تمہارا رب کون ہے
کائنات میں اِلہیہ کا سوال تو کبھی رہا ہی نہیں ہر ایک کم و بیش ایک سپریم طاقت پر یقین رکھتا ہے۔
تمہارا رب کون ہے؟ یہ ایک سوال ہے جو ہر انسان و جن سے کم از کم ایک بار ضرور ہوگا۔ سوچنا چاہئیے کہ ربّ کا مطلب کیا ہے اور یہ سوال صِفتِ ربّ کے ساتھ ہی کیوں مخصوص ہے؟ ایسا کیوں نہیں کہ پوچھا جائے تمہارا اللہ کون ہے یا تمہارا خالق کون ہے یا مالک کون ہے؟
غور کیا جائے تو کائنات میں اِلہیہ کا سوال تو کبھی رہا ہی نہیں، ہر ایک کم و بیش ایک سپریم طاقت پر یقین رکھتا ہے۔ مشرکینِ مکہ کہتے تھے کہ یہ بت ہیں جو ہمیں رزق، اولاد اور بارش دیتے ہیں، مصیبتوں سے بچاتے ہیں۔ ہندو کہتے ہیں فلاں فلاں بت ہمیں فلاں فلاں چیزیں دیتے ہیں اور خدا کے اوتار ہیں۔
مسئلہ تو ربوبیت کا ہے کہ کون ہے جو اسبابِ زندگی مہیا کرتا ہے؟ کون ہے جو پالن ہار ہے، کون ہے جو مصیبتوں میں بچاتا ہے، کون ہے جو بیڑہ پار لگاتا ہے، کون ہے جو پُکار سنتا ہے، کون ہے جومراد بَر لاتا ہے، کون ہے جو رزق دیتا ہے، کون ہے جو گنہگاروں کو بخش دیتا ہے، کون ہے جو اپنی مخلوق سے محبت کرتا ہے، کون ہے جو راتوں کو تڑپنے والوں کی سنتا ہے اور کون ہے جو زندگی کو زندگی بخشتا ہے؟
یہاں جا کر ہم مار کھاتے ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ کچھ لوگوں کے لئے اُن کا ربّ ان کی عقل ہوتی ہے کہ وہ کہتے ہیں ہم سیلف میڈ ہیں۔ سب کچھ اپنی عقل سے کمایا اور اِس مقام تک پہنچے۔ کسی کے لئے اُن کا ربّ ان کی زبان، کہ جب چاہا جیسے چاہا سچ کو جھوٹ، جھوٹ کو سچ کر دکھایا اور دنیا سے خوب داد اور پیسہ کمایا۔ کسی کے لئے اُن کا ربّ ان کی اعلیٰ ذات ہوتی ہے تو کسی کے لئے تعلقات، کسی کے اثر و رسوخ، کسی کی دولت، کسی کی بیوی تو کسی کی نوکری۔ زندگی گزر جاتی ہے اِن جھوٹے خداوں کے بیچ، اور جب سوال ہوتا ہے کہ من الرَبّکَ؟ تو زبان گنگ ہوجاتی ہے۔ دراصل دل و دماغ کنفیوژ ہوجاتے ہیں کہ کسے ربّ کہیں؟ انہیں جنہیں زندگی بھر پوجتے آئے تھے یا اُسے جس کا حق ہے؟
بندہ اگر اللہ سُبحان و تعالی کو ربّ مان لے، جیسے کہ اُس کا حق ہے تو زندگی بھر کی پریشانیاں اور مایوسیاں چھٹ جاتی ہیں۔ ربّ وہ ہوتا ہے جو بندے کو درجہ بہ درجہ سکھاتا رہے، منزلیں چڑھاتا رہے۔ حتی کہ کامل کردے!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
غور کیا جائے تو کائنات میں اِلہیہ کا سوال تو کبھی رہا ہی نہیں، ہر ایک کم و بیش ایک سپریم طاقت پر یقین رکھتا ہے۔ مشرکینِ مکہ کہتے تھے کہ یہ بت ہیں جو ہمیں رزق، اولاد اور بارش دیتے ہیں، مصیبتوں سے بچاتے ہیں۔ ہندو کہتے ہیں فلاں فلاں بت ہمیں فلاں فلاں چیزیں دیتے ہیں اور خدا کے اوتار ہیں۔
مسئلہ تو ربوبیت کا ہے کہ کون ہے جو اسبابِ زندگی مہیا کرتا ہے؟ کون ہے جو پالن ہار ہے، کون ہے جو مصیبتوں میں بچاتا ہے، کون ہے جو بیڑہ پار لگاتا ہے، کون ہے جو پُکار سنتا ہے، کون ہے جومراد بَر لاتا ہے، کون ہے جو رزق دیتا ہے، کون ہے جو گنہگاروں کو بخش دیتا ہے، کون ہے جو اپنی مخلوق سے محبت کرتا ہے، کون ہے جو راتوں کو تڑپنے والوں کی سنتا ہے اور کون ہے جو زندگی کو زندگی بخشتا ہے؟
یہاں جا کر ہم مار کھاتے ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ کچھ لوگوں کے لئے اُن کا ربّ ان کی عقل ہوتی ہے کہ وہ کہتے ہیں ہم سیلف میڈ ہیں۔ سب کچھ اپنی عقل سے کمایا اور اِس مقام تک پہنچے۔ کسی کے لئے اُن کا ربّ ان کی زبان، کہ جب چاہا جیسے چاہا سچ کو جھوٹ، جھوٹ کو سچ کر دکھایا اور دنیا سے خوب داد اور پیسہ کمایا۔ کسی کے لئے اُن کا ربّ ان کی اعلیٰ ذات ہوتی ہے تو کسی کے لئے تعلقات، کسی کے اثر و رسوخ، کسی کی دولت، کسی کی بیوی تو کسی کی نوکری۔ زندگی گزر جاتی ہے اِن جھوٹے خداوں کے بیچ، اور جب سوال ہوتا ہے کہ من الرَبّکَ؟ تو زبان گنگ ہوجاتی ہے۔ دراصل دل و دماغ کنفیوژ ہوجاتے ہیں کہ کسے ربّ کہیں؟ انہیں جنہیں زندگی بھر پوجتے آئے تھے یا اُسے جس کا حق ہے؟
بندہ اگر اللہ سُبحان و تعالی کو ربّ مان لے، جیسے کہ اُس کا حق ہے تو زندگی بھر کی پریشانیاں اور مایوسیاں چھٹ جاتی ہیں۔ ربّ وہ ہوتا ہے جو بندے کو درجہ بہ درجہ سکھاتا رہے، منزلیں چڑھاتا رہے۔ حتی کہ کامل کردے!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