4 ہزارپیشہ ورعامل سادہ لوح شہریوں کو لوٹنے لگے

جعلی عامل آستانوں میں کمزورعقیدہ شہریوں کوبیوقوف بناکررقوم بٹورتے ہیں

عامل خواتین سے زیوراوررقوم اینٹھ لیتے ہیں،گھریلوملازمائیں عاملوں کی مخبربن گئیں،اسٹیٹ ایجنٹوں اورعاملوں کاگٹھ جوڑ بن گیا ۔ فوٹو : فائل

کراچی میں 4 ہزار سے زائد پیشہ ورعامل سادہ لوح عوام کی نفسیات سے کھیلنے لگے، خواتین جعلی عاملوں کا زیادہ شکار بننے لگیں، عامل کا آستانہ کھولنا منافع بخش کاروبار بن گیا۔

حکومت جعلی عاملوں اور جعلی پیروں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کررہی عامل سادہ لوح عوام کو لوٹنے میں مصروف ہیں، معاشرے میں غیر عقلی چیزوں اور توہم پرستی نے پیر جمالیے ہیں جدید دور میں بھی شہری جادو ٹونے کے سحر میں مبتلا ہیں، شہری اپنے مسائل کا حل خود ڈھونڈیں تعویز گنڈوں سے مسائل حل نہیں ہوتے، روشن خیالی صرف تعلیمی ڈگریوں سے پیدا نہیں ہوتی، تعلیم یافتہ نوجوانوں کی سوچ میں بھی توہم پرستی اور منافع بخش کارور کی صورت اختیار کرچکا ہے جو اپنی قسمت کو چمکانے سے قاصر ہیں وہ دوسروں کی زندگی میں خوشیاں نہیں بھرسکتے ہیں معاشرے میں غربت کو ایک جرم سمجھا جاتا ہے امیر اور غریب کے فرق میں اضافہ ہورہا ہے، کالم نگار زاہدہ حنا کے مطابق عوام کو اپنے مسائل کا حل خود نکالنا چاہیے۔

تعویز گنڈوں سے مسائل حل نہیں ہوتے ہیں لوگ کامیابی کے حصول کے لیے شارٹ کٹ راستہ نکالتے ہیں، عاملوں کے حوالے سے وال چکنگ میں طنز و مزاح کا عنصر نمایاں ہوتا ہے جس میں عوامی مسائل کے حل کے لیے بلندوبانگ دعوے کیے جاتے ہیں،کالم نگار مقتدا منصور کے مطابق عوام کے ذہن کو کھولنے کے لیے نصابی کتب کا مطالعہ ناکافی ہے تعلیم یافتہ نوجوان نسل کی سوچ میں تو ہم پرستی اور خاندانی اثرات نمایاں ہیں، جعلی عامل لوگوں کا استحصال کررہے ہیں۔

معاشرے میں خواتین کو مساوی حقوق میسر نہیں معاشرے میںجاگیردرانہ سوچ کو عروج حاصل ہے پاکستان میں حکومت نام کی چیز نہیں ہے حکمران ذاتی مفاد کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں، ماہر سماجیات رانا آصف حبیب کے مطابق حساس اداروں کو جعلی عاملوں کی سرگرمیوں کا نوٹس لینا چاہیے، جعلی عامل غیر ملکی ایجنسیوں کے لیے جاسوسی بھی کرتے ہیں جن کا تعلق بنگلہ دیش اور افغانستان سے ہوتا ہے۔

