ایک گھر ایک اخبار لازمی
اسی لیے جو سمجھدار گھرانے ہیں ان کے یہاں جو چیزیں باہر سے لائی اور منگوائی جاتی ہیں
بعض ذرایع سے اس عجیب و غریب خبر کا پتہ چلا ہے کہ حکومت ایک ایسی اسکیم کے تحت جس کا بہت جلد اعلان متوقع ہے ملک کے ہر گھرانے کو ایک انگریزی یا ایک اردو یا علاقائی زبان کا اخبار روزانہ گھر پر لینے کا پابند کرنے والی ہے کیونکہ ارباب حل و عقد بجا طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ اخبار بینی لوگوں میں مطالعے کی ایک اچھی عادت پیدا کرسکتی ہے جو بدقسمتی سے دن بہ دن کم ہو رہی ہے اور اس سے ان نقصانات کی تلافی ہوسکتی ہے جو دیگر ذرایع ابلاغ مثلاً سوشل میڈیا پر بہت زیادہ وقت دینے سے لوگوں کو پہنچ رہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ روزانہ اخبار پڑھنے کے اپنے بہت سے فائدے ہیں اس سے گھر میں موجود مختلف عمر کے حضرات، خواتین، لڑکے، لڑکیوں حتیٰ کہ بچوں کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے قومی اخبارات میں ہر نوعیت کی خبریں شایع ہوتی ہیں۔ نامی گرامی کالم نگار مختلف قسم کے اہم قومی موضوعات پر تمام زاویوں سے بحث مباحثہ کرتے ہیں، ہر رخ سے کسی موضوع کی دیکھنے اور تمام مکاتب فکر کے لوگوں کو سننے کے بعد پڑھنے والے اگر ان میں ذرا سی بھی عقل ہو تو وہ صحیح فیصلے تک پہنچ سکتے ہیں۔
اسی لیے جو سمجھدار گھرانے ہیں ان کے یہاں جو چیزیں باہر سے لائی اور منگوائی جاتی ہیں ان میں سے ایک اخبارات بھی ہیں۔ جن سے بہت سے بند ذہنوں کے دروازے کھلتے ہیں۔ خبریں اور مضامین پڑھ کر سوچنے سمجھنے، غوروفکر کا موقع ملتا ہے آپ کو پتا چلتا ہے کہ آپ کے اردگرد کی دنیا میں کیا کچھ ہو رہا ہے۔ لوگ کیسے اورکیونکر ترقی کر رہے ہیں۔ سائنسدان کن کن شعبوں میں ریسرچ کر رہے ہیں اور ان کی ریسرچ سے انسانیت کو کیا فائدہ پہنچ رہا ہے۔ دنیا کون سی بلندیوں کی طرف جا رہی ہے اور ہم کون سی پستیوں کا رخ کر رہے ہیں۔
اخبارات کا ہم تک معلومات پہنچانے اور ہمیں کوئی خبر پڑھنے پر مجبور کرنے کا بھی ایک متاثر کن انداز ہوتا ہے۔مثلاً ہم نجانے کب سے امریکی خلا بازوں کے چاند پر قدم رکھنے سے لے کر خلا میں چہل قدمی کرنے اور اس سلسلے میں خلائی اسٹیشن میں قیام کرنے کی کہانیاں سنا کرتے تھے مگر حال ہی میں ایک خبر پڑھ کرکم ازکم ہمیں پہلی مرتبہ امریکی خلا باز اسکاٹ بی کیلی کے بارے میں کچھ نئی اور دلچسپ باتوں کا پتا چلا۔ مثلاً خلا میں وہ دنیا کی بہت سی چیزوں سے محروم تھے مگر انھیں وہاں انٹرنیٹ کی سہولت حاصل تھی اور انھوں نے انسٹاگرام میں پوسٹ کرکے اپنے نو لاکھ ماننے والوں (Followers) کو دو ہزار پیغامات پہنچائے۔ یہ بھی پتا چلا کہ انھوں نے اس دوران مدار کے گرد پانچ ہزار 440 چکر لگائے۔ انھوں نے ہر 90 منٹ میں ایک بار جب کہ کل ملاکر دس ہزار نو سو چالیس مرتبہ سورج کو طلوع اور غروب ہوتے دیکھا۔
مائیکل کیلی 340 دن خلا میں رہے جو کسی بھی امریکی خلا باز کا طویل ترین قیام تھا اس سے پہلے کا ریکارڈ مائیکل لوپز الیگریا کا ہے جو 215 دن خلا میں رہے تھے۔ اس دوران انھیں اپنے ہی پیشاب اور پینے کے پانی کو ری سائیکل کرکے 193 گیلن پانی پینا پڑا۔ جس کے لیے خلائی اسٹیشن میں ایک اسپیشل ری سائیکلنگ مشین نصب کی گئی تھی۔ یہ اسٹیشن اپنے میزبان خلا باز کو لیے زمین کے گرد 17 ہزار میل فی گھنٹے کی رفتار سے گھومتا ہے اور ہر 90 منٹ میں ایک چکر مکمل کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی روزانہ کے اخبارات میں آپ کو ایسی ہی بہت سی دلچسپ اور معلوماتی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔
یہ بھی طے ہے کہ حکومت کا اپنے ملک کے تعلیم یافتہ شہریوں کو اخبار بینی کے فوائد کے بارے میں قائل معقول کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا زیادہ تر لوگ بدقسمتی سے یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا اخبارات پڑھے بغیر ہی ٹھیک ٹھاک گزارا ہورہا ہے اور اخبار پڑھنے سے ان کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا حالانکہ انھیں اس بات کا اندازہ نہیں کہ اخبارات ہی لوگوں خاص طور پر نئی نسل میں مطالعے کی عادت پیدا یا بحال کرسکتے ہیں۔
ادھر ارباب حل وعقد اپنے تئیں یہ بھی سمجھتے ہیں کہ عوام کے ایک بدنصیب طبقے کے اخبار نہ لینے کا ایک سبب معاشی بھی ہے۔ اکثر لوگوں کی جیبیں اس بات کی اجازت نہیں دیتیں کہ وہ اخبار خرید سکیں۔
کچھ یہ بات بھی ہے کہ اخبار خود پڑھنا اور گھر والوں کو پڑھانا ان کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ اسی لیے حکومت نے ابتدائی مرحلے میں یہ طے کیا ہے کہ سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کے ملازمین کو ایک انگریزی اور ایک اردو یا علاقائی زبان کا کوئی اخبار خریدنے کے لیے سرکارکی طرف سے ایک ماہانہ الاؤنس جاری کیا جائے گا جو صرف اسی مقصد کے لیے استعمال کیا جائے گا اور اسے یقینی بنانے کے لیے ادارے کی انتظامیہ کی طرف سے مانیٹرنگ کی جائے گی۔
اس کے ساتھ ہی حکومت کی طرف سے نجی اداروں پر بھی زور دیا جائے گا کہ وہ اپنے ملازمین کو دوسری سہولتوں کے ساتھ ساتھ گھر پر اخبار پڑھنے کی سہولت فراہم کریں اور اس مقصد سے ملازمین کو ایک الاؤنس بھی دیا جائے اس کے عوض حکومت کی طرف سے نجی شعبے کو ٹیکسوں میں رعایت بھی دی جاسکتی ہے اور زرتلافی اور ری بیٹ بھی فراہم کیا جاسکتا ہے۔
حکومت نے اگرچہ اس اسکیم کے تحت ایک مقصد کو ظاہر نہیں کیا ہے تاہم عوام کو اخبار پڑھنے سے انھیں حکمرانوں کی سرگرمیوں، خدمات اور کارکردگی کا بھی پتا چل سکے گا عام لوگوں خاص طور پر خواتین کو بھی معلوم ہوگا کہ ان کے حقوق کیا کچھ ہیں اور شوہروں کی زیادتی کی صورت میں وہ کیا کچھ کرسکتی ہیں۔ ان کی معلومات محض سنی سنائی باتوں تک ہی محدود نہیں رہیں گی مثلاً بہت سے سمجھدار اور امن پسند شوہر بیویوں، ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے دفاع میں پاس ہونے والا بل پڑھ کر ہی اپنی حرکتوں سے باز آجائیں گے مزید کارروائی کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔
ایسے بہت سے لوگوں کے لیے جن کے پاس بہت سارا وقت ہے اور کرنے کو کوئی خاص کام نہیں ہے اخبار بینی وقت گزارنے کا صحیح مصرف بھی فراہم کرے گی۔ اس کے علاوہ بھی اخبار پڑھنے کے بہت سے فائدے ہیں مثلاً طویل میعاد میں اس سے شرح خواندگی میں اضافہ ہوگا یہ بھی اپنی جگہ مسلمہ حقیقت ہے کہ مجموعی طور پر اخبارات اپنے پڑھنے والوں کو روشن خیال اور لبرل بناتے ہیں اچھی باتیں سکھاتے اور بری باتوں سے دور رکھتے ہیں۔
یہی کام لوگوں کو اپنی نئی نسل کے لیے بھی کرنا ہے اور جو اچھی قابل تقلید عادتیں ورثے میں چھوڑنی ہیں ۔ان میں سے ایک پابندی سے اخبار پڑھنے کی بھی عادت ہے جو ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوسکتی ہے۔لوگوں کو اپنے لیے کون سا انگریزی کا اور کون سا اردو کا اخبار سلیکٹ کرنا ہے ابھی تک اس اسکیم کے جو خدوخال وضع کیے گئے ہیں۔ ان کے مطابق حکومت اس کے لیے فنڈز تو فراہم کرے گی مگر کوئی خاص اخبار پڑھنے کا پابند نہیں کرے گی یہ انتخاب لوگوں کو خودکرنا ہوگا۔
