جنوبی ایشیا کا ’’پیلے‘‘ عبدالغفور مجنا
تمام چاہنے والے اجنبی بن گئے ہیں۔ نفسا نفسی کے اس ماحول میں ہر کوئی مصروف نظر آتا ہے۔
جنوبی ایشیا کا پیلےPele اور دیوار چین کے خطابات پانے والا انٹرنیشنل فٹبالر عبدالغفور مجنا بھی کسمپرسی کی زندگی گزارنے کے بعد دنیا سے رخصت ہوئے۔
74برس کی عمر میں 6اور7 ستمبر 2012 کی درمیانی شب طویل علالت کے باعث کراچی کے ایک اسپتال میں انتقال کرگئے۔ مرحوم کی نماز جنازہ جامع مسجد بغدادی میں ادا کرنے کے بعد انھیں میوہ شاہ قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ یہ المیہ ہے کہ مرحوم موجودہ حکومت سے سخت ناراض تھے جس کے باعث اپنے بیٹوں کو وصیت کی تھی کہ ان کے انتقال کی حکومت کے کسی رکن کو اطلاع نہ دی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی بیماری کے دور میں حکومت نے ان کو نظر انداز کیا جس پر مرحوم سخت نالاں تھے اس وجہ سے انھوں نے اپنے بیٹوں سے کہہ رکھا تھا ان کے انتقال کی خبر ان کے تین دوستوں کے علاوہ کسی حکمران شخصیت کو نہ دی جائے۔
مرحوم کا ایک بیٹا عبدالغنی بینک ملازم جب کہ دوسرا بیٹا عبدالوحید پاک آرمی کی طرف سے فٹ بال کھیلے تھے۔2004میں عبدالغنی کو قانون نافذ کرنے والے ادارے نے کالعدم تنظیم کا مبینہ رکن ہونے کے شبے میں گرفتار کرلیا تھا۔ عبدالغفور مجنا اس صدمے سے سخت دل برداشتہ ہوگئے تھے۔ انھوں نے 60ء اور 70ء کی دہائی میں اپنے مثالی کھیل کی بدولت عالمی شہرت حاصل کی تھی۔ مرحوم نے پاکستان انٹرنیشنل فٹ بال ٹیم کے پہلے کپتان محمد عمر کے ساتھ ڈھاکہ لیگ کھیلی تھی۔ مرحوم کو پاکستانی پیلے اور فل بیک ہونے کی وجہ سے دیوار چین کے خطاب سے نوازا گیا۔
یادش بخیر! ان کی آنکھوں میں خوشی کی جھلک نظر آئی وہ اس بات کی غماز تھی جیسے مدتوں بعد خاندان سے ہٹ کر کچھ لوگ ان سے ملاقات کرنے کے لیے آئے ہیں انھوں نے (عبدالغفور مجنا) بلوچی روایت کیمطابق ہمیں یعنی مجھے رمضان بلوچ، دوست محمد جمالزئی اور رابرٹ کو خوش آمدیدکہا، لیاری کے علاقے سیفی لین بغدادی کی ایک گلی میں واقع قصر صباء کے مہمان خانے میں ہماری ان سے یہ ملاقات تقریباً پون گھنٹے پر محیط تھی۔
ان کی طبیعت کی ناسازی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے سوالات کا سلسلہ محدود رکھا۔ گفتگو میں ان کی معاونت ان کی بنگالی نژاد شریک حیات نے صاف اور واضح بلوچی اور اردو زبان میں کی۔ دوران گفتگو محسوس کیاگیا کہ ان دونوںمیں حیرت انگیز حد تک ہم آہنگی ہے۔ دکھ سکھ کے یہ جیون ساتھی عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں ماضی کی سنہری یادیں ان کے لیے کسی خزانے سے کم نہیں ہیں جب ان کی شریک حیات ماضی کے واقعات دہرا رہی تھیں تو ان کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ گلوگیر لہجے میں مشرقی پاکستان کی جدائی اور بنگلہ دیش بن جانے پر انتہائی دلی دکھ کا اظہار کیا۔
یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ وہی فٹ بالر ہے جس نے اپنی پوری جوانی قومی فٹ بال ٹیم اور اس کھیل کے لیے وقف کی۔ عبدالغفور مجنا عمر کے اس حصے میں داخل ہوچکے تھے جہاں یادداشت ساتھ چھوڑ دیتی ہے اس لیے ان کے متعلق زیادہ تر معلومات ان کی شریک حیات اور ان کے فرزند عبدالغنی نے فراہم کیں۔
عبدالغفور پیلے نے علاقے کے لڑکوں کے ساتھ مل کر فٹ بال کھیلنا شروع کیا اور سن بلوغت میں سیفی فٹ بال کلب سے وابستہ ہوگئے۔ انھوں نے اپنی یادداشت پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارے زمانے میں کوچ وغیرہ نہیں تھے ہر کوئی اپنے شوق سے کھیلتا تھا اور اچھے کھلاڑی بن جاتے تھے۔ آج کل اس صورت حال میں کمی آگئی ہے غالباً اس کی وجہ تسمیہ معاشی اور معاشرتی ناہمواری ہے۔ اگر فٹ بالروں کو بہتر وسائل اور سہولیات فراہم کی جائیں اور ان کی حوصلہ افزائی کے لیے اقدامات کیے جائیں تو فٹ بال کی دنیا میں ایک مرتبہ پھرلیاری سے وابستہ فٹ بالر تہلکہ مچا دیں گے۔
رائٹ ہاف بیک کے لحاظ سے عبدالغفور مجنا ایشیا بھر میں صف اول پر تھے چوں کہ اس زمانے میں میڈیا کا زور نہیں تھا اس لیے اس منفرد صلاحیت کا چرچا محدود تھا لیکن فٹ بال کی دنیا میں اس امر کا ریکارڈ آج بھی موجود ہے۔ عبدالغفور مجنا نے کہا تھا کہ میں دس سال تک قومی فٹ بال ٹیم میں شامل رہا۔ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا کے ایم سی کی جانب سے1950ء میں ڈھاکہ میں کھیلا۔ ایک سال تک کلکتہ محمڈن میں کھیلنے کے علاوہ کراچی پورٹ ٹرسٹ اور سندھ گورنمنٹ پریس کی ٹیموں میں بھی کھیل چکا ہوں۔ چین، ایران، برما، انڈیا اور نیپال کے دورے کیے۔ چین، ایران، برما کی ٹیموں کو شکست دی۔ اس زمانے میں کیپٹن عمر، کیپٹن غلام عباس اور عبداﷲ راہی ہیرو میرے ساتھی کھلاڑی تھے جن کی کارکردگی کی مثالیں آج بھی دی جاتی ہیں۔
گفتگو کے درمیان میں ان کی شریک حیات نے یاد دہانی کراتے ہوئے بتایا کہ عبدالغفور رائٹ ہاف بیک کی حیثیت سے اتنی مہارت اور جم کر کھیلتے تھے کہ چین میں کھیلتے ہوئے انھیں دیوار چین کا لقب ملا جو ملک و قوم کے لیے ایک اعزاز تھا۔ انھوں نے گلہ کیا تھا کہ دنیائے فٹ بال میں ملک و قوم کا نام روشن رکھنے والا یہ منفرد فٹ بالر آج72 سال کی عمر کو پہنچ چکا ہے جسے مختلف بیماریوں نے گھیر رکھا ہے اور ان کی عیادت کے لیے کسی کے پاس وقت نہیں ہے کچھ دیر سوچنے کے بعد عبدالغفور نے بتایا تھا کہ محترمہ فاطمہ جناح، صدر ایوب خان اور گورنر صبور خان سے ملاقاتیں کرچکا ہوں جنھوں نے میری کارکردگی کو سراہا تھا یہ وہ لمحات تھے جن کی خوشی میں آج بھی محسوس کرتا ہوں۔
