پاک بھارت ویزا پالیسی
پاک بھارت ویزا پالیسی کا اجراء بڑی شان سے ہوا تھا لیکن افسوس کہ عمل درآمد نہیں ہوا ۔
پتہ نہیں کیوں ہزارکوششوں کے باوجود، بے شمار وفود کے تبادلوں کے باوجود،ادیبوں،شاعروں،دانشوروں، صحافیوں اور فنکاروں کی خواہش کے باوجود،بھارت اور پاکستان کے درمیان گزشتہ کئی طویل ماہ سے پہلے نہایت دھوم دھڑکے سے طے پائی جانے والی '' ویزا پالیسی'' ابھی تک وہیں پڑی ہے،جہاں سالوں پہلے اجمل قصاب کی درندگی کے بعد پڑی تھی۔
یعنی وہی ڈھاک کے تین پات والا معاملہ ہے ۔ ایک طرف دونوں ممالک بظاہر تجارتی پالیسی پہ کسی حد تک عمل درآمد کر رہے ہیں۔ کرکٹ ڈپلومیسی بھی ساتھ ساتھ چل رہی ہے۔ امن کی فاختائیں بھی صرف اخباری صفحات میں پرواز کر رہی ہیں۔ دوچار صحافی بھی اپنے اپنے اخبار کی پبلسٹی کے لیے دورے کر رہے ہیں ۔ موسیقی کے پروگرام بھی صرف اپنی ریٹنگ اور بزنس بڑھانے کا چکر ہے جب کہ عام آدمی کے لیے صورت حال وہی پرانی تکلیف دہ ہے ۔
پاک بھارت ویزا پالیسی پر میں نے بہت سے کالم لکھے ہیں اوران تمام کالموں کو انڈین ہائی کمیشن کے دفتر بھی بھیجا ہے ،انڈیا کی وزارت خارجہ کو بھی بھیجا اورصدر منموہن سنگھ کو بھی کاپیاں ارسال کیں۔ جس کا نتیجہ صرف اتنا نکلا کہ وہاں کے ذمے دار اور امن کے خواہاں وزیر نے (نام اس وقت یاد نہیں آرہا ) بیان دیا کہ ... یہ سچ ہے کہ اجمل قصاب اور اس کے دہشت گرد، ظالم اور وحشی ساتھی ویزا لے کر ممبئی نہیں آئے تھے اس لیے اس بات کو بنیاد بنا کر عام لوگوں کو ایک دوسرے سے ملنے نہ دینا زیادتی ہوگی۔
افسوس اس کا بھی ہے اور بہت زیادہ ہے کہ معصوم شہریوں، بوڑھوں اور بچوں کو بربریت کا نشانہ بنانے والے خود کو مسلمان کہتے ہیں۔ لیکن یہ مسلمان ہرگز نہیں ہیں ۔ بلکہ ان کے صرف نام مسلمانوں والے ہیں۔ بھارت کو یہ بات سمجھنا چاہیے کہ پاکستان تو خود دہشت گردی کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ جن ناپاک اوربے ضمیر قوتوں نے اجمل قصاب اور اس کے ساتھیوں کو تاج ہوٹل پہ حملے کے لیے بھیجا تھا وہی پاکستان میں مسجدوں،گرجا اور مندروں پہ بھی حملوں میں ملوث ہیں۔ کیوں کہ کسی بھی دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ دہشت گردوں اور ان کے ''گاڈ فادرز'' کا مذہب صرف اور صرف ''ڈالرز، دینار، درہم اور یورو'' ہوتے ہیں، کیا بھارت کے اندر ایسے انتہا پسند موجود نہیں ہیں؟ اگر اس کا جواب ''ہاں'' میں ہے۔ تو بھارت کو بھی پاکستان کی مجبوریوں کا احساس کرنا چاہیے۔ بھارت تو پھر بھی اپنی جمہوریت اور طاقت کی بناء پر ایسے عناصر کی بیخ کنی کر سکتا ہے کہ وہاں جرائم پیشہ گروہوں کی سرپرستی اس طرح نہیں کی جاتی جیسی بدقسمت پاکستان میں۔
