مصطفی کمال کا سیاسی مشن اور کراچی

حقیقت میں متحدہ اوراس کےقائد کےحوالہ سےمصطفی کمال کے تاثرات ان کی طویل رفاقت کے دوران پیدا شدہ تلخ تجربات پر محیط رہے

جمہوریت ایک دوسرے کو تسلیم و برداشت کرنے کا نام ہے، دنیا میں سیاست دان راستے بدلتے، نئی پارٹیاں جوائن یا قائم کرتے ہیں فوٹو: آن لائن/فائل

LONDON:
سابق میئر کراچی اور متحدہ قومی موومنٹ کے سابق رہنما سید مصطفی کمال نے جمعرات کی سہ پہر دبئی سے وطن واپسی پر ڈیفنس کے علاقے میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس کی جس میں ان کے ہمراہ متحدہ کے سابق رہنما انیس قائمخانی بھی تھے۔

پریس کانفرنس ان کی ایم کیو ایم سے وابستگی اور جدا ہونے کے بعض اختلافات سے متعلق تھی جس کی اطلاعات خاصے عرصہ سے آ رہی تھیں جب کہ سیاسی حلقے اور ملکی اخبارات و الیکٹرانک میڈیا پر تجزیہ کار و سیاسی مبصرین تبصرے بھی کرتے رہے، لیکن متحدہ قومی موومنٹ اور رابطہ کمیٹی لندن و کراچی نے ان کی ہمیشہ تردید کی اور کوئی ٹھوس بات سامنے نہیں آئی، متحدہ نے اپنے داخلی معاملات پر اختلافات کی اطلاعات کو میڈیا ٹرائل قرار دیا۔ اس دوران کئی بار رابطہ کمیٹی میں تبدیلیوں کا سلسلہ جاری رہا ۔

مصطفی کمال نے متحدہ کی حکومت میں بار بار جانے اور اس سے الگ ہونے کی حکمت عملی اور اس کی پالیسیوں پر تنقید کی اور کہا کہ ایم کیو ایم میں جو کچھ ہو رہا تھا وہ ضمیر کے خلاف تھا۔ انھوں نے تین مرحلوں پر مبنی گفتگو میں پارٹی اور ملک چھوڑنے، وطن واپس آنے اور آیندہ کے پروگرام کی تفصیل بتائی، پریس کانفرنس خاصی جذباتی تھی اور گزشتہ دن کی اہم پیشرفت بھی۔ مصطفی کمال تقریباً دو گھنٹے تک مسلسل میڈیا سے مخاطب رہے۔ ایک اطلاع کے مطابق سابق صدر زرداری نے اپنی پریس کانفرنس ان کی پریس کانفرنس کی وجہ سے ملتوی کی۔

جہاں تک ان کے بحیثیت سیاسی کارکن، میئر اور سینیٹر تجربات و مشاہدات اور اعترافات کا تعلق ہے تو ان کی کئی باتیں درست اور قابل غور ہیں، انھوں نے الزامات لگائے، اپنی بے بسی کا بار بار تذکرہ کیا، بعض واقعات کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہوئے۔ بلاشبہ سیاسی حلقے مصطفی کمال کی معروضات اور اس کے نتیجہ میں ہونے والی ممکنہ پیش رفت، ان کے الزامات، آمد کی ٹائمنگ کے سیاق و سباق کا خصوصی تذکرہ کرتے رہے ہیں۔


حقیقت میں متحدہ اور اس کے قائد کے حوالہ سے مصطفی کمال کے تاثرات ان کی طویل رفاقت کے دوران پیدا شدہ تلخ تجربات پر محیط رہے، انھوں نے صوبہ سندھ و کراچی کے مخدوش حالات کا تفصیل سے جائزہ لیا کراچی کے حالات اور اردو بولنے والوں کی دو نسلوں کی تباہی پر آبدیدہ ہوئے، تاہم انھوں نے جو انکشافات کیے وہ حکایات خونچکاں کی کم و بیش ایک اندوہ ناک داستان ہے جس سے کراچی کی سیاست سے وسیع المشربی اور رواداری کا خاتمہ ہوا اور مافیاؤں نے سیاسی کشیدگی کی وجہ سے شہر کو مقتل بنا دیا، جس کا متحدہ کے دونوں سابق رہنما دلگرفتگی کے ساتھ ذکر کرتے رہے۔

