موبائل فون کی مدد سے لیپ ٹاپ ڈیٹا کی ’چوری‘ کا تجربہ
’ہیکنگ‘ کے لیے انٹرنیٹ کی ضرورت نہیں رہے گی
ISLAMABAD:
جب ہم سنتے ہیں کہ کسی کا کمپیوٹر ہیک ہوگیا تو ہمارے لاشعور میں یہ بات موجود ہوتی ہے کہ وہ کمپیوٹر، انٹرنیٹ سے منسلک تھا، اس لیے کسی ہیکر کا نشانہ بنا۔ گویا ہیکنگ اور انٹرنیٹ لازم و ملزوم ہیں۔
انٹرنیٹ اور ہیکنگ کی اصطلاحات سے دنیا کا معمولی پڑھا لکھا انسان بھی واقف ضرور ہو گا یا اس نے اس بارے میں کچھ نہ کچھ ضرور سنا ہو گا۔ ہیکنگ کے لیے کسی ڈیوائس کا انٹرنیٹ سے منسلک ہونا لازمی تصور کیا جاتا ہے، مگر جلد ہی یہ تصور بدل جائے گا، اور ہیکرز کو کمپیوٹنگ ٹیکنالوجی کی حامل ڈیوائسز میں نقب لگانے کے لیے انٹرنیٹ کی سیڑھی درکار نہیں ہو گی۔
سائنس دانوں نے حال ہی میں موبائل فون کے ذریعے ایک لیپ ٹاپ سے ڈیٹا چُرایا ہے! جی ہاں، مگر یہ وہ 'چوری' نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں۔
کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے ماہرین نے ایک بڑے اور مثبت مقصد کے لیے تجربے کے دوران موبائل فون کی مدد سے ایک لیپ ٹاپ کا ڈیٹا حاصل کیا اور اہم بات یہ ہے کہ وہ لیپ ٹاپ انٹرنیٹ سے منسلک نہیں تھا۔ دوسرے کمرے میں موجود ماہرین نے برقی مقناطیسی لہروں اور ایک انکریپشن کِی سے مدد لیتے ہوئے محض تین سیکنڈز میں 'واردات' مکمل کرلی۔ سیکیورٹی بہتر بنانے کی غرض سے ہیکنگ کرنے والے یہ کمپیوٹر ماہرین عمومی اصطلاح میں ''وائٹ ہیٹ '' کہلاتے ہیں۔
محققین کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ سے منسلک نہ ہونے کے باوجود لیپ ٹاپ سے برقی مقناطیسی تاب کار لہریں خارج ہوتی رہتی ہیں جسے موبائل فون پکڑ لیتے ہیں۔ تجربے کے دوران ماہرین نے موبائل فون پر ایک Airhopper decoder نامی ایپلی کیشن آن کی اور اسکرین پر پیغام ٹائپ کرنے لگے۔ چند ہی لمحوں میں یہ پیغام لیپ ٹاپ کی اسکرین پر ظاہر ہوگیا۔
محققین نے اپنی تحقیقی رپورٹ میں بتایا کہ ہیکنگ کے دوران انھوں نے ایک انکرپیشن الگورتھم کِی کے ذریعے ڈیٹا حاصل کیا۔ یہ کِی مقبول عام انکرپیشن سوفٹ ویئر GnuPG میں استعمال ہوتی ہے۔
تھوڑا عرصہ قبل ماہرین کی اسی ٹیم نے بلٹ اِن تھرمل سینسرز کے ذریعے دو 'ایئرگیپڈ ' کمپیوٹرز کے درمیان ڈیٹا کی منتقلی کا مظاہرہ کیا تھا۔ ایئرگیپڈ کمپیوٹر انٹرنیٹ سے منسلک نہ ہونے اور انتہائی محفوظ ماحول میں موجود ہونے کی وجہ سے ہیکنگ سے پاک تصور کیے جاتے ہیں۔
فوجی تنصیبات، مالیاتی اداروں وغیرہ میں ایئرگیپڈ کمپیوٹر ہی استعمال ہوتے ہیں۔ تاہم ان میں بھی نقب لگائی جاسکتی ہے۔ ان سائنسی ماہرین نے اس حوالے سے کام یاب تجربہ کر کے مختلف ملکوں کے حساس اداروں کو بے چین کردیا ہے۔
اب ایسے اداروں کے سربراہ اور اہم عہدے دار کسی بھی قسم کی خفیہ معلومات اور اپنے ڈیٹا کی حفاظت سے متعلق بے فکر نہیں رہ سکتے۔ حالیہ تجربے کے بعد یہ بھی سامنے آیا ہے کہ تھرمل سینسرز کی نسبت موبائل فون کے ذریعے ڈیٹا چُرانا آسان ہے۔
اس سائنسی تجربے کی کام یابی اور اس ضمن میں مزید تحقیق سے اس بات کا امکان ہے کہ بعض ممالک اپنی حساس تنصیبات اور اہم ترین اداروں کے ملازمین کو دفتری حدود میں موبائل فون استعمال کرنے سے روک دیں گے۔ اگر یہ قدم نہیں بھی اٹھایا جاتا تو دفتری اوقات میں تمام ملازمین کے موبائل فون کے استعمال پر کڑی نظر رکھی جاسکتی ہے۔
ایسے کسی بھی ادارے کی حدود میں موبائل فونز پر موصول ہونے اور اس سے کی جانے والی کالز کے علاوہ میسجز کا ریکارڈ بھی رکھا جاسکتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اسمارٹ فونز پر انٹرنیٹ کی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فائلز کے اَپ لوڈ یا ڈاؤن لوڈ پر بھی ان اداروں کے ملازمین کسی قدر سخت قوانین کا سامنا کرسکتے ہیں۔
