ایک اور سرد جنگ کی پیشگوئی
روسی وزیراعظم کی اس پیشگوئی کا جائزہ لینے سے پہلے چند ایسے واقعات کا ذکر ضروری ہے
روسی وزیراعظم دمتری میدویدف نے کہا ہے کہ روس اور مغرب کے درمیان کشیدہ تعلقات نے ایک نئی سردجنگ کا آغاز کردیا ہے۔ میونخ میں سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے روسی وزیر اعظم نے کہا ہے کہ شامی حکومت کی حمایت اور یوکرین کے تنازع کی وجہ سے مغرب اور روس کے درمیان تناؤ بڑھ چکا ہے ، جس کا نتیجہ ایک نئی سرد جنگ کی شکل میں ظاہر ہوسکتا ہے۔
روسی وزیراعظم کی اس پیشگوئی کا جائزہ لینے سے پہلے چند ایسے واقعات کا ذکر ضروری ہے جو مستقبل میں سرد یا گرم جنگ کا باعث بن سکتے ہیں۔ شمالی کوریا ایٹمی میدان میں تیزی سے پیش رفت کر رہا ہے جس کی وجہ جنوبی کوریا اور اس کی سرپرست طاقتوں میں تشویش کی لہر دوڑی ہوئی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا کی بڑی فاتح طاقتوں نے آزاد ملکوں کو مال غنیمت سمجھ کر آپس میں تقسیم کرلیا تھا، اس سیاسی لوٹ مار میں جنوبی کوریا اور مغربی جرمنی امریکا کے حصے میں آئے۔
جرمنی کے عوام کی جدوجہد کی وجہ مغربی اور مشرقی جرمنی ایک بار پھر متحد ہوگئے اور جنگ بازوں کی بدبختانہ یادگار دیوار برلن کو جرمن عوام نے مسمارکردیا، لیکن چونکہ جنوبی کوریا فوجی اورنظریاتی لحاظ سے امریکا کی لازمی ضرورت بنا ہوا ہے، اس لیے امریکا اپنے استحصالی نظام کے ساتھ جنوبی کوریا کی حفاظت کر رہا ہے جہاں اس نے بڑی تعداد میں اپنی فوج بھی رکھی ہوئی ہے۔ اب تازہ اطلاعات کے مطابق امریکا نے جنوبی کوریا میں اضافی پیٹریاٹ میزائل نظام نصب کردیا ہے۔
یو ایس ایٹتھ آرمی کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل تھامس وینڈل کا کہنا ہے کہ یہ تنصیب اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ہم شمالی کوریا کے حملے کے دفاع کے لیے ہر وقت تیار ہیں۔ ایک اورخبر کے مطابق چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی نے کہا ہے کہ امریکا چین کی سلامتی کے لیے خطرہ بننے والے پیٹریاٹ میزائل سسٹم جنوبی کوریا میں نہ نصب کرے۔ امریکی نظام کی تنصیب سے اس علاقے کے حالات اور پیچیدہ ہوجائیں گے۔
یوکرین اور شام کے حوالے سے امریکا اور روس ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہوئے ہیں اور اس بدنصیب ملک کے عوام لاکھوں کی تعداد میں ترک وطن کرکے مختلف یورپی ملکوں میں ہجرت کر رہے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں کشتیاں ڈوبنے کی وجہ موت کا شکار ہورہے ہیں۔
اس حوالے سے پہلی بات یہ ہے کہ سوشلسٹ بلاک کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد سابقہ کمیونسٹ ملک کسی ایک بلاک میں متحد نہیں۔ دوسرا المیہ یہ ہے کہ جب تک سوشلسٹ بلاک متحد تھا نہ صرف اس بلاک میں شامل ممالک کے مفادات مشترک تھے بلکہ یہ مفادات دنیا بھر کے عوام کو سرمایہ دارانہ نظام کے ظلم و جبر سے بچانے کا ایک مشترکہ مقصد بھی رکھتے تھے۔ اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ سابق سوشلسٹ ملکوں کے حکمرانوں نے سرمایہ دارانہ معیشت کو اپنالیا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام میں عوام کا استحصال سب سے اولین اور لازمی ترجیح میں شامل ہوتا ہے۔
