نیو ورلڈ آرڈر اور پاکستان
پہلی بار 28 اپریل 1974ء کو داؤد حکومت کا تختہ الٹ کر جب افغانستان میں سوشلسٹ انقلاب برپا ہوا۔
نیو ورلڈ آرڈر یہ اصطلاح امریکی انتظامیہ کی وضع کردہ ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ دنیا بادی النظر میں دیکھنے میں بڑی سہانی لگے یعنی اگر کہیں کہیں اس میں کوئی چھوٹا موٹا عیب ہے تو اس کو درست کر دیا جائے۔ امریکا میں دو پارٹیاں چلی آ رہی ہیں، ایک ری پبلکن اور دوسرے ڈیموکریٹ ان کے مقاصد ایک ہیں مگر حصول کے طریقے جدا جدا ہیں۔
نوآبادیاتی نظام کے بجائے اسی ملک کے نمایندے کہیں سلطان کی شکل اور مذہب کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں تو کہیں جمہوریت کے بھیس میں۔ ڈومور کی آوازوں اور مطالبات پر تذبذب کا عجب تماشا۔ بالکل ویسے ہی ان دنوں کی یاد جب تعلیمی اداروں یعنی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں الیکشن ہوا کرتے تھے۔
تین فعال طلبا جماعتیں ہوتی تھیں۔ مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن، نیشنل اسٹوڈنٹس اور اسلامی جمعیت طلبا، نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن ان کی قیادت یہی چاہتی تھی کہ ان کی جماعتیں ہر کالج میں انتخابات جیت لیں تا کہ تمام کالجوں کے عہدے داران اپنی اپنی قیادت میں شہر بھر کے قائدین منتخب کر لیں یعنی انٹرکالجیٹ چیئرمین یا یوں سمجھ لیں کہ گویا شہر کے میئر کی نشست جیت لیں، یعنی میونسپل کمیٹی کے چیف بن جائیں مگر سفاکی نہیں اور عالمی موقف پر وہ ایک شخصیت بن جائیں یعنی چونکہ معاملہ نظریات کا ہے تو ایک موقف پر لوگ جمع نہیں ہو سکتے۔ لہٰذا مغربی سرمایہ دار اور مشرقی پرولتاریہ ریاستیں ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہو سکیں گی کیونکہ مغربی جمہوریت کا ایک الگ انداز ہے اور مشرقی عوامی جمہوریت کا ایک الگ انداز ہے۔ دولت کا ارتکاز مغربی جمہوریت کا خاصا ہے اور مشرقی عوامی جمہوریت کا فلسفہ الگ ہے۔
پہلی بار 28 اپریل 1974ء کو داؤد حکومت کا تختہ الٹ کر جب افغانستان میں سوشلسٹ انقلاب برپا ہوا۔ نور محمد ترہ کئی سوشلسٹ حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے اور مسلسل جدوجہد کرنے میں لگے رہے۔ مگر 1996ء میں تمام دنیا کے سرمایہ دار ملکوں نے یکجا ہو کر کابل پر ایک بڑا حملہ کیا جب سوویت یونین واپس جا چکا تھا۔
ڈاکٹر نجیب اللہ نے سوویت فوجوں کو واپس بھیج دیا تھا اور آخرکار دسمبر 1991ء میں گوربا چوف نے نہ صرف اپنی فوجیں کابل سے واپس بلوا لیں بلکہ سوویت یونین کو ایک فیڈریشن کی حیثیت کے طور پر ختم کر دیا جب کہ نئی فیڈریشن کا اعلان کر دیا۔ ملک زبردست نظریاتی مباحثہ میں تھا اس موقعے سے امریکا نے خوب فائدہ اٹھایا۔ 23 برسوں کی خاموشی کے بعد عالمی معاملات میں روس نے پھر انگڑائی لی اور اس بار روس کے متعلق سعودی عرب اور ترکی کو بالکل اندازہ نہ ہوا کہ صورت حال کیا ہے وہ یہ سمجھے کہ رشین فیڈریشن کی صورت حال پہلے جیسی ہے مگر کریمیا کے بعد رشین فیڈریشن کی پوزیشن واضح ہو گئی اور نیٹو نے پراکسی وار میں شکست مان لی۔
