پاکستان سپرلیگ نے نوجوان کرکٹرز کے دل بڑے کر دیئے
صلاحیتوں کے اظہار کاموقع، مالی آسودگی بھی حاصل ہوئی
اُن کی عمر 70 سال کے لگ بھگ تھی، اپنی اہلیہ کے ہمراہ آہستگی سے چلتے ہوئے میرے پاس آئے اور کہا کہ بیٹا پاکستان سپر لیگ کا میچ دیکھنے کے لئے سٹیڈیم جانا ہے، میں نے انہیں اپنے ساتھ ہی ٹیکسی میں چلنے کا مشورہ دیا، انہوں نے میری بات فوری مان لی اور سٹیڈیم جاتے ہوئے اس طرح گویا ہوئے کہ عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے بعد سعودی عرب سے سیدھا دبئی پہنچے ہیں اور پی ایس ایل کے تمام میچز دیکھ کر ہی پاکستان جائیں گے۔
اب تم پوچھو گئے اس عمر میں اتنی مشقت کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ تو جواب سیدھا سادھا یہ ہے کہ کرکٹ میری رگ رگ میں رچی بسی ہے، اب نہ چاہتے ہوئے بھی اسے نہیں چھوڑسکتا، مقابلوں کے دوران جب چوکے چھکے لگتے اور وکٹوں کو ہوا میں اڑتا ہوا دیکھتا ہوں تو میرے اندر کا کرکٹر جاگ اٹھتا ہے اور خود کو سترہ، اٹھارہ سال کا نوجوان محسوس کرتا ہوں، یہ تو کراچی کے حاجی اسداللہ کے کرکٹ کے لئے جذبات تھے۔
دورئہ دبئی کے دوران مجھے حاجی اسداللہ ہی نہیں بلکہ ہر کوئی کرکٹ کا شیدائی اور دیوانہ دکھائی دیا، چاہے وہ جدہ سے آنے والا 16سالہ سپیشل بچہ محمد ارسلان ہو یا بھارتی ریاست کیرالہ سے اپنی اہلیہ اور بہن کے ساتھ آنے والا کرشن لال، برطانیہ کا مائیکل ہو یا جنوبی افریقہ سے آنے والا جیمز، سیالکوٹ کا قاسم ہو یا کوئٹہ کا نوازش علی سب کے سب کرکٹ کے نشے میں چور اور پاکستان سپر لیگ کے مقابلے دیکھنے کے لئے بے تاب تھے۔
دبئی انٹرنیشنل سٹیڈیم شہرسے خاصا دور سپورٹس سٹی میں واقع ہے، آپ اپنی ذاتی سواری پر وہاں جا سکتے ہیں یا ٹیکسی یا میٹرو بس کے ذریعے سٹیڈیم پہنچنا پڑتا ہے۔
شہر اور سٹیڈیم کا یہ طویل فاصلہ بھی کرکٹ کے دیوانوں کے بیچ میں حائل نہ ہو سکا اور شائقین پی ایس ایل کے میچز دیکھنے کے لئے جوق در جوق سٹیڈیم کا رخ کرتے رہے، سٹیڈیم کے سامنے آسمان کو چھوتی ہوئی ایک عمارت کی دیوار پر لگا سبز ہلالی پرچم دیکھ کر بہت اچھا لگا اور عرب کے صحراؤں میں جب سٹیڈیم پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد کے نعروں سے گونجتا تو یہ سن کر وطن سے محبت کا جذبہ اور جوش مارنے لگتا، فائنل کے موقع پرسٹیڈیم میں جتنے تماشائی موجود تھے، اس سے کہیں زیادہ سٹیڈیم کے باہر بھی تھے۔
یوں محسوس ہو رہا تھا کہ پورا دبئی میچ دیکھنے کے لئے سٹیڈیم آن پہنچا ہے، ایک انار سو بیمار والی صورت حال دیکھ کر ٹکٹوں کی بلیک میں فروخت کا دھندہ بھی عروج پر رہا اور تو اور سٹیڈیم کے قریب ہی ایک سٹال پر 30 درہم کا ٹکٹ100 درہم میں فروخت ہوتا رہا، بس انہوں نے شائقین کے ساتھ اتنی رعایت اس طرح برتی کہ ٹکٹ کے ساتھ فائنلسٹ ٹیموں کی ایک شرٹس بھی مفت میں دی جاتی رہی۔