اس پس منظر میں اگر ہم روس اور امریکا کے اختلافات کا جائزہ لیں تو ان میں دنیا کے عوام کی اجتماعی بھلائی کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا۔ اس کے برخلاف ان اختلافات میں دونوں ملکوں کے سیاسی اور معاشی مفادات ہی اولین ترجیح نظر آتے ہیں۔ چین سابقہ سوشلسٹ بلاک کا آبادی کے حوالے سے سب سے بڑا ملک تھا۔ اب چینی مصنوعات امریکا سمیت مغربی ملکوں کی منڈیوں میں اپنا سکہ جما چکے ہیں اور چین کی معیشت اس حوالے سے تیزی سے ترقی کر رہی ہے اگر چین اور امریکا کے درمیان کوئی کشیدگی پیدا ہوگی تو اس کے پیچھے عوامی مفادات ہوں گے نہ نظریاتی محرکات بلکہ یہ سرمایہ دارانہ نظام کی داخلی کشمکش اور دنیا کی منڈیوں پر زیادہ سے زیادہ قبضے کا تنازعہ ہوگا۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد سے بیسویں صدی کی آخری دہائی تک دنیا جس سردجنگ کا شکار تھی اس کا سب سے اہم پہلو دفاعی شعبے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانا تھا۔ اس دور میں دونوں بلاکوں کے درمیان طاقت کی برتری کا جو مقابلہ شروع ہوا وہ اسٹار وار تک جا پہنچا تھا، اس بے مقصد اور احمقانہ مقابلے نے روس کی معیشت کو زمین بوس کر دیا اور نتیجتاً روس جغرافیائی اور نظریاتی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا اور دنیا بھر کے عوام جو سرمایہ دارانہ استحصال سے عاجز آگئے تھے اس ٹوٹ پھوٹ سے سخت مایوسی کا شکار ہوگئے اور عالمی سرمایہ داری کارپوریٹ گلوبلائزیشن کی شکل میں دنیا کے 7 ارب عوام کی گردنوں کا پھندا بن گئی۔
روسی وزیر اعظم نے امریکا سے کشیدگی کے حوالے سے جس نئی سردجنگ کا امکان ظاہرکیا ہے اگر یہ نئی سردجنگ شروع بھی ہوجاتی ہے، تو اس میں نظریاتی فرق کا کوئی پہلو ہوگا نہ دنیا کے مظلوم عوام کے بہتر مستقبل کا کوئی پہلو ہوگا بلکہ یہ ممکنہ سردجنگ دو سرمایہ دار ملکوں کے اقتصادی اور سیاسی مفادات کی جنگ ہوگی جس کا واحد مقصد عالمی منڈیوں پر زیادہ سے زیادہ قبضہ ہی ہوگا۔ کارپوریٹ گلوبلائزیشن کے بعد جہاں عوام کے استحصال میں ناقابل یقین اضافہ ہوگیا ہے وہیں سرمایہ دار ملکوں کے درمیان تضادات بھی بڑھ آئے ہیں۔
آج شام کے مسئلے پر روس اور امریکا جس محاذ آرائی کا شکار ہیں اور اس محاذ آرائی کے نتیجے میں لاکھوں شامی عوام جس بے رحمانہ بے وطنی کا شکار ہیں۔ اس حوالے سے شامی عوام کی مدد دونوں ہی ملکوں کی پالیسیوں میں کہیں نظر نہیں آتی۔ بدقسمتی یا سازش یہ ہے کہ بڑی عالمی طاقتوں نے عرب ملکوں کے پٹھو حکمرانوں کو بھی اس تنازعہ میں گھسیٹ لیا ہے اور اس سازش سے مشرق وسطیٰ کے عوام کا حال اور مستقبل مخدوش ہوگیا ہے۔
شمالی امریکا کی قیادت جنوبی کوریا پر امریکی قبضے سے مضطرب ہے ۔ کوریا کے عوام کی یہ خواہش عین فطری ہوگی کہ جرمنی کی طرح کوریا بھی ایک بار پھر متحد ہوجائے۔
اگر کوریا متحد ہوجاتا ہے تو امریکا کو جنوبی کوریا سے اپنا بوریا بستر لپیٹنا پڑے گا جو اس کے سیاسی مفادات کے خلاف ہوگا۔ کوریا کی دو حصوں میں تقسیم کی وجہ نہ صرف دونوں حصوں کی اقتصادی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے بلکہ دونوں ملک ایک دوسرے سے دفاع کے نام پر کورین عوام کی محنت کی کمائی کو دفاع کے شعبے پر خرچ کر رہے ہیں۔ روسی وزیر خارجہ نے جس سرد جنگ کی طرف اشارہ کیا ہے کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ یہ نئی سرد جنگ دوسری عالمی جنگ کے بعد کی سردجنگ سے کس طرح مختلف ہوگی، اس کے مقاصد کیا ہوں گے اور ممکنہ سرد جنگ کے دنیا میں بسنے والے 7 ارب غریب عوام کی زندگی پر کس قسم کے مثبت یا منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ جب تک دنیا میں سیاستدان حکمران ہوں گے نہ دنیا کو سرد اورگرم جنگوں سے نجات ملے گی نہ عوام خوشحال ہوسکیں گے۔
