انسان اور اسلام

کائنات میں انسان کو کس قدر بلندی، رفعت، برتری اور کتنی فضیلت و فوقیت حاصل ہے.

اسلام نے انسان کو خواب غفلت سے ہوشیار کیا اور جہالت کی نیند سے جگاکر اسے اس کے اصل مقام اور مرتبہ سے آگاہی بخشی۔ فوٹو: رائٹرز

KARACHI:
اسلام نے دنیا کو انسان کا جو تصور عطا کیا ہے، وہ سورۂ بقرہ کی آیت 30 میں اﷲ کے اس اعلان سے پوری طرح ظاہر ہے جس کا ترجمہ ہے:''وہ وقت یاد کرو جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا تھا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانا چاہتا ہوں۔''

اس کا مطلب یہی ہوا کہ زمین میں اﷲ کی نیابت کی حق دار پوری کائنات میں صرف وہی مخلوق قرار پائی جو صحیح معنیٰ میں انسان کہی جا سکتی ہے اور اس طرح انسان کو تمام مخلوقات پر برتری عطا فرمائی گئی۔ فرشتوں کو حکم دیا گیا کہ کہ انسان کامل یعنی آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ کے لیے جھک جائیں۔ یہ اس بات کی کھلی اور واضح دلیل ہے کہ انسان کامل کا مرتبہ فرشتوں سے بھی اونچا ہوتا ہے۔ اس سے پہلے دنیا انسان کے اصل مقام اور مرتبہ سے بے خبر تھی۔ اشرف المخلوقات، انسان کی پیشانی بے جان پتھروں، حقیر جانوروں اور کیڑوں مکوڑوں کے آگے جھکی ہوئی تھی۔

اسے یہ خبر ہی نہیں تھی کہ اﷲ نے یہ تمام کائنات اسی کی خدمت کے لیے بنائی ہے۔ اسلام نے انسان کو خواب غفلت سے ہوشیار کیا اور جہالت کی نیند سے جگاکر اسے اس کے اصل مقام اور مرتبہ سے آگاہی بخشی۔ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:''اور ہم ہی نے آدم کی اولاد کو عزت عطا کی ہے اور ہم ہی نے اسے خشکی اور دریا میں حمل و نقل کی سہولیات دی ہیں اور ہم ہی نے اس کو نفیس چیزوں کا رزق عطا کیا اور ہم ہی نے اسے اپنی بہت سی مخلوقات پر بڑی فضیلت دی ہے۔'' (سورۂ بنی اسرائیل آیت 70)

اس فرمان الٰہی سے اس بات کا صاف طور سے پتا چلتا ہے کہ کائنات میں انسان کو کس قدر بلندی، رفعت، برتری اور کتنی فضیلت و فوقیت حاصل ہے جو کسی اور کو حاصل نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی قرآن حکیم میں زمین و آسمان کی بہت سی خاص چیزوں کے نام لے کر بتایا گیا کہ اﷲ نے ان سب چیزوں کو انسان ہی کی خدمت کے لیے پیدا کیا ہے اور اس کے لیے انہیں تابع بھی بنادیا ہے۔ جیسے سورج، چاند، ستارے، پہاڑ، درخت چوپائے، دریا اور کشتیاں وغیرہ۔ پھر یہ بھی فرمادیا کہ جو کچھ بھی زمین میں پایا جاتا ہے، وہ سب کا سب انسان کے لیے مسخر کر دیا گیا ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ سورۂ لقمان آیت نمبر20 میں تو یہ بھی فرمایا گیا ہے:''کیا تم لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ اﷲ نے ان سب چیزوں کو تمہارے ہی کام میں لگا رکھا ہے جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں، اور اس نے تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کردی ہیں۔