فائنل مقابلے سے ایک گھنٹہ قبل آتش بازی نے سٹیڈیم میں سماں سا باندہ دیا، تماشائیوں کے ٹھاٹھے مارتے ہجوم میں پی ایس ایل کا فائنل ہوا اور اسلام آباد یونائیٹڈ کی چیمپئن بننے کے ساتھ اختتام پذیر ہوا، ذکاء اشرف کے دور میں بورڈ حکام کے دباؤ پر نہ چاہتے ہوئے بھی ٹوئنٹی 20 کرکٹ کوخیرباد کہنے والے مصباح الحق کے سر پر پاکستان کی پہلی سپر لیگ کا سہرا سجا تو کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے سرفراز احمد نے بھی کئی سینئر انٹرنیشنل کرکٹرز کی موجودگی میں کھل کر قائدانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور اپنی ٹیم کی فائنل تک راہ ہموار کی۔
''ایکسپریس''کی ٹیم پشاور زلمی کے پلیئرز کی عمدہ کارکردگی نے بھی پرستاروں کے دلوں میں خوب جگہ بنائی تاہم پلے آف میچ میں اسلام آباد یونائیٹڈ کے ہاتھوں شکست کے بعد شاہد آفریدی الیون کو فیصلہ کن مقابلے کی دوڑ سے باہر ہونا پڑا، فائنل مقابلے کے دوران پاکستان کرکٹ بورڈ کے عہدیداروں بالخصوص لیگ کے روح رواں نجم سیٹھی کی خوشی دیدنی تھی، میڈیا باکس میں آکر ہنستے اور مسکراتے چہرے کے ساتھ نہ صرف ملکی اور غیر ملکی چینلز کو فرداً فرداً انٹرویوز دیتے رہے بلکہ انہوں نے فیصلہ کن مقابلے کے اختتام پر الگ سے پریس کانفرنس بھی کی، نجم سیٹھی جہاں لیگ کے کامیاب انعقاد پر بہت زیادہ خوش دکھائی دیئے وہاں انہوں نے وزیر اعظم نواز شریف اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے فائنل میچ کے لئے نہ آنے کا شکوہ بھی کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ کرکٹ کو سیاست سے دور ہونا چاہیے، نواز شریف اور عمران خان سٹیڈیم میں آکر قوم کی خوشیوں میں شریک ہو جاتے تو اس میں آخر حرج ہی کیا تھا؟ ساتھ میںان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بہت جلد پی ایس ایل کے مکمل انعقاد کو نہ صرف پاکستان میں ممکن بنائیں گے بلکہ اسے دنیا کی دوسری بڑی لیگ بنانے میں بھی کامیاب رہیں گے۔
پاکستان سمیت عالمی میڈیا نے بھی پی ایس ایل کی بھر پور کوریج کی، یوٹیوب پر ایک لاکھ سے زائد شائقین نے فائنل میچ کو لائیو دیکھا،کوریج کے لئے آئے ہوئے بھارتی صحافیوں نے بھی لیگ کو کامیاب قرار دیتے ہوئے کہا کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ پی ایس ایل میں ہمارے ملک کے کھلاڑی بھی شریک ہوتے۔