یہ پراکسی وار ہوتی ہی اس لیے ہیں تا کہ ہر پل کی جنگی صورتحال کا نقشہ سامنے آتا رہے۔ شام کی جنگ کو تو 6 برس ہو گئے مگر پچھلے 2 برسوں میں جنگ کی صورتحال میں جو تبدیلی سامنے آئی ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ جس طرح داعش اور مخالف قوتیں فرار کی کوشاں ہیں پہلے کبھی نہ تھیں۔ اس سے قبل تو کبھی سعودی عرب روس کے روبرو گفتگو نہ کرتا تھا مگر وہ چیچنیا کے خلاف بغاوت کی دھمکی دیتا رہا۔ حالیہ دنوں میں روس اور سعودی تعلقات کشیدہ تر ہو گئے۔
کابل پر طالبان کی حکومت کو سعودی عرب اور پاکستان نے جس طرح تسلیم کیا، سفارتکاری کی بے تکی مثال شاید ہی کہیں اور نظر آئے اور 9/11 کے بعد بالکل ہی برعکس ایسی سفارتکاری اور پھر ایسی سفارتکاری کہ جس کو پاکستان نے سیڑھیاں مہیا کر کے قوت بخشی کھلے عام اس کو چیلنج کرنا شروع کر دیا اور پھر آرمی پبلک اسکول کے سانحے نے تعلقات کی چولیں ہلا دیں ۔
غرض پاکستان کی سیاسی بساط امریکی انداز فکر پر ہی چلتی رہی، محترمہ کی شہادت، ہمدردی کی لہر اور پھر این آر او اور انتخابات اور پھر ایک بار حکومت امریکا نے عطا کی۔ ملک پھر مقروض اور قرضے کی سیڑھی چڑھ کر صدر زرداری کی آمد اور پھر دوسری بار پٹھان کوٹ واقعہ، الجھا ہوا سیاسی معاملہ، ہمارے تمام معاملات امریکی آرا کے منتظر رہتے ہیں بلکہ جمہوری کیبنٹ امریکا اور برطانیہ میں تیار ہوتی ہیں بلکہ اپوزیشن بھی وہیں پروان چڑھتی ہیں۔
ذرا غور فرمائیں اپریل 1974ء تا اپریل 2016ء تک 42 برس ہونے کو آئے ہم افغانستان کے غم میں الجھے ہوئے ہیں۔ جیسے پاکستان کو دنیا کا کوئی اور کام نہیں ہے دوسروں کے کاندھے پر چڑھ کر اپنی منزل پانے کا عزم ہے یہ عجیب عزم ہے۔ ذرا سوچیے 1946ء میں باچا خان کی قیادت میں پنڈت جواہر لعل نہرو شمالی افغانستان گئے تھے نہ کوئی لشکر نہ کوئی پروٹوکول تھا بس عوام تھے جو ایک ہندو سیکولر لیڈر کے استقبال کے لیے جمع تھے، مگر اب یہی شمالی وزیرستان ہے جہاں چپہ چپہ، کھائی کھائی بارود کا ڈھیر اور یہ ڈھیر کس کے ہاتھ لگے کچھ پتہ نہیں۔ تخریب سے بھی کبھی وفا نہیں ہوتی تخریب سے جفا ہی جفا ہوتی ہے۔
ذرا سوچیے پاکستان بننے سے ایک برس قبل کیا ماحول تھا اور اب کیا ہے۔ جو ماحول بنایا جاتا ہے ویسا ہی بن جاتا ہے اور جب تخریبی ماحول بنایا جاتا ہے تو وہی پروان چڑھتا ہے۔ پہلے امن کا خاتمہ اور پھر امن کو لانے کے لیے پھر نئی کوششیں، اس میں دیر اس لیے لگ رہی ہے کہ ٹی وی پر بیٹھ کر عوام کے سامنے جھوٹ بولنے میں نام نہاد تجزیہ کار مصروف ہیں اب سنا ہے کہ داعش کو سب کچھ کرنے کے باوجود عراق اور شام کی سرزمین چھوڑنا ہے وہاں کے حالات داعش کے لیے سازگار نہیں افغانستان کے حالات سازگار ہیں۔
