بچہ جمورہ جمہوریت
صرف پیٹ بھرنے اور اپنی نسل بڑھانے کو زندگی سمجھنے والے جنگل کے قانون کی طرح طاقتور کا ترنوالہ بنتے رہتے ہیں ۔
جب دل نعمت کی تسکین اور سزا کی اذیت کے احساس سے معذور ہو جائیں تو اسے مردہ پن سے تعبیر کیا جانا چاہیے۔
بے حسی کی یہ کیفیت جہالت کی دین ہوتی ہے۔ جہالت کی سب سے بڑی نحوست یہ ہوتی ہے کہ یہ اکثریت میں سرایت کر جاتی ہے۔ اس اُم الخبائث کا سب سے کاری وار یہ ہوتا ہے کہ یہ انسانی شعور کو معطل کر کے اس پر تحریک اور ترغیب کے دروازے بند کر دیتی ہے۔ حسیات کی بارآوری کے بانجھ ہونے سے جو خلاء جنم لیتا ہے اسے بجا طور پر انسانیت اور تہذیب کے مدفن سے تعبیر کیا جا سکتا ہے کہ اس میں فرد کی ذات اور ضمیر کے کچوکے موت کی نیند سلائے جاتے ہیں۔ جاہل انسان اپنی تنگ نظری کو پارسائی کا معیار گردانتا ہے۔ انجماد کو روایات سے تعبیر کرتا ہے، بے راہ روی کو روشن خیالی مانتا ہے۔ یہ جذبات کا اسیر ہوتا ہے مگر اسے غیرت اور خود داری سے معنون کرتا ہے، لکیر کا فقیر ہوتا ہے لیکن خود پر نظریاتی ہونے کا گمان رکھتا ہے۔ جاہل کا قبلہ و کعبہ اور دین ایمان صرف ''میں'' اور خود پسندی ہوتا ہے۔ یہ اخلاقی جرائم کا عادی ہوتا ہے اور اس کے حقوق کی فہرست اتنی طویل ہوتی ہے کہ اس میں فرائض کا ذکر شامل نہیں ہو سکتا۔
جاہل کے سامنے دلائل اور منطق نہیں چلتے، یہ نعمتیں برتتا ہے پر اس کا دل شکر کے احساس سے عاری ہوتا ہے اس کے بجائے یہ اسے اپنا امتیاز اور برتری کا پیمانہ تصور کرتا ہے، حالات کی تلخی کو اوپر والے کی مرضی سمجھتا ہے اور دشمن کے جبر کو اس کی طاقت پر محمول کرتا ہے، اسے کہیں بھی اپنی کوتاہی کا ادراک نہیں ہوتا، یہ زیادتی کو اپنا مقدر اور مظلومیت کو اپنا زیور مان کر عزت، وقار اور خودی جیسے جھمیلوں میں نہیں پڑتا۔ ذہنی، نفیساتی ابتری اس کی امتیازی علامت ہوتی ہے، اسے گندگی سے پیار ہوتا ہے خواہ وہ ماحول کی ہو، حالات کی ہو یا پھر کردار کی۔ جہالت کی یہ روش جب کسی قوم کی سرشت میں داخل ہو کر اس کا مزاج بن جاتی ہے تو اس قوم میں سے خوش امیری، خوش مزاجی، ستائش اور جذبۂ قبولیت اٹھ جاتے ہیں ۔
اس قوم کا کوئی متفقہ ہیرو نہیں ہوتا اس کے انتشار کا یہ عالم ہوتا ہے کہ یہ اپنے نظریے تک پر یکسو نہیں رہ پاتی اس کی وسعت ظرفی کی کشادگی کے کیا کہنے کہ یہ بین الاقوامی اخوت کے نام پر اپنی مذہبی و ثقافتی اقدار کو روندنے سے بھی گریز نہیں کرتی۔ یہ بڑے مزے سے دوسروں کی رسمیں اور عادتیں اپناتی ہے اور مزید دلچسپ بات یہ کہ نقالی اور تقلید کی دھن میں آپ اپنا تمسخر اڑاتی ہے اور اپنے گریبان پر ہاتھ ڈالتی ہے۔ یہ قوم ٹیکنالوجی کا مقابلہ بڑھک مار نعروں، بددعائوں اور کوسنوں سے کرتی ہے۔ اس قوم کے کامیاب افراد اپنا سرمایہ فلاحی منصوبوں پر ضایع نہیں کرتے بلکہ اس سے کاروبار کرتے ہیں کیوں کہ یہ قوم سراہنا تو دور کی بات یہ کسی کو اس کی خدمت کا صلہ دیتی ہے اور نہ دینا چاہتی ہے۔ اس قوم میں افراد حسد کرتے ہیں مگر عزت کرنے کو تیار نہیں ہوتے یہ ترقی کی جستجو خوشامد، چاپلوسی اور سیاست سے کرتے ہیں۔ یہ قوم طاقت کو قانون مانتی ہے اور اس کی طاقت کا معیار اپنے سے کمزور کو دبوچنا ہوتا ہے۔