ہماری موجودہ حکومت خواہ، بجلی، پانی لوڈ شیڈنگ ، مہنگائی اور کرپشن کے معاملے میں ناکام ہوچکی ہو، لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہ اپنی تمام تر ''مجبوریوں'' کے باوجود بھارت سے تعلقات استوار کرنے میں مخلص ہے ۔ جب کہ پہلی حکومتوں نے دعویٰ تو بہت کیے کہ وہ بھارتی ویزا آفس کراچی میں کھلوا دیں گے۔ لیکن یہ وعدے محض ووٹ لینے کے لیے ہوتے ہیں۔ ن لیگ کے سربراہ نے بھی الیکشن سے پہلے کراچی کے لوگوں سے یہی کہا تھا کہ ویزے کے لیے اب انھیں دربدر دھکے نہیں کھانے پڑیں گے ، اسلام آباد کا تکلیف دہ سفر نہیں کرنا پڑے گا۔ کورئیر والوں کو منہ بھر کے رقم نہیں دینی پڑے گی۔ لیکن میاں صاحب وزیراعظم بنتے ہی سب کچھ بھول گئے۔جب کہ ہم تو ہزاربار شہباز شریف کے لیے دعا کرتے ہیں کہ کاش ایک شہباز شریف وزیراعلیٰ سندھ کی صورت میں ہمیں بھی مل جائے۔
پاک بھارت ویزا پالیسی کا اجراء بڑی شان سے ہوا تھا کہ اب تو صحافیوں ، ادیبوں اور شاعروں کو ٹورسٹ ویزا بھی ملے گا وہ بھی کم از کم چھ شہروں کا ۔ 65سال سے زائد عمر کے شہریوں کو چھان بین کے بعد واہگہ اور اٹاری پر ہی ڈیڑھ ماہ کا ویزا ملے گا، وغیرہ وغیرہ وغیرہ... لیکن افسوس کہ ان میں سے کسی بات پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ 4 نومبر کے اخبارات میں بھارتی وزیر داخلہ سوشیل کمار کا بیان اخبارات میں چھپا ہے کہ ''بھارت پاکستانیوں کے لیے ویزا پراسیس میں ترامیم پر تیار ہے مگر اطلاعات یہ ہیں کہ پاکستان ابھی ویزا میں نرمی دینے کو تیار نہیں ۔'' دوسری طرف چند دن قبل پاکستانی حکومت کی جانب سے یہ بیان بھی سامنے آیا ہے کہ پاکستان کی وفاقی کابینہ نے ویزا پالیسی پہ عمل درآمد کی منظوری دے دی ہے۔ اب معلوم نہیں کون سچ کہہ رہا ہے اور کون غلط۔ یہ حکومتوں کے معاملے ہیں جن میں عام طور پر 80 فیصد غلط بیانی سے کام لے کر عوام کو خوش فہمی میں مبتلا کر دیا جاتا ہے ۔ یہی صورت آج کل دونوں پڑوسی ملکوں کے عوام کی ہے ۔
میرے پاس بڑے عرصے سے تفصیلی فون آرہے ہیں ۔ اتوار کی شب اس سلسلے میں دو فون آئے ایک افضل حسین کا جن کی بیگم کا میکہ بھوپال میں ہے۔ وہاں ان کے والد اور والدہ دونوں کا انتقال ہوگیا۔ لیکن انھیں ویزا نہیں ملا۔ نئی ویزا پالیسی تو محض ہواؤں میں تخلیق کی گئی ہے۔ البتہ پرانی ویزا پالیسی میں دیگر کوائف اور کاغذات کے ساتھ ساتھ اب سروس کارڈ بھی منگوایا جا رہا ہے جو کہ بھارتی رشتے دار کسی قیمت پہ بھی دینے کو تیار نہیں ۔ کیوں کہ وہ لوگ جہادی جماعتوں کی دہشت گردی اور ممبئی حملوں کے بعد اتنے خوف زدہ ہیں کہ اب وہ پاکستان رشتے داروں کو اپنے کوائف بھیجنے کو تیار نہیں۔ ظاہر ہے وہ غلط نہیں ہیں کہ ''دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کے پیتا ہے۔''
دوسرا فون عارفہ امداد علی کا تھا جو بیاہ کر 25 سال پہلے لاہور آئیں اور پانچ سال بعد پہلی بار لدھیانہ گئیں۔ اپنے شوہر اور بچوں کو لے کر وہ انڈیا گئیں ، آگرہ گئیں اجمیر گئیں، دلی گئیں، حیدرآباد دکن گئیں لیکن یہ سلسلہ صرف 1996 تک چلا۔ پھر وہ 2004 میں صرف لدھیانہ جا سکیں کہیں اور کا ویزا نہیں ملا۔ اور اب تو جیسے وہ کبھی اپنوں کو نہیں دیکھ سکیں گی کہ نہ وہ بھائی بہنوں کی شادی پہ جاسکیں نہ بھانجی اور بھتیجے کی شادی پر نہ ہی اپنی اماں کے مرنے پر ۔ ممبئی حملوں کے بعد یوں لگتا ہے جیسے ہر پاکستانی اجمل قصاب ہو۔