وسیع بنجر سرزمین انسانی خون میں نہائی ہوئی جہاں کوئی قانون نہیں کچھ حصے پر افغان حکومت جو بھارت کی حامی ہے اور کچھ حصے پر افغان حکومت کا وہ حصہ جو پاکستان نواز ہے مگر کلیتاً نہیں تو وہاں داعش کے پھولنے پھلنے کے خاصے مواقعے ہیں۔ شام سے داعش کا خاصا نقصان خصوصاً حلب میں ہوا اور ہو رہا ہے اور اگر کہیں پر داعش کو زبردست ہزیمت اٹھانی پڑے گی تو وہ حلب ہے کیونکہ حلب میں داعش اور ترکی نے اپنی بڑی نفری پھنسا دی ہے۔ بظاہر یہ لگتا ہے کہ داعش کو امریکا تہہ تیغ کر رہا ہے لیکن ایسا نہیں کیونکہ معمر قذافی کی حکومت کو امریکا نے الٹنے کے لیے داعش اور النصرہ کو استعمال کیا اور فرانس نے ہوائی حملہ بھی کیا مگر آج وہ معصوم بنے بیٹھے ہیں۔
امریکا چونکہ انتخابات کے دہانے پر ہے اس لیے ابھی حتمی فیصلہ نہیں ہوا کہ یہ کام ہیلری کلنٹن کے ذریعے ہو گا یا کسی اور کے مگر حسن روحانی نے ایران کو بحران سے نکال لیا ہے۔
اس لیے افغانستان اور ایرانی بلوچستان کے ذریعے امریکا بلوچستان کے بارڈر پر نیا بھونچال لانے کی تگ و دو کرے گا اور یہ ہو گا نیو ورلڈ آرڈر کا نیا پینترا۔ لیکن پاکستانی حکومت کے 46 برس افغان جنگ میں گزر گئے اس لیے شاید پاکستان اس نئے خطے سے دور رہے اور امریکی نیو ورلڈ آرڈر سے دور رہے کیونکہ ترکی بھی غیر مستحکم ہو چکا ہے اگر پاکستان کی سفارتکاری ایران سے بہتر نہ ہوئی تو یہ علاقہ بھی غیر مستحکم ہو سکتا ہے، امید ہے کہ پاکستان عرب ممالک کے معاشی چکر سے دور رہے گا کیونکہ دنیا اب بائی پولر ہو چکی ہے۔
نوآبادیاتی نظام کے بجائے اسی ملک کے نمایندے کہیں سلطان کی شکل اور مذہب کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں تو کہیں جمہوریت کے بھیس میں۔ ڈومور کی آوازوں اور مطالبات پر تذبذب کا عجب تماشا۔ بالکل ویسے ہی ان دنوں کی یاد جب تعلیمی اداروں یعنی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں الیکشن ہوا کرتے تھے۔
تین فعال طلبا جماعتیں ہوتی تھیں۔ مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن، نیشنل اسٹوڈنٹس اور اسلامی جمعیت طلبا، نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن ان کی قیادت یہی چاہتی تھی کہ ان کی جماعتیں ہر کالج میں انتخابات جیت لیں تا کہ تمام کالجوں کے عہدے داران اپنی اپنی قیادت میں شہر بھر کے قائدین منتخب کر لیں یعنی انٹرکالجیٹ چیئرمین یا یوں سمجھ لیں کہ گویا شہر کے میئر کی نشست جیت لیں، یعنی میونسپل کمیٹی کے چیف بن جائیں مگر سفاکی نہیں اور عالمی موقف پر وہ ایک شخصیت بن جائیں یعنی چونکہ معاملہ نظریات کا ہے تو ایک موقف پر لوگ جمع نہیں ہو سکتے۔ لہٰذا مغربی سرمایہ دار اور مشرقی پرولتاریہ ریاستیں ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہو سکیں گی کیونکہ مغربی جمہوریت کا ایک الگ انداز ہے اور مشرقی عوامی جمہوریت کا ایک الگ انداز ہے۔ دولت کا ارتکاز مغربی جمہوریت کا خاصا ہے اور مشرقی عوامی جمہوریت کا فلسفہ الگ ہے۔
