تحفظ خواتین بل میں مرد یا عورت نہیں فرد کا ذکرہے ایکسپریس فورم
ٹریکنگ ڈیوائس کا استعمال تیزاب گردی ودیگر سنگین جرائم میں ہوگا، سلمان صوفی، حکومت علما کی رائے لیتی، طاہر اشرفی
تحفظ خواتین بل میں مرد یا عورت نہیں بلکہ فرد کا ذکر ہے، اس سے خاندانی نظام مضبوط ہوگا جبکہ یہ بل عدالتوں پر بوجھ بھی کم کرے گا، ٹریکنگ کڑا گھریلو جھگڑے سے نہیں بلکہ کسی غیرمرد کی جانب سے عورت کو زیادتی، تیزاب گردی و دیگر سنگین جرائم کا نشانہ بنانے پر لگایا جائے گا۔
طلاق کی شرح گزشتہ 2 برسوں میں 400 فیصد بڑھ گئی ہے، کیا اس طرف توجہ دی گئی؟ ان خیالات کا اظہارحکومتی و سیاسی رہنماؤں، سول سوسائٹی کے نمائندوں اور علما نے ''تحفظ خواتین بل'' کے حوالے سے منعقدہ ''ایکسپریس فورم'' میں کیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے اسپیشل مانیٹرنگ یونٹ برائے لا اینڈ آرڈر کے سینیئر رکن سلمان صوفی نے کہا ہے کہ ہم نے خواتین کے مسائل کا حل اپنے معاشرتی ڈھانچے کے مطابق کیا اور مصالحتی انداز کو باقاعدہ شکل دے دی ہے۔
انھوں نے کہا کہ تشدد کے حوالے سے تمام تر معاملات کو خفیہ رکھا جائے گا، کسی کی عزت پرحرف نہیں آئے گا اورنہ ہی کسی کا میڈیا ٹرائل کیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ اب عورت کو انصاف کے حصول کے لیے در درکی ٹھوکریں نہیں کھانا پڑیں گی بلکہ وائلنس اگینسٹ وویمن سینٹر کی ایک ہی چھت تلے تمام سہولتیں دی جائیں گی اور 24 گھنٹے کے اندر اندر ایف آئی آر درج کی جائے گی جبکہ غلط شکایت کی صورت میں 6 ماہ سے ایک سال تک کی سزا اور جرمانہ ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ ٹریکنگ بریسلٹ کا تعلق میاں، بیوی کے جھگڑے سے نہیں ہے بلکہ ایسے لوگوں کے ساتھ ہے جس کا عورت کے ساتھ گھریلو تعلق نہ ہو اور وہ زیادتی کی کوشش یا تیزاب گردی وہ دیگر جرائم کی کوشش کررہا ہو، ایسے شخص کو ٹریکنگ بریسلٹ کے ذریعے ٹریک کیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ ہم اس بل کے حوالے سے علما کے ساتھ مشاورت سے ان کے تحفطات دورکریں گے۔
پاکستان علما کونسل کے چیئرمین مولانا طاہرمحمود اشرفی نے کہا کہ اس بل کے حوالے سے حکومت کوچاہیے تھا کہ علما کی رائے لیتی لیکن متعلقہ لوگوں سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی جس کی وجہ سے اس بل پراعتراضات آرہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جھگڑے پرمردکو توگھر سے نکال دیا جائے گا لیکن خاندان کے دیگر افراد اس عورت کا جینا حرام کردیں گے اور ان حالات میں وہ مزید مسائل کا شکارہوجائے گی۔
پارلیمانی سیکریٹری برائے وویمن ڈیولپمنٹ راشدہ یعقوب نے کہا کہ تحفظ خواتین بل کے حوالے سے لوگوں میں غلط امیج پھیلایا جارہا ہے جبکہ ہم نے اپنی معاشرتی اقدار کومدنظر رکھتے ہوئے یہ بل بنایا ہے، افسوس ہے کہ اس بل کو شوہر اور بیوی تک محدود کردیا گیا جبکہ اس میں ایسا کوئی لفظ نہیں جس سے مرد یا شوہر کا ذکر ہو بلکہ یہ بل تشدد سے متاثرہ فرد کے لیے بنایا گیا ہے۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مرکزی رہنما مولانا امجد خان نے کہا کہ اسلام خواتین کے حقوق کا سب سے بڑا محافظ ہے اور اسلام میں تشدد جائز نہیں ہے، دین اسلام نے عورت کو حق اور درجات دیے لہٰذا کوئی بھی شخص تشدد کا حامی نہیں ہوسکتا۔ انھوں نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل ایک آئینی ادارہ ہے، حکومت کو چاہیے تھا کہ اس بل کے حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل سے رجوع کرتی لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ عورت فاؤنڈیشن کی سربراہ ممتاز مغل نے کہا کہ یہ بل عدالتوں پر بوجھ کم کرے گا جبکہ تشدد کا شکار خواتین کو ایک ہی جگہ پرایف آئی آر، میڈیکل، شیلٹر و دیگر سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔
