افغانستان میں قیام امن… فریقین کچھ لو کچھ دو کا اصول اپنائیں
افغانستان میں قیام امن کے لیے طالبان رہنماؤں اور افغان حکومت کے درمیان مری میں پہلے بھی مذاکرات ہو چکے ہیں
KARACHI:
اطلاعات کے مطابق افغان حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کا پہلا دور آیندہ چند دنوں میں پاکستان میں ہونے کا امکان ہے۔ افغان حکومت کا کہنا ہے کہ حکومت ملک میں جاری جنگ اور خونریزی کے خاتمے کے لیے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے تمام ضروری اقدامات اٹھا رہی ہے، تمام ضروری انتظامات مکمل ہو چکے ہیں، مذاکرات کے لیے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان رابطوں کا سلسلہ جاری ہے۔
دوسری طرف واشنگٹن میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے امریکی قومی سلامتی کی مشیر سوسن رائس سے ملاقات میں یقین دہانی کرائی کہ افغان مفاہمتی عمل میں پاکستان افغان حکام کو تمام تر ضروری معاونت فراہم کرے گا۔ افغانستان میں قیام امن کے لیے طالبان رہنماؤں اور افغان حکومت کے درمیان مری میں پہلے بھی مذاکرات ہو چکے ہیں لیکن ان کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔
افغان وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ وہ ایک مخصوص پروگرام کی بنیاد پر بات چیت شروع کریں گے جس کے لیے انھوں نے اصولوں کا خاکہ تیار کرلیا ہے جس سے طالبان کے ساتھ بات چیت میں مدد ملے گی،تمام اہم امور کو حتمی شکل دیدی گئی ہے۔ دوسری طرف افغانستان کی امن شوریٰ کے نئے سربراہ پیر سید احمد گیلانی نے کہا ہے کہ طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کی تاریخ کے بارے میں انھیں کچھ معلوم نہیں لیکن وہ مذاکرات کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔
افغان حکومت کن امور پر بات چیت کرے گی اس کے بارے میں ابھی کچھ معلوم نہیں ہوا لیکن اب تک سامنے آنے والے معاملات کے تناظر میں یہ کہا جا رہا ہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے موقف ایک دوسرے سے قطعی طور پر برعکس ہیں اور دونوں اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کے لیے آمادہ نہیں یہی وجہ ہے کہ مذاکرات کا عمل تو شروع ہو جاتا ہے لیکن وہ بار آور ثابت نہیں ہوتا۔
لازم نہیں کہ مذاکرات پہلے ہی دور میں کامیاب ہوں اور فریقین ایک دوسرے کے موقف سے اتفاق کر لیں اس لیے اس سلسلے کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں فریقین اپنے رویے میں لچک پیدا کریں اور کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر مذاکرات کو کامیاب بنانے کی کوشش کریں۔
اگر دونوں فریقین اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہے تو پھر مذاکرات کا وہی نتیجہ نکلے گا جو اس سے قبل برآمد ہو چکا ہے۔ طالبان اور افغان حکومت مذاکرات میں امریکا اور چین بھی گہری دلچسپی لے رہے ہیں' ان عالمی قوتوں کی کوشش ہے کہ دونوں فریقین کسی مثبت نتیجے پر پہنچیں تاکہ افغانستان میں امن قائم ہو۔ پاکستان کی بھی یہی خواہش ہے یہی وجہ ہے کہ وہ پرامن افغانستان کے لیے اپنی بھرپور کوششیں کر رہا ہے۔
اطلاعات کے مطابق افغان حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کا پہلا دور آیندہ چند دنوں میں پاکستان میں ہونے کا امکان ہے۔ افغان حکومت کا کہنا ہے کہ حکومت ملک میں جاری جنگ اور خونریزی کے خاتمے کے لیے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے تمام ضروری اقدامات اٹھا رہی ہے، تمام ضروری انتظامات مکمل ہو چکے ہیں، مذاکرات کے لیے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان رابطوں کا سلسلہ جاری ہے۔
دوسری طرف واشنگٹن میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے امریکی قومی سلامتی کی مشیر سوسن رائس سے ملاقات میں یقین دہانی کرائی کہ افغان مفاہمتی عمل میں پاکستان افغان حکام کو تمام تر ضروری معاونت فراہم کرے گا۔ افغانستان میں قیام امن کے لیے طالبان رہنماؤں اور افغان حکومت کے درمیان مری میں پہلے بھی مذاکرات ہو چکے ہیں لیکن ان کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔
افغان وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ وہ ایک مخصوص پروگرام کی بنیاد پر بات چیت شروع کریں گے جس کے لیے انھوں نے اصولوں کا خاکہ تیار کرلیا ہے جس سے طالبان کے ساتھ بات چیت میں مدد ملے گی،تمام اہم امور کو حتمی شکل دیدی گئی ہے۔ دوسری طرف افغانستان کی امن شوریٰ کے نئے سربراہ پیر سید احمد گیلانی نے کہا ہے کہ طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کی تاریخ کے بارے میں انھیں کچھ معلوم نہیں لیکن وہ مذاکرات کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔
افغان حکومت کن امور پر بات چیت کرے گی اس کے بارے میں ابھی کچھ معلوم نہیں ہوا لیکن اب تک سامنے آنے والے معاملات کے تناظر میں یہ کہا جا رہا ہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے موقف ایک دوسرے سے قطعی طور پر برعکس ہیں اور دونوں اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کے لیے آمادہ نہیں یہی وجہ ہے کہ مذاکرات کا عمل تو شروع ہو جاتا ہے لیکن وہ بار آور ثابت نہیں ہوتا۔
لازم نہیں کہ مذاکرات پہلے ہی دور میں کامیاب ہوں اور فریقین ایک دوسرے کے موقف سے اتفاق کر لیں اس لیے اس سلسلے کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں فریقین اپنے رویے میں لچک پیدا کریں اور کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر مذاکرات کو کامیاب بنانے کی کوشش کریں۔
اگر دونوں فریقین اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہے تو پھر مذاکرات کا وہی نتیجہ نکلے گا جو اس سے قبل برآمد ہو چکا ہے۔ طالبان اور افغان حکومت مذاکرات میں امریکا اور چین بھی گہری دلچسپی لے رہے ہیں' ان عالمی قوتوں کی کوشش ہے کہ دونوں فریقین کسی مثبت نتیجے پر پہنچیں تاکہ افغانستان میں امن قائم ہو۔ پاکستان کی بھی یہی خواہش ہے یہی وجہ ہے کہ وہ پرامن افغانستان کے لیے اپنی بھرپور کوششیں کر رہا ہے۔