ڈر ڈر کے کیا جینا

خوف کے تسلط نے جہاں معاشرے کے دیگر طبقوں کی طرح خواتین کو بھی بری طرح اور بڑے پیمانے پر متاثر کیا ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک میں پُرتشدد واقعات ،جرائم اور خوفناک حادثات میں اضافہ ہورہا ہے۔ فوٹو : فائل

دورِ حاضر میں زندگی آرام دہ ضرور ہوگئی ہے لیکن اِس کے ساتھ ہی ذہنی دبائو اور فکرو تشویش میں اضافہ ہو گیا ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک میں پُرتشدد واقعات، بے رحمی کی تمام حدود کو پار کرتے ہوئے جرائم اور خوف ناک حادثات میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ وسیع پیمانے پر نقصان پہنچانے والے بم دھماکے ہیں، جو رکنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ ایسے میں حکومت اور سیکیوریٹی کے اِداروں کی امن و امان قائم کرنے میں ناکامی اور بے بسی قابلِ دید ہے۔ عدم تحفّظ کا احساس ہر طبقے میں اور ہر جگہ نہ صرف موجود ہے بلکہ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ اس میں اضافہ واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ زندگی کے کسی بھی شعبے میں ہمیں مثبت باتوں کی بجائے منفی پہلو زیادہ نظر آنے لگے ہیں۔ ان حالات نے معاشرے میں ایک خوف کا عالم پیدا کر دیا ہے۔ اس خوف کا تسلط اس قدر شدید اور وسیع پیمانے پر ہے کہ گویا ہمارے معاشرے نے خوف کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔

خوف کے اس تسلط نے جہاں معاشرے کے دیگر طبقوں کو متاثر کیا ہے، وہیں خواتین کو بھی بری طرح اور بڑے پیمانے پر متاثر کیا ہے۔

جو خواتین ملازمت، سماجی ذمے داری یا خریداری کے لیے گھر سے باہر نکلتی ہیں وہ تو براہِ راست خطرات کی زد میں ہیں اور خوف کا شکار ہیں۔ ان کے مسائل میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور وہ شدید ذہنی دبائو سے دوچار رہتی ہیں۔
ان کے علاوہ وہ خواتین جو روایتی طور پر درونِ خانہ زندگی گزارتی ہیں وہ بھی اس خوف اور ذہنی دبائو سے نہیں بچ سکتیں۔ ان کے بیٹے اور بیٹیاں تعلیم کے لیے باہر نکلنے پر مجبور ہیں۔ گھر کے مرد تو بے چارے روزی کمانے کے لیے دور دراز علاقوں میں واقع کام کی جگہ پر جانے کے پابند ہیں، گھریلو خواتین ان کی سلامتی کے سلسلے میں مردوں سے زیادہ پریشان رہتی ہیں۔

غالباً اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ عورتیں مردوں کی نسبت زیادہ حسّاس ہوتی ہیں۔ امکانی خطرات نہ صرف ان کے اعصاب کو تباہ کر دیتے ہیں بلکہ جسمانی عوارض پیدا کرنے کا باعث بھی بنتے ہیں۔ اور یہ پریشانی دردِ سر کی صورت میں مستقل جان کا وبال بن جاتی ہے۔ یہ ہیں وہ حالات جن میں ایک پاکستانی عورت کو زندگی گزارنا ہے۔ گویا کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ مضبوط سے مضبوط اعصاب والی عورت بھی کسی نہ کسی نفسیاتی مرض میں مبتلا ہو سکتی ہے۔ سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ خواتین اپنے محدود دائرہ اختیار کے سبب نہ تو ان حالات کو تبدیل کر سکتی ہیں اور نہ ہی بہتری کے لیے کچھ کر سکتی ہیں۔ جب تک صاحبانِ اختیار خوابِ غفلت سے بیدار نہ ہوں کسی بہتری کی توقع کرنا بھی ممکن نہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے مشکل اور خوف ناک حالات میں خواتین کیا کریں۔ اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ خواتین اپنے پیارے پیارے بچوں اور گھر کے ذمّے دار مردوں کی طرف سے کس قدر فکرمند اور پریشان رہتی ہوں گی۔ چوںکہ یہ فکرمندی اور تشویش ان کے اعصاب پر مستقل چھائی رہتی ہے، اس لیے نہ صرف یہ کہ ان کی زندگی ایک عذاب میں مبتلا ہے بلکہ وہ طرح طرح کی نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو گئی ہیں۔ غربت اور منہگائی کے سبب نفسیاتی علاج بھی ان کی دسترس سے باہر ہے۔ نیز گھریلو ماحول میں بھی طرح طرح کی خرابیاں پیدا ہورہی ہیں۔


یہ بات عام طور پر مشہور ہے کہ خواتین مردوں کی نسبت اعصابی طور پر زیادہ مضبوط ہوتی ہیں، لیکن متعلقہ ماہرین کے مطابق خوف کے زیرِاثر نفسیاتی امراض میں مبتلا افراد میں دو فی صد مردوں کے مقابلے میں عورتوں میں یہ تعداد پانچ فی صد ہے۔

