کنویں کا مینڈک

خبر اور اخبارکا گہرا تعلق ہوتا ہے اور خبروں سے اخبار بنتا اور چلتا ہے

خبر اور اخبارکا گہرا تعلق ہوتا ہے اور خبروں سے اخبار بنتا اور چلتا ہے۔ چلتا سے مراد یہ ہے کہ کامیاب رہتا ہے مگر وہ لوگ جو خبریں لاتے ہیں یا خبریں جمع کرتے ہیں ان کی شہرت اخبار کے لیے چونکا دینے والی، حیرت انگیز یا پیش آنے والے واقعات کی نشاندہی کرنے والی خبروں کی وجہ سے خاصی زیادہ ہوتی ہے، سمجھتے ہیں کہ فلاں سیاست دان، جرنیل یا فلاں سابق اسپتال میں اپنا طبی معائنہ کرانے گئے یا ان کا طبی معائنہ کیا گیا اور وہ صحت مند قرار دیے گئے، اچھا تو میرے چند منٹ کیوں ضایع کیے گئے اس خبر کو چھاپ کر، اب آپ کہیںگے کہ نہ پڑھتے تو جناب بارہ پندرہ روپے کا اخبار آتا ہے ایک ایک سطر پر ''پیسہ لگا ہوا ہے'' میرا، اشتہار کے پیسے اخبار کو ملتے ہیں۔

چھپا وہ میرے پیسے سے ہے، لہٰذا میں اپنا ایک پیسہ بھی ضایع نہیں کرتا جو امراض خدا کے فضل و کرم سے مجھے لاحق نہیں ہیں ان کا اشتہار بھی ضرور پڑھتا ہوں ، ایسے کاموں اور خبروں کے لیے ڈمی اخبار ٹھیک ہیں ڈمی اخبار تو آپ جانتے ہی ہوںگے، ایک اخبار ہوتا ہے اور ایک ڈمی اخبار یعنی اخبار کی نقل اور وہ صرف اتنا چھپتا ہے کہ سرکاری اداروں میں یا اشتہار دینے والوں اور درست احباب کو بھیج دیا جائے کچھ کا یہاں محکمہ اطلاعات کو تاکہ ریکارڈ رہے، یعنی سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے اور بوقت ضرورت ہے سرکاری اشتہارات کا ادائیگی کا چیک، جو محکمہ اطلاعات اخبار کو اس اشتہار کے عوض دیتا ہے، کن شرائط پر دیتا ہے اس کا لکھا اور بغیر لکھا قانون ہمیں ازبر ہے، مدتوں ایک اخبار کو شوقیہ ایڈٹ کرتے رہے ہیں، حیدرآباد میں جس کے سرنام ایڈیٹر کوئی اور ہے اور سارے معاملات بھی وہی کیا کرتے تھے، ہمیں تو بس قلم کاری کی لت ہے سو وہ ریڈیو کے علاوہ اس طرح پوری کیا کرتے تھے۔

تو خیر پھر آجائیں ہم اپنے موضوع پر کہ خبروں کے معاملے میں اور ان کے چھاپنے کے معاملے میں اخبارات اور خصوصاً بڑے اخبارات کو بہت خیال رکھنا چاہیے کہ انھیں زیادہ لوگ پڑھتے ہیں۔ اعتبار کرتے ہیں کہ ان کی خبریں کام کی ہوںگی اب ایک خبر 22 فروری کو شایع ہوئی ہے۔ ایک صاحب کے گردے کی پیوند کاری جو کامیاب ہوگئی ہے تو اس خبر سے ملک و قوم کو کیا فائدہ ہونے والا ہے، کیا ملک میں اس سے کوئی تبدیلی واقع ہوجائے گی۔