پہلی بار 28 اپریل 1974ء کو داؤد حکومت کا تختہ الٹ کر جب افغانستان میں سوشلسٹ انقلاب برپا ہوا۔ نور محمد ترہ کئی سوشلسٹ حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے اور مسلسل جدوجہد کرنے میں لگے رہے۔ مگر 1996ء میں تمام دنیا کے سرمایہ دار ملکوں نے یکجا ہو کر کابل پر ایک بڑا حملہ کیا جب سوویت یونین واپس جا چکا تھا۔
ڈاکٹر نجیب اللہ نے سوویت فوجوں کو واپس بھیج دیا تھا اور آخرکار دسمبر 1991ء میں گوربا چوف نے نہ صرف اپنی فوجیں کابل سے واپس بلوا لیں بلکہ سوویت یونین کو ایک فیڈریشن کی حیثیت کے طور پر ختم کر دیا جب کہ نئی فیڈریشن کا اعلان کر دیا۔ ملک زبردست نظریاتی مباحثہ میں تھا اس موقعے سے امریکا نے خوب فائدہ اٹھایا۔ 23 برسوں کی خاموشی کے بعد عالمی معاملات میں روس نے پھر انگڑائی لی اور اس بار روس کے متعلق سعودی عرب اور ترکی کو بالکل اندازہ نہ ہوا کہ صورت حال کیا ہے وہ یہ سمجھے کہ رشین فیڈریشن کی صورت حال پہلے جیسی ہے مگر کریمیا کے بعد رشین فیڈریشن کی پوزیشن واضح ہو گئی اور نیٹو نے پراکسی وار میں شکست مان لی۔
یہ پراکسی وار ہوتی ہی اس لیے ہیں تا کہ ہر پل کی جنگی صورتحال کا نقشہ سامنے آتا رہے۔ شام کی جنگ کو تو 6 برس ہو گئے مگر پچھلے 2 برسوں میں جنگ کی صورتحال میں جو تبدیلی سامنے آئی ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ جس طرح داعش اور مخالف قوتیں فرار کی کوشاں ہیں پہلے کبھی نہ تھیں۔ اس سے قبل تو کبھی سعودی عرب روس کے روبرو گفتگو نہ کرتا تھا مگر وہ چیچنیا کے خلاف بغاوت کی دھمکی دیتا رہا۔ حالیہ دنوں میں روس اور سعودی تعلقات کشیدہ تر ہو گئے۔
کابل پر طالبان کی حکومت کو سعودی عرب اور پاکستان نے جس طرح تسلیم کیا، سفارتکاری کی بے تکی مثال شاید ہی کہیں اور نظر آئے اور 9/11 کے بعد بالکل ہی برعکس ایسی سفارتکاری اور پھر ایسی سفارتکاری کہ جس کو پاکستان نے سیڑھیاں مہیا کر کے قوت بخشی کھلے عام اس کو چیلنج کرنا شروع کر دیا اور پھر آرمی پبلک اسکول کے سانحے نے تعلقات کی چولیں ہلا دیں ۔
غرض پاکستان کی سیاسی بساط امریکی انداز فکر پر ہی چلتی رہی، محترمہ کی شہادت، ہمدردی کی لہر اور پھر این آر او اور انتخابات اور پھر ایک بار حکومت امریکا نے عطا کی۔ ملک پھر مقروض اور قرضے کی سیڑھی چڑھ کر صدر زرداری کی آمد اور پھر دوسری بار پٹھان کوٹ واقعہ، الجھا ہوا سیاسی معاملہ، ہمارے تمام معاملات امریکی آرا کے منتظر رہتے ہیں بلکہ جمہوری کیبنٹ امریکا اور برطانیہ میں تیار ہوتی ہیں بلکہ اپوزیشن بھی وہیں پروان چڑھتی ہیں۔
