غربت کا عفریت
ایشیائی ترقیاتی بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان کا ہر تیسرا فرد غریب ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان کا ہر تیسرا فرد غریب ہے۔ آج عالمی معیار کے مطابق دنیا کا ہر وہ آدمی غریب قرار دیا جاتا ہے جس کی یومیہ آمدنی ایک ڈالر سے بھی کم ہے۔
یاد رہے غربت کوئی پیدائشی عیب نہیں بلکہ یہ بالادست طبقات کی نااہلیوں، حق تلفیوں اور ناقص پالیسیوں کے نتیجے میں عفریت ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں غربت کی بڑی وجہ دولت کی غیر مساویانہ تقسیم، جاگیردارانہ نظام اور مطلق العنان حکومتوں کے علاوہ ناخواندگی بھی ہے جس کی وجہ سے عوام کی اکثریت اپنے حقوق سے بے بہرہ ہے۔ پاکستان کی مجموعی آبادی میں سے پانچ کروڑ افراد خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ تین کروڑ غریب پاکستانی دیہی علاقوں میں آباد ہیں جو خوراک صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ غربت کی ایک بڑی وجہ روزگار کے مواقعوں کی کمی بھی ہے۔
رواں صدی کے آغاز پر اقوام متحدہ نے دنیا میں بھوک، افلاس اور جہالت میں 2015 تک کم ازکم پچاس فیصد کمی کے لیے ملینیم گولز کے نام سے اہداف مقرر کیے تھے اور ترقی یافتہ ملکوں کو اس سلسلے میں مدد کا پابند کیا تھا۔ دنیا کے تمام ممالک نے ان اہداف کی تکمیل کا عہد کیا تھا لیکن اس ضمن میں عملی اقدامات کا فقدان رہا۔
پاکستان میں غربت میں کمی نہ ہونے کی وجوہات کمزور انتظامی صلاحیت، پختہ عزم کا فقدان بھی شامل ہے۔ آج بھی پاکستان میں سرکاری اعداد وشمار کے مطابق چالیس فیصد سے بھی زیادہ ہے اور یہی اختلاف غربت کے خاتمے سے متعلق ارباب اختیارکی سنجیدگی کا پردہ بھی چاک کرتا ہے۔
کسی بھی معاشرے میں عموماً غربت اشرافیہ طبقے کے جرائم کی بنا پر جنم لیتی ہے اور پروان چڑھتی ہے ہمارے معاشرے میں بھی غربت کے پھلنے پھولنے کا بنیادی سبب اسی طبقے کی حق تلفی ہے۔پاکستان کرپشن کے باعث شدید مالی مشکلات کا شکار ہے غربت، مہنگائی، خوراک اور بجلی کی کمی میں اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان جس کا قیام معاشی سیاسی اور انتظامی استحصال سے نجات اور ایک پاک و صالح فلاحی معاشرے کی تشکیل کے لیے عمل میں لایا گیا تھا، آج ہمیں وہی پاکستان ہر طرف سے ظلمت کے تھیپڑوں کی زد میں نظر آتا ہے۔ کیا مملکت خداداد پاکستان کو آج سے 62 سال پہلے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے بے پناہ قربانیاں دے کر اس لیے حاصل کیا تھا کہ یہاں مفاد پرست اور زر پرست طبقات کے لوگ کروڑوں مظلوم اور بے سہارا مسلمانوں کی قربانیوں کا مذاق اڑائیں گے؟
غربت کو جرائم کی ماں کہا جاتا ہے اور بھوک اور افلاس کی بڑھتی ہوئی شرح کا ہی شاخسانہ ہے کہ وطن عزیز میں جرائم کی شرح کا گراف انتہائی بلندیوں کو چھونے لگا ہے۔ جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے بلاشبہ پورا ملک اس کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ اس کے اسباب بھی ڈھکے چھپے نہیں اس پر قابو پانے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتیں مقدور بھرکوششیں بھی کر رہی ہیں۔
