ساس بہو کے خوش گوار تعلقات
ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ مذہب اور سماجی رسومات اکثر ایک دوسرے سے متصادم ہوجاتے ہیں.
KARACHI:
''سمیرا بیٹی! تمہارا شوہر فرید کا رویہ تمہارے ساتھ ٹھیک تو ہے۔'' نسیمہ خالہ نے اپنی نو بیاہتا بھانجی کو کریدا۔
''جی خالہ! وہ تو بہت اچھے ہیں، مگر اپنی ماں کی مرضی کے بغیر سانس بھی نہیں لیتے۔'' سمیرا کے چہرے پر پہلے تو شرم کی لالی ابھری، پھر اس میں سیاہی کی آمیزش ہو گئی۔
''امی! فرید بھائی شادی کے بعد بدلے تو نہیں؟'' نگار ماں سے جُڑ کر بیٹھی، سرگوشیاں کرنے لگی۔
''ہا ہا! بیوی کا غلام بنا ہوا ہے۔ اب اس گھر میں میری کیا حیثیت رہ گئی ہے۔'' جمیلہ بیگم نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا۔
ہمارے معاشرے میں ہمیشہ ہی سے ساس، بہو کے جھگڑے عام ہیں۔ بیٹے کی شادی کے بعد بیوی کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا شوہر صرف اس کا بن کے رہے اور ماں کو ایسا لگتا ہے کہ بیٹا اب ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ اس لیے وہ بہو کو نظرانداز کرتے ہوئے بیٹے پر اپنا تسلط قائم کرنے کی کوششیں شروع کردیتی ہے۔ یوں کھینچا تانی شروع ہوجاتی ہے، جو کبھی کبھی بڑے جھگڑے کی صورت بھی اختیار کر جاتی ہے۔
یہ وہ دل چسپ ''جنگ'' ہے، جن کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ دونوں خواتین یہ بات بھول جاتی ہیں کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہونے والے جھگڑے گھر کے پُرسکون ماحول کو تباہ کرکے رکھ دیتے ہیں، جس سے گھرکا ہر فرد متاثر ہوتا ہے۔ پھر ساس بہو کے جھگڑوں میں جیت فریقین کی نہیں ہوتی، بلکہ شیطان کی ہوتی ہے، جو ہر گھر میں فتنہ و فساد بپا کرنا چاہتا ہے۔
اصل میں ساری بات سوچ کی ہوتی ہے۔ ایک لڑکی جو اپنے شوہر کی خاطر سب کو چھوڑ کے ایک نئے گھر میں آتی ہے، اس کے دل میں بہت سے تحفظات ہوتے ہیں۔ وہ اس نئے بندھن کو مضبوط تر بنانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیتی ہے۔ کہتے ہیں کہ ''محبت اور جنگ میں سب جائز ہے'' کے مقولے پر عمل کرتے ہوئے کچھ ناسمجھ بہویں شوہر کو اپنا بنانے کے جنون میں بیٹے کا دل اس کے گھر والوں خصوصاً اس کی ماں سے برا کرنا شروع کردیتی ہیں، جس سے کبھی کبھی ماں کا محبت بھرا دل ٹوٹ جاتا ہے۔ اس وقت وہ یہ بات بھول جاتی ہے کہ اس دل میں اس کا شوہر بھی رہتا ہے۔ ماں کا دل اپنے بچے کے لیے بہت حساس ہوتا ہے اور اس کی خالص محبت ہر رشتے پر حاوی ہوتی ہے۔ اسی لیے وہ ہر بات دل پر لے لیتی ہے۔ ان حالات میں اسے آنے والی لڑکی یا بہو سے چڑ ہونے لگتی ہے اور یہیں سے لڑائیاں شروع ہوجاتی ہیں۔
اسی طرح بعض گھرانوں میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ بہو صرف نوکرانی بن کر ان کے گھر آئی ہے۔ شوہر کے سوا وہ گھر کے ہر فرد کی خدمت گزار ہے۔ اس کو سب کی ایک آواز پر دوڑنا چاہیے۔ خصوصاً جب یہ آواز ''ساسو ماں'' کی ہو۔ جو لڑکی سیدھی سادی ہوتی ہے وہ ''کوہلو کا بیل'' بن کر سر جھکا کر زندگی گزار دیتی ہیں۔ جو لڑکی تیزطرار ہوتی ہے، وہ سینہ ٹھونک کر میدان میں اتر آتی ہے اور پھر ساس بہو کے درمیان جم کر مقابلہ ہوتا ہے۔ لڑکا ریفری بن کر ان دونوں کے بیچ میں پستا رہتا ہے۔
ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ مذہب اور سماجی رسومات اکثر ایک دوسرے سے متصادم ہوجاتے ہیں۔ ایک روشن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے دین کے احکامات انسانی نفسیات کے مطابق ہیں۔ تاہم ہماری بد قسمتی ان سے لاعلمی ہے۔ ان جگہوں پر جہاں ہمیں مذہب سے راہ نمائی لینی چاہیے، وہاں ہم زمانے میں رائج رسم و رواج پر جان دے رہے ہوتے ہیں۔ ساس بہو کے تعلقات کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ جب توازن کھو دیتا ہے تو کھٹ پٹ شروع ہوجاتی ہے، جس میں کبھی ساس جیت جاتی ہے، تو کبھی بہو فاتح ہوتی ہے۔
ہمارے مذہب میں بہو پر یہ فرض نہیں ہے کہ وہ شوہر کے گھر والوں کی خدمت کرے، سب کے لیے کھانے بنائے، کپڑے دھوئے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اگر وہ ایسا کرتی ہے تو یہ باعثِ ثواب اور اس کی اخلاق کی بلندی ہے۔ شوہر کے والدین کی خدمت کرکے اگر وہ اپنے شوہر کا دل خوش کرتی ہے، تو اس کا بھی بڑا اجر ہے مگر شوہر ان کاموں کے لیے اسے مجبور نہیں کر سکتا۔ اس طرح وہ اگر وہ شوہر سے علیحدہ گھر کا مطالبہ کرتی ہے تو پھر شوہر کا فرض ہے کہ وہ اسے ایک الگ گھر لے کر دے۔
نہ صرف مشرق میں بلکہ مغرب میں بھی ساس اور بہو کے جھگڑے ایک المیہ کی شکل اختیار کرگئے ہیں۔ اسی وجہ سے وہاں اولڈ ہائوسز کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے۔ بچے جوان ہوکر باختیار ہوجاتے ہیں۔ پھر وہ صرف اپنی بیوی بچوں کے لیے کماتے ہیں۔ ہاں والدین کے لیے ان کے پاس بس کچھ دن ہوتے ہیں، جیسے مدرز ڈے، فادرز ڈے یا کرسمس۔
تاہم ہمارے معاشرے میں ایسے بہت سے گھرانے موجود ہیں، جہاں اخلاقیات زندہ ہے۔ ان گھروالوں کا شمار خو ش قسمت لوگوں میں ہوتا ہے، جہاں بڑوں کی عزت کی جاتی ہے اور چھوٹوں سے شفقت بھرا رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ وہاں ساس بہو کے درمیان جھگڑے نہیں ہوتے۔ معمولی نوعیت کے اختلافات ہوتے ہیں، جو باہمی مشاورت سے حل کرلیے جاتے ہیں۔ اگر ہم سب اپنی اپنی ذمے داریاں بہ خوبی ادا کریں، اپنے حقوق اور فرائض کا خیال رکھیں، تو گھر جنت کا نمونہ بن سکتا ہے۔
''سمیرا بیٹی! تمہارا شوہر فرید کا رویہ تمہارے ساتھ ٹھیک تو ہے۔'' نسیمہ خالہ نے اپنی نو بیاہتا بھانجی کو کریدا۔
''جی خالہ! وہ تو بہت اچھے ہیں، مگر اپنی ماں کی مرضی کے بغیر سانس بھی نہیں لیتے۔'' سمیرا کے چہرے پر پہلے تو شرم کی لالی ابھری، پھر اس میں سیاہی کی آمیزش ہو گئی۔
''امی! فرید بھائی شادی کے بعد بدلے تو نہیں؟'' نگار ماں سے جُڑ کر بیٹھی، سرگوشیاں کرنے لگی۔
''ہا ہا! بیوی کا غلام بنا ہوا ہے۔ اب اس گھر میں میری کیا حیثیت رہ گئی ہے۔'' جمیلہ بیگم نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا۔
ہمارے معاشرے میں ہمیشہ ہی سے ساس، بہو کے جھگڑے عام ہیں۔ بیٹے کی شادی کے بعد بیوی کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا شوہر صرف اس کا بن کے رہے اور ماں کو ایسا لگتا ہے کہ بیٹا اب ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ اس لیے وہ بہو کو نظرانداز کرتے ہوئے بیٹے پر اپنا تسلط قائم کرنے کی کوششیں شروع کردیتی ہے۔ یوں کھینچا تانی شروع ہوجاتی ہے، جو کبھی کبھی بڑے جھگڑے کی صورت بھی اختیار کر جاتی ہے۔
یہ وہ دل چسپ ''جنگ'' ہے، جن کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ دونوں خواتین یہ بات بھول جاتی ہیں کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہونے والے جھگڑے گھر کے پُرسکون ماحول کو تباہ کرکے رکھ دیتے ہیں، جس سے گھرکا ہر فرد متاثر ہوتا ہے۔ پھر ساس بہو کے جھگڑوں میں جیت فریقین کی نہیں ہوتی، بلکہ شیطان کی ہوتی ہے، جو ہر گھر میں فتنہ و فساد بپا کرنا چاہتا ہے۔