ذرا غور فرمائیں اپریل 1974ء تا اپریل 2016ء تک 42 برس ہونے کو آئے ہم افغانستان کے غم میں الجھے ہوئے ہیں۔ جیسے پاکستان کو دنیا کا کوئی اور کام نہیں ہے دوسروں کے کاندھے پر چڑھ کر اپنی منزل پانے کا عزم ہے یہ عجیب عزم ہے۔ ذرا سوچیے 1946ء میں باچا خان کی قیادت میں پنڈت جواہر لعل نہرو شمالی افغانستان گئے تھے نہ کوئی لشکر نہ کوئی پروٹوکول تھا بس عوام تھے جو ایک ہندو سیکولر لیڈر کے استقبال کے لیے جمع تھے، مگر اب یہی شمالی وزیرستان ہے جہاں چپہ چپہ، کھائی کھائی بارود کا ڈھیر اور یہ ڈھیر کس کے ہاتھ لگے کچھ پتہ نہیں۔ تخریب سے بھی کبھی وفا نہیں ہوتی تخریب سے جفا ہی جفا ہوتی ہے۔
ذرا سوچیے پاکستان بننے سے ایک برس قبل کیا ماحول تھا اور اب کیا ہے۔ جو ماحول بنایا جاتا ہے ویسا ہی بن جاتا ہے اور جب تخریبی ماحول بنایا جاتا ہے تو وہی پروان چڑھتا ہے۔ پہلے امن کا خاتمہ اور پھر امن کو لانے کے لیے پھر نئی کوششیں، اس میں دیر اس لیے لگ رہی ہے کہ ٹی وی پر بیٹھ کر عوام کے سامنے جھوٹ بولنے میں نام نہاد تجزیہ کار مصروف ہیں اب سنا ہے کہ داعش کو سب کچھ کرنے کے باوجود عراق اور شام کی سرزمین چھوڑنا ہے وہاں کے حالات داعش کے لیے سازگار نہیں افغانستان کے حالات سازگار ہیں۔
وسیع بنجر سرزمین انسانی خون میں نہائی ہوئی جہاں کوئی قانون نہیں کچھ حصے پر افغان حکومت جو بھارت کی حامی ہے اور کچھ حصے پر افغان حکومت کا وہ حصہ جو پاکستان نواز ہے مگر کلیتاً نہیں تو وہاں داعش کے پھولنے پھلنے کے خاصے مواقعے ہیں۔ شام سے داعش کا خاصا نقصان خصوصاً حلب میں ہوا اور ہو رہا ہے اور اگر کہیں پر داعش کو زبردست ہزیمت اٹھانی پڑے گی تو وہ حلب ہے کیونکہ حلب میں داعش اور ترکی نے اپنی بڑی نفری پھنسا دی ہے۔ بظاہر یہ لگتا ہے کہ داعش کو امریکا تہہ تیغ کر رہا ہے لیکن ایسا نہیں کیونکہ معمر قذافی کی حکومت کو امریکا نے الٹنے کے لیے داعش اور النصرہ کو استعمال کیا اور فرانس نے ہوائی حملہ بھی کیا مگر آج وہ معصوم بنے بیٹھے ہیں۔
امریکا چونکہ انتخابات کے دہانے پر ہے اس لیے ابھی حتمی فیصلہ نہیں ہوا کہ یہ کام ہیلری کلنٹن کے ذریعے ہو گا یا کسی اور کے مگر حسن روحانی نے ایران کو بحران سے نکال لیا ہے۔
اس لیے افغانستان اور ایرانی بلوچستان کے ذریعے امریکا بلوچستان کے بارڈر پر نیا بھونچال لانے کی تگ و دو کرے گا اور یہ ہو گا نیو ورلڈ آرڈر کا نیا پینترا۔ لیکن پاکستانی حکومت کے 46 برس افغان جنگ میں گزر گئے اس لیے شاید پاکستان اس نئے خطے سے دور رہے اور امریکی نیو ورلڈ آرڈر سے دور رہے کیونکہ ترکی بھی غیر مستحکم ہو چکا ہے اگر پاکستان کی سفارتکاری ایران سے بہتر نہ ہوئی تو یہ علاقہ بھی غیر مستحکم ہو سکتا ہے، امید ہے کہ پاکستان عرب ممالک کے معاشی چکر سے دور رہے گا کیونکہ دنیا اب بائی پولر ہو چکی ہے۔