روسی وزیراعظم کی اس پیشگوئی کا جائزہ لینے سے پہلے چند ایسے واقعات کا ذکر ضروری ہے جو مستقبل میں سرد یا گرم جنگ کا باعث بن سکتے ہیں۔ شمالی کوریا ایٹمی میدان میں تیزی سے پیش رفت کر رہا ہے جس کی وجہ جنوبی کوریا اور اس کی سرپرست طاقتوں میں تشویش کی لہر دوڑی ہوئی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا کی بڑی فاتح طاقتوں نے آزاد ملکوں کو مال غنیمت سمجھ کر آپس میں تقسیم کرلیا تھا، اس سیاسی لوٹ مار میں جنوبی کوریا اور مغربی جرمنی امریکا کے حصے میں آئے۔
جرمنی کے عوام کی جدوجہد کی وجہ مغربی اور مشرقی جرمنی ایک بار پھر متحد ہوگئے اور جنگ بازوں کی بدبختانہ یادگار دیوار برلن کو جرمن عوام نے مسمارکردیا، لیکن چونکہ جنوبی کوریا فوجی اورنظریاتی لحاظ سے امریکا کی لازمی ضرورت بنا ہوا ہے، اس لیے امریکا اپنے استحصالی نظام کے ساتھ جنوبی کوریا کی حفاظت کر رہا ہے جہاں اس نے بڑی تعداد میں اپنی فوج بھی رکھی ہوئی ہے۔ اب تازہ اطلاعات کے مطابق امریکا نے جنوبی کوریا میں اضافی پیٹریاٹ میزائل نظام نصب کردیا ہے۔
یو ایس ایٹتھ آرمی کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل تھامس وینڈل کا کہنا ہے کہ یہ تنصیب اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ہم شمالی کوریا کے حملے کے دفاع کے لیے ہر وقت تیار ہیں۔ ایک اورخبر کے مطابق چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی نے کہا ہے کہ امریکا چین کی سلامتی کے لیے خطرہ بننے والے پیٹریاٹ میزائل سسٹم جنوبی کوریا میں نہ نصب کرے۔ امریکی نظام کی تنصیب سے اس علاقے کے حالات اور پیچیدہ ہوجائیں گے۔
یوکرین اور شام کے حوالے سے امریکا اور روس ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہوئے ہیں اور اس بدنصیب ملک کے عوام لاکھوں کی تعداد میں ترک وطن کرکے مختلف یورپی ملکوں میں ہجرت کر رہے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں کشتیاں ڈوبنے کی وجہ موت کا شکار ہورہے ہیں۔
اس حوالے سے پہلی بات یہ ہے کہ سوشلسٹ بلاک کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد سابقہ کمیونسٹ ملک کسی ایک بلاک میں متحد نہیں۔ دوسرا المیہ یہ ہے کہ جب تک سوشلسٹ بلاک متحد تھا نہ صرف اس بلاک میں شامل ممالک کے مفادات مشترک تھے بلکہ یہ مفادات دنیا بھر کے عوام کو سرمایہ دارانہ نظام کے ظلم و جبر سے بچانے کا ایک مشترکہ مقصد بھی رکھتے تھے۔ اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ سابق سوشلسٹ ملکوں کے حکمرانوں نے سرمایہ دارانہ معیشت کو اپنالیا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام میں عوام کا استحصال سب سے اولین اور لازمی ترجیح میں شامل ہوتا ہے۔
