انتظار حسین … یادیں اور باتیں

منیر نیازی کی مشہور نظم یاد آ رہی ہے‘ جس کا عنوان ہے ’’ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں‘‘۔

latifch910@yahoo.com

منیر نیازی کی مشہور نظم یاد آ رہی ہے' جس کا عنوان ہے ''ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں''۔ یہ نظم اس لیے یاد آئی کہ انتظار حسین کو اس جہان رنگ بو سے رخصت ہوئے تقریباً ایک ماہ ہونے والا ہے' میرا ان سے تعلق تھا لیکن میں ان کے بارے میں اپنے احساسات قلمبند نہ کر سکا' زندگی کے شب و روز بعض اوقات ایسی کروٹ لیتے ہیں کہ جو کام بعد میں کرنے والے ہوتے ہیں' انھیں پہلے کرنا پڑ جاتا ہے اور جو فوری عمل کا تقاضا کرتے ہیں' ان میں تاخیر ہوتی چلی جاتی ہے' بہر حال جب منیر نیازی جیسا بے بدل شاعر بھی یہ کہتا ہے کہ ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں تو پھر دل کو تسلی ہوتی ہے کہ چلو دیر ہی ہوئی ہے' ایسا تو نہیں کہ اس تاخیر کا ازالہ نہ کیا جا سکے۔

انتظار حسین کی شخصیت اور ان کے فن پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور لکھا جاتا رہے گا' ایکسپریس میں جب انھوں نے کالم کا آغاز کیا تو میرا پہلی بار ان سے براہ راست رابطہ ہوا' پہلے میں انھیں ان کی تحریروں کے حوالے سے جانتا اور پہچانتا تھا' اب براہ راست تعلق پیدا ہو گیا تھا لہٰذا میں ان کے بارے میں اپنے ذاتی مشاہدے کو بیان کروں گا۔ انتظار حسین وقت کی پابندی کا بہت خیال رکھتے تھے' مجھ سے انھوں نے پوچھا کہ کس وقت تک کالم آپ کے پاس پہنچنا چاہیے۔

انھیں جو وقت بتایا' پھر ہمیشہ اسی وقت یا اس سے پہلے کالم دفتر پہنچ گیا' شاذ و نادر ہی کسی دن تاخیر ہوئی ہو' جب کبھی تاخیر ہو جاتی تو باقاعدہ فون کر کے معذرت کرتے یا پھر قبل از وقت مطلع کر دیتے کہ آج ذرا تاخیر سے کالم آئے گا' تاخیر ہونے پر اگر فون نہ کر سکتے تو کالم کے ہمراہ الگ کاغذ پر معذرت نامہ تحریر کر کے ملازم کے ہاتھ بھجواتے' میں نے کئی بار منع بھی کیا کہ انتظار حسین صاحب ایسا کر کے مجھے شرمندہ نہ کیا کریں۔

ایک آدھ گھنٹے کی تاخیر کوئی تاخیر نہیں ہوتی لیکن انھوں نے اپنی روایت سے انحراف نہیں کیا حالانکہ یہاں تو اگر کوئی کالم نویس تھوڑا سا مشہور ہو جائے تو وہ خود کو ایک ننھا منا جاگیردار سمجھنے لگتا ہے لیکن انتظار حسین سرتاپا عاجزی اور انکسار تھے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان کا کالم ہمیشہ وقت پر آتا' ان کا ملازم ہارون سائیکل پر کالم لے کر آتا تھا' جب کالم پہنچ جاتا تو انتظار حسین مجھے فون کرتے اور پوچھتے ''چوہدری صاحب کالم مل گیا''۔ یہ ان کی عادت بن گئی تھی۔ وہ دو تین بار مجھے ملنے کے لیے دفتر تشریف لائے۔

ان کے لیے سیڑھیاں چلنا خاصا مشکل تھا لیکن پیرانہ سالی کے باوجود تشریف لائے حالانکہ میں نے انھیں کہا تھا کہ آپ تشریف نہ لائیں میں خود آپ سے ملنے آ جاؤں گا لیکن وہ بضد تھے کہ نہیں پہلے میں آؤں گا' آپ پھر جب مرضی آتے رہیے' یہ ان کا بڑا پن تھا' وہ جس تہذیبی ورثے کے وارث تھے' اس میں انا پرستی' رعب و داب اور کروفر کا دور دور تک شائبہ نہیں تھا' کبھی کسی کو خود سے کمتر نہیں سمجھا بلکہ جو چھوٹا ہوتا' اسے زیادہ عزت اور پیار دیتے تھے۔

روزنامہ مشرق میں انھوں نے لاہور نامہ کے عنوان سے پچیس برس کالم نویسی کی' یہ خالصتاً ادبی کالم ہوتے تھے' انھوں نے اس دور کی ادبی' ثقافتی تاریخ کو ان کالموں کا حصہ بنایا' اگر کسی نے پرانے لاہور کی ادبی زندگی کا مشاہدہ کرنا ہو تو اسے انتظار صاحب کے ان کالموں کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ لاہور کی مال روڈ پر ایک پان والے کے بارے میں لکھا ہوا ان کا ایک کالم اس مشہور پان فروش نے باقاعدہ فریم کروا کر اپنی دکان پر لٹکا رکھا تھا۔


