گناہ بھی اللہ کی نعمت ہوتے ہیں
جتنا ذکر ہمارے معاشرے میں گناہوں کا ہوتا ہے، اتنا نیکیوں کا ہوجاتا تو شاید سارے مسائل خود ہی ختم ہوجاتے۔
جتنا ذکر ہمارے معاشرے میں گناہوں کا ہوتا ہے، اتنا اگر نیکیوں کا ہوجاتا تو شاید سارے مسائل خود ہی ختم ہوجاتے۔ لوگ گناہوں کی قسمیں، گناہوں کے نقصانات اور گناہوں کے طریقوں پر وہ وہ بیانات دیتے ہیں اور اتنا کچھ لکھتے ہیں کہ ایک عام آدمی بھی چلتا پھرتا گناہوں کا انسائیکلو پیڈیا بن جاتا ہے۔
یہ بھی گناہ، وہ بھی گناہ، بولنا بھی گناہ، چپ رہنا بھی گناہ، رکنا بھی گناہ، چلنا بھی گناہ، مانگنا بھی گناہ، دینا بھی گناہ، فارغ بیٹھنا بھی گناہ، بزنس کرنا بھی گناہ، گناہ کی اس تکرار سے آدمی مایوس و پریشان ہوجاتا ہے کہ آخر جائے کہاں اور کرے کیا؟
دنیا کی جنگوں کی طرح، خیر و شر کی اس لڑائی میں بھی کوئی ری ٹریٹ ہونی چاہئیے کہ آدمی دو چار دن بیٹھ کر سکھ کا سانس لے سکے اور آرام سے سوچ سکے کہ زندگی کس ڈگر پر چل رہی ہے۔ گناہوں کے وہ وہ تذکرے اور ایسی پریشانی جو مایوسی کو جنم دے خود شیطان کی ایک چال ہے۔ شیطان تو چاہتا ہی یہ ہے کہ بندہ اس مالک سے ہی مایوس ہوجائے جس کی کتاب شروع ہی الحمد اللہ سے ہوتی ہے جو رحمن ہے، جو رحیم ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ گناہ پر پریشانی تب تک ہو جب تک ہو نہ جائے۔ ایک بار ہوجائے تو بس اب معافی مانگے، استغفار کرے اور آگے چلے کہ زندگی پڑی ہے۔
اللہ نے جہاں کسی کو کوئی برگزیدہ مقام دیا ہے وہاں کسی کو کہیں اور رکھ چھوڑا ہے، خدا کے کاموں میں عِلّت نہیں ڈھونڈنی چاہئیے۔ اللہ کا فضل کسی دلیل، کسی وجہ کا محتاج نہیں ہے۔ کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی طرح اپنا حصّہ ڈال ہی رہا ہوتا ہے۔ میچ کے اس کھلاڑی کی طرح جس کے ہاتھ میں میچ کی آخری گیند پر لگنے والا چھکّا کیچ کی صورت میں آجاتا ہے اور وہ سُرخرو ہو جاتا ہے۔
وہ نیکی جو دعویٰ پیدا کرے اس سے وہ گناہ بہت بہتر ہے جو توڑ کر رکھ دے۔ گناہ بھی اللہ کی نعمت ہوتے ہیں یہ بندے کو بندہ بنا کر رکھتے ہیں ورنہ بندہ اوتار ہوجائے، اور کیا پتہ پُرسکون دل والوں کی تہجّد سے ندامت میں تڑپنے والوں کی راتیں بہتر ہوں۔
گناہ کی خواہش کا ہونا بھی بڑی اچھی بات ہے۔ یہ اُپلے ہوتے ہیں، گندگی ہوتی ہے، اسے اللہ کے خوف کی یاد میں جلانا چاہئیے کہ ترقّی ہو۔ گناہ سرکش گھوڑے ہوتے ہیں اِنہیں سدھانا چاہئیے کہ بندہ آگے کا سفر کرسکے۔ آدمی کو ہر وقت استغفار کرتے رہنا چاہئیے، یہ اللہ تک پہنچنے کا بڑا آسان راستہ ہے۔
گناہوں کے سائیڈ ایفیکٹس میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دعا سے اعتماد اُٹھ جاتا ہے۔ آدمی گناہ پر قدرت رکھتا ہو مگر چھوڑ دے کہ نفس کی مخالفت ہو، اللہ سے حیا آئے، اللہ کی محبّت، خوف یا شکرغالب آجائے تو بھی نیکی لکھی جاتی ہے۔ کسی کو ارادوں کی خبر ہو نہ ہو اللہ تو سب دیکھتا ہے، اللہ تو سب جانتا ہے۔