سانحہ لبرٹی کی وجہ سے پاکستان انٹرنیشنل ٹیموں کے لئے نو گو ایریا بنا رہا جس کی وجہ سے پاکستانی کھلاڑیوں کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع نہ مل سکا، 7 سال کے طویل عرصہ کے بعد جب نوجوان کرکٹرز کو یہ سنہری موقع میسر آیا تو انہوں نے اپنی کارکردگی سے غیر ملکی کرکٹرز کو بھی سب سے پیچھے چھوڑ دیا، رومان رئیس، محمد نواز کے ساتھ محمد سمیع، شرجیل خان، خالد لطیف نہ صرف ایک بار پھر سلیکٹرز کی نظر میں آئے بلکہ محمد اصغر، عمران خالد سمیت بہت سے نئے کھلاڑی انٹرنیشنل کرکٹ میں قدم جمانے کے لئے تیار بیٹھے اور بس موقع ملنے کے منتظر ہیں۔
لیگ کے دوران عمر اکمل 335رنز کے ساتھ سب سے زیادہ رنز بنا کر سرفہرست رہے تو ایونٹ کی واحد سنچری بنانے کا اعزاز بھی پاکستانی شرجیل خان کے حصہ میں آیا، وہاب ریاض لیگ میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے بولر رہے، تاہم فائنل میچ کے بعد صرف ایک وکٹ کے فرق سے یہ اعزاز ان سے چھن پر آندرے رسل کے پاس چلا گیا،اس کے برعکس لیگ میں کرس گیل سمیت زیادہ تر غیر ملکی شائقین کی امیدوں پر پورا نہ اتر سکے۔
بنگلہ دیش کے آل راؤنڈر شکیب الحسن 8میچز میں صرف ایک سو 26 رنز بنا کر کراچی کنگز پر بوجھ بنے رہے،وکٹیں بھی 3 ہی ہاتھ میں آئیں۔ اجنتھا مینڈس نے صرف 4 وکٹیں لیںان کے علاوہ لیوک رائٹ،ڈیوڈ میلان ، ڈیرن سمتھ، لینڈل سمینز، ڈیرن سیمی، سنگاکارا، جیمز ونس تو ٹاپ 10 بیٹسمینوں میں بھی جگہ نہ بنا پائے جبکہ بولنگ میں کیون کوپر، کیمرون ڈیلپورٹ، اجنتھا مینڈس، ڈیرن سیمی، ڈیوائن براوو، شکیب الحسن بھی ابتدائی10 کھلاڑیوں کی فہرست میں اپنا نام اندراج نہ کروا سکے۔
پاکستان سپر لیگ کے ساتھ ساتھ دبئی کا بھی کچھ ذکر ہو جائے، صرف4114 مربع کلومیٹرپر محیط24لاکھ59 ہزار کی آبادی والایہ ملک برج خلیفہ، برج العرب، دبئی شاپنگ مال، ڈانسنگ فاؤنٹین، دبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ، دبئی سپورٹس سٹی، جمیرا بیچ، جدید میٹرو بسوں اور میٹرو ٹرینوں کے نظام کی وجہ سے عالمگیر شہرت اختیار کر چکا ہے، ہر سال نہ صرف کروڑوں سیاح یہاں کا رخ کرتے ہیں۔
ذریعہ معاش کے لئے آنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ قانون کی حکمرانی ہے، جہاں ٹریفک کی خلاف وزری کرنے والوں کو بھاری جرمانہ کیا جاتا ہے وہاں زیبرا کراسنگ سے پیدل سٹرک پار نہ کرنے والوں کوبھی 200 درہم تک بھرنے پڑ جاتے ہیں، میٹرو بسوں اور ٹرینوں میں بغیر ٹکٹ کے سفر کا سوچا بھی نہیں جا سکتا، دبئی پہنچ کر ڈیزرٹ سفاری نہ جانا ایسے ہی ہے کہ جیسے کوئی کراچی جائے اور سمندر دیکھے بغیر واپس آ جائے۔