ایکسپریس میں انھوں نے بندگی نامہ کے عنوان سے جو کالم لکھے' وہ ماضی سے مختلف تھے' ان کالموں کی بنیاد تو ادبی تھی لیکن ادارے کی طرف سے کوئی پابندی نہ ہونے کے باعث انھوں نے ادب سے ہٹ کر سیاست' سماجی رویوں اور ماحولیات کو بھی اپنا موضوع بنایا' پرندوں اور چوپائیوں کے تحفظ کے لیے انھوں نے کئی کالم تحریر کیے' سندھ میں صحرائے تھر کے موروں اور مرغابیوں کی شکاریوں کے ہاتھوں موت پر ان کے لازوال کالم ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے' پاکستان میں کسی دوسرے کالم نویس کو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ بے زبانوں کی زبان بننے کی کوشش کرے۔

شاید ان کے پاس ان موضوعات کے لیے وقت نہیں یا پھر ماحولیات یا پرندے وغیرہ ان کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ اشرافیہ میں بڑھتی ہوئی اخلاقی گراوٹ' ہوس زر اور بدعنوانی نے جہاں عام آدمی کے ذہن تبدیل کیے ہیں' وہیں ادیب' دانشور اور صحافی و کالم نویس بھی اس کے زیر اثر آئے ہیں لہٰذا ان برائیوں کی پرچھائیاں لکھاریوں کی تحریروں میں نظر آتی ہیں لیکن انتظار حسین ان سے مبرا تھے' ان کی نظر میں عزت و توقیر کا معیار مال و دولت نہیں تھا اور نہ ہی انھوں نے دولت کمانے کی کوشش کی۔ حالانکہ وہ چاہتے تو بہت کچھ کر سکتے تھے۔

انھیں نظریاتی طور پر دائیں بازو کا سمجھا جاتا تھا' بلاشبہ انھوں نے پاکستان بننے کے بعد ترقی پسند تحریک کی مخالفت بھی کی اور اپنی تحریروں میں ان پر تنقید بھی کرتے رہے لیکن انھیں سیاسی اعتبار سے دائیں بازو کا ادیب نہیں قرار دیا جا سکتا نہ ہی ان کا کسی مذہبی سیاسی جماعت یا تحریک سے کوئی تعلق واسطہ تھا۔ ترقی پسند تحریک کے نمایاں لوگوں کے ساتھ ان کے مثالی تعلقات بھی رہے' اس کی ایک مثال حمید اختر مرحوم تھے۔ انتظار حسین نے جب ایکسپریس میں کالم لکھنا شروع کیا تو اس وقت حمید اختر صاحب حیات تھے' انھوں نے ''خوش آمدید انتظار حسین'' کے عنوان سے کالم لکھا اور ان کی ایکسپریس ٹیم میں شمولیت پر انتہائی مسرت کا اظہار کیا۔

میرے خیال میں وہ متوازن سوچ کے حامل اور معاشرے میں طبقاتی توازن قائم کرنے کے نظریے کے حامی تھے' ادب میں وہ سیاسی نعرے بازی کے حامی نہیں تھے۔ انھوں نے جو دیکھا اور محسوس کیا' اسے بلا کم و کاست تحریر کر دیا۔ شاید سچا ادیب ایسا ہی ہوتا ہے۔ وہ تہذیب و ثقافت کو کسی مخصوص نظریے کے تابع کرنے کے حق میں نہیں تھے۔

انھوں نے بسنت کی حمایت میں کئی کالم لکھے اور پرزور انداز میں اعلان کیا کہ بسنت کو ہندوانہ تہوار کہنے والے غلط ہیں بلکہ اسے تو دلی کی مسلم اشرافیہ نے رنگا رنگ اور زندگی سے بھرپور تہوار بنایا۔ انھوں نے پنجاب کے میلوں ٹھیلوں کی یادداشتیں تازہ کیں اور حکمران طبقات کو مخاطب کرتے ہوئے ان کی ثقافتی کم فہمی پر افسوس کا اظہار کیا۔ وہ اکثر کالموں میں دلی پہنچ جاتے تھے۔

وہاں کی گلیاں' لوگ' رسم و رواج کا بڑی رسانیت سے ذکر کرتے تھے' ان کا لہجہ ایسا ہوتا تھا جیسے ماں اپنے بچے سے پیار کر رہی ہو' خصوصاً ماہ رمضان اور عید کی خوشیاں کیسے منائی جاتی تھیں' وہ پرانے وقت کو ایسے یاد کرتے جیسے اس دور میں جی رہے ہوں' مجھے محسوس ہوتا ہے کہ شاید وہ اپنے آبائی قصبے ڈبائی اور پھر دہلی میں ہی آباد رہے' کہنے کو وہ لاہور میں رہتے تھے۔

ان کی نثر لاجواب تھی' عبدالقادر حسن' عطا الحق قاسمی اوریا مقبول جان جیسی شخصیات نے بھی ان کی نثر کو شاندار قرار دیا۔ عبدالقادر حسن تو انھیں اپنے استاد کا درجہ دیتے تھے۔ علمی و ادبی حلقوں میں انھیں بے پناہ عزت و احترام حاصل تھا' وہ ہر ادبی میلے کی جان ہوتے تھے۔ ادب و صحافت کی دنیا کا یہ شناور اس دنیا میں اپنا کردار ادا کر کے عزت کے ساتھ رخصت ہو گیا' انھوں نے ادب و ادبی کالم نویسی میں جو انداز متعارف کرایا' کوئی دوسرا شاید ہی ان کی ہمسری کر سکے۔
Load Next Story