سرمایہ کاروں کو ’بھکاری‘ بنانے والا سرکاری ادارہ
کہنے کو تو قطار میں کھڑے افراد سرمایہ کار ہوتے ہیں لیکن اپنے ہی پیسے لینے کیلئے بھکاریوں کی طرح گھنٹوں انتظار کرتے ہیں
LONDON:
یہ بات ہے 1873ء میں برطانیہ کے دورِ حکومت کی جب پہلی مرتبہ سرکاری بچت بینک متعارف کروایا گیا، جسے بعد میں ہم نے قومی بچت مرکز بنایادیا۔ یہ وہ ادارہ ہے جہاں پاکستانیوں کےعلاوہ دیارِ غیر میں مقیم پاکستانیوں کی کثیر تعداد سرمایہ کاری کرتی ہے۔ اس ادارے پر لوگوں کا اعتماد اس کا سرکاری سرپرستی حاصل ہونا ہے۔ لوگ اپنے سرمایہ کو اس ادارے میں محفوظ سمجھتے ہیں، یہ ادارہ سرمایہ کاری کے لئے کئی اسکیمیں متعارف کراتا ہے۔ جس میں سب سے زیادہ ماہانہ منافع دینے والی اسکیموں میں سے ایک پینشن بینیفٹ اسکیم اور دوسری بہبود اسکیم ہے جس میں ریٹائیرڈ ملازمین اور سینئیر شہری سرمایہ کاری کرتے ہیں۔
اس میں کسی قسم کی کوئی دوسری رائے نہیں کہ اس ادارے سے زیادہ پاکستان کے کسی ادارے میں اعتماد کے ساتھ سرمایہ کاری نہیں کی جاتی، لیکن افسوس کے اس کہ باوجود یہاں سرمایہ کاری کرنے والوں کو بنیادی سہولیات میسر نہیں جو ان کا بنیادی حق ہے۔ زیادہ تر مراکز میں لوگ صبح سات بجے سے مرکزی دروازے پر قطار بنا کر کھڑے ہوتے ہیں جہاں مراکز کھلنے سے پہلے ہی انہیں ٹوکن نمبر دیا جاتا ہے، پھر مراکز کے کھلنے کے بعد ایک قطار بنائی جاتی، اپنی پاس بک جمع کرانے کے لئے اور پھر مزید ایک قطار بنائی جاتی ہے جس کے بعد مرحلہ آتا ہے منافع کے حصول کے لئے لائن میں کھڑے ہونے کا۔ غرض یہ کہ ایک فرد تین مختلف قطاروں میں کھڑا ہوتا ہے تب جا کر اسے اس کی رقم ملتی ہے۔
ان مراکز میں ضعیف العمر خواتین اور حضرات کی ایک کثیر تعداد ہوتی ہے جو کہنے کو تو سرمایہ کار ہوتے ہیں اور اپنی جمع پونجی حکومت پاکستان کے حوالے کرتے ہیں، لیکن اپنے ہی پیسے ملنے والے منافع کے حصول کے لئے بھکاریوں کی طرح قطار میں کھڑے ہوتے ہیں۔ ریکارڈ سرمایہ حاصل کرنے والا یہ ادارہ اس جدید دور میں بھی بڑے بڑے رجسٹروں کا محتاج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کھاتے داروں کا ریکارڈ دیکھنے اور انٹری کرنے میں خاصہ وقت لگ جاتا ہے۔ بیشتر مراکز میں ٹوکن مشینیں ہی نہیں ہیں، ہاتھ سے لکھی پرچیاں ٹوکن کے لئے استعمال کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں بینکنگ کی جدید ترین سہولیات ہونے کے باوجود اس ادارے کو آن قطار نہیں کیا گیا۔ جس کی وجہ سے ضعیف العمر لوگوں کو کئی کئی گھنٹے اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
ان سب کوتاہیوں کے باوجود لوگ اس ادارے میں سرمایہ کاری کرتے ہیں کیوںکہ ان کے پاس کوئی دوسرا آپشن ہے ہی نہیں۔ اگر اس اہم سرکاری ادارے میں چند بنیادی سہولیات میسر کردی جائیں تو کافی حد تک کھاتے داروں کی شکایات کا ازالہ ممکن ہوسکے گا۔
جیسے تمام کھاتوں کو کمپیوٹرائز کردیا جائے، خود کار ٹوکن مشینوں کی تنصیب، اے ٹی ایم کارڈ کی سہولت، کھاتے داروں کے چیک کی بینک اکاؤنٹ میں جمع کرانے کی سہولت، کھاتے داروں کے منافع کو ان کے بینک اکاؤنٹ میں منتقل کرنے کی سہولت اور حکومت پاکستان کے اعلان کے مطابق بزرگ شہریوں کے الگ کاؤنٹر، یہ وہ بنیادی سہولیات ہیں جو کھاتے داروں کو فراہم کرکے ان مراکز سے بے انتہا رش کو ختم کیا جاسکتا ہے بلکہ سرمایہ کاروں کی رقم ان تک پہنچانے کے عمل کو تیز تر اور محفوظ بھی کیا جاسکتا ہے۔
یہ سب کہنے کے بعد میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ جب ہمارے پاس اِن مسائل کا حل موجود ہے تو ایسا نہیں کہ مرکز قومی بچت والوں کو اِس بات کا علم نہیں ہوگا، بلکہ اُن کے پاس تو اِن مسائل کا مندرجہ بالہ بتائے گئے حل سے بھی بہتر حل موجود ہوگا، لیکن بس ضرورت تو اس امر کی ہے کہ لوگوں کی مشکلات کا احساس کرتے ہوئے اُن کو عملی شکل دی جائے۔
