ریکوری آرڈیننس میں ترمیم کا فیصلہ
عام آدمی کو یا تو بینکوں سے باآسانی قرضہ ملتا ہی نہیں اگر مل بھی جائے تو وہ اسے بہرصورت واپس کرنے کا پابند ہوتا ہے
KARACHI:
پاکستان میں ایک عرصہ سے یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ بااثر افراد اپنے اثرورسوخ کے بل بوتے پر مالیاتی اداروں سے آسان ترین شرائط اور انتہائی کم سود پر بھاری قرضے حاصل کرتے اور پھر چند قسطیں ادا کرنے کے بعد یا تو انھیں معاف کرا لیتے یا کاروبار میں نقصان ظاہر کر کے انھیں ہڑپ کر جاتے ہیں۔ مالیاتی ادارے بھی ان کے سیاسی اثرورسوخ کے باعث ان کے خلاف کارروائی سے ہچکچاتے ہیں۔
پھر قوانین میں ایسے سقم یا رعایتیں موجود ہیں جن کے بل پر قرضے ری شیڈول ہوجاتے ہیں یا رائٹ آف کردیے جاتے ہیں ، دوسرے لفظوں میں قرضہ معاف کردیا جاتا ہے، یہ سب قانونی طریقے سے ہوتا ہے، اسی لیے ہمارے ہاں ہر بااثر شخص یہ کہتا ہے کہ اگر اس پر جرم ثابت ہوجائے تو وہ ہر سزا بھگتنے کے لیے تیا ر ہے کیونکہ قوانین نے بدعنوانی کو بھی تحفظ دیا ہوتا ہے۔ عام آدمی کو یا تو بینکوں سے باآسانی قرضہ ملتا ہی نہیں اگر مل بھی جائے تو وہ اسے بہرصورت واپس کرنے کا پابند ہوتا ہے، اس کا قرضہ معاف کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ اخبارات میں ایسی خبریں بھی شایع ہوئیں کہ قرض ادا نہ کرنے والے عام آدمی کی جائیدادیں نیلام کردی گئیں۔
قرضے معاف کرانے والے ان افراد کے نام متعدد بار اخبارات میں شایع بھی ہوئے اور ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی سامنے آیا مگر آج تک ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ اب وفاقی حکومت نے مالیاتی اداروں سے لیے گئے قرضے معاف کرانے کا عمل روکنے کے لیے ریکوری آرڈیننس 2001ء میں ترمیم لانے کا فیصلہ کیا ہے، اس سلسلے میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو آیندہ اجلاس میں بریفنگ دی جائے گی۔
بعض اطلاعات کے مطابق یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ جان بوجھ کر قرضہ واپس نہ کرنے کو جرم قرار دیا جائے' بیرون ملک پاکستانی بینکوں سے لیے گئے قرضوں کو بھی ریکوری آرڈیننس کے تحت لایا جائے۔ یہ صائب فیصلہ ہے' اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سلسلے میں فوری طور پر قانون سازی کی جائے ۔
اصولی طور پر تو ہونا یہ چاہیے کہ ماضی میں بھی جن بااثر افراد نے قرضے معاف کرائے ان سے بھی ریکوریاں کی جائیں۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ قرضے معاف کرانے والے بااثر افراد کا طرز زندگی کسی شاہانہ انداز سے کم نہیں مگر جب مالیاتی اداروں کے قرضے واپس کرنے کا سوال اٹھایا جاتا ہے تو وہ مختلف حربے بروئے کار لاتے ہوئے خود کو نقصان میں ظاہر کرکے ان قرضوں کو ہڑپ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ملکی معیشت خزانے کو اس قسم کے نقصانات سے بچانے کے لیے ناگزیر ہے کہ حکومت قرضے معاف کرانے والوں کے خلاف فوری طور پر کارروائی عمل میں لائے خواہ وہ کتنے ہی بااثر کیوں نہ ہوں۔
پاکستان میں ایک عرصہ سے یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ بااثر افراد اپنے اثرورسوخ کے بل بوتے پر مالیاتی اداروں سے آسان ترین شرائط اور انتہائی کم سود پر بھاری قرضے حاصل کرتے اور پھر چند قسطیں ادا کرنے کے بعد یا تو انھیں معاف کرا لیتے یا کاروبار میں نقصان ظاہر کر کے انھیں ہڑپ کر جاتے ہیں۔ مالیاتی ادارے بھی ان کے سیاسی اثرورسوخ کے باعث ان کے خلاف کارروائی سے ہچکچاتے ہیں۔
پھر قوانین میں ایسے سقم یا رعایتیں موجود ہیں جن کے بل پر قرضے ری شیڈول ہوجاتے ہیں یا رائٹ آف کردیے جاتے ہیں ، دوسرے لفظوں میں قرضہ معاف کردیا جاتا ہے، یہ سب قانونی طریقے سے ہوتا ہے، اسی لیے ہمارے ہاں ہر بااثر شخص یہ کہتا ہے کہ اگر اس پر جرم ثابت ہوجائے تو وہ ہر سزا بھگتنے کے لیے تیا ر ہے کیونکہ قوانین نے بدعنوانی کو بھی تحفظ دیا ہوتا ہے۔ عام آدمی کو یا تو بینکوں سے باآسانی قرضہ ملتا ہی نہیں اگر مل بھی جائے تو وہ اسے بہرصورت واپس کرنے کا پابند ہوتا ہے، اس کا قرضہ معاف کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ اخبارات میں ایسی خبریں بھی شایع ہوئیں کہ قرض ادا نہ کرنے والے عام آدمی کی جائیدادیں نیلام کردی گئیں۔
قرضے معاف کرانے والے ان افراد کے نام متعدد بار اخبارات میں شایع بھی ہوئے اور ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی سامنے آیا مگر آج تک ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ اب وفاقی حکومت نے مالیاتی اداروں سے لیے گئے قرضے معاف کرانے کا عمل روکنے کے لیے ریکوری آرڈیننس 2001ء میں ترمیم لانے کا فیصلہ کیا ہے، اس سلسلے میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو آیندہ اجلاس میں بریفنگ دی جائے گی۔
بعض اطلاعات کے مطابق یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ جان بوجھ کر قرضہ واپس نہ کرنے کو جرم قرار دیا جائے' بیرون ملک پاکستانی بینکوں سے لیے گئے قرضوں کو بھی ریکوری آرڈیننس کے تحت لایا جائے۔ یہ صائب فیصلہ ہے' اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سلسلے میں فوری طور پر قانون سازی کی جائے ۔
اصولی طور پر تو ہونا یہ چاہیے کہ ماضی میں بھی جن بااثر افراد نے قرضے معاف کرائے ان سے بھی ریکوریاں کی جائیں۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ قرضے معاف کرانے والے بااثر افراد کا طرز زندگی کسی شاہانہ انداز سے کم نہیں مگر جب مالیاتی اداروں کے قرضے واپس کرنے کا سوال اٹھایا جاتا ہے تو وہ مختلف حربے بروئے کار لاتے ہوئے خود کو نقصان میں ظاہر کرکے ان قرضوں کو ہڑپ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ملکی معیشت خزانے کو اس قسم کے نقصانات سے بچانے کے لیے ناگزیر ہے کہ حکومت قرضے معاف کرانے والوں کے خلاف فوری طور پر کارروائی عمل میں لائے خواہ وہ کتنے ہی بااثر کیوں نہ ہوں۔