جب ہم سنتے ہیں کہ کسی کا کمپیوٹر ہیک ہوگیا تو ہمارے لاشعور میں یہ بات موجود ہوتی ہے کہ وہ کمپیوٹر، انٹرنیٹ سے منسلک تھا، اس لیے کسی ہیکر کا نشانہ بنا۔ گویا ہیکنگ اور انٹرنیٹ لازم و ملزوم ہیں۔
انٹرنیٹ اور ہیکنگ کی اصطلاحات سے دنیا کا معمولی پڑھا لکھا انسان بھی واقف ضرور ہو گا یا اس نے اس بارے میں کچھ نہ کچھ ضرور سنا ہو گا۔ ہیکنگ کے لیے کسی ڈیوائس کا انٹرنیٹ سے منسلک ہونا لازمی تصور کیا جاتا ہے، مگر جلد ہی یہ تصور بدل جائے گا، اور ہیکرز کو کمپیوٹنگ ٹیکنالوجی کی حامل ڈیوائسز میں نقب لگانے کے لیے انٹرنیٹ کی سیڑھی درکار نہیں ہو گی۔
سائنس دانوں نے حال ہی میں موبائل فون کے ذریعے ایک لیپ ٹاپ سے ڈیٹا چُرایا ہے! جی ہاں، مگر یہ وہ 'چوری' نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں۔
کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے ماہرین نے ایک بڑے اور مثبت مقصد کے لیے تجربے کے دوران موبائل فون کی مدد سے ایک لیپ ٹاپ کا ڈیٹا حاصل کیا اور اہم بات یہ ہے کہ وہ لیپ ٹاپ انٹرنیٹ سے منسلک نہیں تھا۔ دوسرے کمرے میں موجود ماہرین نے برقی مقناطیسی لہروں اور ایک انکریپشن کِی سے مدد لیتے ہوئے محض تین سیکنڈز میں 'واردات' مکمل کرلی۔ سیکیورٹی بہتر بنانے کی غرض سے ہیکنگ کرنے والے یہ کمپیوٹر ماہرین عمومی اصطلاح میں ''وائٹ ہیٹ '' کہلاتے ہیں۔
محققین کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ سے منسلک نہ ہونے کے باوجود لیپ ٹاپ سے برقی مقناطیسی تاب کار لہریں خارج ہوتی رہتی ہیں جسے موبائل فون پکڑ لیتے ہیں۔ تجربے کے دوران ماہرین نے موبائل فون پر ایک Airhopper decoder نامی ایپلی کیشن آن کی اور اسکرین پر پیغام ٹائپ کرنے لگے۔ چند ہی لمحوں میں یہ پیغام لیپ ٹاپ کی اسکرین پر ظاہر ہوگیا۔
محققین نے اپنی تحقیقی رپورٹ میں بتایا کہ ہیکنگ کے دوران انھوں نے ایک انکرپیشن الگورتھم کِی کے ذریعے ڈیٹا حاصل کیا۔ یہ کِی مقبول عام انکرپیشن سوفٹ ویئر GnuPG میں استعمال ہوتی ہے۔
تھوڑا عرصہ قبل ماہرین کی اسی ٹیم نے بلٹ اِن تھرمل سینسرز کے ذریعے دو 'ایئرگیپڈ ' کمپیوٹرز کے درمیان ڈیٹا کی منتقلی کا مظاہرہ کیا تھا۔ ایئرگیپڈ کمپیوٹر انٹرنیٹ سے منسلک نہ ہونے اور انتہائی محفوظ ماحول میں موجود ہونے کی وجہ سے ہیکنگ سے پاک تصور کیے جاتے ہیں۔
فوجی تنصیبات، مالیاتی اداروں وغیرہ میں ایئرگیپڈ کمپیوٹر ہی استعمال ہوتے ہیں۔ تاہم ان میں بھی نقب لگائی جاسکتی ہے۔ ان سائنسی ماہرین نے اس حوالے سے کام یاب تجربہ کر کے مختلف ملکوں کے حساس اداروں کو بے چین کردیا ہے۔
اب ایسے اداروں کے سربراہ اور اہم عہدے دار کسی بھی قسم کی خفیہ معلومات اور اپنے ڈیٹا کی حفاظت سے متعلق بے فکر نہیں رہ سکتے۔ حالیہ تجربے کے بعد یہ بھی سامنے آیا ہے کہ تھرمل سینسرز کی نسبت موبائل فون کے ذریعے ڈیٹا چُرانا آسان ہے۔
اس سائنسی تجربے کی کام یابی اور اس ضمن میں مزید تحقیق سے اس بات کا امکان ہے کہ بعض ممالک اپنی حساس تنصیبات اور اہم ترین اداروں کے ملازمین کو دفتری حدود میں موبائل فون استعمال کرنے سے روک دیں گے۔ اگر یہ قدم نہیں بھی اٹھایا جاتا تو دفتری اوقات میں تمام ملازمین کے موبائل فون کے استعمال پر کڑی نظر رکھی جاسکتی ہے۔
ایسے کسی بھی ادارے کی حدود میں موبائل فونز پر موصول ہونے اور اس سے کی جانے والی کالز کے علاوہ میسجز کا ریکارڈ بھی رکھا جاسکتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اسمارٹ فونز پر انٹرنیٹ کی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فائلز کے اَپ لوڈ یا ڈاؤن لوڈ پر بھی ان اداروں کے ملازمین کسی قدر سخت قوانین کا سامنا کرسکتے ہیں۔