امریکی انتخابات اور روڈ میپ
پاکستان کے تمام لیڈر اسٹیبلشمنٹ اور مغربی ممالک کے کمہاروں کے چاک سے تیار شدہ ہیں ۔
ایک طویل اور صبر آزما الیکشن کے مباحثوں، مذاکروں اور مناظروں کے بعد آخرِ کار باراک حسین اوباما دوسری بار بھی امریکا کے صدر منتخب ہوگئے۔
حالانکہ کٹر مذہبی حلقوں کی بڑی اکثریت رومنی کے ساتھ تھی، وال اسٹریٹ کے نمایاں ممبران، یہودی لابی اور قدامت پسند گوروں کی اکثریت بھی اوباما کے خلاف تھی مگر جدت پسند گوروں، اسپینش، (Spanish) ، برازیلین، میکسیکن اور سیاہ فام امریکیوں کی اکثریت کے علاوہ نئی نسل کی اکثریت بھی اوباما کے ساتھ تھی۔
ڈیموکریٹ اور ریپبلیکن دونوں اسرائیل سے قریب تر ہیں، مگر ایسا ہرگز نہیں کہ اسرائیلی وزیراعظم ڈیموکریٹس کو ڈکٹیشن (Dictation) دے سکیں جب کہ ریپبلیکن کو ایسے ہی مرحلے سے گزرنا ہوتا ہے اگر اس وقت امریکا میں ریپبلیکن کی حکومت ہوتی تو ایران پر حملہ ہوچکا ہوتا کیونکہ ناتن یاہو اس بات پر اصرار کر رہے تھے کہ وقت گزر رہا ہے، ایران پر حملہ کردیا جائے، وہ امریکا بھی گئے مگر اوباما نے ملنے سے انکار کردیا۔
جیسا کہا گیا کہ دونوں کی منزل اور اہداف ایک ہی حکمت عملی میں فرق ہے ڈیموکریٹس کی جانب سے اکثر ممالک پر اقتصادی پابندیاں لگائی جاتی ہیں، اس کا آخری نتیجہ بدحالی اور پھر اندرونی خلفشار ہوتا ہے اور پھر جمہوریت کا راگ چھیڑ دیا جاتا ہے جیساکہ لیبیا کے ساتھ ہوا لہٰذا اب پاکستانی حکمرانوں اور سیاست دانوں کو عقل کے ناخن لینے کی ضرورت ہے اور غیر ضروری سیاسی لائن لینا یا عوام کو آپس میں دست و گریباں کرنے کی سیاست چھوڑ دینی چاہیے۔ پاکستان کے حکمرانوں کو چوکنا ہوجانا چاہیے اور دہری پالیسی سے گریز کرنا چاہیے اگر حوصلہ اور دم ہے تو پھر کھل کر معاملات کو اسمبلی میں پیش کرنا چاہیے اور پھر عمل بھی کرنا ہوگا، مگر انگریزی کی مثل ہے بھیک مانگنے والے کبھی بھی چپ نہیں رہ سکتے، (Beggers can't be choosers) اور عوام کو بے وقوف بنانے کی پالیسی بناکر ٹوپیاں پہن کر یا ٹوپیاں پہنا کر سیاست نہیں کرنی چاہیے۔
یہاں پر ٹوپی ڈرامے کی تشریح ضروری ہے کہ آخر یہ اُردو زبان میں کیونکر استعمال ہوتا ہے تو سنیے جناب! ایک صاحب نے کسی دوست کو خاصی رقم اُدھار دے دی، واپسی کا وقت طے شدہ تھا کہ دو برس بعد فلاں تاریخ کو رقم مل جائے گی جب وہ دن قریب آیا تو اُس نے اپنے بھائی کو کہیں اور بھیج دیا اور ہلاکت کی خبر مشہور کردی، جب قرض لینے والا گھر آیا تو اُس نے عجیب منظر دیکھا کہ لوگ ٹوپی پہنے بیٹھے ہیں، موت کا منظر ہے، تو قرض واپس لینے کے بجائے اس نے بھی ٹوپی پہن لی اور کچھ رقم دے کر واپس چلا گیا، پاکستان میں اس وقت ایسی ہی یا اس سے ملتی جلتی سیاست ہورہی ہے۔
