوٹی بڑی ڈسپنسریاں ہیں، لیکن 70 فیصد بند اور جو کھلی ہیں، ان میں عملہ ہی نہیں یا عملہ غیر حاضر ہے۔ تھر کے حالات مستقل اقدامات کے متقاضی ہیں۔ حکومت کو تھر کے عوام کو مصائب سے چھٹکارہ دلانے کے لیے ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جن سے وہاں کے عوام مستقل طور پر اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں اور غذائی قلت، پانی کی کمی اور سہولیات صحت کے فقدان کے خوف سے آزاد ہوکر اپنی زندگی گزار سکیں۔
بھوک وپیاس سے جان دیتے بچوں کو موت کے منہ سے نکالنا حکمرانوں ہی کی ذمے داری ہے، لیکن یہ اپنی ذمے داری ادا کرنے، تھر میں غربت، بھوک، غذائی قلت کے اسباب کو ختم کرنے اور طبی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کی بجائے نت نئی تاویلیں کرنے میں مشغول ہیں۔ حکومت سندھ کا کہنا ہے کہ تھر میں صورت حال اتنی خراب نہیں ہے، جتنی دکھائی جا رہی ہے۔
یہ مانا کہ میڈیا پر بہت سے معاملات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے، لیکن جو حقیقت میں خراب صورتحال موجود ہے، کیا اس کا سدباب کرنا حکومت کی ذمے داری نہیں؟ یہ صوبائی حکومت کی غفلت و کوتاہی کا شاخسانہ ہی تو ہے کہ تھریوں کو مسلسل غذائی قلت کا سامنا ہے اور سرکاری شفاخانوں میں عوام کو علاج کی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ شفاخانوں میں کوالیفائڈ ڈاکٹرز کی کمی ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر روز کسی نہ کسی ماں کی گود اجڑ جاتی ہے۔ تھر معدنیات سے مالا مال علاقہ ہے، لیکن حکومت تھر کے عوام کی ترقی کے لیے کچھ نہیں کر رہی۔ اگر حکومت کچھ کر رہی ہوتی تو تھر میں قحط سالی ہوتی، نہ بچے مرتے۔ ناقص پالیسیوں کی وجہ سے صورتحال اس قدر سنگین ہو گئی ہے کہ اب حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہے۔
تھر میں ہر سال غذائی قلت، مختلف مہلک بیماریوں اور مناسب علاج کی سہولت نہ ملنے کے سبب سیکڑوں بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ہمیشہ تھر کے علاقے کو نظر انداز کیا گیا اور اس علاقے کے مسائل کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کی جستجو نہیں کی گئی۔ حکومت میڈیا کی نشاندہی کے بعد خواب غفلت سے بیدار ہوتی ہے اور کچھ روز میڈیا کے سامنے ہلچل نظر آتی ہے۔ جب تک میڈیا تھر کے معاملے کو نمایاں کیے رکھتا ہے، حکومت بھی حرکت میں دکھائی دیتی ہے، لیکن میڈیا خاموش ہو جاتا ہے تو حکومت بھی تھر کے عوام سے کیے گئے تمام وعدوں کو بھول جاتی ہے۔
تھر میں پانی و خوراک کی قلت کو ختم کرنا، سہولیات صحت کی فراہمی اور تھریوں کے دیگر مسائل پر قابو پانا حکومت کی ذمے داری ہے، لیکن ایسے مسائل سے نمٹنے کی منصوبہ بندی ریاست کی ترجیحات کا حصہ ہی نہیں ہوتی۔ تھر میں معاملے کی سنگینی صرف بیڈ گورننس اور غیر سنجیدگی کی وجہ سے ہے۔ تھر میں خوراک کے قحط سے زیادہ احساس ذمے داری کا قحط ہے، جو بے حسی کی صورت اختیار کر گیا ہے، ورنہ اگر حکومت تہیہ کر لے تو تھر کے حالات کو بہتر انداز میں بدلنا ہے ناممکن نہیں ہے۔