بھارت سے شکست پر قومی کھلاڑیوں کا سوشل مارٹم
کسی نے آفریدی کو چلے ہوئے کارتوس سے تشبیہہ دی تو کسی نے کہا کہ کاش آج ہٹلر زندہ ہوتا
ایک وقت تھا جب بھارتی سورما پاکستان سے میچ جیتنا تو دور شاہینوں کے ساتھ کھیلنے سے بھی کتراتے تھے اور یہ وہ دور تھا جب بھارتی ٹیم پر وسیم اکرم کی گھومتی گیندوں کا خوف اور وقار کی تیز یارکرز کا لرزا طاری ہوتا تھا لیکن ہماری ناقص پلاننگ، اقربا پروری، ٹیلنٹ کے قتل اور اندھی ٹیم سلیکشن کے باعث ہاکی کی طرح بتدریج کرکٹ بھی زوال کا شکار ہوتی جارہی ہے، اور اب وہ وقت آچکا ہے کہ بھارت سے جیتنا شاید ہمارے لئے جوئے شیر لانے کے مترادف بن چکا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ میچ چاہے دنیا کے کسی بھی خطے کے میں ہو دونوں ممالک کے کرکٹ شائقین کاروبار اور دیگر ضروری کام چھوڑ چھاڑ کر اپنی اپنی ٹیموں کی حمایت کرنے پہنچ جاتے ہیں، اس کا اندازہ بخوبی اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ میچ کے تمام ٹکٹس صرف 90 منٹ میں فروخت ہوگئے، جو لوگ میدان جاکر مقابلے کو دیکھنے سے محروم رہتے ہیں پھر وہ گھروں پر، گلیوں میں، محلوں میں بڑی بڑی اسکرینیں لگاکر اہتمام کرتے ہیں، پھر نہ تو بڑوں کو وقت پر کھانے پینے کا خیال رہتا ہے اور نہ ہی بچوں کو اسکول کا کام مکمل کرنے پر اساتذہ کی مار کا خوف لیکن جب نتیجہ ہر بار کی طرح شکست کی صورت نکلے تو پھر جذباتی شائقین کے ہاتھوں ٹی وی بھی ٹوٹتے ہیں اور عوام اپنے دل کی خوب بھڑاس بھی نکالتی ہے۔
گزشتہ روز پاکستان اور بھارت کے درمیان بنگلادیش کے شیر بنگلا اسٹیڈیم میں مقابلہ تھا جسے ایشیا کپ کا سب سے بڑا ٹاکرا کہا جا رہا تھا، میچ سے قبل ہر ٹی وی چینل پر بوم بوم آفریدی، پروفیسر حفیظ، تجربہ کار ملک اور جارحانہ عمر اکمل کے ساتھ شرجیل خان اور خرم منظور کے گن گائے جارہے تھے لیکن جب کھلاڑی روایتی حریف کے خلاف گراؤنڈ میں آئے تو ایسا محسوس ہوا کہ شاید کسی گلی محلے کے لڑکے گرین شرٹس پہن کر میدان میں اتر آئے ہوں اور انھیں اس بات کی جلدی ہو کہ کسی طرح آؤٹ ہو کر ڈریسنگ روم پہنچ جائیں ورنہ سب کو پتہ چل جائے گا کہ ہم قومی کرکٹر نہیں بلکہ ٹچو کھلاڑی ہیں جنھیں ابھی ٹھیک سے بلا بھی پکڑنا نہیں آتا۔
میرا خیال ہے کہ یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں کہ کس کھلاڑی نے کتنے رنز بنائے کیونکہ 11 میں سے صرف 9 کھلاڑی تو دہرے ہندسے تک بھی نہ پہنچ سکے اور یقیناً سرفراز جب آؤٹ ہو کر پویلین پہنچے ہوں گے تو انھیں سب سے زیادہ 25 رنز بنانے پر کپتان، کوچ اور ٹیم منیجمنٹ کی خوب باتیں بھی سننا پڑی ہوں گی کہ جب سب صفر اور دو یا چار رنز پر آؤٹ ہو رہے تھے تو تمھیں کیا ضرورت تھی اتنی 'ایفی شنسی' دکھانے کی۔