اب سر تھام کر بیٹھنے کی باری ہے حزب اقتدار اور حزب مخالف دونوں کو غور کرنا ہوگا، مگر یہ حضرات ایسا ہرگز نہیں کریں گے کیونکہ پاکستان کے تمام لیڈروں کی تعمیر اور پرورش اسٹیبلشمنٹ اور مغربی ممالک کے کمہاروں کے چاک سے تیار شدہ ہیں خواہ یہ خود کو دائیں بازو کا کہیں یا بائیں بازو کا۔ ہمارے الیکشن کی گھڑدوڑ میں سب نیٹو کے تیار کردہ گھوڑے دوڑ رہے ہیں، عوام کے پاس اب کوئی آپشن نہیں ہے بلکہ ہم نے خود ہی اپنے آپشن کھو دیے، روس یا چین جانے کا وقت بھی نکل چکا ہے کیونکہ ہم ہمیشہ سے ان کی خارجہ پالیسی کے دائرے سے باہر ہیں، چینی لیڈر شپ بھی تبدیل ہوچکی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اب کیا پالیسی ترتیب دیتے ہیں، رہ گیا روس تو وہ ہم سے بہت دور چلا گیا ہے، کیونکہ ہمارے یہاں دنیا بھر کے چینل اور خبریں آتی ہیں، مگر روس کی کوئی خبر نہیں آتی، ان کی سائنسی، فنی اور ادبی ترقی کی کوئی جھلک بھی نہیں دکھائی دیتی اور ان کی خبروں کا ٹوٹل بلیک آؤٹ ہے۔ ہم خارجہ پالیسی کی دنیا میں ایک الگ تھلک لوگ ہیں، پاکستان کی خارجہ پالیسی چند لوگوں اور چند گروہوں کی صوابدید پر ہے ورنہ اچانک یہ نوآموز خود ساختہ وزارت خارجہ کا قلم دان ان کے پاس کہاں سے آجاتا؟ ڈرون حملوں کی مخالفت کرنے والے خود ڈرون حملوں کے خلاف محض عوام کو استعمال کرنے کے لیے نعرے لگاتے ہیں، ورنہ ان کا خود کوئی الیکشن منشور نہیں۔
ہمارے ملک میں بھی الیکشن سر پر ہیں، مگر یہاں نہ کوئی پالیسی کی بات ہے نہ داخلی ترقی کا پرچار ہے، بس ہوسِ اقتدار کے جلسے ہورہے ہیں، سب اپنے بیوی بچوں، بہو، بیٹوں، دوستوں اور عزیزوں کو لے کر الیکشن میں جیتنے کی بات کرتے ہیں، ایم کیو ایم سے ایسی صورت میں اختلاف کریں یا اتفاق، کم ازکم وہ صدیوں پرانی موروثی سیاست سے دور ہے، خارجہ پالیسی پر یا داخلہ پر ان کا ایک نقطۂ نظر ہے ، امریکا میں بھی نسلی آبادیاں ہیں، کوئی قدیم تو کوئی جدید، مگر وہاں عام لوگوں کو مسابقت کے عمل سے گزرنا ہوتا ہے، مقامی اور غیر مقامی کی سیاست بالکل نہیں، مقامی تو وہاں پر صرف ریڈ انڈین ہیں، مگر ملک کی ترقی اور توانائی میں تو سفید فام لوگوں کا ہی نام رہ گیا ہے، مگر دنیا بھر کے لوگوں کو وہاں شہریت کے مواقعے ہیں۔
اسی لیے امریکا میں ہر شخص کو ترقی کے مواقعے ہیں جو محنت اور عقل کے معیار پر پورا اُترے وہاں صاحبانِ علم و فن پوری دنیا سے جمع کیے ہوئے ہیں، یہی ان کا زر و جواہر ہے جو دنیا پر حکومت کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ڈاکٹرز، انجینئرز ، سائنسدان، اہلِ دانش ہر ایک کو مواقعے فراہم ہیں، زبان، نسل، رنگ کی بنیاد پر فیصلے نہیں کیے جاتے، اس لیے ان کا مقابلہ کرنے کے لیے ، ان کی شاہراہ کو استعمال کرنے کے لیے اپنے راستے بدلنے ہوں گے۔ اب ہمیں یہ معلوم نہیں کہ امریکی روڈ میپ میں کیا نئی چیزیں ہیں جو منظر عام پر نہیں آئی ہیں، جہاں تک تجزیہ کیا جاسکتا ہے اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایشیا کی لیڈرشپ اب بھارت کے پاس ہی جائے گی اور بھارت کی ترقی کے لیے امریکی حکومت مزید کوشاں رہے گی۔