کوئی اور نہیں یہ صرف اسلام ہی ہے جس نے دنیا کو انسان کے صحیح تصور، اصل مرتبے اور حقیقی مقام و منزل سے آگاہ کیا اور اس میں یہ حوصلہ اور جرأت پیدا کی کہ وہ کائنات کی بڑی اور چھوٹی چیز کو سجدہ کرنے کے بجائے ان پر حکومت کرے اور ان کے ذریعے اپنی جائز ضروریات کو پورا کرے اور ساتھ ہی ان کی پیدائش کے پوشیدہ بھید بھی معلوم کرے۔ وہ زمین کے جگر کو چیر ڈالے، پہاڑوں اور چٹانوں کو پھاڑ ڈالے، فضاؤں میں ہر طرف پرواز کرے، سمندروں کی تہہ میں اتر جائے اور سیاروں پر پہنچ کر ان کے اندر اﷲ کی نشانیوں کو تلاش کرے اور ان کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرے۔ غرض انسان کائنات کی کسی چیز کی بھی غلامی کے لیے نہیں پیدا کیا گیا، بلکہ اس کی پیدائش میں بلندی، برتری اور سرداری رکھی گئی ہے اور اسے زمین و آسمان کی وسعتوں کا اقتدار ملا ہے۔


اسے قوت و طاقت کے نہ ختم ہونے والے خزانے عطا کیے گئے ہیں اور اﷲ کہ طرف سے اسے رزق کے ایسے ایسے ذخیرے عطا کیے گئے ہیں جن میں اس کی زندگی کی بقا اور خوش حالی کے راز چھپے ہوئے ہیں۔ یہ رزق صرف وہی نہیں ہے جسے کھالیا جائے، بلکہ اس سے مراد ہر وہ ضرورت ہے جس پر انسان کی ترقی اور زندگی کا دارومدار ہے۔ اﷲ نے انسان کی پیدائش پر قرآن حکیم میں اپنے بہترین خالق ہونے کا ان لفظوں میں ذکر فرمایا ہے: ''اﷲ کی ذات بڑی برکت والی ہے جو تمام خلق کرنے والوں سے بہتر ہے۔'' (سورۂ مومنون آیت نمبر14)

پھر سورۂ والتین میں انسان کامل ہی کی پیدائش کو ''احسن تقویم'' یعنی بہترین انداز کی پیدائش کا خطاب عطا ہوا۔ اسی طرح اسلام نے انسان کامل کا جو تصور پیش کیا ہے، وہ یہ ہے کہ پوری کائنات میں اس سے بہتر کوئی نہیں ہے۔ وہ کائنات کا خادم نہیں، بلکہ کائنات خود اس کی خدمت گزاری میں مصروف ہے۔ انسان زمین میں اﷲ کا نائب ہے، لیکن اسی کے ساتھ اسلام نے یہ بھی بتادیا ہے کہ انسان کو اس کا اصل مقام اسی وقت مل سکتا ہے جب وہ اﷲ کے دیے ہوئے وسیلوں اور قوتوں کو صحیح طریقے پر استعمال بھی کرے اور اپنے مقام اور مرتبے کو حاصل کرنے کی کوشش بھی کرے۔ اس کے پاس وسیلے ہیں، قوت و طاقت ہے تو اس کے گرد مشکلات کا ایک زبردست طوفان بھی ہے، مگر صحیح معنیٰ میں انسان وہی ہے جو مشکلات کو دور کرکے اپنی منزل کا راستہ تلاش کرلے اور ان میں سے کوئی چیز بھی اس کے لیے رکاوٹ نہ بن سکے۔ ارشاد فرمایا گیا:''ہم نے انسان کو بڑی مشقت کے لیے پیدا کیا ہے۔'' (سورۃ البلد آیت4)

مزید فرمایا گیا:''انسان کو صرف وہی ملے گا جس کی سعی و کوشش کرے گا۔'' (سورۃ النجم آیت 93)
غرض اسلام نے انسان کی عظمت و بلندی بتانے کے ساتھ یہ بات بھی بتادی ہے کہ اسے یہ بلندی صرف اسی وقت مل سکتی ہے جب وہ اس کے لیے کوشش کرے ، ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا نہ رہے، بلکہ ان طاقتوں، صلاحیتوں اور وسیلوں کو کام میں لائے جو اﷲ نے اسے عطا کیے ہیں۔

قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:''اگر تم میں سچا ایمان ہے تو تم ہی سب سے بلند اور سب پر غالب رہو گے۔'' (سورۂ آل عمران آیت 139)
اسلام کے نزدیک انسان کو اس کا صحیح مقام اور مرتبہ صرف اسی وقت مل سکتا ہے جب وہ اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کرے۔
Load Next Story