پاکستان کی بلے بازی مکمل ہونے کے بعد ہی دل شکستہ شائقین نے سوشل میڈیا پر مختلف قسم کی تصاویر شیئر کرکے قومی کھلاڑیوں کا پوسٹ مارٹم شروع کردیا، کسی نے آفریدی کو چلے ہوئے کارتوس سے تشبیہہ دی تو کسی نے کہا کہ کاش آج ہٹلر زندہ ہوتا، کسی نے صدر ممنون حسین کی تصویر کے ساتھ عامر کو سارے اوورز دینے کی راہ نکالنے کا کہا تو کسی نے طاہر القادری کا سب کو شہید کرنے والا جملہ قومی ٹیم کے لئے پوسٹ کردیا۔
ایک صاحب نے ایک پرانی تصویر میں قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کو خوش ہوتے ہوئے دکھایا اور اس پر لکھ دیا کہ سب کو بیٹنگ مل گئی۔
ایک دوسری تصویر میں ٹی وی اسکرین کی جانب کلاشنکوف تانے شخص کو دکھایا گیا ہے جو بڑے انہماک سے میچ دیکھ رہا ہے اور انتظار کررہا کہ ابھی فائر کھول دے گا۔
ایک صاحب نے ٹیم سلیکشن کے حوالے سے ٹویٹر پر تصویر شیئر کی جس میں ایک شخص کو آنکھوں پر پٹی باندھ کر کھلاڑیوں کی سلیکشن کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور تصویر کے کیپشن میں لکھا گیا ہے کہ پی سی بی کی سلیکشن کچھ اس طرح ہوتی ہے۔
جب بھارت کی اننگز کا آغاز ہوا اور محمد عامر نے اپنے پہلے 2 اوورز میں بھارت کے 3 کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی تو کسی صاحب نے صدر ممنوں حسین کے سود کے حوالے سے درمیانی راہ نکالنے والے بیان پر صدر کی تصویر کے ساتھ یہ تحریر لکھ کر فیس بک پر شیئر کی کہ 'عامر کو سارے اوورز دینے کی گنجائش پیدا کی جائے۔'
ایک کرکٹ لوور نے تو قومی کھلاڑیوں کو بھارت کے ہاتھوں شکست کے بعد آپس میں پی ایس ایل کھیلنے کا مشورہ دے ڈالا۔ ان کا کہنا تھا کہ 'ڈیئر ہماری ٹیم تم لوگ آپس میں پی ایس ایل ہی کھیل لو۔'
فیس بک کی ایک پوسٹ پر آفریدی اور عمران خان سے متعلق کچھ یوں لکھا گیا تھا کہ آفریدی نے 1996 میں کرکٹ شروع کی اور عمران خان نے سیاست، نہ تو آفریدی کو صورت حال کے مطابق کھیلنا آیا اور نہ ہی عمران خان کو سیاست۔
پاکستان عوامی تحریک کے دھرنے کے دوران طاہر القادری نے ایک جملہ کہا تھا کہ جو واپس جانے کا کہے اسے بھی شہید کردو تو ایک صاحب نے اس جملے میں ردو بدل کرکے اپنا غصہ ٹھنڈا کیا اور کچھ یوں تحریر کر ڈالا 'جو کہے تم جیتو یا ہارو ہمیں تم سے پیار ہے، اسے بھی شہید کردو'۔
سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی ایک پوسٹ میں پاکستان اور بھارت کی ورلڈ کپ 2015 کی ٹیموں کے کھلاڑیوں کی تصاویر کے ساتھ کندہ ہے 'بڑا دشمن بنا پھرتا ہے جو بچوں سے لڑتا ہے۔