اسی طرح کی خوشی اس وقت ملی جب بنگلہ دیش کا ایک بحری جہاز کراچی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا اور اس کے کچھ سی مین جو صرف میرے اور میرے علاقے لیاری کے نام سے واقف تھے مجھے تلاش کرتے ہوئے مجھ تک پہنچے مجھ سے ملاقات کی میری خیریت دریافت کی اور میری ماضی کی یادیں تازہ کی۔ ان کی محبت کی خوشبو کی مہک آج بھی محسوس کرتا ہوں۔جب ہم عبدالغفور سے ملاقات کرنے کے بعد اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئے تو راستہ بھر یہی باتیں ستاتی رہیں کہ کیا ہم چڑھتے سورج کے پجاری ہیں؟ کیا ہم مردہ پرست واقع ہوئے ہیں؟ کیا ہم بے بس اور بے حس ہوچکے ہیں؟ جب عبدالغفور کی مقبولیت عروج پر تھی تو ملک کی بڑی بڑی شخصیات ان سے ملاقات کیا کرتے تھے اور ہر کوئی ان سے اپنا رشتہ جوڑنے کی کوشش کرتا تھا آج وہ عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں ماضی کی سنہری یادوں کے سوا ان کے پاس اور کچھ بھی نہیں ہے۔
تمام چاہنے والے اجنبی بن گئے ہیں۔ نفسا نفسی کے اس ماحول میں ہر کوئی مصروف نظر آتا ہے۔ کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ ماضی کے اس قومی ہیرو کی حال پرسی کرے کہ وہ کس قدر کسمپرسی کی سی زندگی بسر کررہا ہے؟ انسان کی قدر اس کی زندگی میں کی جائے تو زیادہ بہتر ہوتا ہے مرنے کے بعد تو زندگی کی کہانی ختم ہوجاتی ہے۔ یہ ہماری قومی ذمے داری ہے کہ ہم اپنے قومی ہیروز کی قدر ان کی زندگی میں کریں نہ کہ ان کے کوچ کرجانے کے بعد!
74برس کی عمر میں 6اور7 ستمبر 2012 کی درمیانی شب طویل علالت کے باعث کراچی کے ایک اسپتال میں انتقال کرگئے۔ مرحوم کی نماز جنازہ جامع مسجد بغدادی میں ادا کرنے کے بعد انھیں میوہ شاہ قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ یہ المیہ ہے کہ مرحوم موجودہ حکومت سے سخت ناراض تھے جس کے باعث اپنے بیٹوں کو وصیت کی تھی کہ ان کے انتقال کی حکومت کے کسی رکن کو اطلاع نہ دی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی بیماری کے دور میں حکومت نے ان کو نظر انداز کیا جس پر مرحوم سخت نالاں تھے اس وجہ سے انھوں نے اپنے بیٹوں سے کہہ رکھا تھا ان کے انتقال کی خبر ان کے تین دوستوں کے علاوہ کسی حکمران شخصیت کو نہ دی جائے۔
مرحوم کا ایک بیٹا عبدالغنی بینک ملازم جب کہ دوسرا بیٹا عبدالوحید پاک آرمی کی طرف سے فٹ بال کھیلے تھے۔2004میں عبدالغنی کو قانون نافذ کرنے والے ادارے نے کالعدم تنظیم کا مبینہ رکن ہونے کے شبے میں گرفتار کرلیا تھا۔ عبدالغفور مجنا اس صدمے سے سخت دل برداشتہ ہوگئے تھے۔ انھوں نے 60ء اور 70ء کی دہائی میں اپنے مثالی کھیل کی بدولت عالمی شہرت حاصل کی تھی۔ مرحوم نے پاکستان انٹرنیشنل فٹ بال ٹیم کے پہلے کپتان محمد عمر کے ساتھ ڈھاکہ لیگ کھیلی تھی۔ مرحوم کو پاکستانی پیلے اور فل بیک ہونے کی وجہ سے دیوار چین کے خطاب سے نوازا گیا۔