گناہ گاروں کا اللہ سے گہرا تعلق قائم ہوجاتا ہے، اور وہ تعلق ہے ندامت کا اور توبہ کا، کسی کے بد دعائیں دینے سے بیڑہ غرق نہیں ہوتا۔ اللہ کا اپنی مخلوق سے بڑا تعلق ہے اور گناہ معاف ہونے کے بھی سینکڑوں طریقے ہیں۔ گناہ نیکی سے بھی معاف ہوجاتے ہیں اور کچھ کے گناہوں کو اللہ حشر میں نیکی سے بدل دیں گے، اور اللہ کا فضل تو توبہ کا بھی محتاج نہیں، بغیر توبہ کے ہی بخش دے، اُس سے کس نے پوچھنا ہے؟ اللہ سائیں کہتے ہیں کہ وہ عذاب نہیں دیں گے، اگر ہم شکر ادا کرتے رہیں اور ایمان لائیں۔ اب بتائیے، توبہ اور گناہوں کا تو نام ہی نہیں آیا۔
اُمید اور حوصلہ رکھیں۔ جب نفس گناہ کا بولے تو نہ کریں، نیکی سے روکے تو کرلیں، اتنی سی بات ہے۔ آئیے اللہ سے اپنے گناہوں کا ہی واسطہ دے کر دعا کرتے ہیں کہ نیکیاں ہیں ہی کوئی نہیں۔ اے اللہ! ہمیں ہمارے گناہوں کے صدقے معاف کردے، نادانی میں ہوگئے، تو بخش دے۔ اے اللہ! تو ہی وہ ذات ہے جو ہمارے نفس کے بیچ میں حائل ہے۔ اللہ گناہوں کی لذت ختم کردے۔ ایسے معاف کر جیسے شہنشاہ معاف کرتے ہیں۔ جس طرح تو نے دنیا میں میرے گناہوں کی خبر نشر نہ کی اسی طرح آخرت میں بھی پردہ رکھنا، اے اللہ! اتنا قریب بلالے کہ کوئی ترجمان کوئی پردہ نہ رہے۔ تو گناہ بھی مٹا دے، گواہی دینے والوں کے ذہنوں سے بھی مٹا دے۔ اے اللہ! ہم تو گناہ کا لطف بھی نہ لے سکے کہ گناہوں سے پہلے بھی تیرا خیال، گناہ کے بیچ میں بھی تیرا ڈر اور گناہ کے بعد بھی تیرا خوف۔ اے اللہ! ہمارے ٹوٹے ہوئے بے لطف گناہوں کے صدقے ہمیں معاف کردے۔
یہ بھی گناہ، وہ بھی گناہ، بولنا بھی گناہ، چپ رہنا بھی گناہ، رکنا بھی گناہ، چلنا بھی گناہ، مانگنا بھی گناہ، دینا بھی گناہ، فارغ بیٹھنا بھی گناہ، بزنس کرنا بھی گناہ، گناہ کی اس تکرار سے آدمی مایوس و پریشان ہوجاتا ہے کہ آخر جائے کہاں اور کرے کیا؟
دنیا کی جنگوں کی طرح، خیر و شر کی اس لڑائی میں بھی کوئی ری ٹریٹ ہونی چاہئیے کہ آدمی دو چار دن بیٹھ کر سکھ کا سانس لے سکے اور آرام سے سوچ سکے کہ زندگی کس ڈگر پر چل رہی ہے۔ گناہوں کے وہ وہ تذکرے اور ایسی پریشانی جو مایوسی کو جنم دے خود شیطان کی ایک چال ہے۔ شیطان تو چاہتا ہی یہ ہے کہ بندہ اس مالک سے ہی مایوس ہوجائے جس کی کتاب شروع ہی الحمد اللہ سے ہوتی ہے جو رحمن ہے، جو رحیم ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ گناہ پر پریشانی تب تک ہو جب تک ہو نہ جائے۔ ایک بار ہوجائے تو بس اب معافی مانگے، استغفار کرے اور آگے چلے کہ زندگی پڑی ہے۔
اللہ نے جہاں کسی کو کوئی برگزیدہ مقام دیا ہے وہاں کسی کو کہیں اور رکھ چھوڑا ہے، خدا کے کاموں میں عِلّت نہیں ڈھونڈنی چاہئیے۔ اللہ کا فضل کسی دلیل، کسی وجہ کا محتاج نہیں ہے۔ کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی طرح اپنا حصّہ ڈال ہی رہا ہوتا ہے۔ میچ کے اس کھلاڑی کی طرح جس کے ہاتھ میں میچ کی آخری گیند پر لگنے والا چھکّا کیچ کی صورت میں آجاتا ہے اور وہ سُرخرو ہو جاتا ہے۔
