تنظیم سازی بنیادی انسانی حق
آج کل ملک میں تنظیم سازی کے بنیادی حق کا چرچا بڑے زور و شور سے جاری ہے
آج کل ملک میں تنظیم سازی کے بنیادی حق کا چرچا بڑے زور و شور سے جاری ہے، جس میں انسانی حقوق کی علمبرداروں کے علاوہ عدالتوں کے فیصلوں کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔ اس سلسلے میں ایکسپریس فورم کے تحت ایک مذاکرے کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں حکومت، مزدور رہنماؤں اور ماہرین قانون نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی وزیر انسانی حقوق نے کہا کہ آئین کی رو سے اظہار رائے اور پر امن احتجاج سب کا حق ہے اور کسی کو اس سے روکا نہیں جا سکتا۔
یونین سازی سب کا بنیادی و آئینی حق ہے حکومت اداروں کی ترقی کے لیے مختلف سطحوں پر مشاورت کے بعد قوانین و قواعد و ضوابط مرتب کرتی ہے ایسا کہیں نہیں ہوتا کہ لوگوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی جائے۔ اگر کارکنوں کو ان کا حق نہیں مل رہا یا ان کے ساتھ کوئی نا انصافی ہوتی ہے تو ان کی داد رسی کے لیے قوانین موجود ہیں، محتسب کے ادارے میں لیبر کورٹس ہیں جن سے وہ رجوع کر سکتے ہیں۔
وزیر موصوف کے خیالات سے کلی طور پر تو اختلاف نہیں کیا جا سکتا ہے البتہ اس میں کچھ پہلو توجہ اور بحث طلب ضرور ہیں جن پر مخلصانہ انداز میں غور و خوض کر کے ان کے سدباب کی ضرورت ہے جس سے مزدوروں کی فلاح و بہبود اور حکومت کی نیک نامی اور استحکام میں مدد مل سکتی ہے۔ انھوں نے صد فی صد درست کہا کہ یونین کی آڑ میں تشدد و بلیک میلنگ یا حکومت پر دباؤ ڈالنے اور لوگوں کے حقوق پامال کرنے کی قانون اجازت نہیں دیتا ہے لیکن اس سلسلے میں یہ بات غور طلب ہے کہ تشدد اور بلیک میلنگ کی کارروائیوں میں محض مزدوروں یا ان کی یونینز کا کردار ہوتا ہے یا ان میں در پردہ سیاسی عزائم و مفادات اور پشت پناہی کار فرما ہوتی ہیں؟
پہلے تو صنعتی تعلقات کے قانون کے تحت یونین عہدیداروں میں بیرونی کوٹہ کی وجہ سے ایک ہی مزدور قانونی طور پر کئی اداروں کی یونین کا عہدیدار بن جاتا تھا جس کی وجہ سے پیشہ ورانہ مزدور لیڈروں کا ظہور ہوا جس سے محنت کشوں کو فائدے کے علاوہ نقصانات بھی پہنچے لیکن آج کی مزدور یونینز کی سرگرمیوں، مظاہروں، احتجاجوں اور ہڑتالوں میں سیاست دانوں، سماجی اور حکومتی شخصیات کی کھلی مداخلت، دھونس و دھمکیاں نظر آتی ہیں جو اپنے ذاتی، مالی و سیاسی مفادات کی خاطر مزدور مفادات، املاک اور اداروں کو داؤ پر لگاتے ہیں لیکن اس کی سزا صرف محنت کشوں کو بیروزگاری، اداروں کی بندش اور نجکاری کی صورت میں ملتی ہے۔
سیاسی عناصر اور ان کے پروردہ مزدور رہنما اپنے مفادات حاصل کر لیتے ہیں ان کے پاس دولت کے ڈھیر ہوتے ہیں ایسے آلہ کار مزدور رہنماؤں کو ان کی سیاسی جماعتیں اور خفیہ ہاتھ سپورٹ کرتے ہیں انھیں دوسرے محکموں میں ملازمتیں بھی مل جاتی ہیں یا حکومت بدلنے کے بعد پھر انھی محکموں میں تمام تر واجبات کے ساتھ ملازمتوں پر بحال ہو جاتے ہیں اور صنعتی ماحول کو مزید خراب کرتے ہیں۔ جو مزدور رہنما قانون و اصول اور حق و سچ کے راستے پر چل کر اپنے فرائض ادا اور حقوق حاصل کرنے کی کوششیں کرتے ہیں جن کے پیچھے کوئی سیاسی و سماجی قوت و جماعت نہیں ہوتی یا وہ ان کے آلہ کار نہیں بنتے بے وقعت نظر آتے ہیں اور کسمپرسی میں اپنی زندگیاں تمام کر دیتے ہیں ان کے حصے میں بعد از مرگ صرف تعزیتی اجلاس تعریف و توصیف ہی آتی ہے۔