یادش بخیر! ان کی آنکھوں میں خوشی کی جھلک نظر آئی وہ اس بات کی غماز تھی جیسے مدتوں بعد خاندان سے ہٹ کر کچھ لوگ ان سے ملاقات کرنے کے لیے آئے ہیں انھوں نے (عبدالغفور مجنا) بلوچی روایت کیمطابق ہمیں یعنی مجھے رمضان بلوچ، دوست محمد جمالزئی اور رابرٹ کو خوش آمدیدکہا، لیاری کے علاقے سیفی لین بغدادی کی ایک گلی میں واقع قصر صباء کے مہمان خانے میں ہماری ان سے یہ ملاقات تقریباً پون گھنٹے پر محیط تھی۔
ان کی طبیعت کی ناسازی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے سوالات کا سلسلہ محدود رکھا۔ گفتگو میں ان کی معاونت ان کی بنگالی نژاد شریک حیات نے صاف اور واضح بلوچی اور اردو زبان میں کی۔ دوران گفتگو محسوس کیاگیا کہ ان دونوںمیں حیرت انگیز حد تک ہم آہنگی ہے۔ دکھ سکھ کے یہ جیون ساتھی عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں ماضی کی سنہری یادیں ان کے لیے کسی خزانے سے کم نہیں ہیں جب ان کی شریک حیات ماضی کے واقعات دہرا رہی تھیں تو ان کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ گلوگیر لہجے میں مشرقی پاکستان کی جدائی اور بنگلہ دیش بن جانے پر انتہائی دلی دکھ کا اظہار کیا۔
یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ وہی فٹ بالر ہے جس نے اپنی پوری جوانی قومی فٹ بال ٹیم اور اس کھیل کے لیے وقف کی۔ عبدالغفور مجنا عمر کے اس حصے میں داخل ہوچکے تھے جہاں یادداشت ساتھ چھوڑ دیتی ہے اس لیے ان کے متعلق زیادہ تر معلومات ان کی شریک حیات اور ان کے فرزند عبدالغنی نے فراہم کیں۔
عبدالغفور پیلے نے علاقے کے لڑکوں کے ساتھ مل کر فٹ بال کھیلنا شروع کیا اور سن بلوغت میں سیفی فٹ بال کلب سے وابستہ ہوگئے۔ انھوں نے اپنی یادداشت پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارے زمانے میں کوچ وغیرہ نہیں تھے ہر کوئی اپنے شوق سے کھیلتا تھا اور اچھے کھلاڑی بن جاتے تھے۔ آج کل اس صورت حال میں کمی آگئی ہے غالباً اس کی وجہ تسمیہ معاشی اور معاشرتی ناہمواری ہے۔ اگر فٹ بالروں کو بہتر وسائل اور سہولیات فراہم کی جائیں اور ان کی حوصلہ افزائی کے لیے اقدامات کیے جائیں تو فٹ بال کی دنیا میں ایک مرتبہ پھرلیاری سے وابستہ فٹ بالر تہلکہ مچا دیں گے۔