راہ چلتے افراد سے گاڑیاں، موبائل فون اور نقدی چھین لینا، دن دہاڑے کم سن بچوں کا اغوا برائے تاوان، تاوان نہ دینے پر ان کا وحشیانہ قتل، اندھے قتل کی وارداتیں، منشیات کی سرعام فروخت، بہتر روزگار کی فراہمی کی آڑ میں انسانی اسمگلنگ اور ان سے زندگی بھر کی جمع پونجی ہتھیانے کے واقعات، دن دہاڑے چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں، پارکوں سے گاڑیوں کی چوری اور متعدد دوسرے جرائم میں بھی اس قدر اضافہ ہوچکا ہے کہ ماضی میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ صورتحال شہریوں میں نہ صرف جان و مال کے عدم تحفظ کے احساس میں زبردست اضافہ کر رہی ہے بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر عوام کا اعتماد بھی متزلزل ہوکر رہ گیا ہے۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ کروڑوں پاکستانیوں کے معصوم اورکم سن بچوں کو دو وقت پیٹ بھر کر کھانا بھی دستیاب نہیں ہے۔ پینے کے لیے صاف پانی اور علاج معالجے جیسی بنیادی ضروریات کے لیے بھی دن میں کئی کئی مرتبہ خوار ہونا پڑتا ہے۔
تھر کے جغرافیائی اور طبی حالات کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ قدرت اس خطے پر بھی مہربان ہے۔ لیکن یہاں نمکین پانی کی سو سے زائد بڑی جھیلیں موجود ہیں، ان جھیلوں کے پانی کو جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے میٹھے پانی میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔( ایسے پلانٹ کام بھی کررہے ہیں) برقی توانائی کی بات نکلی ہے تو جان لیجیے کہ پاکستان کے بالائی اور زیریں مقامات چھوٹے چھوٹے ڈیم بناکر لگ بھگ تیس ہزار میگاواٹ کی کثیر مقدار میں انتہائی سستی بجلی حاصل کی جاسکتی ہے۔
لیکن اگر قحط الرجال کی صورتحال ہنوز قائم رہی، قومی ادارے یوں ہی بربادی و تباہی کی تصویر بنے رہے اور اشرافیہ طبقے کی لوٹ مار اسی طرح جاری رہی تو پھر خطرہ ہے کہ قدرت کی عطا کردہ مذکورہ نعمتیں اور ان کے علاوہ ان گنت انعامات ہمارے ہاتھ سے نکل کر غیروں کے ہاتھ میں چلے جائیں گے۔
یاد رہے غربت کوئی پیدائشی عیب نہیں بلکہ یہ بالادست طبقات کی نااہلیوں، حق تلفیوں اور ناقص پالیسیوں کے نتیجے میں عفریت ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں غربت کی بڑی وجہ دولت کی غیر مساویانہ تقسیم، جاگیردارانہ نظام اور مطلق العنان حکومتوں کے علاوہ ناخواندگی بھی ہے جس کی وجہ سے عوام کی اکثریت اپنے حقوق سے بے بہرہ ہے۔ پاکستان کی مجموعی آبادی میں سے پانچ کروڑ افراد خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ تین کروڑ غریب پاکستانی دیہی علاقوں میں آباد ہیں جو خوراک صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ غربت کی ایک بڑی وجہ روزگار کے مواقعوں کی کمی بھی ہے۔
رواں صدی کے آغاز پر اقوام متحدہ نے دنیا میں بھوک، افلاس اور جہالت میں 2015 تک کم ازکم پچاس فیصد کمی کے لیے ملینیم گولز کے نام سے اہداف مقرر کیے تھے اور ترقی یافتہ ملکوں کو اس سلسلے میں مدد کا پابند کیا تھا۔ دنیا کے تمام ممالک نے ان اہداف کی تکمیل کا عہد کیا تھا لیکن اس ضمن میں عملی اقدامات کا فقدان رہا۔
پاکستان میں غربت میں کمی نہ ہونے کی وجوہات کمزور انتظامی صلاحیت، پختہ عزم کا فقدان بھی شامل ہے۔ آج بھی پاکستان میں سرکاری اعداد وشمار کے مطابق چالیس فیصد سے بھی زیادہ ہے اور یہی اختلاف غربت کے خاتمے سے متعلق ارباب اختیارکی سنجیدگی کا پردہ بھی چاک کرتا ہے۔