وزیر انسانی حقوق نے مزدوروں کی داد رسی کے لیے جن قوانین اور اداروں کا ذکر کیا ہے اول تو وہ قوانین فرسودہ اور غیر موثر ہو چکے ہیں بعض کا وجود محض علامتی رہ گیا ہے کچھ متحرک قوانین حکومت کی جانب سے وقتاً فوقتاً کی جانے والی ترامیم اور قانون سازی سے اپنی افادیت کھو چکے ہیں۔محنت کشوں کے مفادات کی حفاظت کے لیے قائم حکومتی محکمے بھی مزدوروں کے حقوق کا تحفظ کرنے کے بجائے ان کا استحصال کرنے کے راستے پر گامزن نظر آتے ہیں یا پھر ان کی چشم پوشی اور آشیرباد اور غیر فعالیت کے باعث محنت کشوں کا منظم طور پر استحصال اور نا انصافی ہوتی ہے۔
محتسب کی عدالتوں میں جہاں بغیر فیس اور بغیر وکلا کے سستا اور فوری انصاف ملنے کی توقع ہوتی ہے۔ ملازمتوں سے متعلق امور اور نجی اداروں سے متعلق امور ان کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے وہ صرف ریٹائرڈ ملازمین کے سرکاری اداروں سے متعلق معاملات پر کارروائی کا استحقاق رکھتی ہیں۔ دیگر ملکی عدالتوں میں بے تحاشا اخراجات لا متناہی سلسلہ، فیصلے میں تاخیر و تعطل اور اپیل در اپیل کا رواج، آجروں کو تو قوت و حوصلہ فراہم کرتا ہے مگر عام مزدور اس کے تصور سے بھی خوف زدہ ہو جاتا ہے۔
سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ملک کی افرادی قوت کا 90 فی صد سے زائد حصہ زراعت چھوٹے کارخانوں، دکانوں، گھروں یا ٹھیکیداری سسٹم کے تحت عارضی ملازمت اور یومیہ اجرت کی بنیاد پر ملازمت کرتا ہے۔ لاکھوں افراد اینٹوں کے بھٹوں میں غلامی در غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان کے علاوہ چائلڈ لیبر اور بانڈڈ لیبر کی بھی بڑی تعداد ہے جنھیں تنظیم سازی تو دور کی بات ہے بنیادی انسانی حقوق بھی حاصل نہیں ہیں جس کی وجہ سے ملک میں سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور وڈیروں کی جانب سے محنت کشوں کا منظم طور پر استحصال ہو رہا ہے۔ ایسے روح فرسا واقعات سامنے آتے ہیں کہ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ انسانیت شرمندہ ہو جاتی ہے۔
ستم یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ سے تعلق رکھنے والے صنعت کار، ڈاکٹر، وکلا اور بیگمات معصوم بچوں تک کو انسانیت سوز اور روح فرسا مظالم کر کے مار ڈالتے ہیں یا معذور کر دیتے ہیں۔ پھر ان کے لواحقین اور متعلقہ اداروں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں جس کی وجہ سے آج تک اس قسم کے جرم کا کوئی مرتکب کیفر کردار تک نہیں پہنچا۔
