منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

قیام پاکستان میں پوری قوم کا احساس غلامی، جذبہ حریت اور اپنے حقوق کے حصول کی لگن شامل تھی۔

najmalam.jafri@gmail.com

آج مملکت خداداد میں امن و امان، سیاسی، معاشی اور معاشرتی صورتحال کے باعث نسلِ نو حیران ہے کہ وہ کون سا رویہ، کیسا جذبہ اور کیا جنون تھا کہ ہمارے بزرگوں نے ایک انہونی کو ناقابل تردید حقیقت کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کردیا، کرۂ ارض پر ایک نئے ملک پاکستان کو معرض وجود میں لاکر دکھایا یہ کیسے ممکن ہوسکا؟ نسل نو کو ان حالات سے آگاہ کرنے والے جانے کن راہوں پر گامزن ہیں، انھیں کون بتائے کہ ہر ناممکن اس وقت ممکن ہوجاتا ہے جب پوری قوم ہم خیال اور متحد ہو۔

قیام پاکستان میں پوری قوم کا احساس غلامی، جذبہ حریت اور اپنے حقوق کے حصول کی لگن شامل تھی۔ جب مقصد کا تعین ہوگیا تو اس کے حصول کے لیے کیا مرد کیا عورت، بلکہ طلبا نے بھی اپنی ہمت و استطاعت سے بڑھ کر حصہ لیا۔ تحریک آزادی کے دوران دل کے کسی بھی گوشے میں (کسی کے بھی) ذاتی مفاد کا خیال نہ تھا، ساری جدوجہد پوری قوم کے لیے تھی۔ یہ نہیں کہ اس تحریک کی مخالفت نہیں کی گئی۔ خود مسلمانوں کی صف میں قیام پاکستان کے مخالفین موجود تھے ، خیر یہ ایک الگ موضوع ہے۔ نسل نو کو بتانا یہ ہے کہ بے غرضی اور جذبہ صادق انہونی کو بھی ممکن بنا دیتا ہے۔

تمام تر مخالفت، دشمنی اور فسادات کے باوجود پاکستان معرض وجود میں آگیا۔ اب اس کو قائم رکھنا خوشحال اور ترقی یافتہ ملک بنانا آنے والوں کا کام تھا، جب تک جدوجہد آزادی کے پرجوش کارکنان باقی تھے اور کچھ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو ، مگر قومی یکجہتی اتحاد و اتفاق ضرور تھا۔

آج بہت سے قلمکار بجا طور پر لکھتے ہیں کہ ''بے شک انگریز چلے گئے مگر اپنا طرز فکر اور اپنے پروردہ عناصر جن کو انھوں نے اپنی وفاداری (قوم سے غداری) کے صلے میں بڑی بڑی جاگیریں عنایت فرمائی تھیں چھوڑ گئے (جنھیں پاکستان کی خودمختاری، ترقی و خوشحالی میں اپنی موت نظر آتی ہے) اس سلسلے میں ایک غلطی ہمارے بزرگوں سے بھی سرزد ہوئی کہ قیام پاکستان کے بعد فوراً آئین تشکیل نہ دیا جا سکا اور نہ جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے گئے، لہٰذا قوم آج تک اس کی سزا بھگت رہی ہے۔

کراچی میں مقامی افراد اور ہجرت کرکے آنے والے (بلکہ پورے ہی ملک میں) بے حد خلوص اتفاق اور رواداری سے مل جل کر رہ رہے تھے، مگر یہ صورتحال اس طبقے کو کسی صورت قبول نہ تھی جو انگریزوں کے کاسہ لیس ہی نہیں بلکہ ایجنٹ بھی تھے اور جو بخشی ہوئی جاگیر کے بل بوتے پر پورے ملک کے والی و وارث بن بیٹھے تھے۔ جاگیرداری کو باقی رکھنے میں کیا مصلحت تھی؟ اس پر آج بھی تحقیق کی ضرورت ہے، پھر بھی ایک عام آدمی بھی جانتا ہے کہ ابتدا ہی سے حکمرانوں پر اس طبقے کے اثرات تھے اور ہیں۔

بہرحال ذکر تھا مقامی لوگوں کی نوزائیدہ مملکت کی خوشحالی اور ترقی میں کردار کا جو صرف دل سے ہی نہیں بلکہ عملی طور پر بھی اس کے لیے کوشاں تھے، اپنی محنت اور لگن سے ملک کا کئی شعبوں میں نام روشن کررہے تھے۔ ایسے تمام علاقوں اور افراد کا تذکرہ ایک مکمل مقالے کا متقاضی ہے۔

اگر صرف کراچی کے قدیم علاقے کے لوگوں کی ملکی خدمات کا ہی ذکر کیا جائے وہ بھی نسل نو کی آنکھیں کھولنے کے ساتھ ساتھ ان کے خیالات اور رویوں میں تبدیلی کے لیے کافی ہے۔گزشتہ ہفتے (12 فروری کو) ایکسپریس ٹی وی کے پروگرام ''تکرار'' میں لیاری گینگ وار سے متعلق ایک بے حد عمدہ دستاویزی فلم دیکھنے کا اتفاق ہوا، جس کو دیکھ کر کئی ایسے سوالات کے جواب مل گئے جو برسوں سے ہر امن پسند شہری کے ذہن میں ہلچل مچائے ہوئے تھے۔