افضل حسین، عارفہ امداد علی، بختیار ڈومکی ، امان اﷲ خان، اور فریدہ پراچہ نے مشترکہ طور پر ایک شکایت درج کرائی ہے جس کا ذاتی تجربہ مجھے بھی ہے کہ انڈین ہائی کمیشن نہ تو کوئی فون کال ریسیو کرتا ہے نہ ہی کسی خط یا ای میل کا جواب دینا ضروری سمجھتا ہے۔ واں ایک خاموشی سب کے جواب ہیں والا معاملہ ہے، یہ طریقہ کسی طرح بھی مناسب نہیں کہ کاغذات رکھ کر صرف پاسپورٹ بغیر کوئی اعتراض لگائے واپس کر دیے جاتے ہیں ۔ پاکستانیوں کے ساتھ بھارتی ہائی کمیشن کا یہ نامناسب رویہ ناقابل فہم ہے۔
پیر کی رات 9 بجے کے خبرنامے میں بتایا گیا کہ عنقریب بھارت اور پاکستان کے وزرائے خارجہ انڈیا میں مشترکہ ویزا پالیسی کا اعلان کریں گے ۔ ...!! دیکھیں دوستی کی اس زنبیل سے اب کیا برآمد ہوتا ہے۔ کیوں کہ دھوم دھڑکا تو حنا ربانی کھر اور ایس ایم کرشنا کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں میں بھی بہت ہوا تھا۔ لیکن شاید خالی ڈھول پیٹا جا رہا تھا ... اب دیکھیے اس ملاقات سے کیا برآمد ہوتا ہے۔
کراچی میں ویزا آفس کھولنے میں ایم کیو ایم نے بھی کوئی کردار ادا نہیں کیا ۔اگر وہ اس جانب توجہ دیتی تو یقیناً ان کا ووٹ بینک بھی بڑھ جاتا لیکن ان کی ترجیحات شاید کچھ اور ہیں ۔ عوام کی تکالیف کا احساس کسی کو بھی نہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ووٹ لینے کے لیے سیاسی جماعتیں ہر حربہ استعمال کرتی ہیں لیکن عوام کے کسی ایسے معقول مطالبے کی طرف توجہ نہیں دیتیں جو خود بخود ان کا ووٹ بینک بڑھانے کا باعث بنے ۔ ہر شخص کو اپنی جنم بھومی دیکھنے کا حق ہے لیکن وہ جنم بھومی اگر پڑوسی ملک میں ہو تو اس میں لوگوں کا کیا قصور...؟ بھارت کو اپنا دل اور دماغ دونوں کشادہ کرنے کی ضرورت ہے ۔
یعنی وہی ڈھاک کے تین پات والا معاملہ ہے ۔ ایک طرف دونوں ممالک بظاہر تجارتی پالیسی پہ کسی حد تک عمل درآمد کر رہے ہیں۔ کرکٹ ڈپلومیسی بھی ساتھ ساتھ چل رہی ہے۔ امن کی فاختائیں بھی صرف اخباری صفحات میں پرواز کر رہی ہیں۔ دوچار صحافی بھی اپنے اپنے اخبار کی پبلسٹی کے لیے دورے کر رہے ہیں ۔ موسیقی کے پروگرام بھی صرف اپنی ریٹنگ اور بزنس بڑھانے کا چکر ہے جب کہ عام آدمی کے لیے صورت حال وہی پرانی تکلیف دہ ہے ۔
پاک بھارت ویزا پالیسی پر میں نے بہت سے کالم لکھے ہیں اوران تمام کالموں کو انڈین ہائی کمیشن کے دفتر بھی بھیجا ہے ،انڈیا کی وزارت خارجہ کو بھی بھیجا اورصدر منموہن سنگھ کو بھی کاپیاں ارسال کیں۔ جس کا نتیجہ صرف اتنا نکلا کہ وہاں کے ذمے دار اور امن کے خواہاں وزیر نے (نام اس وقت یاد نہیں آرہا ) بیان دیا کہ ... یہ سچ ہے کہ اجمل قصاب اور اس کے دہشت گرد، ظالم اور وحشی ساتھی ویزا لے کر ممبئی نہیں آئے تھے اس لیے اس بات کو بنیاد بنا کر عام لوگوں کو ایک دوسرے سے ملنے نہ دینا زیادتی ہوگی۔