سو ہم بھی اپنے ساتھی جرنلسٹ احتشام الحق کے ساتھ ریگستان کی سیر کو گئے، 10 منٹ کی دل دہلا دینے والی جیپ رائڈنگ کے بعد مقررہ جگہ پہنچے تو سفاری کے جنرل منیجر مسٹر جمال نے جب یہ بتایا کہ سفاری کمپنی کے مالک پاکستانی ہیں تو زیادہ اچھا لگا، اس سے بھی زیادہ اچھا اس وقت لگا جب صحن کے ایک طرف پاکستان ٹوئنٹی20 کرکٹ ٹیم کے کپتان شاہد آفریدی کی تصویر دیکھی، عربی بیلے ڈانس اور مخصوص انداز میں کرتب دیکھنے کے بعد باربی کیو نے شائقین کی خوشیوں کو دوبالا کر دیا۔
دبئی میں ایک ہفتہ قیام کے بعد جب رخصتی کا سفر بندھنے کے قریب آیا تو گزرے ہوئے لمحات ایک شاہکار فلم کی طرح میرے آنکھوں میں گھومنے لگے، ہمارے میزبان شمشاد کی مہمان نوازی کے ساتھ حاجی اختر، عمیر اور لقمان کے خلوص نے ہمارے عام سے سفر کو خاص بنا دیا۔
پاکستان سپر لیگ کے درمیان ہونے والا کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور پشاور زلمی کا وہ سنسنی خیز مقابلہ، فائنل میں دنیا بھر سے آئے ہوئے تماشائیوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر، ملکی اور غیر ملکی کھلاڑیوں کے خوشی سے چمکتے اور دمکتے ہوئے چہرے، سفاری ڈیزرٹ کی جیپ میں سیر، دنیا کے سب سے بڑے شاپنگ دبئی مال اور اونچی عمارت برج خلیفہ کے سامنے ایک سفید اور خوبصورت کپڑوں میں ملبوس پری کی مانند رقص کرتی ہوئی ڈانسنگ فاؤنٹین کے مناظر میری آنکھوں کے سامنے تھے لیکن یہ سچ ہے کہ انسان جہاں کا خمیر ہوتا ہے وہاں اس نے جانا ہی ہوتا ہے اور یہ بات تو میرے پیارے وطن پاکستان کی ہے، میں کیسے اس سے مزید دور رہ سکتا تھا۔
دبئی ایئرپورٹ سے ڈھائی گھنٹوں کے سفر کے بعد مسافروں کے سامنے لگے مانٹیر کی سکرین پر موجود نقشے میں ہمارا جہاز پرواز کرتے ہوئے پاکستان کی حدود میں داخل ہونے کوتھا۔ جوں جوں پاکستان قریب آ رہا تھا، میرے دل کی دھڑکنیں تیز اور خوشی کے جذبات بڑھتے جا رہے تھے،اس ارض پاک کی سرزمین پر قدم رکھا تو اللہ اکبر کی آوازیں کانوں میں رس گھول رہی تھیں، فجر کی اذان میں ہوا میں روحانیت، پاکیزگی اور نم مٹی کی مہک محسوس ہوئی، مجھے پہلی بار احساس ہو رہا تھا کہ جیسے ان خوشبوؤں اور ان محبت بھری ہواؤں نے مجھے ماں کی طرح اپنی آغوش میں لے لیا ہو اور پھر میں اس مہک کو اپنی روح کی گہرائیوں میں اتارنے لگا۔
لاہور ایئرپورٹ پر امیگریشن کی ضروری کاروائی کے بعد جب باہر آیا تو خوشی سے دمکتے چہرے منتظر تھے، تعریف اس پاک پروردگار کی جو بچھڑے ہووں کا ملانے اور دیار غیر میں جانے والوں کو وطن واپس لانے والا ہے، ہماری گاڑی فجر کے اس پرسکون، خاموش اندھیرے میں سنسان شاہراؤں پر گھر کی طرف رواں دواں تھی، کھلی کھڑکی سے اندر آتے ہوئے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے میرے چہرے اور بالوں کو سہلا رہے تھے، میں سر کو ٹیک لگائے آنکھیں بند کئے ہوئے خاموشی سے بیٹھا تھا،تھک کر ماں کی آغوش میں لوٹ آنے کے گہرے سکون نے مجھے پوری طرح سے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا، میرے دل میں کوئی خواہش، کوئی آرزواور کوئی تمنا باقی نہ رہی تھی، مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے اللہ نے مجھے اس دنیا میں ہی جنت کا مزہ چکھا دیا ہو۔