طلاق کی شرح گزشتہ 2 برسوں میں 400 فیصد بڑھ گئی ہے، کیا اس طرف توجہ دی گئی؟ ان خیالات کا اظہارحکومتی و سیاسی رہنماؤں، سول سوسائٹی کے نمائندوں اور علما نے ''تحفظ خواتین بل'' کے حوالے سے منعقدہ ''ایکسپریس فورم'' میں کیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے اسپیشل مانیٹرنگ یونٹ برائے لا اینڈ آرڈر کے سینیئر رکن سلمان صوفی نے کہا ہے کہ ہم نے خواتین کے مسائل کا حل اپنے معاشرتی ڈھانچے کے مطابق کیا اور مصالحتی انداز کو باقاعدہ شکل دے دی ہے۔
انھوں نے کہا کہ تشدد کے حوالے سے تمام تر معاملات کو خفیہ رکھا جائے گا، کسی کی عزت پرحرف نہیں آئے گا اورنہ ہی کسی کا میڈیا ٹرائل کیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ اب عورت کو انصاف کے حصول کے لیے در درکی ٹھوکریں نہیں کھانا پڑیں گی بلکہ وائلنس اگینسٹ وویمن سینٹر کی ایک ہی چھت تلے تمام سہولتیں دی جائیں گی اور 24 گھنٹے کے اندر اندر ایف آئی آر درج کی جائے گی جبکہ غلط شکایت کی صورت میں 6 ماہ سے ایک سال تک کی سزا اور جرمانہ ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ ٹریکنگ بریسلٹ کا تعلق میاں، بیوی کے جھگڑے سے نہیں ہے بلکہ ایسے لوگوں کے ساتھ ہے جس کا عورت کے ساتھ گھریلو تعلق نہ ہو اور وہ زیادتی کی کوشش یا تیزاب گردی وہ دیگر جرائم کی کوشش کررہا ہو، ایسے شخص کو ٹریکنگ بریسلٹ کے ذریعے ٹریک کیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ ہم اس بل کے حوالے سے علما کے ساتھ مشاورت سے ان کے تحفطات دورکریں گے۔
پاکستان علما کونسل کے چیئرمین مولانا طاہرمحمود اشرفی نے کہا کہ اس بل کے حوالے سے حکومت کوچاہیے تھا کہ علما کی رائے لیتی لیکن متعلقہ لوگوں سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی جس کی وجہ سے اس بل پراعتراضات آرہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جھگڑے پرمردکو توگھر سے نکال دیا جائے گا لیکن خاندان کے دیگر افراد اس عورت کا جینا حرام کردیں گے اور ان حالات میں وہ مزید مسائل کا شکارہوجائے گی۔
پارلیمانی سیکریٹری برائے وویمن ڈیولپمنٹ راشدہ یعقوب نے کہا کہ تحفظ خواتین بل کے حوالے سے لوگوں میں غلط امیج پھیلایا جارہا ہے جبکہ ہم نے اپنی معاشرتی اقدار کومدنظر رکھتے ہوئے یہ بل بنایا ہے، افسوس ہے کہ اس بل کو شوہر اور بیوی تک محدود کردیا گیا جبکہ اس میں ایسا کوئی لفظ نہیں جس سے مرد یا شوہر کا ذکر ہو بلکہ یہ بل تشدد سے متاثرہ فرد کے لیے بنایا گیا ہے۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مرکزی رہنما مولانا امجد خان نے کہا کہ اسلام خواتین کے حقوق کا سب سے بڑا محافظ ہے اور اسلام میں تشدد جائز نہیں ہے، دین اسلام نے عورت کو حق اور درجات دیے لہٰذا کوئی بھی شخص تشدد کا حامی نہیں ہوسکتا۔ انھوں نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل ایک آئینی ادارہ ہے، حکومت کو چاہیے تھا کہ اس بل کے حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل سے رجوع کرتی لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ عورت فاؤنڈیشن کی سربراہ ممتاز مغل نے کہا کہ یہ بل عدالتوں پر بوجھ کم کرے گا جبکہ تشدد کا شکار خواتین کو ایک ہی جگہ پرایف آئی آر، میڈیکل، شیلٹر و دیگر سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