یہ تذلیل تو چلیں ہم کسی نہ کسی طرح برداشت کرہی لیں گے، لیکن خیال کیا جارہا ہے کہ دونوں روائتی حریف شاید ایک بار پھر فائنل میں بھی آمنے سامنے آئینگی، کیونکہ بھارت کا پہنچنا تو یقینی ہے، اگر پاکستان نے اگلے میچوں میں بھی اِسی کارکردگی کو برقرار رکھتے تب ہی یہ ممکن ہے کہ پاکستان کے علاوہ کوئی اور ٹیم فائنل میں بھارت کا مقابلہ کرے گی، لیکن اگر ایسا ہو بھی گیا تو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے راونڈ میچ میں 19 مارچ کو دھرم شالہ کے میدان میں تو مقابلہ پکا ہی ہے۔ اب دعا کیجیے، یا تو اُس دن بارش ہوجائے یا قدرت کا کرشمہ ہوجائے کہ 18 مارچ کے بعد اچانک 20 مارچ آجائے تاکہ ایک اور شرمناک شکست سے بچا جاسکے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ میچ چاہے دنیا کے کسی بھی خطے کے میں ہو دونوں ممالک کے کرکٹ شائقین کاروبار اور دیگر ضروری کام چھوڑ چھاڑ کر اپنی اپنی ٹیموں کی حمایت کرنے پہنچ جاتے ہیں، اس کا اندازہ بخوبی اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ میچ کے تمام ٹکٹس صرف 90 منٹ میں فروخت ہوگئے، جو لوگ میدان جاکر مقابلے کو دیکھنے سے محروم رہتے ہیں پھر وہ گھروں پر، گلیوں میں، محلوں میں بڑی بڑی اسکرینیں لگاکر اہتمام کرتے ہیں، پھر نہ تو بڑوں کو وقت پر کھانے پینے کا خیال رہتا ہے اور نہ ہی بچوں کو اسکول کا کام مکمل کرنے پر اساتذہ کی مار کا خوف لیکن جب نتیجہ ہر بار کی طرح شکست کی صورت نکلے تو پھر جذباتی شائقین کے ہاتھوں ٹی وی بھی ٹوٹتے ہیں اور عوام اپنے دل کی خوب بھڑاس بھی نکالتی ہے۔
گزشتہ روز پاکستان اور بھارت کے درمیان بنگلادیش کے شیر بنگلا اسٹیڈیم میں مقابلہ تھا جسے ایشیا کپ کا سب سے بڑا ٹاکرا کہا جا رہا تھا، میچ سے قبل ہر ٹی وی چینل پر بوم بوم آفریدی، پروفیسر حفیظ، تجربہ کار ملک اور جارحانہ عمر اکمل کے ساتھ شرجیل خان اور خرم منظور کے گن گائے جارہے تھے لیکن جب کھلاڑی روایتی حریف کے خلاف گراؤنڈ میں آئے تو ایسا محسوس ہوا کہ شاید کسی گلی محلے کے لڑکے گرین شرٹس پہن کر میدان میں اتر آئے ہوں اور انھیں اس بات کی جلدی ہو کہ کسی طرح آؤٹ ہو کر ڈریسنگ روم پہنچ جائیں ورنہ سب کو پتہ چل جائے گا کہ ہم قومی کرکٹر نہیں بلکہ ٹچو کھلاڑی ہیں جنھیں ابھی ٹھیک سے بلا بھی پکڑنا نہیں آتا۔
میرا خیال ہے کہ یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں کہ کس کھلاڑی نے کتنے رنز بنائے کیونکہ 11 میں سے صرف 9 کھلاڑی تو دہرے ہندسے تک بھی نہ پہنچ سکے اور یقیناً سرفراز جب آؤٹ ہو کر پویلین پہنچے ہوں گے تو انھیں سب سے زیادہ 25 رنز بنانے پر کپتان، کوچ اور ٹیم منیجمنٹ کی خوب باتیں بھی سننا پڑی ہوں گی کہ جب سب صفر اور دو یا چار رنز پر آؤٹ ہو رہے تھے تو تمھیں کیا ضرورت تھی اتنی 'ایفی شنسی' دکھانے کی۔
پاکستان کی بلے بازی مکمل ہونے کے بعد ہی دل شکستہ شائقین نے سوشل میڈیا پر مختلف قسم کی تصاویر شیئر کرکے قومی کھلاڑیوں کا پوسٹ مارٹم شروع کردیا، کسی نے آفریدی کو چلے ہوئے کارتوس سے تشبیہہ دی تو کسی نے کہا کہ کاش آج ہٹلر زندہ ہوتا، کسی نے صدر ممنون حسین کی تصویر کے ساتھ عامر کو سارے اوورز دینے کی راہ نکالنے کا کہا تو کسی نے طاہر القادری کا سب کو شہید کرنے والا جملہ قومی ٹیم کے لئے پوسٹ کردیا۔
