دولت عوا م کی نام حکمرانوں کا
بادشاہوں کے دور میں ایسے بادشاہ گزرے ہیں جن کی سخاوت کی داستانیں زمانے بھر میں مشہور تھیں
VALENCIA:
بادشاہوں کے دور میں ایسے بادشاہ گزرے ہیں جن کی سخاوت کی داستانیں زمانے بھر میں مشہور تھیں۔ ایسے ہی ایک بادشاہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جب کسی خاص یا عام کی کسی خدمت یا خدمات سے خوش ہوتا تو ''زہ'' کہتا تھا۔ بادشاہ کی زبان سے جیسے ہی ''زہ'' نکلتا اس کا وزیر مالیات فوری خوش قسمت شخص کے ہاتھ میں اشرفیوں کی ایک تھیلی تھما دیتا تھا، چونکہ بادشاہ کے منہ سے ''زہ'' کی آواز عموماً نکلتی ہی رہتی تھی۔
لہٰذا وزیر مالیات ہمیشہ بہت ساری اشرفیوں کی تھیلیاں تیار رکھتے تھے کہ فوری ''زہ'' کے شاہی حکم کی تعمیل ہو، ہمارا دور چونکہ جمہوری بادشاہوں کا دور ہے، لہٰذا ہمارے حکمران زہ کی اصطلاح استعمال نہیں کرتے البتہ کسی فرد، افراد یا جماعت کی خدمات سے خوش ہوتے ہیں تو ان کے لیے لاکھوں روپے کے انعامات کا اعلان کر دیتے ہیں۔
پچھلے دنوں ہمارے وزیر اعظم نے قومی ہاکی ٹیم کی کارکردگی سے خوش ہو کر ٹیم کے ہر کھلاڑی کو دس دس لاکھ روپے انعام دینے کا اعلان کیا۔ کھلاڑی خواہ ان کا تعلق ہاکی سے ہو، کرکٹ سے ہو، فٹبال سے یا ''شطرنج'' سے بہرحال کھلاڑی ہوتا ہے اگر کوئی کھلاڑی یا کھلاڑیوں کی ٹیم اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرے تو اس کی حوصلہ افزائی کے لیے انعام دینا بڑی اچھی بات ہے۔ چونکہ ہماری جمہوریت موروثیت پر مبنی ہے لہٰذا حکمرانوں کی اولاد بھی جب کسی سے خوش ہوتی ہے تو ''زہ'' کہتی ہے جو یقیناً ایک اچھی روایت ہے لیکن اس ''زہ'' کا ایک مبہم یا پر اسرار پہلو یہ ہے کہ حکمران جو انعامات دیتے ہیں۔
ان سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ انعام خواہ وہ فی کھلاڑی 10 لاکھ کا ہو یا 20 لاکھ کا حکمران اپنی جیب خاص سے ادا کر رہے ہیں، حالانکہ یہ رقم عوام کی محنت کی کمائی کی ہوتی ہے جب کہ اس کی سخاوت میں عوام کا کہیں ذکر نہیں ملتا، ہمارے ملک میں بیرونی ملکوں کے حکمران بھی آتے رہتے ہیں اور ہمارے حکمران ان کی خدمت میں بہت قیمتی تحائف بھی پیش کرتے ہیں۔ اس موقعے پر بھی یہی تاثر ابھرتا ہے کہ یہ قیمتی تحائف حکمرانوں نے اپنی جیب خاص سے پیش کیے ہیں حالانکہ یہ بھی قوم کی دولت کا حصہ ہوتے ہیں۔
اصل مسئلہ یہ نہیں کہ انعامات دیے جانے چاہئیں یا نہیں بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا یہ انعامات مستحق لوگوں کو مل رہے ہیں؟ یا صرف ان لوگوں کو مل رہے ہیں جن سے جمہوری بادشاہ خوش ہوتے ہیں اس قسم کی کارروائیوں کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ میڈیا اسے فل کوریج دیتا ہے جس کی وجہ سے کمپنی کی خوب مشہوری ہوتی ہے۔
ہم شاہی دور کو اس لیے برا کہتے ہیں کہ اس دور میں فیصلے کرنے کا اختیار فرد واحد یعنی بادشاہ کو ہوتا تھا، جمہوریت میں ایسا نہیں ہوتا جمہوری حکمران ''زہ'' نہیں کہہ سکتا بلکہ زہ کہنے سے پہلے اسے کسی نہ کسی مجاز فورم سے منظوری لینی پڑتی ہے جو ایک اچھی روایت ہے اور اگر اس روایت پر درست طریقے سے عمل کیا جائے تو جمہوری حکمرانوں کے سر سے بادشاہتوں کا الزام اتر جاتا ہے۔
