عوامی لاقانونیت یا غیر منظم بغاوت
سیاست پر قابض ان لٹیروں کے خلاف بلاامتیاز لاٹھی گھمائی گئی تو سارا سیاسی میدان سیات دانوں سے خالی ہوجائے گا۔
ایک بڑا سادہ سا سوال ہے جو ہر باشعور انسان کے ذہن میں کانٹے کی طرح کھٹکھتا رہتا ہے کہ ہمارے ملک اورساری دنیا کے ملکوں کے لگ بھگ 98فیصد انسان صرف دو فیصد استحصالی طبقے کے اقتصادی نظام کو خاموشی سے کیوں برداشت کرتے آرہے ہیں۔
98 فیصد اور دو فیصد کے درمیان طاقت کا ایک بہت بڑا فرق موجود ہے جو صاف نظر بھی آتا ہے۔ پھر 98 فیصد عوام 2 فیصد عوام کے نہ ختم ہونے والے نظام کے خلاف کیوں نہیں اُٹھ کھڑے ہوتے؟ اس سوال کا جواب ہر ملک کے مخصوص حالات کے تناظر میں تلاش کرنا پڑتا ہے، لیکن چند اہم عنصر ایسے ہیں جو دنیا کے ہر ملک میں موجود ہیں۔ مثلاً ریاستی مشینری جو قانون انصاف، فوج، پولیس اور رینجرز وغیرہ کی شکل میں ہر ملک میں موجود ہے اور ستم یہ ہے کہ اس ریاستی ڈھانچے کی تشکیل اس ''عیاری اور فنی مہارت'' سے کی گئی ہے کہ یہ مشینری ہر ملک میں ایک ایسی ''قابلِ احترام'' ضرورت بن گئی ہے۔
جس کے بغیر ایک ''مہذب معاشرے'' کا تصور ہی ممکن نہیں۔ اس حوالے سے یہ بات بار بار عوام کو بتائی جاتی ہے کہ قانون اور انصاف کی برتری کے بغیر ملک انارکی کی لپیٹ میں آجائے گا۔ ہمارا ملک چونکہ ایک بے لگام انارکی کی لپیٹ میں ہے لہٰذا یہاں بعض محترم لوگ بار بار عوام کو اس ضرورت کا احساس دلا رہے ہیں کہ اس خطرناک صورتحال سے نکلنے کا واحد راستہ قانون اور انصاف کی بالادستی ہے۔
بادیٔ النظر میں یہ بات درست بھی نظر آتی ہے کہ جہاں قانون اور انصاف کا نظام کمزور ہوتا ہے وہاں لاقانونیت اور جرائم کی بھرمار ہوتی ہے، لیکن لاقانونیت اور جرائم کی بھرمار دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک قسم اقتصادی بدحالی اور اقتصادی ناانصافی کی انتہا کی وجہ سے وجود میں آتی ہے، دوسری لاقانونیت اور جرائم ہوسِ دولت اور ارتکاز دولت کی حیوانی خواہش کے نتیجے میں وجود میں آتی ہے۔ ایک بھوکا بے روزگار شخص بھوک ، بیکاری سے تنگ آکر چوری، ڈاکے، چھینا جھپٹی پر اُتر آتا ہے جس کا اصل مقصد پیٹ کی آگ بجھانا ہوتا ہے۔ اس قسم کی لاقانونیت اور جرائم دراصل غیر منظم اور بے سمت احتجاج ہوتا ہے جو استحصال کے خلاف غریب عوام بے ہنگم طریقوں سے کرتے ہیں، لیکن اس غیر منظم احتجاج کا المیہ یہ ہے کہ اس لاقانونیت میں عوام، عوام کے خلاف کھڑے نظر آتے ہیں۔
مثلاً چوری ڈاکے، چھوٹے پیمانے کی منافع خوری اور کرپشن وغیرہ۔ عوام کی اس استحصال کے خلاف ہونے والی لاقانونیت کے خلاف تیزی کے ساتھ قانون اور انصاف کی طاقتیں حرکت میں آجاتی ہیں۔ پکڑ دھکڑ، سزا، جرمانے وغیرہ کے ذریعے اس لاقانونیت کو روکنے کی کوشش کی جاتی ہے اور پوری ریاستی مشینری کو اس لاقانونیت کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ دوسری لاقانونیت اور جرائم وہ ہوتے ہیں جن کا مقصد قومی دولت کی بے لگام لوٹ مار ہوتا ہے۔ یہ لاقانونیت اور جرائم اگرچہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہوگئے تھے، لیکن حکومت کے کنٹرولڈ میڈیا کی وجہ سے عوام کی نظروں سے بڑی حد تک چھپے ہوئے تھے۔
