لاہورمیں حقوق نسواں قانون کے تحت پہلا مقدمہ درج
شوہرسے بچوں کو کھانا کھلانے کا پوچھا تو اس نے مجھے تشدد کا نشانہ بنایا اورجان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دیں، خاتون
لاہور:
تھانہ گرین ٹاؤن میں تحفظ حقوق نسواں قانون کے تحت خاتون کا اپنے شوہرکے خلاف پہلا مقدمہ درج کرادیا گیا۔
لاہورکے تھانہ گرین ٹاؤن میں تحفظ حقوق نسواں قانون کے تحت بسرا ولد وارث نے موقف اختیارکیا کہ وہ محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالتی ہے،گزشتہ روز گھرآئی تواپنے شوہرسے بچوں کو کھانا کھلانے کا پوچھا تو اس نے مجھے تشدد کا نشانہ بنایا اورمجھے جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دیں. پولیس نے مقدمہ درج کرتے ہوئے خاتون کو میڈیکل کے لیے اسپتال بھجوایا ہے جس کے بعد مزید کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
پنجاب اسمبلی سے منظور ہونے والے نئے قانون کے ذریعے تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کو تین طرح کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا،نئے قانون کی بدولت خواتین ہراساں کرنے والوں یا پھر جسمانی تشدد کرنے والوں کے خلاف عدالت سے پروٹیکشن آرڈر لے سکیں گی،پروٹیکشن آرڈر کے ذریعے عدالت ان افراد کو جن سے خواتین کو تشدد کا خطرہ ہو، پابند کرے گی کہ وہ خاتون سے ایک خاص فاصلے پررہیں اوراس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ عدالت کے پروٹیکشن آرڈرکی خلاف ورزی نہیں ہو رہی تشدد کرنے والے شخص کو جی پی ایس ٹریکنگ بریسلٹ پہنائے جائیں گے تاہم اس پابندی کا اطلاق شدید خطرہ ثابت ہونے یا سنگین جرم کی صورت میں ہی ہوسکےگا۔ عدالت ثبوت کی بنیاد پر جی پی ایس بریسلیٹ پہنانے کا فیصلہ کرے گی جسے ٹیمپر نہیں کیا جاسکے گا۔ ٹیمپرنگ کی صورت میں تشدد کے خلاف قائم کیے گئے سینٹرز پر خود بخود اطلاع ہوجائے گی اور ٹیمپرنگ یا بریسلٹ کو اتارنے کے لیے 6 ماہ سے ایک سال تک اضافی سزا دی جائے گی۔
ریزیڈینس آرڈ کے تحت خاتون کو اس کی مرضی کے بغیرگھرسے بے دخل نہیں کیا جاسکے گا اگرکوئی بھی خاتون جان کے خطرے کے باعث گھر چھوڑنے پر مجبور ہو یا اسے خاندان کے افراد گھر سے نکال دیں تو ایسی صورت میں عدالت خاندان کو پابند کرسکے گی کہ خاتون کی رہائش کا متبادل بندوبست کیا جائے یا اسے دوبارہ گھرمیں رکھا جائے۔
جب کہ مانیٹری آرڈر کے تحت خواتین تشدد کرنے والے کے خلاف کی گئی قانونی چارہ جوئی پر ہونے والے اخراجات تشدد کرنے والے شخص سے حاصل کرسکیں گی،مانیٹری آرڈر کے تحت خواتین اپنی تنخواہ یا اپنی جائیداد سے ہونے والی آمدنی کو اپنے اختیار میں رکھنے اور اپنی مرضی سے خرچ کرنے کے قابل بھی ہوسکیں گی،مانیٹری آرڈر کے تحت خواتین اپنی تنخواہ یا اپنی جائیداد سے ہونے والی آمدنی کو اپنے اختیار میں رکھنے اور اپنی مرضی سے خرچ کرنے کے قابل بھی ہوسکیں گی۔
تھانہ گرین ٹاؤن میں تحفظ حقوق نسواں قانون کے تحت خاتون کا اپنے شوہرکے خلاف پہلا مقدمہ درج کرادیا گیا۔
لاہورکے تھانہ گرین ٹاؤن میں تحفظ حقوق نسواں قانون کے تحت بسرا ولد وارث نے موقف اختیارکیا کہ وہ محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالتی ہے،گزشتہ روز گھرآئی تواپنے شوہرسے بچوں کو کھانا کھلانے کا پوچھا تو اس نے مجھے تشدد کا نشانہ بنایا اورمجھے جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دیں. پولیس نے مقدمہ درج کرتے ہوئے خاتون کو میڈیکل کے لیے اسپتال بھجوایا ہے جس کے بعد مزید کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
پنجاب اسمبلی سے منظور ہونے والے نئے قانون کے ذریعے تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کو تین طرح کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا،نئے قانون کی بدولت خواتین ہراساں کرنے والوں یا پھر جسمانی تشدد کرنے والوں کے خلاف عدالت سے پروٹیکشن آرڈر لے سکیں گی،پروٹیکشن آرڈر کے ذریعے عدالت ان افراد کو جن سے خواتین کو تشدد کا خطرہ ہو، پابند کرے گی کہ وہ خاتون سے ایک خاص فاصلے پررہیں اوراس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ عدالت کے پروٹیکشن آرڈرکی خلاف ورزی نہیں ہو رہی تشدد کرنے والے شخص کو جی پی ایس ٹریکنگ بریسلٹ پہنائے جائیں گے تاہم اس پابندی کا اطلاق شدید خطرہ ثابت ہونے یا سنگین جرم کی صورت میں ہی ہوسکےگا۔ عدالت ثبوت کی بنیاد پر جی پی ایس بریسلیٹ پہنانے کا فیصلہ کرے گی جسے ٹیمپر نہیں کیا جاسکے گا۔ ٹیمپرنگ کی صورت میں تشدد کے خلاف قائم کیے گئے سینٹرز پر خود بخود اطلاع ہوجائے گی اور ٹیمپرنگ یا بریسلٹ کو اتارنے کے لیے 6 ماہ سے ایک سال تک اضافی سزا دی جائے گی۔
ریزیڈینس آرڈ کے تحت خاتون کو اس کی مرضی کے بغیرگھرسے بے دخل نہیں کیا جاسکے گا اگرکوئی بھی خاتون جان کے خطرے کے باعث گھر چھوڑنے پر مجبور ہو یا اسے خاندان کے افراد گھر سے نکال دیں تو ایسی صورت میں عدالت خاندان کو پابند کرسکے گی کہ خاتون کی رہائش کا متبادل بندوبست کیا جائے یا اسے دوبارہ گھرمیں رکھا جائے۔
جب کہ مانیٹری آرڈر کے تحت خواتین تشدد کرنے والے کے خلاف کی گئی قانونی چارہ جوئی پر ہونے والے اخراجات تشدد کرنے والے شخص سے حاصل کرسکیں گی،مانیٹری آرڈر کے تحت خواتین اپنی تنخواہ یا اپنی جائیداد سے ہونے والی آمدنی کو اپنے اختیار میں رکھنے اور اپنی مرضی سے خرچ کرنے کے قابل بھی ہوسکیں گی،مانیٹری آرڈر کے تحت خواتین اپنی تنخواہ یا اپنی جائیداد سے ہونے والی آمدنی کو اپنے اختیار میں رکھنے اور اپنی مرضی سے خرچ کرنے کے قابل بھی ہوسکیں گی۔