یہ قوم سوال کرنے کے بجائے سوال اٹھانے کی عادی ہوتی ہے۔ تبدیلی کو تسلیم کرنا اس کے ظرف سے باہر ہوتا ہے ایک وقت تک تو اس کا یہ مزاج اس کی امتیازی علامت بنا رہتا ہے مگر وقت کے بہائو میں رفتہ رفتہ پہلے پسماندگی کا شکار ہوتا ہے اور بعد ازاں فرسودگی کا! یہ قوم شخصیات کی پجاری اور نعروں کی دلدادہ ہوتی ہے۔ شخصیات کے یہ باطل بت اسے ایک حقیقی اور سچی قوم بننے سے روکے رکھتے ہیں نتیجتاً اس قوم میں اگر کوئی قدر مشترک رہ جاتی ہے تو وہ ہوتی ہے اس قوم کا نوچ کھسوٹ پر مبنی متشدد رویہ! ایسی قوم رہ نمائوں سے محروم ہوجاتی ہے اور قدرت ان پر ''بھوکے'' مسلط کر دیتی ہے، گو بھوک انسانی فطرت کی بنیادی احتیاج ہے مگر فطرت کا یہ تقاضا جب نفس کی بیماری کی شکل اختیار کر لیتا ہے تو یہ غیر انسانی اور غیر فطری امر وقوعہ ہوتا ہے۔
بھوک کی یہ بیماری بھرے پیٹ پر لاحق ہوتی ہے اس مرض موذی کا مبتلا اپنا پیٹ بھرنے کے بعد دوسروں کا پیٹ کاٹتا ہے تا کہ بھوک کی ہوس کی تسکین ہوتی رہے یہی وجہ ہوتی ہے کہ اس مرض کی خباثتیں کئی جہتیں اختیار کر لیتی ہیں یہ بھوکا انسان جابر، غاصب، قابض، ظالم، لیٹرا یہاں تک کہ قاتل کا روپ بھی دھارن کر لیتا ہے مگر بھوک ہوتی ہے کہ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ بھوک کے مارے یہ لوگ اجتماعی حیثیت میں ہو کر سسٹم کو یرغمال بناتے ہیں اور اقتدار و اختیار کی دھول اڑا کر مزے لوٹتے ہیں۔ بظاہر اس طبقۂ اشرافیہ اور تہذیب کے علم برداروں کے خدوخال پرکھیں تو اندر سے فطرت کے گدھ، لگڑ بگڑ، بھیڑیے اور لومڑ برآمد ہوتے ہیں۔ یہ بھوکے ادارے نگل جاتے ہیں۔ معاشرے چاٹ لیتے ہیں اور ملکی سالمیت کا جونک بن کر خون چوستے رہتے ہیں۔ قصہ تمام یہ کہ ''اندھیر نگری چوپٹ راج'' جیسے المیے حادثاتی طور پر جنم نہیں لیتے۔
غفلت، لاپرواہی، بے فکری، بے خوفی اور بے اختیاطی کا تسلسل حالات کی چنگاری کو ہوا دیتے دیتے بالاخر تاریخ میں عبرت کی مثال بن کر رقم ہو جاتا ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ دنیا کے ہر دشمن سے لڑا جا سکتا ہے مگر جاہل اور جہالت سے لڑائی ممکن نہیں، ساری معقولیت اور دانائی جہالت کی رعونت کے آگے بے بس اور بے ثمر ہوتی ہیں۔ ترقی اور تہذیب کی باتیں بھی اسے اپنے ذاتی مفاد تک سمجھ آتی ہیں۔ اجتماعیت اور گروہیت اس کے دائرے سے باہر کی باتیں ہیں چنانچہ انسانیت اور تہذیب کے اس دشمن سے پنجہ آزمائی کا خیال وقت کا ضیاع ہے۔ یہ وہ شخص ہے جو صرف اپنی موت آپ مرتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے پنپنے کے راستے فنا کر دیے جائیں اس کے نظام متنفس کو مسدود کردیا جائے اس طرز فکر کے پرکتر کر اس کی پرواز کو روک دیا جائے اور یہ سب صرف اور صرف ایک طاقتور تعلیمی پالیسی اور تعلیمی نظام سے ہی ممکن ہے نیز یہ کہ معاشی بدحالی اور مفلوک الحالی کو صرف غریبی اور غربت کی لاچاری اور مظلومیت تک محدود نہ سمجھا جائے کیوں کہ غربت اپنے ساتھ وہ تمام پلیدیاں بھی لاتی ہے جو انسانی معاشروں اور تہذیب کو مسموم کردیتی ہیں۔
صرف پیٹ بھرنے اور اپنی نسل بڑھانے کو زندگی سمجھنے والے جنگل کے قانون کی طرح نہ صرف طاقتور کا ترنوالہ بنتے رہتے ہیں بلکہ قدرت کو بھی ان کی خاص پرواہ نہیں ہوتی اس لیے اکثر قدرتی آفات کا زیادہ تر نشانہ بھی خس و خاشاک کی مانند بے وقعتی سے یہ خستہ حال آبادی بنتی ہے۔ انسانی زندگی کی اس بے توقیری کا مداوا اسی صورت ممکن ہے جب عوام نامی یہ مخلوق ''ووٹ'' کا حق استعمال کرنے سے پہلے تھوڑا تردد، تجزیہ اور سوچ بچار کرے اور تعلیم و معیشت کے حوالے سے واضح اور اثر پذیر پالیسی رکھنے والی جماعت کو مہر لگائے۔ برعکس اس کے اگر قوم اب کے اپنی قسمت کا مہرہ ان لوگوں کے ہاتھ میں دیتی ہے جو اقتدار میں باری باری کا کھیل کھیل رہے ہیں یا ان نوواردوں کے جو ابھی پارٹی کی سطح پر ہی اتھل پتھل کا شکار ہیں تو پھر بچہ جمورہ جمہوریت کی ''مزید'' کرشمہ سازیاں بھگتنے کے لیے کمر کس لے لیکن نہیں ابھی وقت ہے سوچیے اور حقائق و حالات کے تناظر میں فیصلہ کریں اس لیے کہ جمہوری نظام میں کوئی شہر کوئی علاقہ کسی پارٹی کا مخصوص نہیں ہوتا اور ''ووٹ'' کا فیصلہ طے شدہ نہیں ہوتا۔
بے حسی کی یہ کیفیت جہالت کی دین ہوتی ہے۔ جہالت کی سب سے بڑی نحوست یہ ہوتی ہے کہ یہ اکثریت میں سرایت کر جاتی ہے۔ اس اُم الخبائث کا سب سے کاری وار یہ ہوتا ہے کہ یہ انسانی شعور کو معطل کر کے اس پر تحریک اور ترغیب کے دروازے بند کر دیتی ہے۔ حسیات کی بارآوری کے بانجھ ہونے سے جو خلاء جنم لیتا ہے اسے بجا طور پر انسانیت اور تہذیب کے مدفن سے تعبیر کیا جا سکتا ہے کہ اس میں فرد کی ذات اور ضمیر کے کچوکے موت کی نیند سلائے جاتے ہیں۔ جاہل انسان اپنی تنگ نظری کو پارسائی کا معیار گردانتا ہے۔ انجماد کو روایات سے تعبیر کرتا ہے، بے راہ روی کو روشن خیالی مانتا ہے۔ یہ جذبات کا اسیر ہوتا ہے مگر اسے غیرت اور خود داری سے معنون کرتا ہے، لکیر کا فقیر ہوتا ہے لیکن خود پر نظریاتی ہونے کا گمان رکھتا ہے۔ جاہل کا قبلہ و کعبہ اور دین ایمان صرف ''میں'' اور خود پسندی ہوتا ہے۔ یہ اخلاقی جرائم کا عادی ہوتا ہے اور اس کے حقوق کی فہرست اتنی طویل ہوتی ہے کہ اس میں فرائض کا ذکر شامل نہیں ہو سکتا۔