اصل میں ساری بات سوچ کی ہوتی ہے۔ ایک لڑکی جو اپنے شوہر کی خاطر سب کو چھوڑ کے ایک نئے گھر میں آتی ہے، اس کے دل میں بہت سے تحفظات ہوتے ہیں۔ وہ اس نئے بندھن کو مضبوط تر بنانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیتی ہے۔ کہتے ہیں کہ ''محبت اور جنگ میں سب جائز ہے'' کے مقولے پر عمل کرتے ہوئے کچھ ناسمجھ بہویں شوہر کو اپنا بنانے کے جنون میں بیٹے کا دل اس کے گھر والوں خصوصاً اس کی ماں سے برا کرنا شروع کردیتی ہیں، جس سے کبھی کبھی ماں کا محبت بھرا دل ٹوٹ جاتا ہے۔ اس وقت وہ یہ بات بھول جاتی ہے کہ اس دل میں اس کا شوہر بھی رہتا ہے۔ ماں کا دل اپنے بچے کے لیے بہت حساس ہوتا ہے اور اس کی خالص محبت ہر رشتے پر حاوی ہوتی ہے۔ اسی لیے وہ ہر بات دل پر لے لیتی ہے۔ ان حالات میں اسے آنے والی لڑکی یا بہو سے چڑ ہونے لگتی ہے اور یہیں سے لڑائیاں شروع ہوجاتی ہیں۔
اسی طرح بعض گھرانوں میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ بہو صرف نوکرانی بن کر ان کے گھر آئی ہے۔ شوہر کے سوا وہ گھر کے ہر فرد کی خدمت گزار ہے۔ اس کو سب کی ایک آواز پر دوڑنا چاہیے۔ خصوصاً جب یہ آواز ''ساسو ماں'' کی ہو۔ جو لڑکی سیدھی سادی ہوتی ہے وہ ''کوہلو کا بیل'' بن کر سر جھکا کر زندگی گزار دیتی ہیں۔ جو لڑکی تیزطرار ہوتی ہے، وہ سینہ ٹھونک کر میدان میں اتر آتی ہے اور پھر ساس بہو کے درمیان جم کر مقابلہ ہوتا ہے۔ لڑکا ریفری بن کر ان دونوں کے بیچ میں پستا رہتا ہے۔
ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ مذہب اور سماجی رسومات اکثر ایک دوسرے سے متصادم ہوجاتے ہیں۔ ایک روشن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے دین کے احکامات انسانی نفسیات کے مطابق ہیں۔ تاہم ہماری بد قسمتی ان سے لاعلمی ہے۔ ان جگہوں پر جہاں ہمیں مذہب سے راہ نمائی لینی چاہیے، وہاں ہم زمانے میں رائج رسم و رواج پر جان دے رہے ہوتے ہیں۔ ساس بہو کے تعلقات کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ جب توازن کھو دیتا ہے تو کھٹ پٹ شروع ہوجاتی ہے، جس میں کبھی ساس جیت جاتی ہے، تو کبھی بہو فاتح ہوتی ہے۔
ہمارے مذہب میں بہو پر یہ فرض نہیں ہے کہ وہ شوہر کے گھر والوں کی خدمت کرے، سب کے لیے کھانے بنائے، کپڑے دھوئے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اگر وہ ایسا کرتی ہے تو یہ باعثِ ثواب اور اس کی اخلاق کی بلندی ہے۔ شوہر کے والدین کی خدمت کرکے اگر وہ اپنے شوہر کا دل خوش کرتی ہے، تو اس کا بھی بڑا اجر ہے مگر شوہر ان کاموں کے لیے اسے مجبور نہیں کر سکتا۔ اس طرح وہ اگر وہ شوہر سے علیحدہ گھر کا مطالبہ کرتی ہے تو پھر شوہر کا فرض ہے کہ وہ اسے ایک الگ گھر لے کر دے۔
نہ صرف مشرق میں بلکہ مغرب میں بھی ساس اور بہو کے جھگڑے ایک المیہ کی شکل اختیار کرگئے ہیں۔ اسی وجہ سے وہاں اولڈ ہائوسز کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے۔ بچے جوان ہوکر باختیار ہوجاتے ہیں۔ پھر وہ صرف اپنی بیوی بچوں کے لیے کماتے ہیں۔ ہاں والدین کے لیے ان کے پاس بس کچھ دن ہوتے ہیں، جیسے مدرز ڈے، فادرز ڈے یا کرسمس۔
تاہم ہمارے معاشرے میں ایسے بہت سے گھرانے موجود ہیں، جہاں اخلاقیات زندہ ہے۔ ان گھروالوں کا شمار خو ش قسمت لوگوں میں ہوتا ہے، جہاں بڑوں کی عزت کی جاتی ہے اور چھوٹوں سے شفقت بھرا رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ وہاں ساس بہو کے درمیان جھگڑے نہیں ہوتے۔ معمولی نوعیت کے اختلافات ہوتے ہیں، جو باہمی مشاورت سے حل کرلیے جاتے ہیں۔ اگر ہم سب اپنی اپنی ذمے داریاں بہ خوبی ادا کریں، اپنے حقوق اور فرائض کا خیال رکھیں، تو گھر جنت کا نمونہ بن سکتا ہے۔