ایک صاحب نے ایک پرانی تصویر میں قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کو خوش ہوتے ہوئے دکھایا اور اس پر لکھ دیا کہ سب کو بیٹنگ مل گئی۔
ایک دوسری تصویر میں ٹی وی اسکرین کی جانب کلاشنکوف تانے شخص کو دکھایا گیا ہے جو بڑے انہماک سے میچ دیکھ رہا ہے اور انتظار کررہا کہ ابھی فائر کھول دے گا۔
ایک صاحب نے ٹیم سلیکشن کے حوالے سے ٹویٹر پر تصویر شیئر کی جس میں ایک شخص کو آنکھوں پر پٹی باندھ کر کھلاڑیوں کی سلیکشن کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور تصویر کے کیپشن میں لکھا گیا ہے کہ پی سی بی کی سلیکشن کچھ اس طرح ہوتی ہے۔
جب بھارت کی اننگز کا آغاز ہوا اور محمد عامر نے اپنے پہلے 2 اوورز میں بھارت کے 3 کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی تو کسی صاحب نے صدر ممنوں حسین کے سود کے حوالے سے درمیانی راہ نکالنے والے بیان پر صدر کی تصویر کے ساتھ یہ تحریر لکھ کر فیس بک پر شیئر کی کہ 'عامر کو سارے اوورز دینے کی گنجائش پیدا کی جائے۔'
ایک کرکٹ لوور نے تو قومی کھلاڑیوں کو بھارت کے ہاتھوں شکست کے بعد آپس میں پی ایس ایل کھیلنے کا مشورہ دے ڈالا۔ ان کا کہنا تھا کہ 'ڈیئر ہماری ٹیم تم لوگ آپس میں پی ایس ایل ہی کھیل لو۔'
فیس بک کی ایک پوسٹ پر آفریدی اور عمران خان سے متعلق کچھ یوں لکھا گیا تھا کہ آفریدی نے 1996 میں کرکٹ شروع کی اور عمران خان نے سیاست، نہ تو آفریدی کو صورت حال کے مطابق کھیلنا آیا اور نہ ہی عمران خان کو سیاست۔
پاکستان عوامی تحریک کے دھرنے کے دوران طاہر القادری نے ایک جملہ کہا تھا کہ جو واپس جانے کا کہے اسے بھی شہید کردو تو ایک صاحب نے اس جملے میں ردو بدل کرکے اپنا غصہ ٹھنڈا کیا اور کچھ یوں تحریر کر ڈالا 'جو کہے تم جیتو یا ہارو ہمیں تم سے پیار ہے، اسے بھی شہید کردو'۔
سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی ایک پوسٹ میں پاکستان اور بھارت کی ورلڈ کپ 2015 کی ٹیموں کے کھلاڑیوں کی تصاویر کے ساتھ کندہ ہے 'بڑا دشمن بنا پھرتا ہے جو بچوں سے لڑتا ہے۔
یہ تذلیل تو چلیں ہم کسی نہ کسی طرح برداشت کرہی لیں گے، لیکن خیال کیا جارہا ہے کہ دونوں روائتی حریف شاید ایک بار پھر فائنل میں بھی آمنے سامنے آئینگی، کیونکہ بھارت کا پہنچنا تو یقینی ہے، اگر پاکستان نے اگلے میچوں میں بھی اِسی کارکردگی کو برقرار رکھتے تب ہی یہ ممکن ہے کہ پاکستان کے علاوہ کوئی اور ٹیم فائنل میں بھارت کا مقابلہ کرے گی، لیکن اگر ایسا ہو بھی گیا تو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے راونڈ میچ میں 19 مارچ کو دھرم شالہ کے میدان میں تو مقابلہ پکا ہی ہے۔ اب دعا کیجیے، یا تو اُس دن بارش ہوجائے یا قدرت کا کرشمہ ہوجائے کہ 18 مارچ کے بعد اچانک 20 مارچ آجائے تاکہ ایک اور شرمناک شکست سے بچا جاسکے۔