کراچی کے اضلاع کا تفصیلی جائزہ…آخری حصہ

2010ء میں مقامی حکومتوں کے تحلیل ہونے کے بعد ضلع شرقی میں شہری امور کے کئی مسائل جنم لے چکے ہیں

shabbirarman@yahoo.com

لاہور:
2010ء میں مقامی حکومتوں کے تحلیل ہونے کے بعد ضلع شرقی میں شہری امور کے کئی مسائل جنم لے چکے ہیں، صفائی ستھرائی کا شدید فقدان ہے، گلیوں، محلوں اور سڑکوں پر کچرے کے ڈھیر لگے ہیں، پبلک ٹرانسپورٹ کی قلت، ناقص فراہمی آب کے نظام کے باعث مختلف علاقوں میں پانی کا شدید بحران ہے، سیوریج کا نظام تباہ و برباد ہو چکا ہے، آوارہ کتوں کی بھرمار ہے، اہم شاہراہیں، سڑکیں اور اندرونی گلیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ رہتی ہے۔

بلدیہ وسطی کی 51 یونین کمیٹیاں ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔ 1۔ شاہنواز بھٹو کالونی، 2۔ گلشن سعید، 3۔ خواجہ اجمیر نگری، 4 ۔کلیانہ، 5۔ حکیم احسان، 6۔ ابوذر غفاری، 7۔ فیصل، 8 کالا اسکول، 9۔ مصطفیٰ کالونی، 10۔ خمیسو گوٹھ، 11۔ مدینہ کالونی، 12۔ مجیب النساء، 13۔ گودھرا اسپتال، 14۔ فاطمہ جناح، 15۔ سرسید 16۔ شادمان ٹاؤن، 17۔ فاروق اعظم، 18۔ الفلاح، 19۔ مصطفیٰ آباد، 20 ۔ پہاڑ گنج، 21 ۔کندوگوٹھ، 22 ۔حیدری، 23۔ سخی حسن، 24 ۔بفرزون(2)، 25۔ بفرزون (1)، 26۔ النور سوسائٹی، 27 ۔ سمن آباد، 28 ۔ گلبرگ، 29۔ واٹر پمپ، 30۔ یاسین آباد، 31 ۔ نصیر آباد، 32 ۔جوہر آباد، 33۔ عزیز آباد، 34۔ کریم آباد، 35۔ موسیٰ کالونی، 36۔ ایف سی ایریا، 37 ۔ شریف آباد، 38 ۔ بھندانی کالونی، 39۔ قاسم آباد، 40۔کمرشل ایریا، 41۔ ڈاک خانہ، 42۔ ابن سینا، 43۔ لیاقت آباد، 44۔ حاجی مرید گوٹھ، 45 ۔دادی مارکیٹ، 46 عباسی شہید، 47 ۔ پاپوش نگر، 48 اورنگ آباد، 49۔ ناظم آباد نمبر1، 50۔ رضویہ سوسائٹی، 51 ۔ گلبہار۔ آبادی 35 لاکھ ہے۔

ضلع وسطی میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 17 لاکھ 37 ہزار333 ہے۔ جن میں مرد ووٹرز 9 لاکھ 64 ہزار 585، خواتین ووٹرز7 لاکھ 70 ہزار 634 ہے، یہاں 5 لاکھ 96 ہزار 163 ووٹ کاسٹ ہوئے یعنی کل ووٹ کا 34 فیصد باقی 66 فیصد خاموش اکثریت ہے۔ چیئرمین و وائس چیئرمین 102، وارڈز کونسلرز 204، مجموعی نشستیں 306، ضلعی وسطی کی خصوصیات میں لیاقت آباد سپر مارکیٹ، عباسی شہید اسپتال، سندھ گورنمنٹ اسپتال نیوکراچی، میٹرک بورڈ آفس، انٹربورڈ آفس، جناح یونیورسٹی برائے خواتین نارتھ ناظم آباد، اے او کلینک، بختیار یوتھ سینٹر، بلدیہ عظمیٰ کراچی کا امراض قلب اسپتال، 8 فلائی اوورز، 4 انڈر پاسز، لیاقت آباد ڈاکخانہ، اصغر علی شاہ اسٹیڈیم، بختیار یوتھ سینٹر شامل ہیں۔

ضلع وسطی کے مسائل میں صفائی ستھرائی کا فقدان ہے اور فراہمی آب کی قلت سرفہرست ہیں۔ سیوریج کا نظام اور سڑکیں انتہائی زبوں حالی کا شکار ہیں۔ ضلع وسطی کے کئی علاقوں میں اندرونی گلیوں کے مین ہولز سیوریج کی بوسیدہ لائنوں کی وجہ سے ابلتے رہتے ہیں، علاقوں میں کوڑا کرکٹ اٹھانے کا نظام درہم برہم ہے، کئی علاقوں میں جگہ جگہ کچرے کے انبار ہیں، آوارہ کتوں کی بہتات سے بھی خصوصاً خواتین اور بچے مشکلات کا شکار ہیں۔