یہ بات درست ہے کہ خوف کی کیفیت طاری ہونا ایک فطری عمل ہے لیکن مستقل اِسے اپنا ساتھی بنا لینا ایک عارضہ ہے۔ زندگی اور موت ایک اٹل حقیقت ہے اور ایک ایسی سچائی ہے جس سے منہ نہیں موڑا جاسکتا۔ تو پھر فکرو پریشانی کو خود پے طاری کرنے کا کیا جواز۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خواتین کس طرح اس خوف ناک صورت حال کا مقابلہ کریں۔ وہ کون سے اقدامات ہیں جن پر عمل کرکے اس خوف کے جن کو قابو کریں یا اس کے نقصانات کو کم سے کم کرنے میں کام یاب ہو جائیں۔
ماہرین کے خیال کے مطابق اس حد درجہ مجبوری و بے بسی میں بھی چند اقدامات ہیں جن پر عمل کر کے ایک خاتون اپنے اور اپنے گھرانے کی زندگی میں خوف کے نتائج اور نقصانات سے کسی نہ کسی حد تک بچائو کی صورت پیدا کر سکتی ہے۔
سلامت روی: اپنے اہلِ خانہ کو ''احمقانہ بہادری'' سے دور رکھیں، لوگ عام طور پر بے پرواہی کو جرأت اور بہادری کا مظہر سمجھتے ہیں، حالاںکہ محتاط رہنے ہی میں دانش مندی ہے۔ خطرناک جگہوں اور جرائم پیشہ افراد کی زد میں آئے ہوئے علاقوں سے دور رہیں۔ اگر وہاں جانا ناگزیر ہو جائے تو اپنے تحفّظ ہی کو اپنی اوّل ترجیح رکھیں۔

باخبری: اپنے ماحول اور حالات سے باخبری ممکنہ خطرات کو نّوے فی صد کم کر دیتی ہے۔ باخبر رہنے میں ہم ریڈیو، ٹی وی اور موبائل فون سے مدد لے سکتے ہیں۔ ان کے علاوہ مختلف سرکاری ادارے بھی ہیں، جن سے ہم تازہ ترین معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ کہیں آمدورفت سے پہلے ہی باخبر اور ہوشیار ہونا خطرات کو کم کرتا ہے۔

رابطہ: اکثر اندیشے ان ہونے ہوتے ہیں۔ لہٰذا اپنے اہلِ خانہ سے رابطے میں رہیں۔ خاص طور پر اس وقت جب روزمرہ کے معمولات میں دیر سویر ہو جائے یا شہر میں امن و امان کے مسائل ہوں۔ ایسی صورت میں صرف ایک ٹیلی فون کال آپ کے متعدد افرادِ خانہ اور عزیزوں کو تشویش اور خوف کے عذاب سے بچا سکتی ہے۔ ان کا ذہنی سکون آپ کی ضرورت بھی ہے اور ذمے داری بھی۔ اس سلسلے میں کبھی بے پرواہی نہ برتیں۔

سیکیوریِٹی اداروں سے تعاون: ایک اچھے شہری ہونے کے ناتے سیکیوریِٹی کے ادِاروں سے تعاون کریں۔ مشکوک افراد اور واقعات کی اطلاح فوراً دیں۔ اس طرح ہم بے شمار خطرات کا راستہ روک سکتے ہیں۔ اگر کہیں کوئی خطرناک واقعہ ہو بھی جائے تو حالات سے نمٹنے میں سیکیوریٹی اور دیگر متعلقہ اداروں کی مکمل اور فوری معاونت کرنی چاہیے۔ اس طرح نقصانات کو کم سے کم رکھنے میں مدد ملے گی۔

دعائیں: اپنے دین اور مذہب کے مطابق دعائوں کا اہتمام کیجیے۔ کبھی نہ بھولیے کہ ربّ کریم کی طرف سے حفاظت ہی سب سے زیادہ موثر اور کامِل حفاظت ہے۔ اس کی ذات مسببِ الاسباب ہے۔ جب ہم اپنی مشکلات کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہیں تو خوف اور تشویش سے نجات ملتی ہے اور ذہنی سکون ملتا ہے۔ ہماری روح کو تازگی ملتی ہے اور ہم میں مشکلات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ مایوسی کے بادل چھٹ جاتے ہیں۔ آخر کار توکّل اور امید کی دنیا میں پہنچ کر کام یابی سے ہم کنار ہوتے ہیں۔

یاد رکھیے خوف کا لبادہ اوڑھنا احساسات و جذبات کی موت ہے جس میں انسان ہر لمحہ ہر ساعت جیتا مرتا ہے۔ زندگی محض غموں کا نہیں خوشیوں کا بھی نام ہے اور یہ خوشیاں آپ کے لیے ہی نہیں، آپ کے ساتھ چلنے والے دوسرے افراد کے لیے بھی اتنی ہی ضروری ہیں۔ کہتے ہیں گھر کا سکون عورت کی سمجھ داری میں پوشیدہ ہے۔ اپنا خیال رکھیے اپنی شخصیت کو بے جا خوف اور دہشت سے آزاد کر کے مضبوط بنائیے، تاکہ آپ اور آپ کے رشتے دار پرسکون زندگی گزار سکیں۔
Load Next Story