یہ بات ہے 1873ء میں برطانیہ کے دورِ حکومت کی جب پہلی مرتبہ سرکاری بچت بینک متعارف کروایا گیا، جسے بعد میں ہم نے قومی بچت مرکز بنایادیا۔ یہ وہ ادارہ ہے جہاں پاکستانیوں کےعلاوہ دیارِ غیر میں مقیم پاکستانیوں کی کثیر تعداد سرمایہ کاری کرتی ہے۔ اس ادارے پر لوگوں کا اعتماد اس کا سرکاری سرپرستی حاصل ہونا ہے۔ لوگ اپنے سرمایہ کو اس ادارے میں محفوظ سمجھتے ہیں، یہ ادارہ سرمایہ کاری کے لئے کئی اسکیمیں متعارف کراتا ہے۔ جس میں سب سے زیادہ ماہانہ منافع دینے والی اسکیموں میں سے ایک پینشن بینیفٹ اسکیم اور دوسری بہبود اسکیم ہے جس میں ریٹائیرڈ ملازمین اور سینئیر شہری سرمایہ کاری کرتے ہیں۔
اس میں کسی قسم کی کوئی دوسری رائے نہیں کہ اس ادارے سے زیادہ پاکستان کے کسی ادارے میں اعتماد کے ساتھ سرمایہ کاری نہیں کی جاتی، لیکن افسوس کے اس کہ باوجود یہاں سرمایہ کاری کرنے والوں کو بنیادی سہولیات میسر نہیں جو ان کا بنیادی حق ہے۔ زیادہ تر مراکز میں لوگ صبح سات بجے سے مرکزی دروازے پر قطار بنا کر کھڑے ہوتے ہیں جہاں مراکز کھلنے سے پہلے ہی انہیں ٹوکن نمبر دیا جاتا ہے، پھر مراکز کے کھلنے کے بعد ایک قطار بنائی جاتی، اپنی پاس بک جمع کرانے کے لئے اور پھر مزید ایک قطار بنائی جاتی ہے جس کے بعد مرحلہ آتا ہے منافع کے حصول کے لئے لائن میں کھڑے ہونے کا۔ غرض یہ کہ ایک فرد تین مختلف قطاروں میں کھڑا ہوتا ہے تب جا کر اسے اس کی رقم ملتی ہے۔
ان مراکز میں ضعیف العمر خواتین اور حضرات کی ایک کثیر تعداد ہوتی ہے جو کہنے کو تو سرمایہ کار ہوتے ہیں اور اپنی جمع پونجی حکومت پاکستان کے حوالے کرتے ہیں، لیکن اپنے ہی پیسے ملنے والے منافع کے حصول کے لئے بھکاریوں کی طرح قطار میں کھڑے ہوتے ہیں۔ ریکارڈ سرمایہ حاصل کرنے والا یہ ادارہ اس جدید دور میں بھی بڑے بڑے رجسٹروں کا محتاج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کھاتے داروں کا ریکارڈ دیکھنے اور انٹری کرنے میں خاصہ وقت لگ جاتا ہے۔ بیشتر مراکز میں ٹوکن مشینیں ہی نہیں ہیں، ہاتھ سے لکھی پرچیاں ٹوکن کے لئے استعمال کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں بینکنگ کی جدید ترین سہولیات ہونے کے باوجود اس ادارے کو آن قطار نہیں کیا گیا۔ جس کی وجہ سے ضعیف العمر لوگوں کو کئی کئی گھنٹے اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
ان سب کوتاہیوں کے باوجود لوگ اس ادارے میں سرمایہ کاری کرتے ہیں کیوںکہ ان کے پاس کوئی دوسرا آپشن ہے ہی نہیں۔ اگر اس اہم سرکاری ادارے میں چند بنیادی سہولیات میسر کردی جائیں تو کافی حد تک کھاتے داروں کی شکایات کا ازالہ ممکن ہوسکے گا۔
جیسے تمام کھاتوں کو کمپیوٹرائز کردیا جائے، خود کار ٹوکن مشینوں کی تنصیب، اے ٹی ایم کارڈ کی سہولت، کھاتے داروں کے چیک کی بینک اکاؤنٹ میں جمع کرانے کی سہولت، کھاتے داروں کے منافع کو ان کے بینک اکاؤنٹ میں منتقل کرنے کی سہولت اور حکومت پاکستان کے اعلان کے مطابق بزرگ شہریوں کے الگ کاؤنٹر، یہ وہ بنیادی سہولیات ہیں جو کھاتے داروں کو فراہم کرکے ان مراکز سے بے انتہا رش کو ختم کیا جاسکتا ہے بلکہ سرمایہ کاروں کی رقم ان تک پہنچانے کے عمل کو تیز تر اور محفوظ بھی کیا جاسکتا ہے۔
یہ سب کہنے کے بعد میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ جب ہمارے پاس اِن مسائل کا حل موجود ہے تو ایسا نہیں کہ مرکز قومی بچت والوں کو اِس بات کا علم نہیں ہوگا، بلکہ اُن کے پاس تو اِن مسائل کا مندرجہ بالہ بتائے گئے حل سے بھی بہتر حل موجود ہوگا، لیکن بس ضرورت تو اس امر کی ہے کہ لوگوں کی مشکلات کا احساس کرتے ہوئے اُن کو عملی شکل دی جائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