لیکن 2007 کے بعد جب سے میڈیا نے انگڑائی لی ہے یہ اعلیٰ سطحی لاکھوں کھربوں کی لاقانونی لوٹ مار اور جرائم منظر عام پر آرہے ہیں، لیکن المیہ ہے کہ ان سنگین ترین جرائم اور لاقانونیت کو خود قانون آئین کے نام پر جائز اور حلال بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اور یہ کوششیں اس لیے کامیاب ہورہی ہیں کہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں ہی پر عملاً بدعنوان اور مفاد پرستوں کا قبضہ ہے اور اس سے بڑاالمیہ یہ ہے کہ ہمارا نیمِ دروں نیمِ بروں اہلِ دانش، اہلِ قلم ان جرائم بلکہ بدترین لاقانونیت کو ''چھڈو جی مٹی پاؤ'' اس لیے کہہ رہا ہے کہ اس لاقانونیت اور سنگین جرائم کے خلاف اگر بلاامتیاز کارروائی کی جاتی ہے تو ہماری محترم جمہوریت کی گاڑی کے ڈی ریل ہونے کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔
میڈیا خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا میں موجود محترم دانشور اس قسم کے نظریاتی پرچار دو وجوہات کی بناء پر کرتے ہیں ایک وجہ یہ ہے کہ یہ محترم دوست یہ محسوس کرتے ہیں کہ سیاست پر قابض ان لٹیروں کے خلاف بلاامتیاز لاٹھی گھمائی گئی تو سارا سیاسی میدان سیات دانوں سے خالی ہوجائے گا اور ایک ایسا سیاسی خلاء پیدا ہوجائے گا جس کا فائدہ چور کا بھائی گرہ کٹ یعنی اسٹیبلشمنٹ اٹھائے گی وغیرہ۔ دوسرا بددیانت گروہ وہ ہے جو لاکھوں روپے کے معاوضے پر تعیش زندگی کی قیمت پر اس قسم کی مہم چلا رہا ہے کہ اگر بلاامتیاز اس اعلیٰ سطحی لاقانونیت اور معاشی جرائم کے خلاف کارروائی کی گئی تو تیسرا فریق اس سے فائدہ اُٹھائے گا۔ اس لیے چور کو بخش دو اس پر مٹی پاؤ اور ان ہی چوروں لٹیروں کو دوبارہ اپنے سروں پر بٹھاؤ۔
اگر ایسی مایوس کن صورتحال میں کوئی عوام دوست منظم انقلابی پارٹی موجود ہو تو اس غیر منظم عوامی احتجاج کو جو لاقانونیت اور انارکی کی شکل میں دیکھا جارہا ہے اعلیٰ سطحی لاقانونیت اور اعلیٰ سطحی جرائم کے خلاف استعمال کرتے ہوئے اس کا رُخ استحصالی طبقات کی طرف موڑنے کی کوشش کرتی، لیکن اس حوالے سے اگر ہم اپنے ملک کے موجودہ منظر نامے پر نظر ڈالیں تو سوائے مایوسی کے کچھ نظر نہیں آتا۔ ایسے مایوس کن منظر نامے میں جہاں استحصالی طبقات منظم بھی ہیں اور طاقتور بھی، غیر منظم اور بے شمار حصوں میں بٹے ہوئے عوام کو ایک مرکز پر لانے، ان کے غیر منظم احتجاج اور دبی ہوئی طبقاتی نفرتوں کو ایک واضح سمت دینے کا کام میڈیا کرسکتا ہے۔
میڈیا میں اختیارات رکھنے والوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ میڈیا کے جعلی چہروں کی عظمت کے سحر سے باہر نکل کر ان نظریات، ان کوششوں کو آگے بڑھانے میں کردار ادا کریں جو اس لاقانونیت کی شکل میں دیکھے جانے والے عوامی احتجاج کو ایک رخ ایک درست سمت کی طرف موڑنے میں بڑی کٹھنائیوں کا سامنا کر رہے ہیں اگر بااختیار میڈیائی بھائی بڑے اور چھوٹے کے رائج الوقت پیمانوں میں اُلجھے رہے تو حق پیچھے چلا جائے گا باطل آگے آجائے گا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ''عوام قوت کا سرچشمہ '' ہوتے ہیں یہ کوئی مفروضہ نہیں بلکہ زندہ وتابندہ حقیقت ہے جس کا مشاہدہ ہم نے پاکستان میں 1968 اور 1977 میں کیا ہے اور آج مشرق وسطیٰ میں کر رہے ہیں۔ آخر میں ہم اپنے ان سیکڑوں قارئین کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے فون اور ایس ایم ایس کے ذریعے ہمیں عید کی مبارکباد دی، ہمارا ای میل فنکشنل ہوگیا ہے ۔