فورم سے آل پاکستان ورکرز کے فیڈریشن کے جنرل سیکریٹری خورشید احمد نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ روس کی بربادی اور گلوبلائزیشن آف اکنامی کے بعد واشنگٹن ڈیکلریشن کے مطابق پرائیویٹائزیشن اور فری لیبر مارکیٹ پر کام ہو رہا ہے۔ ترقی پذیر ممالک پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا دباؤ ہوتا ہے اور حکومت چاہے کوئی بھی ہو وہی کرتی ہے جو یہ ادارے کہتے ہیں۔ نیو لبرل ازم کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک میں این جی اوز کو سپورٹ کیا جانے لگا ہے ان عوامل کی وجہ سے آزاد ٹریڈ یونینز کو نقصان پہنچا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ٹریڈ یونین قومی وحدت پیدا کرتی ہے اور مزدور رنگ و نسل، مذہب و لسانیت سے بالاتر ہو کر اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں، افسوس کہ سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں مزدوروں کے مسائل سننے کے لیے کوئی کمیٹی نہیں بنائی گئی، لیبر لاز پر عمل در آمد کرانا حکومت کی ذمے داری ہے لاکھوں مالکان ہیں جب کہ لیبر انسپکٹر صرف 569 ہیں لہٰذا ایسے میں عمل در آمد کیسے کروایا جا سکتا ہے۔
مگر 80ء کی دہائی کے بعد سے تو مزدور تحریکوں اور یونینز کی جان نکل گئی، سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور کرپٹ اور سیاست زدہ مزدور لیڈروں نے اپنے مخصوص عزائم اور حکمرانوں نے عالمی اداروں کی خیر خواہی اور تابعداری کے جذبے کے تحت مزدور و ملکی مفاد کو نظر انداز کر ڈالا جس کی وجہ سے ملک و معیشت سیاسی و معاشی عدم استحکام سے دوچار ہوئی، بیروزگاری و غربت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ جرائم قانون شکنی اور کرپشن کے رجحان میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ تنظیم سازی کا حق صرف اس صورت میں میسر آ سکتا ہے جب حکمران، سیاست دانوں اور سرمایہ داروں کی مثلث اپنے عزائم اور غیر قانونی دخل اندازی کے رویے کو ترک کر کے محنت کشوں کو آزادانہ طور پر اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کا ماحول فراہم کرے۔ جو ایک مشکل امر ہے۔
یونین سازی سب کا بنیادی و آئینی حق ہے حکومت اداروں کی ترقی کے لیے مختلف سطحوں پر مشاورت کے بعد قوانین و قواعد و ضوابط مرتب کرتی ہے ایسا کہیں نہیں ہوتا کہ لوگوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی جائے۔ اگر کارکنوں کو ان کا حق نہیں مل رہا یا ان کے ساتھ کوئی نا انصافی ہوتی ہے تو ان کی داد رسی کے لیے قوانین موجود ہیں، محتسب کے ادارے میں لیبر کورٹس ہیں جن سے وہ رجوع کر سکتے ہیں۔
وزیر موصوف کے خیالات سے کلی طور پر تو اختلاف نہیں کیا جا سکتا ہے البتہ اس میں کچھ پہلو توجہ اور بحث طلب ضرور ہیں جن پر مخلصانہ انداز میں غور و خوض کر کے ان کے سدباب کی ضرورت ہے جس سے مزدوروں کی فلاح و بہبود اور حکومت کی نیک نامی اور استحکام میں مدد مل سکتی ہے۔ انھوں نے صد فی صد درست کہا کہ یونین کی آڑ میں تشدد و بلیک میلنگ یا حکومت پر دباؤ ڈالنے اور لوگوں کے حقوق پامال کرنے کی قانون اجازت نہیں دیتا ہے لیکن اس سلسلے میں یہ بات غور طلب ہے کہ تشدد اور بلیک میلنگ کی کارروائیوں میں محض مزدوروں یا ان کی یونینز کا کردار ہوتا ہے یا ان میں در پردہ سیاسی عزائم و مفادات اور پشت پناہی کار فرما ہوتی ہیں؟