حکومت اور انتظامیہ کو جعلی عاملوں اور پیروں کی بڑھتی سرگرمیوں اور شعبدے بازیوں پر نظر رکھنی چاہیے، تاکہ شہریوں کی جان، مال،عزت اور آبرو ایسے مکار عاملوں سے بچ سکے، شہری اپنا ایمان نہ گنوائیں، پولیس اور انتظامیہ جعلی عاملوں اور پیروں کے سیاہ کرتوت اور شعبدے بازیوں کا پردہ چاک کریں، حکومت کو جعلی عاملوں اور پیروں کی منفی سرگرمیوں کا قلع قمع کرنے کیلیے قانون سازی کرنی چاہیے ، قانون کی موجودگی میں جعلی عامل شہریوں کو نہیں لوٹ سکیں گے اور منفی سرگرمیوں سے اجتناب برتیں گے ، عامل یا پیر کو آستانہ کھولنے کے حوالے سے سند یا لائسنس کا اجراح کیا جائے تاکہ جعلی عامل عوام کو بے وقوف نہ بنا سکیں۔


معاشرے میں غیر عقلی چیزوں اور توہم پرستی نے پائوں جمالیے ہیں جدید دور میں بھی انسان جادوٹونہ کے سحر میں مبتلا ہیں تعلیم اور روشن خیالی صرف ڈگریوں سے پیدا نہیں ہوتی اس کے لیے روشن خیالانہ کتب کا مطالعہ کرنا ہوگا اور جدیدیت کی تعلیم کو عام کرنا ہوگا نوجوان نسل کو روشن خیال لوگوں کے بحث ومباحثہ میں شرکت کرنا ہوگی یہ بات ماہر تعلیم اوج کمال نے گفتگو میں کہی انھوں نے کہاکہ حکومت کو جعلی عاملوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے گھریلو خواتین اپنے مسائل کے حل کے لیے ان کے جال میں پھنستی جارہی ہیں جعلی عاملوں کا کاروبار ایک منافع بخش کارور کی صورت اختیار کرچکا ہے جو اپنی قسمت کو چمکانے سے قاصر ہیں وہ دوسروں کی زندگی میں خوشیاں نہیں بھرسکتے ہیں معاشرے میں غربت کو ایک جرم سمجھا جاتا ہے امیر اور غریب کے فرق میں اضافہ ہورہا ہے۔

کالم نگار زاہدہ حنا کے مطابق عوام کو اپنے مسائل کا حل خود نکالنا چاہیے،تعویز گنڈوں سے مسائل حل نہیں ہوتے ہیں لوگ کامیابی کے حصول کے لیے شارٹ کٹ راستہ نکالتے ہیں، عاملوں کے حوالے سے وال چکنگ میں طنز و مزاح کا عنصر نمایاں ہوتا ہے جس میں عوامی مسائل کے حل کے لیے بلندوبانگ دعوے کیے جاتے ہیں،کالم نگار مقتدا منصور کے مطابق عوام کے ذہن کو کھولنے کے لیے نصابی کتب کا مطالعہ ناکافی ہے تعلیم یافتہ نوجوان نسل کی سوچ میں تو ہم پرستی اور خاندانی اثرات نمایاں ہیں۔

جعلی عامل لوگوں کا استحصال کررہے ہیں،معاشرے میں خواتین کو مساوی حقوق میسر نہیں معاشرے میںجاگیردرانہ سوچ کو عروج حاصل ہے پاکستان میں حکومت نام کی چیز نہیں ہے حکمران ذاتی مفاد کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں، ماہر سماجیات رانا آصف حبیب کے مطابق حساس اداروں کو جعلی عاملوں کی سرگرمیوں کا نوٹس لینا چاہیے، جعلی عامل غیر ملکی ایجنسیوں کے لیے جاسوسی بھی کرتے ہیں جن کا تعلق بنگلہ دیش اور افغانستان سے ہوتا ہے۔