98 فیصد اور دو فیصد کے درمیان طاقت کا ایک بہت بڑا فرق موجود ہے جو صاف نظر بھی آتا ہے۔ پھر 98 فیصد عوام 2 فیصد عوام کے نہ ختم ہونے والے نظام کے خلاف کیوں نہیں اُٹھ کھڑے ہوتے؟ اس سوال کا جواب ہر ملک کے مخصوص حالات کے تناظر میں تلاش کرنا پڑتا ہے، لیکن چند اہم عنصر ایسے ہیں جو دنیا کے ہر ملک میں موجود ہیں۔ مثلاً ریاستی مشینری جو قانون انصاف، فوج، پولیس اور رینجرز وغیرہ کی شکل میں ہر ملک میں موجود ہے اور ستم یہ ہے کہ اس ریاستی ڈھانچے کی تشکیل اس ''عیاری اور فنی مہارت'' سے کی گئی ہے کہ یہ مشینری ہر ملک میں ایک ایسی ''قابلِ احترام'' ضرورت بن گئی ہے۔
جس کے بغیر ایک ''مہذب معاشرے'' کا تصور ہی ممکن نہیں۔ اس حوالے سے یہ بات بار بار عوام کو بتائی جاتی ہے کہ قانون اور انصاف کی برتری کے بغیر ملک انارکی کی لپیٹ میں آجائے گا۔ ہمارا ملک چونکہ ایک بے لگام انارکی کی لپیٹ میں ہے لہٰذا یہاں بعض محترم لوگ بار بار عوام کو اس ضرورت کا احساس دلا رہے ہیں کہ اس خطرناک صورتحال سے نکلنے کا واحد راستہ قانون اور انصاف کی بالادستی ہے۔
بادیٔ النظر میں یہ بات درست بھی نظر آتی ہے کہ جہاں قانون اور انصاف کا نظام کمزور ہوتا ہے وہاں لاقانونیت اور جرائم کی بھرمار ہوتی ہے، لیکن لاقانونیت اور جرائم کی بھرمار دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک قسم اقتصادی بدحالی اور اقتصادی ناانصافی کی انتہا کی وجہ سے وجود میں آتی ہے، دوسری لاقانونیت اور جرائم ہوسِ دولت اور ارتکاز دولت کی حیوانی خواہش کے نتیجے میں وجود میں آتی ہے۔ ایک بھوکا بے روزگار شخص بھوک ، بیکاری سے تنگ آکر چوری، ڈاکے، چھینا جھپٹی پر اُتر آتا ہے جس کا اصل مقصد پیٹ کی آگ بجھانا ہوتا ہے۔ اس قسم کی لاقانونیت اور جرائم دراصل غیر منظم اور بے سمت احتجاج ہوتا ہے جو استحصال کے خلاف غریب عوام بے ہنگم طریقوں سے کرتے ہیں، لیکن اس غیر منظم احتجاج کا المیہ یہ ہے کہ اس لاقانونیت میں عوام، عوام کے خلاف کھڑے نظر آتے ہیں۔
مثلاً چوری ڈاکے، چھوٹے پیمانے کی منافع خوری اور کرپشن وغیرہ۔ عوام کی اس استحصال کے خلاف ہونے والی لاقانونیت کے خلاف تیزی کے ساتھ قانون اور انصاف کی طاقتیں حرکت میں آجاتی ہیں۔ پکڑ دھکڑ، سزا، جرمانے وغیرہ کے ذریعے اس لاقانونیت کو روکنے کی کوشش کی جاتی ہے اور پوری ریاستی مشینری کو اس لاقانونیت کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ دوسری لاقانونیت اور جرائم وہ ہوتے ہیں جن کا مقصد قومی دولت کی بے لگام لوٹ مار ہوتا ہے۔ یہ لاقانونیت اور جرائم اگرچہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہوگئے تھے، لیکن حکومت کے کنٹرولڈ میڈیا کی وجہ سے عوام کی نظروں سے بڑی حد تک چھپے ہوئے تھے۔