اب تم پوچھو گئے اس عمر میں اتنی مشقت کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ تو جواب سیدھا سادھا یہ ہے کہ کرکٹ میری رگ رگ میں رچی بسی ہے، اب نہ چاہتے ہوئے بھی اسے نہیں چھوڑسکتا، مقابلوں کے دوران جب چوکے چھکے لگتے اور وکٹوں کو ہوا میں اڑتا ہوا دیکھتا ہوں تو میرے اندر کا کرکٹر جاگ اٹھتا ہے اور خود کو سترہ، اٹھارہ سال کا نوجوان محسوس کرتا ہوں، یہ تو کراچی کے حاجی اسداللہ کے کرکٹ کے لئے جذبات تھے۔
دورئہ دبئی کے دوران مجھے حاجی اسداللہ ہی نہیں بلکہ ہر کوئی کرکٹ کا شیدائی اور دیوانہ دکھائی دیا، چاہے وہ جدہ سے آنے والا 16سالہ سپیشل بچہ محمد ارسلان ہو یا بھارتی ریاست کیرالہ سے اپنی اہلیہ اور بہن کے ساتھ آنے والا کرشن لال، برطانیہ کا مائیکل ہو یا جنوبی افریقہ سے آنے والا جیمز، سیالکوٹ کا قاسم ہو یا کوئٹہ کا نوازش علی سب کے سب کرکٹ کے نشے میں چور اور پاکستان سپر لیگ کے مقابلے دیکھنے کے لئے بے تاب تھے۔
دبئی انٹرنیشنل سٹیڈیم شہرسے خاصا دور سپورٹس سٹی میں واقع ہے، آپ اپنی ذاتی سواری پر وہاں جا سکتے ہیں یا ٹیکسی یا میٹرو بس کے ذریعے سٹیڈیم پہنچنا پڑتا ہے۔
شہر اور سٹیڈیم کا یہ طویل فاصلہ بھی کرکٹ کے دیوانوں کے بیچ میں حائل نہ ہو سکا اور شائقین پی ایس ایل کے میچز دیکھنے کے لئے جوق در جوق سٹیڈیم کا رخ کرتے رہے، سٹیڈیم کے سامنے آسمان کو چھوتی ہوئی ایک عمارت کی دیوار پر لگا سبز ہلالی پرچم دیکھ کر بہت اچھا لگا اور عرب کے صحراؤں میں جب سٹیڈیم پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد کے نعروں سے گونجتا تو یہ سن کر وطن سے محبت کا جذبہ اور جوش مارنے لگتا، فائنل کے موقع پرسٹیڈیم میں جتنے تماشائی موجود تھے، اس سے کہیں زیادہ سٹیڈیم کے باہر بھی تھے۔
یوں محسوس ہو رہا تھا کہ پورا دبئی میچ دیکھنے کے لئے سٹیڈیم آن پہنچا ہے، ایک انار سو بیمار والی صورت حال دیکھ کر ٹکٹوں کی بلیک میں فروخت کا دھندہ بھی عروج پر رہا اور تو اور سٹیڈیم کے قریب ہی ایک سٹال پر 30 درہم کا ٹکٹ100 درہم میں فروخت ہوتا رہا، بس انہوں نے شائقین کے ساتھ اتنی رعایت اس طرح برتی کہ ٹکٹ کے ساتھ فائنلسٹ ٹیموں کی ایک شرٹس بھی مفت میں دی جاتی رہی۔