کشمیر کا مسئلہ ایک خواب بن جائے گا۔ اس کی کئی وجوہ ہیں، ایک تو ہمارا اندرونی خلفشار، ٹارگٹ کلنگ، فقہی جھگڑے ظاہر ہے اس نے کشمیریوں کے دل سے ہماری توقیر گھٹا دی، کیونکہ ہم ایک منتشر قوم ہیں، ظاہر ہے انسان کی جان اور مال جس خطے میں محفوظ نہ ہو وہاں کون رہے گا؟ دوم بھارت میں امن وامان، انڈسٹریل ڈیولپمنٹ اورخارجہ حکمت عملی بھی ہے، امریکا کو بعض معاملات میں روس کی تائید چاہیے اور روس بھارت نوازی میں اس مسئلے پر امریکا کی تائید کرے گا، مگر ہمارا خارجہ قلم دان صرف شخصیت کے حصار میں ہے، پاکستانی سوسائٹی اکائی چھوڑ کر گروہ بندی کا شکار ہے ۔
ہمارے زیر زمین خزانے اور محل وقوع دنیا کو ہماری اہمیت کا احساس دلا رہے ہیں، نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان عالمی ریشہ دوانیوں کا مرکز بن گیا ہے اور لیڈران قائداعظم کے لگائے ہوئے اس تناور درخت کی حفاظت کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں، جس کی ٹھنڈی چھاؤں، ہوادار پتّے، جس کے پھل سے 18کروڑ عوام اپنی نانِ شبینہ کماتے ہیں، ہمیں محض امریکا دشمنی سے کچھ حاصل نہ ہوگا، ان سے کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ''اتحاد، تنظیم، یقینِ محکم۔''
حالانکہ کٹر مذہبی حلقوں کی بڑی اکثریت رومنی کے ساتھ تھی، وال اسٹریٹ کے نمایاں ممبران، یہودی لابی اور قدامت پسند گوروں کی اکثریت بھی اوباما کے خلاف تھی مگر جدت پسند گوروں، اسپینش، (Spanish) ، برازیلین، میکسیکن اور سیاہ فام امریکیوں کی اکثریت کے علاوہ نئی نسل کی اکثریت بھی اوباما کے ساتھ تھی۔
ڈیموکریٹ اور ریپبلیکن دونوں اسرائیل سے قریب تر ہیں، مگر ایسا ہرگز نہیں کہ اسرائیلی وزیراعظم ڈیموکریٹس کو ڈکٹیشن (Dictation) دے سکیں جب کہ ریپبلیکن کو ایسے ہی مرحلے سے گزرنا ہوتا ہے اگر اس وقت امریکا میں ریپبلیکن کی حکومت ہوتی تو ایران پر حملہ ہوچکا ہوتا کیونکہ ناتن یاہو اس بات پر اصرار کر رہے تھے کہ وقت گزر رہا ہے، ایران پر حملہ کردیا جائے، وہ امریکا بھی گئے مگر اوباما نے ملنے سے انکار کردیا۔