لیاری جوکہ قیام پاکستان سے برسوں پہلے مچھیروں، محنت کشوں، ہنرمندوں، کھیل و ثقافت، علم و ادب کا نہ صرف مرکز رہا، بلکہ یہاں کے لوگ بے حد آسودہ حال نہ ہوتے ہوئے بھی وطن پرست ثقافتی اقدار سے وابستہ، احترام انسانیت، اتحاد و یکجہتی اور ایک دوسرے کے کام آکر خوشی محسوس کرنے والے پیار و محبت کے خوگر تھے، مگر ان پرخلوص سادہ لوح افراد کو کس طرح سیاست کی بھینٹ چڑھایا گیا، سیاسی مہروں نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کس طرح انھیں استعمال کیا؟


یہ وہ سوالات ہیں جن پر ہمیشہ سیاسی پردہ پڑا رہا، سامنے کچھ اور اندرونی کہانی کچھ اور۔لیاری جو بنیادی ضرورتوں سے محروم ہونے کے باوجود طویل عرصہ پرامن زندہ دل اور خوش باش افراد کا علاقہ ہونے کا اعزاز رکھتا ہے۔ اس علاقے نے بین الاقوامی سطح پر کئی شعبوں میں پاکستان کا نام روشن کیے رکھا، باکسنگ، فٹبال، سائیکلنگ ، اسکواش کے علاوہ روایتی رقص کے لیے شہرت رکھتا تھا۔ ادب وثقافت سے وابستہ کئی ممتاز شخصیات کا جنم بھومی لیاری ہے۔

یہاں کے نوجوان کھیل و ثقافتی سرگرمیوں میں ہمیشہ نہ صرف دلچسپی لیتے رہے بلکہ کئی کارہائے نمایاں انجام دیے، ملکی سیاست میں بھی یہ بے حد فعال رہے، جن کو آج منشیات اور قتل و غارت گری کی دلدل میں دھکیل دیا گیا ہے۔

ساٹھ کی دہائی میں یہاں کے جرائم سے وابستہ دو گروہوں میں سے ایک کو ایوب خان کی جماعت نے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا، اسی دن سے اس پرامن علاقے کی بدقسمتی کا آغاز ہوا اور گویا یہ چلن عام ہوگیا کہ ہر سیاسی جماعت اپنے مخالفین کو نیچا دکھانے کے لیے یہاں کے افراد استعمال کرنے لگی مختلف سیاسی جماعتوں کے حامیوں کے درمیان جھگڑے روز کا معمول بن گئے، رفتہ رفتہ امن و امان کی مخدوش صورتحال نے یہاں کے اقتصادی، معاشرتی و ثقافتی ماحول کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ جب پڑھے لکھے، باہمت کچھ کر گزرنے والے نوجوانوں سے روزگار ہی نہیں بلکہ باعزت طریقے سے زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیا گیا تو پھر منفی طرز زندگی گویا معمول بن گیا منشیات کے کاروبار نے بھی نوجوانوں کو عضو معطل بناکر رکھ دیا۔

جس ٹی وی پروگرام کا ذکر پہلے کیا گیا ہے، اس نے اس علاقے کی ماضی و حال کی تمام حقیقت پر سے پردہ اٹھایا، مثبت انداز فکر رکھنے والوں کو آگاہ کیا کہ ہمارے سیاست دانوں کے کالے کرتوتوں، قانون نافذ کرنے والوں کی حکمت عملی، حکمرانوں کی خود غرضی، انصاف سے محرومی نے زندگی کی بنیادی ضروریات کے لیے سسکتے عوام پہ کیا ظلم ڈھائے۔

لیاری گینگ وار کے موضوع پر مبنی یہ پروگرام آپ نے (قارئین نے) بھی دیکھا ہوگا، یوں تو اس کی تیاری و ریکارڈنگ میں حصہ لینے والی پوری ہی ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے ۔

سینئر صحافی نادر شاہ عادل نے جو لیاری کی تمام رفتہ و حاضر صورتحال سے نہ صرف واقف بلکہ متاثر بھی ہوئے اس پروگرام میں اہم گفتگو کی کیونکہ وہ اس علاقے کے تمام سیاسی و ثقافتی عروج و زوال سے نہ صرف آگاہ ہیں بلکہ چشم دیدگواہ بھی۔ پھر انھوں نے اسی پروگرام (تکرار) میں اپنی گفتگو کے ذریعے بھی لیاری کا مقدمہ بھرپور انداز میں پیش کیا ہے۔

کیا صاحبان عقل و دانش کے لیے اس سوال کا جواب تلاش کرنا وقت کی اہم ضرورت نہیں کہ عذیر بلوچ جیسا تعلیم یافتہ نوجوان گناہ ، قتل و غارت گری کی دلدل میں کیوں اور کیسے پھنس گیا؟ کیا ہماری سیاست، ہمارا اخلاق، ہماری حب الوطنی یہی ہے کہ قوم کے نوجوانوں کو ملکی تعمیر و ترقی کے بجائے محض اس لیے تخریب کاری کے لیے استعمال کریں تاکہ ہمارا فائدہ ہو اور دشمن کی شکست باخدا سیاست اور سیاستدانوں پر سے قوم کا اعتبار اٹھ چکا ہے۔

وہ کبھی بھی ملکی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح نہ دیں گے۔ ہم جیسے سرپھرے قلمکار آخر کیوں بار بار جاگیردارانہ نظام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں؟ آج ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی، معاشی، سیاسی اور بین الاقوامی صورتحال کی ذمے داری کس پر عائد کی جائے؟ اگر اس سوال کا جواب نہیں تو بحیثیت فرد قوم اس پر غور کرنے کی دعوت ہمارے اس تکرار پروگرام نے پوری قوم کے محب وطن عوام کو دی ہے۔
Load Next Story