رائٹ ہاف بیک کے لحاظ سے عبدالغفور مجنا ایشیا بھر میں صف اول پر تھے چوں کہ اس زمانے میں میڈیا کا زور نہیں تھا اس لیے اس منفرد صلاحیت کا چرچا محدود تھا لیکن فٹ بال کی دنیا میں اس امر کا ریکارڈ آج بھی موجود ہے۔ عبدالغفور مجنا نے کہا تھا کہ میں دس سال تک قومی فٹ بال ٹیم میں شامل رہا۔ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا کے ایم سی کی جانب سے1950ء میں ڈھاکہ میں کھیلا۔ ایک سال تک کلکتہ محمڈن میں کھیلنے کے علاوہ کراچی پورٹ ٹرسٹ اور سندھ گورنمنٹ پریس کی ٹیموں میں بھی کھیل چکا ہوں۔ چین، ایران، برما، انڈیا اور نیپال کے دورے کیے۔ چین، ایران، برما کی ٹیموں کو شکست دی۔ اس زمانے میں کیپٹن عمر، کیپٹن غلام عباس اور عبداﷲ راہی ہیرو میرے ساتھی کھلاڑی تھے جن کی کارکردگی کی مثالیں آج بھی دی جاتی ہیں۔
گفتگو کے درمیان میں ان کی شریک حیات نے یاد دہانی کراتے ہوئے بتایا کہ عبدالغفور رائٹ ہاف بیک کی حیثیت سے اتنی مہارت اور جم کر کھیلتے تھے کہ چین میں کھیلتے ہوئے انھیں دیوار چین کا لقب ملا جو ملک و قوم کے لیے ایک اعزاز تھا۔ انھوں نے گلہ کیا تھا کہ دنیائے فٹ بال میں ملک و قوم کا نام روشن رکھنے والا یہ منفرد فٹ بالر آج72 سال کی عمر کو پہنچ چکا ہے جسے مختلف بیماریوں نے گھیر رکھا ہے اور ان کی عیادت کے لیے کسی کے پاس وقت نہیں ہے کچھ دیر سوچنے کے بعد عبدالغفور نے بتایا تھا کہ محترمہ فاطمہ جناح، صدر ایوب خان اور گورنر صبور خان سے ملاقاتیں کرچکا ہوں جنھوں نے میری کارکردگی کو سراہا تھا یہ وہ لمحات تھے جن کی خوشی میں آج بھی محسوس کرتا ہوں۔
اسی طرح کی خوشی اس وقت ملی جب بنگلہ دیش کا ایک بحری جہاز کراچی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا اور اس کے کچھ سی مین جو صرف میرے اور میرے علاقے لیاری کے نام سے واقف تھے مجھے تلاش کرتے ہوئے مجھ تک پہنچے مجھ سے ملاقات کی میری خیریت دریافت کی اور میری ماضی کی یادیں تازہ کی۔ ان کی محبت کی خوشبو کی مہک آج بھی محسوس کرتا ہوں۔جب ہم عبدالغفور سے ملاقات کرنے کے بعد اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئے تو راستہ بھر یہی باتیں ستاتی رہیں کہ کیا ہم چڑھتے سورج کے پجاری ہیں؟ کیا ہم مردہ پرست واقع ہوئے ہیں؟ کیا ہم بے بس اور بے حس ہوچکے ہیں؟ جب عبدالغفور کی مقبولیت عروج پر تھی تو ملک کی بڑی بڑی شخصیات ان سے ملاقات کیا کرتے تھے اور ہر کوئی ان سے اپنا رشتہ جوڑنے کی کوشش کرتا تھا آج وہ عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں ماضی کی سنہری یادوں کے سوا ان کے پاس اور کچھ بھی نہیں ہے۔
تمام چاہنے والے اجنبی بن گئے ہیں۔ نفسا نفسی کے اس ماحول میں ہر کوئی مصروف نظر آتا ہے۔ کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ ماضی کے اس قومی ہیرو کی حال پرسی کرے کہ وہ کس قدر کسمپرسی کی سی زندگی بسر کررہا ہے؟ انسان کی قدر اس کی زندگی میں کی جائے تو زیادہ بہتر ہوتا ہے مرنے کے بعد تو زندگی کی کہانی ختم ہوجاتی ہے۔ یہ ہماری قومی ذمے داری ہے کہ ہم اپنے قومی ہیروز کی قدر ان کی زندگی میں کریں نہ کہ ان کے کوچ کرجانے کے بعد!