پہلے تو صنعتی تعلقات کے قانون کے تحت یونین عہدیداروں میں بیرونی کوٹہ کی وجہ سے ایک ہی مزدور قانونی طور پر کئی اداروں کی یونین کا عہدیدار بن جاتا تھا جس کی وجہ سے پیشہ ورانہ مزدور لیڈروں کا ظہور ہوا جس سے محنت کشوں کو فائدے کے علاوہ نقصانات بھی پہنچے لیکن آج کی مزدور یونینز کی سرگرمیوں، مظاہروں، احتجاجوں اور ہڑتالوں میں سیاست دانوں، سماجی اور حکومتی شخصیات کی کھلی مداخلت، دھونس و دھمکیاں نظر آتی ہیں جو اپنے ذاتی، مالی و سیاسی مفادات کی خاطر مزدور مفادات، املاک اور اداروں کو داؤ پر لگاتے ہیں لیکن اس کی سزا صرف محنت کشوں کو بیروزگاری، اداروں کی بندش اور نجکاری کی صورت میں ملتی ہے۔
سیاسی عناصر اور ان کے پروردہ مزدور رہنما اپنے مفادات حاصل کر لیتے ہیں ان کے پاس دولت کے ڈھیر ہوتے ہیں ایسے آلہ کار مزدور رہنماؤں کو ان کی سیاسی جماعتیں اور خفیہ ہاتھ سپورٹ کرتے ہیں انھیں دوسرے محکموں میں ملازمتیں بھی مل جاتی ہیں یا حکومت بدلنے کے بعد پھر انھی محکموں میں تمام تر واجبات کے ساتھ ملازمتوں پر بحال ہو جاتے ہیں اور صنعتی ماحول کو مزید خراب کرتے ہیں۔ جو مزدور رہنما قانون و اصول اور حق و سچ کے راستے پر چل کر اپنے فرائض ادا اور حقوق حاصل کرنے کی کوششیں کرتے ہیں جن کے پیچھے کوئی سیاسی و سماجی قوت و جماعت نہیں ہوتی یا وہ ان کے آلہ کار نہیں بنتے بے وقعت نظر آتے ہیں اور کسمپرسی میں اپنی زندگیاں تمام کر دیتے ہیں ان کے حصے میں بعد از مرگ صرف تعزیتی اجلاس تعریف و توصیف ہی آتی ہے۔
وزیر انسانی حقوق نے مزدوروں کی داد رسی کے لیے جن قوانین اور اداروں کا ذکر کیا ہے اول تو وہ قوانین فرسودہ اور غیر موثر ہو چکے ہیں بعض کا وجود محض علامتی رہ گیا ہے کچھ متحرک قوانین حکومت کی جانب سے وقتاً فوقتاً کی جانے والی ترامیم اور قانون سازی سے اپنی افادیت کھو چکے ہیں۔محنت کشوں کے مفادات کی حفاظت کے لیے قائم حکومتی محکمے بھی مزدوروں کے حقوق کا تحفظ کرنے کے بجائے ان کا استحصال کرنے کے راستے پر گامزن نظر آتے ہیں یا پھر ان کی چشم پوشی اور آشیرباد اور غیر فعالیت کے باعث محنت کشوں کا منظم طور پر استحصال اور نا انصافی ہوتی ہے۔
محتسب کی عدالتوں میں جہاں بغیر فیس اور بغیر وکلا کے سستا اور فوری انصاف ملنے کی توقع ہوتی ہے۔ ملازمتوں سے متعلق امور اور نجی اداروں سے متعلق امور ان کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے وہ صرف ریٹائرڈ ملازمین کے سرکاری اداروں سے متعلق معاملات پر کارروائی کا استحقاق رکھتی ہیں۔ دیگر ملکی عدالتوں میں بے تحاشا اخراجات لا متناہی سلسلہ، فیصلے میں تاخیر و تعطل اور اپیل در اپیل کا رواج، آجروں کو تو قوت و حوصلہ فراہم کرتا ہے مگر عام مزدور اس کے تصور سے بھی خوف زدہ ہو جاتا ہے۔
سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ملک کی افرادی قوت کا 90 فی صد سے زائد حصہ زراعت چھوٹے کارخانوں، دکانوں، گھروں یا ٹھیکیداری سسٹم کے تحت عارضی ملازمت اور یومیہ اجرت کی بنیاد پر ملازمت کرتا ہے۔ لاکھوں افراد اینٹوں کے بھٹوں میں غلامی در غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان کے علاوہ چائلڈ لیبر اور بانڈڈ لیبر کی بھی بڑی تعداد ہے جنھیں تنظیم سازی تو دور کی بات ہے بنیادی انسانی حقوق بھی حاصل نہیں ہیں جس کی وجہ سے ملک میں سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور وڈیروں کی جانب سے محنت کشوں کا منظم طور پر استحصال ہو رہا ہے۔ ایسے روح فرسا واقعات سامنے آتے ہیں کہ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ انسانیت شرمندہ ہو جاتی ہے۔
ستم یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ سے تعلق رکھنے والے صنعت کار، ڈاکٹر، وکلا اور بیگمات معصوم بچوں تک کو انسانیت سوز اور روح فرسا مظالم کر کے مار ڈالتے ہیں یا معذور کر دیتے ہیں۔ پھر ان کے لواحقین اور متعلقہ اداروں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں جس کی وجہ سے آج تک اس قسم کے جرم کا کوئی مرتکب کیفر کردار تک نہیں پہنچا۔
فورم سے آل پاکستان ورکرز کے فیڈریشن کے جنرل سیکریٹری خورشید احمد نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ روس کی بربادی اور گلوبلائزیشن آف اکنامی کے بعد واشنگٹن ڈیکلریشن کے مطابق پرائیویٹائزیشن اور فری لیبر مارکیٹ پر کام ہو رہا ہے۔ ترقی پذیر ممالک پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا دباؤ ہوتا ہے اور حکومت چاہے کوئی بھی ہو وہی کرتی ہے جو یہ ادارے کہتے ہیں۔ نیو لبرل ازم کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک میں این جی اوز کو سپورٹ کیا جانے لگا ہے ان عوامل کی وجہ سے آزاد ٹریڈ یونینز کو نقصان پہنچا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ٹریڈ یونین قومی وحدت پیدا کرتی ہے اور مزدور رنگ و نسل، مذہب و لسانیت سے بالاتر ہو کر اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں، افسوس کہ سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں مزدوروں کے مسائل سننے کے لیے کوئی کمیٹی نہیں بنائی گئی، لیبر لاز پر عمل در آمد کرانا حکومت کی ذمے داری ہے لاکھوں مالکان ہیں جب کہ لیبر انسپکٹر صرف 569 ہیں لہٰذا ایسے میں عمل در آمد کیسے کروایا جا سکتا ہے۔
مگر 80ء کی دہائی کے بعد سے تو مزدور تحریکوں اور یونینز کی جان نکل گئی، سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور کرپٹ اور سیاست زدہ مزدور لیڈروں نے اپنے مخصوص عزائم اور حکمرانوں نے عالمی اداروں کی خیر خواہی اور تابعداری کے جذبے کے تحت مزدور و ملکی مفاد کو نظر انداز کر ڈالا جس کی وجہ سے ملک و معیشت سیاسی و معاشی عدم استحکام سے دوچار ہوئی، بیروزگاری و غربت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ جرائم قانون شکنی اور کرپشن کے رجحان میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ تنظیم سازی کا حق صرف اس صورت میں میسر آ سکتا ہے جب حکمران، سیاست دانوں اور سرمایہ داروں کی مثلث اپنے عزائم اور غیر قانونی دخل اندازی کے رویے کو ترک کر کے محنت کشوں کو آزادانہ طور پر اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کا ماحول فراہم کرے۔ جو ایک مشکل امر ہے۔