افسوس اس کا بھی ہے اور بہت زیادہ ہے کہ معصوم شہریوں، بوڑھوں اور بچوں کو بربریت کا نشانہ بنانے والے خود کو مسلمان کہتے ہیں۔ لیکن یہ مسلمان ہرگز نہیں ہیں ۔ بلکہ ان کے صرف نام مسلمانوں والے ہیں۔ بھارت کو یہ بات سمجھنا چاہیے کہ پاکستان تو خود دہشت گردی کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ جن ناپاک اوربے ضمیر قوتوں نے اجمل قصاب اور اس کے ساتھیوں کو تاج ہوٹل پہ حملے کے لیے بھیجا تھا وہی پاکستان میں مسجدوں،گرجا اور مندروں پہ بھی حملوں میں ملوث ہیں۔ کیوں کہ کسی بھی دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ دہشت گردوں اور ان کے ''گاڈ فادرز'' کا مذہب صرف اور صرف ''ڈالرز، دینار، درہم اور یورو'' ہوتے ہیں، کیا بھارت کے اندر ایسے انتہا پسند موجود نہیں ہیں؟ اگر اس کا جواب ''ہاں'' میں ہے۔ تو بھارت کو بھی پاکستان کی مجبوریوں کا احساس کرنا چاہیے۔ بھارت تو پھر بھی اپنی جمہوریت اور طاقت کی بناء پر ایسے عناصر کی بیخ کنی کر سکتا ہے کہ وہاں جرائم پیشہ گروہوں کی سرپرستی اس طرح نہیں کی جاتی جیسی بدقسمت پاکستان میں۔
ہماری موجودہ حکومت خواہ، بجلی، پانی لوڈ شیڈنگ ، مہنگائی اور کرپشن کے معاملے میں ناکام ہوچکی ہو، لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہ اپنی تمام تر ''مجبوریوں'' کے باوجود بھارت سے تعلقات استوار کرنے میں مخلص ہے ۔ جب کہ پہلی حکومتوں نے دعویٰ تو بہت کیے کہ وہ بھارتی ویزا آفس کراچی میں کھلوا دیں گے۔ لیکن یہ وعدے محض ووٹ لینے کے لیے ہوتے ہیں۔ ن لیگ کے سربراہ نے بھی الیکشن سے پہلے کراچی کے لوگوں سے یہی کہا تھا کہ ویزے کے لیے اب انھیں دربدر دھکے نہیں کھانے پڑیں گے ، اسلام آباد کا تکلیف دہ سفر نہیں کرنا پڑے گا۔ کورئیر والوں کو منہ بھر کے رقم نہیں دینی پڑے گی۔ لیکن میاں صاحب وزیراعظم بنتے ہی سب کچھ بھول گئے۔جب کہ ہم تو ہزاربار شہباز شریف کے لیے دعا کرتے ہیں کہ کاش ایک شہباز شریف وزیراعلیٰ سندھ کی صورت میں ہمیں بھی مل جائے۔
پاک بھارت ویزا پالیسی کا اجراء بڑی شان سے ہوا تھا کہ اب تو صحافیوں ، ادیبوں اور شاعروں کو ٹورسٹ ویزا بھی ملے گا وہ بھی کم از کم چھ شہروں کا ۔ 65سال سے زائد عمر کے شہریوں کو چھان بین کے بعد واہگہ اور اٹاری پر ہی ڈیڑھ ماہ کا ویزا ملے گا، وغیرہ وغیرہ وغیرہ... لیکن افسوس کہ ان میں سے کسی بات پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ 4 نومبر کے اخبارات میں بھارتی وزیر داخلہ سوشیل کمار کا بیان اخبارات میں چھپا ہے کہ ''بھارت پاکستانیوں کے لیے ویزا پراسیس میں ترامیم پر تیار ہے مگر اطلاعات یہ ہیں کہ پاکستان ابھی ویزا میں نرمی دینے کو تیار نہیں ۔'' دوسری طرف چند دن قبل پاکستانی حکومت کی جانب سے یہ بیان بھی سامنے آیا ہے کہ پاکستان کی وفاقی کابینہ نے ویزا پالیسی پہ عمل درآمد کی منظوری دے دی ہے۔ اب معلوم نہیں کون سچ کہہ رہا ہے اور کون غلط۔ یہ حکومتوں کے معاملے ہیں جن میں عام طور پر 80 فیصد غلط بیانی سے کام لے کر عوام کو خوش فہمی میں مبتلا کر دیا جاتا ہے ۔ یہی صورت آج کل دونوں پڑوسی ملکوں کے عوام کی ہے ۔