جاہل کے سامنے دلائل اور منطق نہیں چلتے، یہ نعمتیں برتتا ہے پر اس کا دل شکر کے احساس سے عاری ہوتا ہے اس کے بجائے یہ اسے اپنا امتیاز اور برتری کا پیمانہ تصور کرتا ہے، حالات کی تلخی کو اوپر والے کی مرضی سمجھتا ہے اور دشمن کے جبر کو اس کی طاقت پر محمول کرتا ہے، اسے کہیں بھی اپنی کوتاہی کا ادراک نہیں ہوتا، یہ زیادتی کو اپنا مقدر اور مظلومیت کو اپنا زیور مان کر عزت، وقار اور خودی جیسے جھمیلوں میں نہیں پڑتا۔ ذہنی، نفیساتی ابتری اس کی امتیازی علامت ہوتی ہے، اسے گندگی سے پیار ہوتا ہے خواہ وہ ماحول کی ہو، حالات کی ہو یا پھر کردار کی۔ جہالت کی یہ روش جب کسی قوم کی سرشت میں داخل ہو کر اس کا مزاج بن جاتی ہے تو اس قوم میں سے خوش امیری، خوش مزاجی، ستائش اور جذبۂ قبولیت اٹھ جاتے ہیں ۔
اس قوم کا کوئی متفقہ ہیرو نہیں ہوتا اس کے انتشار کا یہ عالم ہوتا ہے کہ یہ اپنے نظریے تک پر یکسو نہیں رہ پاتی اس کی وسعت ظرفی کی کشادگی کے کیا کہنے کہ یہ بین الاقوامی اخوت کے نام پر اپنی مذہبی و ثقافتی اقدار کو روندنے سے بھی گریز نہیں کرتی۔ یہ بڑے مزے سے دوسروں کی رسمیں اور عادتیں اپناتی ہے اور مزید دلچسپ بات یہ کہ نقالی اور تقلید کی دھن میں آپ اپنا تمسخر اڑاتی ہے اور اپنے گریبان پر ہاتھ ڈالتی ہے۔ یہ قوم ٹیکنالوجی کا مقابلہ بڑھک مار نعروں، بددعائوں اور کوسنوں سے کرتی ہے۔ اس قوم کے کامیاب افراد اپنا سرمایہ فلاحی منصوبوں پر ضایع نہیں کرتے بلکہ اس سے کاروبار کرتے ہیں کیوں کہ یہ قوم سراہنا تو دور کی بات یہ کسی کو اس کی خدمت کا صلہ دیتی ہے اور نہ دینا چاہتی ہے۔ اس قوم میں افراد حسد کرتے ہیں مگر عزت کرنے کو تیار نہیں ہوتے یہ ترقی کی جستجو خوشامد، چاپلوسی اور سیاست سے کرتے ہیں۔ یہ قوم طاقت کو قانون مانتی ہے اور اس کی طاقت کا معیار اپنے سے کمزور کو دبوچنا ہوتا ہے۔
یہ قوم سوال کرنے کے بجائے سوال اٹھانے کی عادی ہوتی ہے۔ تبدیلی کو تسلیم کرنا اس کے ظرف سے باہر ہوتا ہے ایک وقت تک تو اس کا یہ مزاج اس کی امتیازی علامت بنا رہتا ہے مگر وقت کے بہائو میں رفتہ رفتہ پہلے پسماندگی کا شکار ہوتا ہے اور بعد ازاں فرسودگی کا! یہ قوم شخصیات کی پجاری اور نعروں کی دلدادہ ہوتی ہے۔ شخصیات کے یہ باطل بت اسے ایک حقیقی اور سچی قوم بننے سے روکے رکھتے ہیں نتیجتاً اس قوم میں اگر کوئی قدر مشترک رہ جاتی ہے تو وہ ہوتی ہے اس قوم کا نوچ کھسوٹ پر مبنی متشدد رویہ! ایسی قوم رہ نمائوں سے محروم ہوجاتی ہے اور قدرت ان پر ''بھوکے'' مسلط کر دیتی ہے، گو بھوک انسانی فطرت کی بنیادی احتیاج ہے مگر فطرت کا یہ تقاضا جب نفس کی بیماری کی شکل اختیار کر لیتا ہے تو یہ غیر انسانی اور غیر فطری امر وقوعہ ہوتا ہے۔
بھوک کی یہ بیماری بھرے پیٹ پر لاحق ہوتی ہے اس مرض موذی کا مبتلا اپنا پیٹ بھرنے کے بعد دوسروں کا پیٹ کاٹتا ہے تا کہ بھوک کی ہوس کی تسکین ہوتی رہے یہی وجہ ہوتی ہے کہ اس مرض کی خباثتیں کئی جہتیں اختیار کر لیتی ہیں یہ بھوکا انسان جابر، غاصب، قابض، ظالم، لیٹرا یہاں تک کہ قاتل کا روپ بھی دھارن کر لیتا ہے مگر بھوک ہوتی ہے کہ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ بھوک کے مارے یہ لوگ اجتماعی حیثیت میں ہو کر سسٹم کو یرغمال بناتے ہیں اور اقتدار و اختیار کی دھول اڑا کر مزے لوٹتے ہیں۔ بظاہر اس طبقۂ اشرافیہ اور تہذیب کے علم برداروں کے خدوخال پرکھیں تو اندر سے فطرت کے گدھ، لگڑ بگڑ، بھیڑیے اور لومڑ برآمد ہوتے ہیں۔ یہ بھوکے ادارے نگل جاتے ہیں۔ معاشرے چاٹ لیتے ہیں اور ملکی سالمیت کا جونک بن کر خون چوستے رہتے ہیں۔ قصہ تمام یہ کہ ''اندھیر نگری چوپٹ راج'' جیسے المیے حادثاتی طور پر جنم نہیں لیتے۔
غفلت، لاپرواہی، بے فکری، بے خوفی اور بے اختیاطی کا تسلسل حالات کی چنگاری کو ہوا دیتے دیتے بالاخر تاریخ میں عبرت کی مثال بن کر رقم ہو جاتا ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ دنیا کے ہر دشمن سے لڑا جا سکتا ہے مگر جاہل اور جہالت سے لڑائی ممکن نہیں، ساری معقولیت اور دانائی جہالت کی رعونت کے آگے بے بس اور بے ثمر ہوتی ہیں۔ ترقی اور تہذیب کی باتیں بھی اسے اپنے ذاتی مفاد تک سمجھ آتی ہیں۔ اجتماعیت اور گروہیت اس کے دائرے سے باہر کی باتیں ہیں چنانچہ انسانیت اور تہذیب کے اس دشمن سے پنجہ آزمائی کا خیال وقت کا ضیاع ہے۔ یہ وہ شخص ہے جو صرف اپنی موت آپ مرتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے پنپنے کے راستے فنا کر دیے جائیں اس کے نظام متنفس کو مسدود کردیا جائے اس طرز فکر کے پرکتر کر اس کی پرواز کو روک دیا جائے اور یہ سب صرف اور صرف ایک طاقتور تعلیمی پالیسی اور تعلیمی نظام سے ہی ممکن ہے نیز یہ کہ معاشی بدحالی اور مفلوک الحالی کو صرف غریبی اور غربت کی لاچاری اور مظلومیت تک محدود نہ سمجھا جائے کیوں کہ غربت اپنے ساتھ وہ تمام پلیدیاں بھی لاتی ہے جو انسانی معاشروں اور تہذیب کو مسموم کردیتی ہیں۔
صرف پیٹ بھرنے اور اپنی نسل بڑھانے کو زندگی سمجھنے والے جنگل کے قانون کی طرح نہ صرف طاقتور کا ترنوالہ بنتے رہتے ہیں بلکہ قدرت کو بھی ان کی خاص پرواہ نہیں ہوتی اس لیے اکثر قدرتی آفات کا زیادہ تر نشانہ بھی خس و خاشاک کی مانند بے وقعتی سے یہ خستہ حال آبادی بنتی ہے۔ انسانی زندگی کی اس بے توقیری کا مداوا اسی صورت ممکن ہے جب عوام نامی یہ مخلوق ''ووٹ'' کا حق استعمال کرنے سے پہلے تھوڑا تردد، تجزیہ اور سوچ بچار کرے اور تعلیم و معیشت کے حوالے سے واضح اور اثر پذیر پالیسی رکھنے والی جماعت کو مہر لگائے۔ برعکس اس کے اگر قوم اب کے اپنی قسمت کا مہرہ ان لوگوں کے ہاتھ میں دیتی ہے جو اقتدار میں باری باری کا کھیل کھیل رہے ہیں یا ان نوواردوں کے جو ابھی پارٹی کی سطح پر ہی اتھل پتھل کا شکار ہیں تو پھر بچہ جمورہ جمہوریت کی ''مزید'' کرشمہ سازیاں بھگتنے کے لیے کمر کس لے لیکن نہیں ابھی وقت ہے سوچیے اور حقائق و حالات کے تناظر میں فیصلہ کریں اس لیے کہ جمہوری نظام میں کوئی شہر کوئی علاقہ کسی پارٹی کا مخصوص نہیں ہوتا اور ''ووٹ'' کا فیصلہ طے شدہ نہیں ہوتا۔