اس پس منظر میں اگر ہم روس اور امریکا کے اختلافات کا جائزہ لیں تو ان میں دنیا کے عوام کی اجتماعی بھلائی کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا۔ اس کے برخلاف ان اختلافات میں دونوں ملکوں کے سیاسی اور معاشی مفادات ہی اولین ترجیح نظر آتے ہیں۔ چین سابقہ سوشلسٹ بلاک کا آبادی کے حوالے سے سب سے بڑا ملک تھا۔ اب چینی مصنوعات امریکا سمیت مغربی ملکوں کی منڈیوں میں اپنا سکہ جما چکے ہیں اور چین کی معیشت اس حوالے سے تیزی سے ترقی کر رہی ہے اگر چین اور امریکا کے درمیان کوئی کشیدگی پیدا ہوگی تو اس کے پیچھے عوامی مفادات ہوں گے نہ نظریاتی محرکات بلکہ یہ سرمایہ دارانہ نظام کی داخلی کشمکش اور دنیا کی منڈیوں پر زیادہ سے زیادہ قبضے کا تنازعہ ہوگا۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد سے بیسویں صدی کی آخری دہائی تک دنیا جس سردجنگ کا شکار تھی اس کا سب سے اہم پہلو دفاعی شعبے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانا تھا۔ اس دور میں دونوں بلاکوں کے درمیان طاقت کی برتری کا جو مقابلہ شروع ہوا وہ اسٹار وار تک جا پہنچا تھا، اس بے مقصد اور احمقانہ مقابلے نے روس کی معیشت کو زمین بوس کر دیا اور نتیجتاً روس جغرافیائی اور نظریاتی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا اور دنیا بھر کے عوام جو سرمایہ دارانہ استحصال سے عاجز آگئے تھے اس ٹوٹ پھوٹ سے سخت مایوسی کا شکار ہوگئے اور عالمی سرمایہ داری کارپوریٹ گلوبلائزیشن کی شکل میں دنیا کے 7 ارب عوام کی گردنوں کا پھندا بن گئی۔
روسی وزیر اعظم نے امریکا سے کشیدگی کے حوالے سے جس نئی سردجنگ کا امکان ظاہرکیا ہے اگر یہ نئی سردجنگ شروع بھی ہوجاتی ہے، تو اس میں نظریاتی فرق کا کوئی پہلو ہوگا نہ دنیا کے مظلوم عوام کے بہتر مستقبل کا کوئی پہلو ہوگا بلکہ یہ ممکنہ سردجنگ دو سرمایہ دار ملکوں کے اقتصادی اور سیاسی مفادات کی جنگ ہوگی جس کا واحد مقصد عالمی منڈیوں پر زیادہ سے زیادہ قبضہ ہی ہوگا۔ کارپوریٹ گلوبلائزیشن کے بعد جہاں عوام کے استحصال میں ناقابل یقین اضافہ ہوگیا ہے وہیں سرمایہ دار ملکوں کے درمیان تضادات بھی بڑھ آئے ہیں۔
آج شام کے مسئلے پر روس اور امریکا جس محاذ آرائی کا شکار ہیں اور اس محاذ آرائی کے نتیجے میں لاکھوں شامی عوام جس بے رحمانہ بے وطنی کا شکار ہیں۔ اس حوالے سے شامی عوام کی مدد دونوں ہی ملکوں کی پالیسیوں میں کہیں نظر نہیں آتی۔ بدقسمتی یا سازش یہ ہے کہ بڑی عالمی طاقتوں نے عرب ملکوں کے پٹھو حکمرانوں کو بھی اس تنازعہ میں گھسیٹ لیا ہے اور اس سازش سے مشرق وسطیٰ کے عوام کا حال اور مستقبل مخدوش ہوگیا ہے۔
شمالی امریکا کی قیادت جنوبی کوریا پر امریکی قبضے سے مضطرب ہے ۔ کوریا کے عوام کی یہ خواہش عین فطری ہوگی کہ جرمنی کی طرح کوریا بھی ایک بار پھر متحد ہوجائے۔
اگر کوریا متحد ہوجاتا ہے تو امریکا کو جنوبی کوریا سے اپنا بوریا بستر لپیٹنا پڑے گا جو اس کے سیاسی مفادات کے خلاف ہوگا۔ کوریا کی دو حصوں میں تقسیم کی وجہ نہ صرف دونوں حصوں کی اقتصادی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے بلکہ دونوں ملک ایک دوسرے سے دفاع کے نام پر کورین عوام کی محنت کی کمائی کو دفاع کے شعبے پر خرچ کر رہے ہیں۔ روسی وزیر خارجہ نے جس سرد جنگ کی طرف اشارہ کیا ہے کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ یہ نئی سرد جنگ دوسری عالمی جنگ کے بعد کی سردجنگ سے کس طرح مختلف ہوگی، اس کے مقاصد کیا ہوں گے اور ممکنہ سرد جنگ کے دنیا میں بسنے والے 7 ارب غریب عوام کی زندگی پر کس قسم کے مثبت یا منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ جب تک دنیا میں سیاستدان حکمران ہوں گے نہ دنیا کو سرد اورگرم جنگوں سے نجات ملے گی نہ عوام خوشحال ہوسکیں گے۔