میرے پاس بڑے عرصے سے تفصیلی فون آرہے ہیں ۔ اتوار کی شب اس سلسلے میں دو فون آئے ایک افضل حسین کا جن کی بیگم کا میکہ بھوپال میں ہے۔ وہاں ان کے والد اور والدہ دونوں کا انتقال ہوگیا۔ لیکن انھیں ویزا نہیں ملا۔ نئی ویزا پالیسی تو محض ہواؤں میں تخلیق کی گئی ہے۔ البتہ پرانی ویزا پالیسی میں دیگر کوائف اور کاغذات کے ساتھ ساتھ اب سروس کارڈ بھی منگوایا جا رہا ہے جو کہ بھارتی رشتے دار کسی قیمت پہ بھی دینے کو تیار نہیں ۔ کیوں کہ وہ لوگ جہادی جماعتوں کی دہشت گردی اور ممبئی حملوں کے بعد اتنے خوف زدہ ہیں کہ اب وہ پاکستان رشتے داروں کو اپنے کوائف بھیجنے کو تیار نہیں۔ ظاہر ہے وہ غلط نہیں ہیں کہ ''دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کے پیتا ہے۔''
دوسرا فون عارفہ امداد علی کا تھا جو بیاہ کر 25 سال پہلے لاہور آئیں اور پانچ سال بعد پہلی بار لدھیانہ گئیں۔ اپنے شوہر اور بچوں کو لے کر وہ انڈیا گئیں ، آگرہ گئیں اجمیر گئیں، دلی گئیں، حیدرآباد دکن گئیں لیکن یہ سلسلہ صرف 1996 تک چلا۔ پھر وہ 2004 میں صرف لدھیانہ جا سکیں کہیں اور کا ویزا نہیں ملا۔ اور اب تو جیسے وہ کبھی اپنوں کو نہیں دیکھ سکیں گی کہ نہ وہ بھائی بہنوں کی شادی پہ جاسکیں نہ بھانجی اور بھتیجے کی شادی پر نہ ہی اپنی اماں کے مرنے پر ۔ ممبئی حملوں کے بعد یوں لگتا ہے جیسے ہر پاکستانی اجمل قصاب ہو۔
افضل حسین، عارفہ امداد علی، بختیار ڈومکی ، امان اﷲ خان، اور فریدہ پراچہ نے مشترکہ طور پر ایک شکایت درج کرائی ہے جس کا ذاتی تجربہ مجھے بھی ہے کہ انڈین ہائی کمیشن نہ تو کوئی فون کال ریسیو کرتا ہے نہ ہی کسی خط یا ای میل کا جواب دینا ضروری سمجھتا ہے۔ واں ایک خاموشی سب کے جواب ہیں والا معاملہ ہے، یہ طریقہ کسی طرح بھی مناسب نہیں کہ کاغذات رکھ کر صرف پاسپورٹ بغیر کوئی اعتراض لگائے واپس کر دیے جاتے ہیں ۔ پاکستانیوں کے ساتھ بھارتی ہائی کمیشن کا یہ نامناسب رویہ ناقابل فہم ہے۔
پیر کی رات 9 بجے کے خبرنامے میں بتایا گیا کہ عنقریب بھارت اور پاکستان کے وزرائے خارجہ انڈیا میں مشترکہ ویزا پالیسی کا اعلان کریں گے ۔ ...!! دیکھیں دوستی کی اس زنبیل سے اب کیا برآمد ہوتا ہے۔ کیوں کہ دھوم دھڑکا تو حنا ربانی کھر اور ایس ایم کرشنا کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں میں بھی بہت ہوا تھا۔ لیکن شاید خالی ڈھول پیٹا جا رہا تھا ... اب دیکھیے اس ملاقات سے کیا برآمد ہوتا ہے۔
کراچی میں ویزا آفس کھولنے میں ایم کیو ایم نے بھی کوئی کردار ادا نہیں کیا ۔اگر وہ اس جانب توجہ دیتی تو یقیناً ان کا ووٹ بینک بھی بڑھ جاتا لیکن ان کی ترجیحات شاید کچھ اور ہیں ۔ عوام کی تکالیف کا احساس کسی کو بھی نہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ووٹ لینے کے لیے سیاسی جماعتیں ہر حربہ استعمال کرتی ہیں لیکن عوام کے کسی ایسے معقول مطالبے کی طرف توجہ نہیں دیتیں جو خود بخود ان کا ووٹ بینک بڑھانے کا باعث بنے ۔ ہر شخص کو اپنی جنم بھومی دیکھنے کا حق ہے لیکن وہ جنم بھومی اگر پڑوسی ملک میں ہو تو اس میں لوگوں کا کیا قصور...؟ بھارت کو اپنا دل اور دماغ دونوں کشادہ کرنے کی ضرورت ہے ۔