جیسا کہا گیا کہ دونوں کی منزل اور اہداف ایک ہی حکمت عملی میں فرق ہے ڈیموکریٹس کی جانب سے اکثر ممالک پر اقتصادی پابندیاں لگائی جاتی ہیں، اس کا آخری نتیجہ بدحالی اور پھر اندرونی خلفشار ہوتا ہے اور پھر جمہوریت کا راگ چھیڑ دیا جاتا ہے جیساکہ لیبیا کے ساتھ ہوا لہٰذا اب پاکستانی حکمرانوں اور سیاست دانوں کو عقل کے ناخن لینے کی ضرورت ہے اور غیر ضروری سیاسی لائن لینا یا عوام کو آپس میں دست و گریباں کرنے کی سیاست چھوڑ دینی چاہیے۔ پاکستان کے حکمرانوں کو چوکنا ہوجانا چاہیے اور دہری پالیسی سے گریز کرنا چاہیے اگر حوصلہ اور دم ہے تو پھر کھل کر معاملات کو اسمبلی میں پیش کرنا چاہیے اور پھر عمل بھی کرنا ہوگا، مگر انگریزی کی مثل ہے بھیک مانگنے والے کبھی بھی چپ نہیں رہ سکتے، (Beggers can't be choosers) اور عوام کو بے وقوف بنانے کی پالیسی بناکر ٹوپیاں پہن کر یا ٹوپیاں پہنا کر سیاست نہیں کرنی چاہیے۔
یہاں پر ٹوپی ڈرامے کی تشریح ضروری ہے کہ آخر یہ اُردو زبان میں کیونکر استعمال ہوتا ہے تو سنیے جناب! ایک صاحب نے کسی دوست کو خاصی رقم اُدھار دے دی، واپسی کا وقت طے شدہ تھا کہ دو برس بعد فلاں تاریخ کو رقم مل جائے گی جب وہ دن قریب آیا تو اُس نے اپنے بھائی کو کہیں اور بھیج دیا اور ہلاکت کی خبر مشہور کردی، جب قرض لینے والا گھر آیا تو اُس نے عجیب منظر دیکھا کہ لوگ ٹوپی پہنے بیٹھے ہیں، موت کا منظر ہے، تو قرض واپس لینے کے بجائے اس نے بھی ٹوپی پہن لی اور کچھ رقم دے کر واپس چلا گیا، پاکستان میں اس وقت ایسی ہی یا اس سے ملتی جلتی سیاست ہورہی ہے۔
اب سر تھام کر بیٹھنے کی باری ہے حزب اقتدار اور حزب مخالف دونوں کو غور کرنا ہوگا، مگر یہ حضرات ایسا ہرگز نہیں کریں گے کیونکہ پاکستان کے تمام لیڈروں کی تعمیر اور پرورش اسٹیبلشمنٹ اور مغربی ممالک کے کمہاروں کے چاک سے تیار شدہ ہیں خواہ یہ خود کو دائیں بازو کا کہیں یا بائیں بازو کا۔ ہمارے الیکشن کی گھڑدوڑ میں سب نیٹو کے تیار کردہ گھوڑے دوڑ رہے ہیں، عوام کے پاس اب کوئی آپشن نہیں ہے بلکہ ہم نے خود ہی اپنے آپشن کھو دیے، روس یا چین جانے کا وقت بھی نکل چکا ہے کیونکہ ہم ہمیشہ سے ان کی خارجہ پالیسی کے دائرے سے باہر ہیں، چینی لیڈر شپ بھی تبدیل ہوچکی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اب کیا پالیسی ترتیب دیتے ہیں، رہ گیا روس تو وہ ہم سے بہت دور چلا گیا ہے، کیونکہ ہمارے یہاں دنیا بھر کے چینل اور خبریں آتی ہیں، مگر روس کی کوئی خبر نہیں آتی، ان کی سائنسی، فنی اور ادبی ترقی کی کوئی جھلک بھی نہیں دکھائی دیتی اور ان کی خبروں کا ٹوٹل بلیک آؤٹ ہے۔ ہم خارجہ پالیسی کی دنیا میں ایک الگ تھلک لوگ ہیں، پاکستان کی خارجہ پالیسی چند لوگوں اور چند گروہوں کی صوابدید پر ہے ورنہ اچانک یہ نوآموز خود ساختہ وزارت خارجہ کا قلم دان ان کے پاس کہاں سے آجاتا؟ ڈرون حملوں کی مخالفت کرنے والے خود ڈرون حملوں کے خلاف محض عوام کو استعمال کرنے کے لیے نعرے لگاتے ہیں، ورنہ ان کا خود کوئی الیکشن منشور نہیں۔