وہ نیکی جو دعویٰ پیدا کرے اس سے وہ گناہ بہت بہتر ہے جو توڑ کر رکھ دے۔ گناہ بھی اللہ کی نعمت ہوتے ہیں یہ بندے کو بندہ بنا کر رکھتے ہیں ورنہ بندہ اوتار ہوجائے، اور کیا پتہ پُرسکون دل والوں کی تہجّد سے ندامت میں تڑپنے والوں کی راتیں بہتر ہوں۔
گناہ کی خواہش کا ہونا بھی بڑی اچھی بات ہے۔ یہ اُپلے ہوتے ہیں، گندگی ہوتی ہے، اسے اللہ کے خوف کی یاد میں جلانا چاہئیے کہ ترقّی ہو۔ گناہ سرکش گھوڑے ہوتے ہیں اِنہیں سدھانا چاہئیے کہ بندہ آگے کا سفر کرسکے۔ آدمی کو ہر وقت استغفار کرتے رہنا چاہئیے، یہ اللہ تک پہنچنے کا بڑا آسان راستہ ہے۔
گناہوں کے سائیڈ ایفیکٹس میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دعا سے اعتماد اُٹھ جاتا ہے۔ آدمی گناہ پر قدرت رکھتا ہو مگر چھوڑ دے کہ نفس کی مخالفت ہو، اللہ سے حیا آئے، اللہ کی محبّت، خوف یا شکرغالب آجائے تو بھی نیکی لکھی جاتی ہے۔ کسی کو ارادوں کی خبر ہو نہ ہو اللہ تو سب دیکھتا ہے، اللہ تو سب جانتا ہے۔
گناہ گاروں کا اللہ سے گہرا تعلق قائم ہوجاتا ہے، اور وہ تعلق ہے ندامت کا اور توبہ کا، کسی کے بد دعائیں دینے سے بیڑہ غرق نہیں ہوتا۔ اللہ کا اپنی مخلوق سے بڑا تعلق ہے اور گناہ معاف ہونے کے بھی سینکڑوں طریقے ہیں۔ گناہ نیکی سے بھی معاف ہوجاتے ہیں اور کچھ کے گناہوں کو اللہ حشر میں نیکی سے بدل دیں گے، اور اللہ کا فضل تو توبہ کا بھی محتاج نہیں، بغیر توبہ کے ہی بخش دے، اُس سے کس نے پوچھنا ہے؟ اللہ سائیں کہتے ہیں کہ وہ عذاب نہیں دیں گے، اگر ہم شکر ادا کرتے رہیں اور ایمان لائیں۔ اب بتائیے، توبہ اور گناہوں کا تو نام ہی نہیں آیا۔
اُمید اور حوصلہ رکھیں۔ جب نفس گناہ کا بولے تو نہ کریں، نیکی سے روکے تو کرلیں، اتنی سی بات ہے۔ آئیے اللہ سے اپنے گناہوں کا ہی واسطہ دے کر دعا کرتے ہیں کہ نیکیاں ہیں ہی کوئی نہیں۔ اے اللہ! ہمیں ہمارے گناہوں کے صدقے معاف کردے، نادانی میں ہوگئے، تو بخش دے۔ اے اللہ! تو ہی وہ ذات ہے جو ہمارے نفس کے بیچ میں حائل ہے۔ اللہ گناہوں کی لذت ختم کردے۔ ایسے معاف کر جیسے شہنشاہ معاف کرتے ہیں۔ جس طرح تو نے دنیا میں میرے گناہوں کی خبر نشر نہ کی اسی طرح آخرت میں بھی پردہ رکھنا، اے اللہ! اتنا قریب بلالے کہ کوئی ترجمان کوئی پردہ نہ رہے۔ تو گناہ بھی مٹا دے، گواہی دینے والوں کے ذہنوں سے بھی مٹا دے۔ اے اللہ! ہم تو گناہ کا لطف بھی نہ لے سکے کہ گناہوں سے پہلے بھی تیرا خیال، گناہ کے بیچ میں بھی تیرا ڈر اور گناہ کے بعد بھی تیرا خوف۔ اے اللہ! ہمارے ٹوٹے ہوئے بے لطف گناہوں کے صدقے ہمیں معاف کردے۔
آمین
[poll id="989"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