فائنل مقابلے سے ایک گھنٹہ قبل آتش بازی نے سٹیڈیم میں سماں سا باندہ دیا، تماشائیوں کے ٹھاٹھے مارتے ہجوم میں پی ایس ایل کا فائنل ہوا اور اسلام آباد یونائیٹڈ کی چیمپئن بننے کے ساتھ اختتام پذیر ہوا، ذکاء اشرف کے دور میں بورڈ حکام کے دباؤ پر نہ چاہتے ہوئے بھی ٹوئنٹی 20 کرکٹ کوخیرباد کہنے والے مصباح الحق کے سر پر پاکستان کی پہلی سپر لیگ کا سہرا سجا تو کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے سرفراز احمد نے بھی کئی سینئر انٹرنیشنل کرکٹرز کی موجودگی میں کھل کر قائدانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور اپنی ٹیم کی فائنل تک راہ ہموار کی۔
''ایکسپریس''کی ٹیم پشاور زلمی کے پلیئرز کی عمدہ کارکردگی نے بھی پرستاروں کے دلوں میں خوب جگہ بنائی تاہم پلے آف میچ میں اسلام آباد یونائیٹڈ کے ہاتھوں شکست کے بعد شاہد آفریدی الیون کو فیصلہ کن مقابلے کی دوڑ سے باہر ہونا پڑا، فائنل مقابلے کے دوران پاکستان کرکٹ بورڈ کے عہدیداروں بالخصوص لیگ کے روح رواں نجم سیٹھی کی خوشی دیدنی تھی، میڈیا باکس میں آکر ہنستے اور مسکراتے چہرے کے ساتھ نہ صرف ملکی اور غیر ملکی چینلز کو فرداً فرداً انٹرویوز دیتے رہے بلکہ انہوں نے فیصلہ کن مقابلے کے اختتام پر الگ سے پریس کانفرنس بھی کی، نجم سیٹھی جہاں لیگ کے کامیاب انعقاد پر بہت زیادہ خوش دکھائی دیئے وہاں انہوں نے وزیر اعظم نواز شریف اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے فائنل میچ کے لئے نہ آنے کا شکوہ بھی کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ کرکٹ کو سیاست سے دور ہونا چاہیے، نواز شریف اور عمران خان سٹیڈیم میں آکر قوم کی خوشیوں میں شریک ہو جاتے تو اس میں آخر حرج ہی کیا تھا؟ ساتھ میںان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بہت جلد پی ایس ایل کے مکمل انعقاد کو نہ صرف پاکستان میں ممکن بنائیں گے بلکہ اسے دنیا کی دوسری بڑی لیگ بنانے میں بھی کامیاب رہیں گے۔
پاکستان سمیت عالمی میڈیا نے بھی پی ایس ایل کی بھر پور کوریج کی، یوٹیوب پر ایک لاکھ سے زائد شائقین نے فائنل میچ کو لائیو دیکھا،کوریج کے لئے آئے ہوئے بھارتی صحافیوں نے بھی لیگ کو کامیاب قرار دیتے ہوئے کہا کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ پی ایس ایل میں ہمارے ملک کے کھلاڑی بھی شریک ہوتے۔
سانحہ لبرٹی کی وجہ سے پاکستان انٹرنیشنل ٹیموں کے لئے نو گو ایریا بنا رہا جس کی وجہ سے پاکستانی کھلاڑیوں کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع نہ مل سکا، 7 سال کے طویل عرصہ کے بعد جب نوجوان کرکٹرز کو یہ سنہری موقع میسر آیا تو انہوں نے اپنی کارکردگی سے غیر ملکی کرکٹرز کو بھی سب سے پیچھے چھوڑ دیا، رومان رئیس، محمد نواز کے ساتھ محمد سمیع، شرجیل خان، خالد لطیف نہ صرف ایک بار پھر سلیکٹرز کی نظر میں آئے بلکہ محمد اصغر، عمران خالد سمیت بہت سے نئے کھلاڑی انٹرنیشنل کرکٹ میں قدم جمانے کے لئے تیار بیٹھے اور بس موقع ملنے کے منتظر ہیں۔