عامل شعبدے بازی سے شہریوں کو بے وقوف بنا کر اپنی جانب راغب کرتے ہیں بعض عامل لیموں سے خون نکال کر دکھاتے ہیں، انڈے سے سوئیاں،بال اور خون نکالتے ہیں، پھولوں کے رنگ بدل دیتے ہیں، بارش میں پتنگ اڑاکر دکھاتے ہیں، برف سے سگریٹ جلاتے ہیں پھونک سے کاغذ یا کپڑا جلاکر دکھاتے ہیں، آگ سے کپڑا نہ جلنے کا معجزہ دکھاتے ہیں، بارش میں دیا جلا کر دکھاتے ہیں، مٹکے سے بچھو نکال کر دکھاتے ہیں، مٹی کو مصری بنا کر کھلادیتے ہیں جن کو بوتل میں بند کرکے دکھاتے ہیں جن سے تعویذ منگواتے ہیں،کیلے کو اندر سے کاٹ سکتے ہیں ان سب شعبدے بازیوں کے پیچھے کوئی روحانی طاقت نہیں صرف تکنیک اور سائنسی حقیقتی کارفرما ہوتی ہیں۔

جعلی عاملوں اور پیروں کی چالوں کا نشانہ مردوں کے مقابلے میں خواتین زیادہ بنتی ہیں خواتین اپنے والدین اور شوہر کی اجازت کے بغیر عاملوں کے پاس جاکر مسائل حل کراتی ہیں، جعلی عامل خواتین سے گھر کی جمع پونجی خرچ کرادیتے ہیں بعض خواتین تو اپنا سونا تک فروخت کردیتی ہیں، خواتین گھر کے نجی مسائل پر عاملوں اور پیروں سے مشاورت کرتی ہیں، ساس بہو کو قابو کرنے کی کوشش کرتی ہے، بہو اپنی ساس اور نندوں کو راہ راست پر لانے کیلیے جادو ٹونے اور تعویذ گنڈوں کا سہارا لیتی ہے، بعض خواتین من پسند گھر میں شادی کرنے کی خواہش کرتی ہیں، پریشان حال خواتین کی نجی زندگی سے متعلق داستانوں سے جعلی عامل لطف اندوز ہوتے ہیں، جعلی عامل بیوقوف اورکمزور عقیدہ خواتین کی سوچ میں مزید منفی تاثر پروان چڑھاتے ہیں، عامل ساس کو بہو کے خلاف اور بہو کو ساس کے خلاف اکساتے رہتے ہیں جس سے گھریلو ناچاقی بڑھ جاتی ہے اور خاندان ٹوٹ جاتا ہے، عامل بہو سے کہتے ہیں کہ بہو کا گھر برباد کرنے کے لیے ساس نے جادو کرایا ہے دوسری جانب ساس سے کہتے ہیں کہ بہو اپنے شوہر کو اپنا غلام بناکر ماں سے دور کرنا چاہتی ہے اس طرح دونوں جانب نفرت پروان چڑھتی ہے اور گھر تباہ ہوجاتے ہیں۔

پیشہ ور جعلی عامل تشہیر کے لیے اشتہارات اور پوسٹرز کا بھرپور سہارا لیتے ہیں جس میں باالخصوص خواتین کو ہدف بنایا جاتا ہے جعلی عاملوں کے اشتہار کراچی کی ہر سڑک حتیٰ کہ پلوں اور فلائی اوورز پر لکھے ہوئے ہیں اشتہاروں میں لکھا ہوتا ہے ''ہرمسئلے کا حل، محبوب آپ کے قدموں میں، من پسند شادی، کالے عمل کا توڑ، شہر میں وال چاکنگ پر پابندی کے باوجود عاملوں اور پیروں کے اشتہار ہر دیوار پر نظر آتے ہیں، عاملوں کے ایجنٹ اور بچے ٹریفک سگنلز پر کھڑی گاڑیوں میں عاملوں کے تشہیری کارڈ پمفلٹ اور اسٹیکر تقسیم کررہے ہوتے ہیں ، عامل تشہیر کے لیے محلے کی سطح پر خواتین کو آلہ کار بنا لیتے ہیں جو پریشان حال گھریلو خواتین کو پیشہ ور عامل کے پاس جانے کی ترغیب دیتی ہیں۔
Load Next Story