کسی بھی معاشرے میں عموماً غربت اشرافیہ طبقے کے جرائم کی بنا پر جنم لیتی ہے اور پروان چڑھتی ہے ہمارے معاشرے میں بھی غربت کے پھلنے پھولنے کا بنیادی سبب اسی طبقے کی حق تلفی ہے۔پاکستان کرپشن کے باعث شدید مالی مشکلات کا شکار ہے غربت، مہنگائی، خوراک اور بجلی کی کمی میں اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان جس کا قیام معاشی سیاسی اور انتظامی استحصال سے نجات اور ایک پاک و صالح فلاحی معاشرے کی تشکیل کے لیے عمل میں لایا گیا تھا، آج ہمیں وہی پاکستان ہر طرف سے ظلمت کے تھیپڑوں کی زد میں نظر آتا ہے۔ کیا مملکت خداداد پاکستان کو آج سے 62 سال پہلے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے بے پناہ قربانیاں دے کر اس لیے حاصل کیا تھا کہ یہاں مفاد پرست اور زر پرست طبقات کے لوگ کروڑوں مظلوم اور بے سہارا مسلمانوں کی قربانیوں کا مذاق اڑائیں گے؟
غربت کو جرائم کی ماں کہا جاتا ہے اور بھوک اور افلاس کی بڑھتی ہوئی شرح کا ہی شاخسانہ ہے کہ وطن عزیز میں جرائم کی شرح کا گراف انتہائی بلندیوں کو چھونے لگا ہے۔ جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے بلاشبہ پورا ملک اس کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ اس کے اسباب بھی ڈھکے چھپے نہیں اس پر قابو پانے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتیں مقدور بھرکوششیں بھی کر رہی ہیں۔
راہ چلتے افراد سے گاڑیاں، موبائل فون اور نقدی چھین لینا، دن دہاڑے کم سن بچوں کا اغوا برائے تاوان، تاوان نہ دینے پر ان کا وحشیانہ قتل، اندھے قتل کی وارداتیں، منشیات کی سرعام فروخت، بہتر روزگار کی فراہمی کی آڑ میں انسانی اسمگلنگ اور ان سے زندگی بھر کی جمع پونجی ہتھیانے کے واقعات، دن دہاڑے چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں، پارکوں سے گاڑیوں کی چوری اور متعدد دوسرے جرائم میں بھی اس قدر اضافہ ہوچکا ہے کہ ماضی میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ صورتحال شہریوں میں نہ صرف جان و مال کے عدم تحفظ کے احساس میں زبردست اضافہ کر رہی ہے بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر عوام کا اعتماد بھی متزلزل ہوکر رہ گیا ہے۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ کروڑوں پاکستانیوں کے معصوم اورکم سن بچوں کو دو وقت پیٹ بھر کر کھانا بھی دستیاب نہیں ہے۔ پینے کے لیے صاف پانی اور علاج معالجے جیسی بنیادی ضروریات کے لیے بھی دن میں کئی کئی مرتبہ خوار ہونا پڑتا ہے۔
تھر کے جغرافیائی اور طبی حالات کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ قدرت اس خطے پر بھی مہربان ہے۔ لیکن یہاں نمکین پانی کی سو سے زائد بڑی جھیلیں موجود ہیں، ان جھیلوں کے پانی کو جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے میٹھے پانی میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔( ایسے پلانٹ کام بھی کررہے ہیں) برقی توانائی کی بات نکلی ہے تو جان لیجیے کہ پاکستان کے بالائی اور زیریں مقامات چھوٹے چھوٹے ڈیم بناکر لگ بھگ تیس ہزار میگاواٹ کی کثیر مقدار میں انتہائی سستی بجلی حاصل کی جاسکتی ہے۔
لیکن اگر قحط الرجال کی صورتحال ہنوز قائم رہی، قومی ادارے یوں ہی بربادی و تباہی کی تصویر بنے رہے اور اشرافیہ طبقے کی لوٹ مار اسی طرح جاری رہی تو پھر خطرہ ہے کہ قدرت کی عطا کردہ مذکورہ نعمتیں اور ان کے علاوہ ان گنت انعامات ہمارے ہاتھ سے نکل کر غیروں کے ہاتھ میں چلے جائیں گے۔