بہرحال متحدہ کے اندرونی مسائل و اختلافات سے متعلق مختلف اخبارات و الیکٹرانک میڈیا پر بحث و تمحیص کا سلسلہ طویل مدت سے جاری تھا، مگر متحدہ نے اسے درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ تاہم مصطفی کمال اور انیس قائمخانی کی مشترکہ پریس کانفرنس پر جو فوری رد عمل متحدہ نے نائن زیرو سے اسی شام کو دیا وہ ناقابل یقین حد تک میڈیا، اسٹیبلشمنٹ، سیاسی حلقوں اور سول سوسائٹی کو حیرت زدہ کر گیا۔

دونوں منحرف سابق رہنماؤں کے سنگین الزامات کو رابطہ کمیٹی لندن و پاکستان کے کنوینر ندیم نصرت نے مائنس الطاف فارمولے کو عملی جامہ پہنانے سے تعبیر کیا اور الزامات کو رد کر دیا۔ یہ رواداری آیندہ بدامنی اور تشدد میں ہر گز نہیں ڈھلنی چاہیے، متحدہ کارکنوں کو پرامن رہنے کی ہدایت کرے ۔ تاہم گیند مصطفی کمال اور انیس قائمخانی اور ان کے ممکنہ رفقا کی کورٹ میں ہے۔ انھوں نے پارٹی پرچم میڈیا کے سامنے پیش کیا، پارٹی ہنوز بے نام ہے، اسے جمہوری اصول و روایات کے تحت جلد کوئی نام دینا چاہیے، اپنا منشور اور آیندہ کا پروگرام عوام کے سامنے لانا چاہیے۔

جمہوریت ایک دوسرے کو تسلیم و برداشت کرنے کا نام ہے، دنیا میں سیاست دان راستے بدلتے، نئی پارٹیاں جوائن یا قائم کرتے ہیں، مگر ان کے پیش نظر قومی مفادات اور عوام کی فلاح و بہبود کا مشن ہوتا ہے، اسی مشن اور عزم کے ساتھ متحدہ اور اس نئی پارٹی کو پرامن بقائے باہمی کے ساتھ سندھ میں اپنی سیاسی سرگرمیوں کو جاری رکھنا چاہیے۔ کوئی جمہوری معاشرہ سیاسی اختلافات کو دشمنی میں نہیں بدلتا، یہی انداز فکر قوموں کو جینے کی نئی امنگ سے آشنا کرتا ہے، کراچی لہو رنگ اور ہمہ جہتی عذابوں سے گزرا ایک مظلوم شہر ہے اگرچہ اسے عروس البلاد کہتے ہیں مگر اس نئی سیاسی جماعت کو اس حقیقت کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کی بقا، اس کی سالمیت اور عوامی یک جہتی سیاسی جماعتوں کا نصب العین ہونا چاہیے۔

کراچی میں جو کچھ ہوا ہے اس کی تاریخ نہ دہرائی جائے، اب سیاست انسانی اقدار، جمہوری ثمرات، عوام کی خوشحالی اور امن و استحکام سے مشروط ہونا شرط ہے، کسی لسانیت ، علاقائیت، فرقہ واریت اور انتہا پسندی و عدم رواداری کی ہمارے سیاسی و سماجی نظام میں کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے، مصطفی کمال نے اپنا پارٹی پرچم پاکستان کا سبز ہلالی پرچم چنا ہے تو انھیں قوم کو پیغام دینا چاہیے کہ ان کی سیاست پاکستان کی تعمیر کی سیاست ہو گی۔
Load Next Story