آپ نے دیکھ لیا اخبار یا اخبارات پڑھنے کے کتنے فائدے ہیں اگر آپ اخبار نہ پڑھ رہے ہوتے تو آپ کو اخبار بینی اور مطالعے کے اتنے فائدے کیسے پتہ چلتے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ روزانہ اخبار پڑھنے کے اپنے بہت سے فائدے ہیں اس سے گھر میں موجود مختلف عمر کے حضرات، خواتین، لڑکے، لڑکیوں حتیٰ کہ بچوں کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے قومی اخبارات میں ہر نوعیت کی خبریں شایع ہوتی ہیں۔ نامی گرامی کالم نگار مختلف قسم کے اہم قومی موضوعات پر تمام زاویوں سے بحث مباحثہ کرتے ہیں، ہر رخ سے کسی موضوع کی دیکھنے اور تمام مکاتب فکر کے لوگوں کو سننے کے بعد پڑھنے والے اگر ان میں ذرا سی بھی عقل ہو تو وہ صحیح فیصلے تک پہنچ سکتے ہیں۔
اسی لیے جو سمجھدار گھرانے ہیں ان کے یہاں جو چیزیں باہر سے لائی اور منگوائی جاتی ہیں ان میں سے ایک اخبارات بھی ہیں۔ جن سے بہت سے بند ذہنوں کے دروازے کھلتے ہیں۔ خبریں اور مضامین پڑھ کر سوچنے سمجھنے، غوروفکر کا موقع ملتا ہے آپ کو پتا چلتا ہے کہ آپ کے اردگرد کی دنیا میں کیا کچھ ہو رہا ہے۔ لوگ کیسے اورکیونکر ترقی کر رہے ہیں۔ سائنسدان کن کن شعبوں میں ریسرچ کر رہے ہیں اور ان کی ریسرچ سے انسانیت کو کیا فائدہ پہنچ رہا ہے۔ دنیا کون سی بلندیوں کی طرف جا رہی ہے اور ہم کون سی پستیوں کا رخ کر رہے ہیں۔
اخبارات کا ہم تک معلومات پہنچانے اور ہمیں کوئی خبر پڑھنے پر مجبور کرنے کا بھی ایک متاثر کن انداز ہوتا ہے۔مثلاً ہم نجانے کب سے امریکی خلا بازوں کے چاند پر قدم رکھنے سے لے کر خلا میں چہل قدمی کرنے اور اس سلسلے میں خلائی اسٹیشن میں قیام کرنے کی کہانیاں سنا کرتے تھے مگر حال ہی میں ایک خبر پڑھ کرکم ازکم ہمیں پہلی مرتبہ امریکی خلا باز اسکاٹ بی کیلی کے بارے میں کچھ نئی اور دلچسپ باتوں کا پتا چلا۔ مثلاً خلا میں وہ دنیا کی بہت سی چیزوں سے محروم تھے مگر انھیں وہاں انٹرنیٹ کی سہولت حاصل تھی اور انھوں نے انسٹاگرام میں پوسٹ کرکے اپنے نو لاکھ ماننے والوں (Followers) کو دو ہزار پیغامات پہنچائے۔ یہ بھی پتا چلا کہ انھوں نے اس دوران مدار کے گرد پانچ ہزار 440 چکر لگائے۔ انھوں نے ہر 90 منٹ میں ایک بار جب کہ کل ملاکر دس ہزار نو سو چالیس مرتبہ سورج کو طلوع اور غروب ہوتے دیکھا۔
مائیکل کیلی 340 دن خلا میں رہے جو کسی بھی امریکی خلا باز کا طویل ترین قیام تھا اس سے پہلے کا ریکارڈ مائیکل لوپز الیگریا کا ہے جو 215 دن خلا میں رہے تھے۔ اس دوران انھیں اپنے ہی پیشاب اور پینے کے پانی کو ری سائیکل کرکے 193 گیلن پانی پینا پڑا۔ جس کے لیے خلائی اسٹیشن میں ایک اسپیشل ری سائیکلنگ مشین نصب کی گئی تھی۔ یہ اسٹیشن اپنے میزبان خلا باز کو لیے زمین کے گرد 17 ہزار میل فی گھنٹے کی رفتار سے گھومتا ہے اور ہر 90 منٹ میں ایک چکر مکمل کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی روزانہ کے اخبارات میں آپ کو ایسی ہی بہت سی دلچسپ اور معلوماتی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔
یہ بھی طے ہے کہ حکومت کا اپنے ملک کے تعلیم یافتہ شہریوں کو اخبار بینی کے فوائد کے بارے میں قائل معقول کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا زیادہ تر لوگ بدقسمتی سے یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا اخبارات پڑھے بغیر ہی ٹھیک ٹھاک گزارا ہورہا ہے اور اخبار پڑھنے سے ان کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا حالانکہ انھیں اس بات کا اندازہ نہیں کہ اخبارات ہی لوگوں خاص طور پر نئی نسل میں مطالعے کی عادت پیدا یا بحال کرسکتے ہیں۔
ادھر ارباب حل وعقد اپنے تئیں یہ بھی سمجھتے ہیں کہ عوام کے ایک بدنصیب طبقے کے اخبار نہ لینے کا ایک سبب معاشی بھی ہے۔ اکثر لوگوں کی جیبیں اس بات کی اجازت نہیں دیتیں کہ وہ اخبار خرید سکیں۔
کچھ یہ بات بھی ہے کہ اخبار خود پڑھنا اور گھر والوں کو پڑھانا ان کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ اسی لیے حکومت نے ابتدائی مرحلے میں یہ طے کیا ہے کہ سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کے ملازمین کو ایک انگریزی اور ایک اردو یا علاقائی زبان کا کوئی اخبار خریدنے کے لیے سرکارکی طرف سے ایک ماہانہ الاؤنس جاری کیا جائے گا جو صرف اسی مقصد کے لیے استعمال کیا جائے گا اور اسے یقینی بنانے کے لیے ادارے کی انتظامیہ کی طرف سے مانیٹرنگ کی جائے گی۔
اس کے ساتھ ہی حکومت کی طرف سے نجی اداروں پر بھی زور دیا جائے گا کہ وہ اپنے ملازمین کو دوسری سہولتوں کے ساتھ ساتھ گھر پر اخبار پڑھنے کی سہولت فراہم کریں اور اس مقصد سے ملازمین کو ایک الاؤنس بھی دیا جائے اس کے عوض حکومت کی طرف سے نجی شعبے کو ٹیکسوں میں رعایت بھی دی جاسکتی ہے اور زرتلافی اور ری بیٹ بھی فراہم کیا جاسکتا ہے۔
حکومت نے اگرچہ اس اسکیم کے تحت ایک مقصد کو ظاہر نہیں کیا ہے تاہم عوام کو اخبار پڑھنے سے انھیں حکمرانوں کی سرگرمیوں، خدمات اور کارکردگی کا بھی پتا چل سکے گا عام لوگوں خاص طور پر خواتین کو بھی معلوم ہوگا کہ ان کے حقوق کیا کچھ ہیں اور شوہروں کی زیادتی کی صورت میں وہ کیا کچھ کرسکتی ہیں۔ ان کی معلومات محض سنی سنائی باتوں تک ہی محدود نہیں رہیں گی مثلاً بہت سے سمجھدار اور امن پسند شوہر بیویوں، ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے دفاع میں پاس ہونے والا بل پڑھ کر ہی اپنی حرکتوں سے باز آجائیں گے مزید کارروائی کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔
ایسے بہت سے لوگوں کے لیے جن کے پاس بہت سارا وقت ہے اور کرنے کو کوئی خاص کام نہیں ہے اخبار بینی وقت گزارنے کا صحیح مصرف بھی فراہم کرے گی۔ اس کے علاوہ بھی اخبار پڑھنے کے بہت سے فائدے ہیں مثلاً طویل میعاد میں اس سے شرح خواندگی میں اضافہ ہوگا یہ بھی اپنی جگہ مسلمہ حقیقت ہے کہ مجموعی طور پر اخبارات اپنے پڑھنے والوں کو روشن خیال اور لبرل بناتے ہیں اچھی باتیں سکھاتے اور بری باتوں سے دور رکھتے ہیں۔
یہی کام لوگوں کو اپنی نئی نسل کے لیے بھی کرنا ہے اور جو اچھی قابل تقلید عادتیں ورثے میں چھوڑنی ہیں ۔ان میں سے ایک پابندی سے اخبار پڑھنے کی بھی عادت ہے جو ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوسکتی ہے۔لوگوں کو اپنے لیے کون سا انگریزی کا اور کون سا اردو کا اخبار سلیکٹ کرنا ہے ابھی تک اس اسکیم کے جو خدوخال وضع کیے گئے ہیں۔ ان کے مطابق حکومت اس کے لیے فنڈز تو فراہم کرے گی مگر کوئی خاص اخبار پڑھنے کا پابند نہیں کرے گی یہ انتخاب لوگوں کو خودکرنا ہوگا۔
آپ نے دیکھ لیا اخبار یا اخبارات پڑھنے کے کتنے فائدے ہیں اگر آپ اخبار نہ پڑھ رہے ہوتے تو آپ کو اخبار بینی اور مطالعے کے اتنے فائدے کیسے پتہ چلتے۔