لیگ کے دوران عمر اکمل 335رنز کے ساتھ سب سے زیادہ رنز بنا کر سرفہرست رہے تو ایونٹ کی واحد سنچری بنانے کا اعزاز بھی پاکستانی شرجیل خان کے حصہ میں آیا، وہاب ریاض لیگ میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے بولر رہے، تاہم فائنل میچ کے بعد صرف ایک وکٹ کے فرق سے یہ اعزاز ان سے چھن پر آندرے رسل کے پاس چلا گیا،اس کے برعکس لیگ میں کرس گیل سمیت زیادہ تر غیر ملکی شائقین کی امیدوں پر پورا نہ اتر سکے۔
بنگلہ دیش کے آل راؤنڈر شکیب الحسن 8میچز میں صرف ایک سو 26 رنز بنا کر کراچی کنگز پر بوجھ بنے رہے،وکٹیں بھی 3 ہی ہاتھ میں آئیں۔ اجنتھا مینڈس نے صرف 4 وکٹیں لیںان کے علاوہ لیوک رائٹ،ڈیوڈ میلان ، ڈیرن سمتھ، لینڈل سمینز، ڈیرن سیمی، سنگاکارا، جیمز ونس تو ٹاپ 10 بیٹسمینوں میں بھی جگہ نہ بنا پائے جبکہ بولنگ میں کیون کوپر، کیمرون ڈیلپورٹ، اجنتھا مینڈس، ڈیرن سیمی، ڈیوائن براوو، شکیب الحسن بھی ابتدائی10 کھلاڑیوں کی فہرست میں اپنا نام اندراج نہ کروا سکے۔
پاکستان سپر لیگ کے ساتھ ساتھ دبئی کا بھی کچھ ذکر ہو جائے، صرف4114 مربع کلومیٹرپر محیط24لاکھ59 ہزار کی آبادی والایہ ملک برج خلیفہ، برج العرب، دبئی شاپنگ مال، ڈانسنگ فاؤنٹین، دبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ، دبئی سپورٹس سٹی، جمیرا بیچ، جدید میٹرو بسوں اور میٹرو ٹرینوں کے نظام کی وجہ سے عالمگیر شہرت اختیار کر چکا ہے، ہر سال نہ صرف کروڑوں سیاح یہاں کا رخ کرتے ہیں۔
ذریعہ معاش کے لئے آنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ قانون کی حکمرانی ہے، جہاں ٹریفک کی خلاف وزری کرنے والوں کو بھاری جرمانہ کیا جاتا ہے وہاں زیبرا کراسنگ سے پیدل سٹرک پار نہ کرنے والوں کوبھی 200 درہم تک بھرنے پڑ جاتے ہیں، میٹرو بسوں اور ٹرینوں میں بغیر ٹکٹ کے سفر کا سوچا بھی نہیں جا سکتا، دبئی پہنچ کر ڈیزرٹ سفاری نہ جانا ایسے ہی ہے کہ جیسے کوئی کراچی جائے اور سمندر دیکھے بغیر واپس آ جائے۔
سو ہم بھی اپنے ساتھی جرنلسٹ احتشام الحق کے ساتھ ریگستان کی سیر کو گئے، 10 منٹ کی دل دہلا دینے والی جیپ رائڈنگ کے بعد مقررہ جگہ پہنچے تو سفاری کے جنرل منیجر مسٹر جمال نے جب یہ بتایا کہ سفاری کمپنی کے مالک پاکستانی ہیں تو زیادہ اچھا لگا، اس سے بھی زیادہ اچھا اس وقت لگا جب صحن کے ایک طرف پاکستان ٹوئنٹی20 کرکٹ ٹیم کے کپتان شاہد آفریدی کی تصویر دیکھی، عربی بیلے ڈانس اور مخصوص انداز میں کرتب دیکھنے کے بعد باربی کیو نے شائقین کی خوشیوں کو دوبالا کر دیا۔