روزانہ اس قسم کے آپریشن ہوا کرتے ہیں یا تو سب کی فہرست نشر کی جاتی رہے کہ آج اتنے آپریشن ہوئے اس جگہ ہوئے ان قابل ڈاکٹر صاحبان نے انجام دیے اور ملک کے فلاں فلاں شہری صحت یاب ہوئے، ٹھیک ہے یہ خبر بھی ہوگی اور مفاد عامہ کے لیے ٹھیک بھی ہوگی، ان صاحب سے نہ ہمارا کوئی کام رکا ہوا ہے نہ ہم خدانخواستہ ان کے خلاف ہیں ہم خبر پر تبصرہ کررہے ہیں، جو کام ان کا ہوا ہے وہ ہوتا رہتا ہے صرف ان کی خبر کیوں؟ کس کی مہربانی ہے کوئی وجہ مہربانی ہے؟

یہ سوالات خبر پڑھ کر ہر قاری کے ذہن میں آتے ہیں مگر ہر قاری کالم نہیں لکھتا لہٰذا ان کے خیالات کو ہم جیسے لوگ قلم بند کرتے ہیں کیوں نہیں اخبار اس بات کو لکھتے کہ اگر وہ عطیہ کرنا چاہے اور ایسا کرنا ایک اچھا عمل ہے اور ایسا کرنے والے اپنے ساتھ ایک اور زندگی کو بچاسکتے ہیں یہ صرف ادیب رضوی کا نام ہی کیوں پڑے کہ وہ اسپتال بھی قائم کرے اور اس نظریے کو بھی عام کرے یہ اخبارات کی ذمے داری ہے وہ یہ کرسکتے ہیں، اس کام میں وہ اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں، ایک چھوٹی سی تحریر کسی جگہ مستقل چھاپ کر ایک بڑا کام کرسکتے ہیں، ثواب تو ایک الگ چیز ہے جسے ہم اپنے اپنے مفاد اور لفظوں میں بیان کرتے ہیں سوسائٹی کا آپ پر فرض ہے آپ اس معاشرے میں اخبار نکالتے ہیں۔


لوگ آپ کا اخبار پڑھتے ہیں اس سے لوگوں کا روزگار وابستہ ہے، آپ کا فائدہ ہے تو آپ جواباً اس معاشرے کو اس سماج کو کیا دے رہے ہیں صرف جمعہ ایڈیشن، اتوار ایڈیشن، دین دنیا ساتھ ساتھ آپ کا اخبار دور نکلتا ہے آپ روزگار روز حاصل کرتے ہیں اس سے اور لوگوں کے گھر کے چولہے چل رہے ہیں تو آپ بھی سماج میں کچھ روشنی کیجیے۔ اپنا حصہ ادا کیجیے کوئی چراغ جلایئے ایسا کچھ مستقل کیجیے کہ جو اخبار کا امتیازی نشان بن جائے اس وقت ملک میں ایک دو اخبار ہی تھے اردو کے جب ٹارزن کی کہانی چھپا کرتی تھی، ٹارزن کو کسی نے دیکھا نہ ہی یہ کہانی سچ ہوگی مگر ہم خود پرائمری سے ہائی اسکول تک روزانہ یہ دیکھتے تھے کہ چار تصویریں اور ان کے نیچے منظر کی تفصیل اور پھر کیا ہوا یہ کل کے اخبار میں ملاحظہ کیجیے گاMotivation کہ بندہ کل پھر اخبار پڑھے گا اخبار خریدے گا۔

نہ جانے ہم سے پہلے اور ہمارے بعد بھی کتنے لوگ کہاں پڑھ پڑھ کر جوان ہوئے، سچ بتائیں کہ ہم نے اس وقت بھی بچوں، بوڑھوں سب کو قسط وار پڑھتے دیکھتا تھا یہ ہے اخبار کا چسکا اور اخبار چسکے سے چلتا ہے جس طرح کہیں کہ چائے کہیں کا پلاؤ، کہیں کا حلیم یا ولیم، مشہور ہوتا ہے۔ اسی طرح اخبار بھی ایک دکان ہے جس کا Product ہے خبریں اور مضامین اور ان کے لیے ہی لوگ اخبار خریدتے، اس کا انتظار کرتے ہیں، کہانیاں تو بہت ہوتی ہیں مگر سنانے کا فن کہانی کو مشہور کردیتا ہے، جیسے کہ ہم نے ٹارزن کی کہانی کا حوالہ دیا ہے۔