ہمارے ملک میں بھی الیکشن سر پر ہیں، مگر یہاں نہ کوئی پالیسی کی بات ہے نہ داخلی ترقی کا پرچار ہے، بس ہوسِ اقتدار کے جلسے ہورہے ہیں، سب اپنے بیوی بچوں، بہو، بیٹوں، دوستوں اور عزیزوں کو لے کر الیکشن میں جیتنے کی بات کرتے ہیں، ایم کیو ایم سے ایسی صورت میں اختلاف کریں یا اتفاق، کم ازکم وہ صدیوں پرانی موروثی سیاست سے دور ہے، خارجہ پالیسی پر یا داخلہ پر ان کا ایک نقطۂ نظر ہے ، امریکا میں بھی نسلی آبادیاں ہیں، کوئی قدیم تو کوئی جدید، مگر وہاں عام لوگوں کو مسابقت کے عمل سے گزرنا ہوتا ہے، مقامی اور غیر مقامی کی سیاست بالکل نہیں، مقامی تو وہاں پر صرف ریڈ انڈین ہیں، مگر ملک کی ترقی اور توانائی میں تو سفید فام لوگوں کا ہی نام رہ گیا ہے، مگر دنیا بھر کے لوگوں کو وہاں شہریت کے مواقعے ہیں۔
اسی لیے امریکا میں ہر شخص کو ترقی کے مواقعے ہیں جو محنت اور عقل کے معیار پر پورا اُترے وہاں صاحبانِ علم و فن پوری دنیا سے جمع کیے ہوئے ہیں، یہی ان کا زر و جواہر ہے جو دنیا پر حکومت کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ڈاکٹرز، انجینئرز ، سائنسدان، اہلِ دانش ہر ایک کو مواقعے فراہم ہیں، زبان، نسل، رنگ کی بنیاد پر فیصلے نہیں کیے جاتے، اس لیے ان کا مقابلہ کرنے کے لیے ، ان کی شاہراہ کو استعمال کرنے کے لیے اپنے راستے بدلنے ہوں گے۔ اب ہمیں یہ معلوم نہیں کہ امریکی روڈ میپ میں کیا نئی چیزیں ہیں جو منظر عام پر نہیں آئی ہیں، جہاں تک تجزیہ کیا جاسکتا ہے اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایشیا کی لیڈرشپ اب بھارت کے پاس ہی جائے گی اور بھارت کی ترقی کے لیے امریکی حکومت مزید کوشاں رہے گی۔
کشمیر کا مسئلہ ایک خواب بن جائے گا۔ اس کی کئی وجوہ ہیں، ایک تو ہمارا اندرونی خلفشار، ٹارگٹ کلنگ، فقہی جھگڑے ظاہر ہے اس نے کشمیریوں کے دل سے ہماری توقیر گھٹا دی، کیونکہ ہم ایک منتشر قوم ہیں، ظاہر ہے انسان کی جان اور مال جس خطے میں محفوظ نہ ہو وہاں کون رہے گا؟ دوم بھارت میں امن وامان، انڈسٹریل ڈیولپمنٹ اورخارجہ حکمت عملی بھی ہے، امریکا کو بعض معاملات میں روس کی تائید چاہیے اور روس بھارت نوازی میں اس مسئلے پر امریکا کی تائید کرے گا، مگر ہمارا خارجہ قلم دان صرف شخصیت کے حصار میں ہے، پاکستانی سوسائٹی اکائی چھوڑ کر گروہ بندی کا شکار ہے ۔
ہمارے زیر زمین خزانے اور محل وقوع دنیا کو ہماری اہمیت کا احساس دلا رہے ہیں، نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان عالمی ریشہ دوانیوں کا مرکز بن گیا ہے اور لیڈران قائداعظم کے لگائے ہوئے اس تناور درخت کی حفاظت کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں، جس کی ٹھنڈی چھاؤں، ہوادار پتّے، جس کے پھل سے 18کروڑ عوام اپنی نانِ شبینہ کماتے ہیں، ہمیں محض امریکا دشمنی سے کچھ حاصل نہ ہوگا، ان سے کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ''اتحاد، تنظیم، یقینِ محکم۔''