دبئی میں ایک ہفتہ قیام کے بعد جب رخصتی کا سفر بندھنے کے قریب آیا تو گزرے ہوئے لمحات ایک شاہکار فلم کی طرح میرے آنکھوں میں گھومنے لگے، ہمارے میزبان شمشاد کی مہمان نوازی کے ساتھ حاجی اختر، عمیر اور لقمان کے خلوص نے ہمارے عام سے سفر کو خاص بنا دیا۔
پاکستان سپر لیگ کے درمیان ہونے والا کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور پشاور زلمی کا وہ سنسنی خیز مقابلہ، فائنل میں دنیا بھر سے آئے ہوئے تماشائیوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر، ملکی اور غیر ملکی کھلاڑیوں کے خوشی سے چمکتے اور دمکتے ہوئے چہرے، سفاری ڈیزرٹ کی جیپ میں سیر، دنیا کے سب سے بڑے شاپنگ دبئی مال اور اونچی عمارت برج خلیفہ کے سامنے ایک سفید اور خوبصورت کپڑوں میں ملبوس پری کی مانند رقص کرتی ہوئی ڈانسنگ فاؤنٹین کے مناظر میری آنکھوں کے سامنے تھے لیکن یہ سچ ہے کہ انسان جہاں کا خمیر ہوتا ہے وہاں اس نے جانا ہی ہوتا ہے اور یہ بات تو میرے پیارے وطن پاکستان کی ہے، میں کیسے اس سے مزید دور رہ سکتا تھا۔
دبئی ایئرپورٹ سے ڈھائی گھنٹوں کے سفر کے بعد مسافروں کے سامنے لگے مانٹیر کی سکرین پر موجود نقشے میں ہمارا جہاز پرواز کرتے ہوئے پاکستان کی حدود میں داخل ہونے کوتھا۔ جوں جوں پاکستان قریب آ رہا تھا، میرے دل کی دھڑکنیں تیز اور خوشی کے جذبات بڑھتے جا رہے تھے،اس ارض پاک کی سرزمین پر قدم رکھا تو اللہ اکبر کی آوازیں کانوں میں رس گھول رہی تھیں، فجر کی اذان میں ہوا میں روحانیت، پاکیزگی اور نم مٹی کی مہک محسوس ہوئی، مجھے پہلی بار احساس ہو رہا تھا کہ جیسے ان خوشبوؤں اور ان محبت بھری ہواؤں نے مجھے ماں کی طرح اپنی آغوش میں لے لیا ہو اور پھر میں اس مہک کو اپنی روح کی گہرائیوں میں اتارنے لگا۔
لاہور ایئرپورٹ پر امیگریشن کی ضروری کاروائی کے بعد جب باہر آیا تو خوشی سے دمکتے چہرے منتظر تھے، تعریف اس پاک پروردگار کی جو بچھڑے ہووں کا ملانے اور دیار غیر میں جانے والوں کو وطن واپس لانے والا ہے، ہماری گاڑی فجر کے اس پرسکون، خاموش اندھیرے میں سنسان شاہراؤں پر گھر کی طرف رواں دواں تھی، کھلی کھڑکی سے اندر آتے ہوئے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے میرے چہرے اور بالوں کو سہلا رہے تھے، میں سر کو ٹیک لگائے آنکھیں بند کئے ہوئے خاموشی سے بیٹھا تھا،تھک کر ماں کی آغوش میں لوٹ آنے کے گہرے سکون نے مجھے پوری طرح سے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا، میرے دل میں کوئی خواہش، کوئی آرزواور کوئی تمنا باقی نہ رہی تھی، مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے اللہ نے مجھے اس دنیا میں ہی جنت کا مزہ چکھا دیا ہو۔