اخبار بھی ایک کہانی سنانے والا ہوتا ہے یہ ایک ایسا دکاندار ہے ادب کا جس کے پاس سب کچھ ہے، خبر، سیاست، ادب، معیشت، حالات، پیش گوئی اور ماضی سے رابطہ، یوں اس دکان میں سب کچھ ہوتا ہے جوسلیقے سے فروخت کیا جائے تو دکان خوب چلتی ہے، بات شروع خبر سے کی تھی اور ہم بات اخبار کی کررہے ہیں جو خبروں کا مجموعہ ہے آپ کے پاس بہت قسم کے پڑھنے والے ہیں، آپ کو سب کے بارے میں سوچنا چاہیے کسی ایک کے گردے کے بارے میں نہیں بلکہ تمام دھڑکتے دلوں کے بارے میں جن کے ہاتھ میں آپ کا اخبار ہے میچ تو کل رات ختم ہوگیا لوگ جیت گئے ہار گئے پھر کیا وجہ ہے کہ لوگ اخبار پڑھ رہے ہیں میچ دیکھا ہے آدھی رات جاگ کر ایک ایک بال خود دیکھی ہے۔

ایک ایک رن خود گنا ہے پھر کیوں پڑھ رہے ہیں لوگ اخبار؟ اس لیے کہ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ میچ کے بارے میں ان کا جو خیال ہے وہ آپ کے اخبار نے Cover کیا ہے یا نہیں دن بھر باتیں ہوںگی۔ اپنا دیکھا ہوا لوگ آپ کے اخبار کے حوالے سے بیان کریںگے یہ کمال ہے اخبار کا کہ وہ عوام کا ترجمان بن جاتا ہے جو اچھا ترجمان ہوگا وہ زیادہ ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا، پرائز بانڈ کی لسٹ تو اب ایک مہینے میں ایک بار ہی چھپتی ہے مگر خبریں وہ پرائز بانڈ ہیں جو روز چھپتی ہیں لہٰذا خبروں کا ہر طرح معیار بہتر سے بہتر ہونا چاہیے، اندر کے صفحات اوپر سے زیادہ دلکش ہوں کیوں کہ اوپر کا صفحہ تو توجہ حاصل کر ہی لیتا ہے مسئلہ اندر کے صفحات کا ہے پھول کدھر جائے گا اور اندر کے صفحات پھول ہیں کماتے تو آپ اندر کے صفحات ہی سے ہیں تو ان کو بھرتی کے صفحات کیوں بنایا جائے ۔

ہم اخبار کے ایڈیٹر ہیں نہ مالک نہ ہی کوئی صلاح کار ہم تو بس عوام میں سے ہیں خود اپنا کالم اخبار خرید کر پڑھتے ہیں بات ہم کرتے ہیں ساری دنیا کی، دنیا سے مراد لوگ ہیں ہر انسان میں ایک دنیا اور نہ جانے کیا کیا ہے خود وہ چلا جاتا ہے بنا جانے کہ وہ کیا کیا تھا، یہ ایک علیحدہ موضوع ہے بات ہے اخبار کی اور اخبار کے بارے میں گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ یار یہ گردے اور سوئم جو ہوچکا ہو اس کی خبریں دے کر ہمارا وقت اور پیسہ برباد نہ کرو ہمیں اس پر اعتراض ہے اور ہم اس کے خلاف تحریراً احتجاج کرتے ہیں کہ جب ہم اخبار خرید کر پڑھتے ہیں تو اخبار میں سب کچھ معیاری ہونا چاہیے شاعری بھی، ادب بھی، صحافت بھی اور دنیا بھر سے بھی جو کچھ ہورہاہے وہ بھی ۔ ہمیں کنویں کا مینڈک نہ بناؤ، ہم سمندر میں تیرنا چاہتے ہیں۔
Load Next Story