ضلع کورنگی کی 37 یونین کمیٹیز ہیں جن میں 1۔ رحیم خان جوکھیو، 2۔ ماڈل کالونی، 3۔ انڈس مہران، 4 ۔کھوکھرا پار، 5۔ ملیرکالونی، 6۔ کالابورڈ، 7۔ شاہ فیصل نمبر پانچ، 8۔ ناتھا خان گوٹھ، 9۔ ڈرگ کالونی، 10۔ شاہ فیصل، 11۔ ہجر آباد، 12 ۔ گرین ٹاؤن، 13۔ رفاع عام، 14 جامعہ ملیہ، 15۔ بھٹو نگر، 16۔ فاروق ولیج، 17۔ بلال آباد، 18۔ خواجہ اجمیر نگر، 19۔ زمان آباد، 20۔ شیرآباد، 21۔ شریف کالونی، 22۔ سوک سینٹر، 23۔ عوامی کالونی، 24۔ زمان ٹاؤن، 25۔ حسرت موہانی کالونی، 26 ۔ نظام مصطفیٰ کالونی، 27 ۔کورنگی کوارٹرز، 28۔ مدینہ کالونی، 29۔ رحیم آباد، 30 ۔کورنگی، 31۔ کورنگی کوارٹرز، 32۔ بلال کالونی، 33 ضیا کالونی، 34 ۔ ناصر کالونی، 35۔ چکراگوٹھ، 36۔ دارالسلام، 37۔ قیوم آباد شامل ہیں۔


ضلع کورنگی کی آبادی 24 لاکھ ہے یہاں رجسٹرڈ ووٹرز 11 لاکھ 83 ہزار 49 ہیں۔ جن میں مرد ووٹرز 6 لاکھ 75 ہزار 589 جب کہ خواتین ووٹرز 5 لاکھ 7 ہزار 947 ہیں۔ یہاں 4 لاکھ 34 ہزار 187 ووٹ کاسٹ ہوئے۔ یعنی کل ووٹ کا 37 فیصد باقی 63 فیصد خاموش رہے۔ یہاں ضلع کورنگی میں چیئرمین و وائس چیئرمین 74، وارڈزکونسلرز 148 ہیں مجموعی نشستیں 222 ہیں۔ ضلع کورنگی کی خصوصیات میں ملک کے اہم ترین بڑے صنعتی زونز قائم ہیں جہاں 4500 سے زائد صنعتیں، کارخانے و فیکٹریاں موجود ہیں، دو اہم آئل ریفائنریز، ضلع کورنگی میں 50 بڑے پارکس، 100 چھوٹے پارکس، 25 پلے گراؤنڈ، شاہ فیصل اور لانڈھی میں قائم 2 کارڈیک ایمرجنسی سینٹرز، سوک سینٹر کورنگی، لانڈھی صنعتی زون، قائد اعظم انٹرنیشنل ایئرپورٹ، 5 فلائی اوورز، 4 انڈر پاسز اور روزنامہ ایکسپریس کراچی کے دفتر شامل ہیں۔

ضلع کورنگی کے صنعتی اور رہائشی علاقے کے اہم مسائل میں انفرااسٹرکچر کی زبوں حالی، پانی کی قلت، امن و امان کے مسائل اور تجاوزات شامل ہیں۔ اس صنعتی علاقے میں انفرا اسٹرکچر کی تعمیر کے لیے پرویز مشرف کے دور حکومت میں 25 کروڑ روپے کی گرانٹ دی گئی جس کے بعد سے اب تک اس صنعتی علاقے کو کوئی بڑا ترقیاتی پیکیج نہ مل سکا۔ بلدیہ کورنگی میں فنڈزکی شدید قلت کے باعث نئے ترقیاتی کام التوا کا شکار ہیں، پارکس وکھیل کے میدانوں کی حالت ابتر ہے اور سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔

ضلع ملیر دو حصوں پر مشتمل ہے، شہری اور دیہی جن میں شہری حدود میں 13 یونین کمیٹیز اور دیہی میں 32 یونین کونسلیں ہیں۔ ضلع ملیر میں 5 لاکھ 47 ہزار 207 رجسٹرڈ ووٹرز ہیں جن میں سے 2 لاکھ 66 ہزار 601 ووٹرز نے ووٹ کاسٹ کیے یعنی کل ووٹ کا 49 فیصد اس طرح 51 فیصد ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال نہیں کیا وہ خاموش رہے۔

ضلع ملیر دیہی اور شہری زندگی کا خوب صورت امتزاج رکھتا ہے، اس کے مشرقی علاقوں میں باغات واقع ہیں جہاں سبزیوں ترکاریوں کے علاوہ پھل بھی اگائے جاتے ہیں اور کھیتی باڑی یہاں کی بیشتر آبادی کا ذریعہ معاش رہا ہے۔ تاہم اب ''خدمات اور کاروباری'' شعبوں کی جانب دھیان دیا جا رہا ہے۔ ملیر کی یہ زرخیزی ملیر ندی کی مرہون منت ہے جو عموماً بارش کے ایام ہی میں بہتی ہے۔گرمی میں پانی کی قلت کے باعث یہاں کے مکینوں نے اپنے گھروں میں بورنگ کرالی ہے تاکہ پانی کی کمی کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔

میٹھے پانی کی قلت کے باعث مکین پینے کا پانی خریدتے ہیں جب کہ غریب طبقہ کھارا پانی ہی پینے پر مجبور ہے جس سے وبائی امراض بھی جنم لیتے ہیں۔اب جب کہ کراچی کو بلدیاتی نمایندوں کی صورت میں 247 چیئرمین، 247 وائس چیئرمین، 988 وارڈز کونسلرز اور 38 ممبر ڈسٹرکٹ کونسل وارث مل گئے ہیں۔ توقع ہے کہ انھیں اختیارات مارچ 2016ء کے بعد ملیں گے، بلدیاتی نمایندوں کی غیر موجودگی میں شہر کراچی کا بلدیاتی نظام تلپٹ ہو گیا تھا، بلدیاتی ادارے زبوں حالی کا شکار ہیں اور عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔ اب بلدیاتی نظام بحال ہونے کے بعد امید واثق ہے کہ شہر میں صفائی ستھرائی، ٹوٹی سڑکوں اور سیوریج و پانی کے مسائل حل ہوں گے۔
Load Next Story