لیکن 2007 کے بعد جب سے میڈیا نے انگڑائی لی ہے یہ اعلیٰ سطحی لاکھوں کھربوں کی لاقانونی لوٹ مار اور جرائم منظر عام پر آرہے ہیں، لیکن المیہ ہے کہ ان سنگین ترین جرائم اور لاقانونیت کو خود قانون آئین کے نام پر جائز اور حلال بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اور یہ کوششیں اس لیے کامیاب ہورہی ہیں کہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں ہی پر عملاً بدعنوان اور مفاد پرستوں کا قبضہ ہے اور اس سے بڑاالمیہ یہ ہے کہ ہمارا نیمِ دروں نیمِ بروں اہلِ دانش، اہلِ قلم ان جرائم بلکہ بدترین لاقانونیت کو ''چھڈو جی مٹی پاؤ'' اس لیے کہہ رہا ہے کہ اس لاقانونیت اور سنگین جرائم کے خلاف اگر بلاامتیاز کارروائی کی جاتی ہے تو ہماری محترم جمہوریت کی گاڑی کے ڈی ریل ہونے کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔
میڈیا خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا میں موجود محترم دانشور اس قسم کے نظریاتی پرچار دو وجوہات کی بناء پر کرتے ہیں ایک وجہ یہ ہے کہ یہ محترم دوست یہ محسوس کرتے ہیں کہ سیاست پر قابض ان لٹیروں کے خلاف بلاامتیاز لاٹھی گھمائی گئی تو سارا سیاسی میدان سیات دانوں سے خالی ہوجائے گا اور ایک ایسا سیاسی خلاء پیدا ہوجائے گا جس کا فائدہ چور کا بھائی گرہ کٹ یعنی اسٹیبلشمنٹ اٹھائے گی وغیرہ۔ دوسرا بددیانت گروہ وہ ہے جو لاکھوں روپے کے معاوضے پر تعیش زندگی کی قیمت پر اس قسم کی مہم چلا رہا ہے کہ اگر بلاامتیاز اس اعلیٰ سطحی لاقانونیت اور معاشی جرائم کے خلاف کارروائی کی گئی تو تیسرا فریق اس سے فائدہ اُٹھائے گا۔ اس لیے چور کو بخش دو اس پر مٹی پاؤ اور ان ہی چوروں لٹیروں کو دوبارہ اپنے سروں پر بٹھاؤ۔
اگر ایسی مایوس کن صورتحال میں کوئی عوام دوست منظم انقلابی پارٹی موجود ہو تو اس غیر منظم عوامی احتجاج کو جو لاقانونیت اور انارکی کی شکل میں دیکھا جارہا ہے اعلیٰ سطحی لاقانونیت اور اعلیٰ سطحی جرائم کے خلاف استعمال کرتے ہوئے اس کا رُخ استحصالی طبقات کی طرف موڑنے کی کوشش کرتی، لیکن اس حوالے سے اگر ہم اپنے ملک کے موجودہ منظر نامے پر نظر ڈالیں تو سوائے مایوسی کے کچھ نظر نہیں آتا۔ ایسے مایوس کن منظر نامے میں جہاں استحصالی طبقات منظم بھی ہیں اور طاقتور بھی، غیر منظم اور بے شمار حصوں میں بٹے ہوئے عوام کو ایک مرکز پر لانے، ان کے غیر منظم احتجاج اور دبی ہوئی طبقاتی نفرتوں کو ایک واضح سمت دینے کا کام میڈیا کرسکتا ہے۔
میڈیا میں اختیارات رکھنے والوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ میڈیا کے جعلی چہروں کی عظمت کے سحر سے باہر نکل کر ان نظریات، ان کوششوں کو آگے بڑھانے میں کردار ادا کریں جو اس لاقانونیت کی شکل میں دیکھے جانے والے عوامی احتجاج کو ایک رخ ایک درست سمت کی طرف موڑنے میں بڑی کٹھنائیوں کا سامنا کر رہے ہیں اگر بااختیار میڈیائی بھائی بڑے اور چھوٹے کے رائج الوقت پیمانوں میں اُلجھے رہے تو حق پیچھے چلا جائے گا باطل آگے آجائے گا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ''عوام قوت کا سرچشمہ '' ہوتے ہیں یہ کوئی مفروضہ نہیں بلکہ زندہ وتابندہ حقیقت ہے جس کا مشاہدہ ہم نے پاکستان میں 1968 اور 1977 میں کیا ہے اور آج مشرق وسطیٰ میں کر رہے ہیں۔ آخر میں ہم اپنے ان سیکڑوں قارئین کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے فون اور ایس ایم ایس کے ذریعے ہمیں عید کی مبارکباد دی، ہمارا ای میل فنکشنل ہوگیا ہے ۔