اس مسئلے پر ہمیں قلم اٹھانے کی ضرورت یوں پڑی کہ میڈیا میں زندگی کے مختلف شعبوں میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کے ساتھ ان حوالوں سے سخت غفلت برتی جا رہی ہے۔ ماجد جہانگیر کا شمار ماضی کے بہترین کامیڈینز میں ہوتا ہے، ماجد جہانگیر ایک عرصے سے معاشی تنگ دستی کا شکار ہے اور اپنی اس حالت زار سے وزیر اعظم کو آگاہ کرنے کے لیے اسلام آباد کے چکر کاٹ رہا ہے جب بھارت سے آئی ہوئی ایک ماضی کی فلمی اداکارہ شرمیلا ٹیگور لاہور آئیں تو ہمارے وزیر اعظم نے ترنت نہ صرف ان سے ملاقات کی بلکہ رائے ونڈ کے محل میں اپنے بال بچوں کے ساتھ شرمیلا ٹیگور کی خوب مہمان نوازی بھی کی۔ بیرون ملک کے مہمانوں کے ساتھ اس طرح کے سلوک سے ملک کا نام روشن ہوتا ہے۔
ماجد جہانگیر کو یہ شکایت نہیں تھی کہ وزیر اعظم نے شرمیلا ٹیگور سے کیوں ملاقات کی بلکہ اسے یہ شکایت تھی جو جائز بھی ہے کہ ملک کے فنکاروں کے ساتھ امتیازی سلوک کیوں کیا جا رہا ہے۔ ماجد جہانگیربھی فنکار ہیں اور پاکستانی ہیں لیکن اس سے وزیر اعظم نے ملاقات نہ کر کے اسے ایک شدید احساس کمتری میں ضرور مبتلا کر دیا 'اب ماجد جہانگیر اگر امتیازی سلوک اور ناانصافی کا رونا روتا ہے تو ہم اسے غلط نہیں کہہ سکتے۔
مسئلہ صرف ایک ماجد جہانگیر کا نہیں بلکہ بے شمار فنکار اسی قسم کی شکایت کر رہے ہیں، پچھلے دنوں فلم انڈسٹری کی دو سابق معروف ہیروئینوںکے اس حوالے سے بیانات میڈیا میں دیکھے گئے کہ وہ بہت کٹھن زندگی گزار رہی ہیں، ان کا کوئی پرسان حال نہیں' ان دونوں کا شمار اپنے وقت کی مشہور اداکاراؤں میں ہوتا ہے'ان جیسے بے شمار فنکار انتہائی کٹھن زندگی گزار رہے ہیں حاضر سروس کھلاڑی خواہ ان کا تعلق ہاکی سے ہو، کرکٹ سے یا فٹ بال وغیرہ سے اگر معروف ہیں اور برسر روزگار ہیں تو انھیں اپنی کارکردگی کا اتنا معاوضہ مل رہا ہے کہ وہ کروڑ پتی بنے ہوئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماجد جہانگیر جیسے فنکار جو اپنے وقت میں عوام میں بے حد مقبول تھے کیا وہ سرکار کی اعانت کے مستحق نہیں؟ ایسے بے شمار فنکار اپنی زندگی کے آخری دن انتہائی غربت اور کسمپرسی میں گزار کر جان سے جاتے رہے ہیں۔
یہ درست ہے کہ ہر ضرورت مند فنکار سے وزیر اعظم کا ملنا مشکل ہے لیکن اس کا حل یہ ہے کہ حکومت ایک ایسی ذمے دار کمیٹی بنائے جو فنکاروں اور سرکاری حکام پر مشتمل ہو جو ملک بھر میں ماضی کے نامور فنکاروں کی فہرست بنائے اور اس بات کا جائزہ لے کہ انھیں کس قسم کی دشواریوں اور مشکلات کا سامنا ہے اور ضرورت کے مطابق ان کی داد رسی کی کوشش کرے تا کہ ماضی کے یہ نامور فنکار مشکل زندگی اور گمنامی کی موت سے بچ سکیں۔
رہا ''زہ'' کا سوال تو اس حوالے سے بھی کوئی طریقہ کار طے کرنے کی ضرورت ہے، ہمارے یہاں دہشت گردی کا شکار ہو کر موت کے منہ میں جانے والوں کے لواحقین کو دی جانے والی امداد کا بھی سر پیر نہیں، کسی کو 20 لاکھ کی مدد دی جا رہی ہے کسی کو ایک کروڑ کی تو کسی کو چار پانچ لاکھ کی۔ کیا انسانی جان کی قیمت بھی سستی مہنگی ہوتی ہے؟ یہ ساری غلط روایات اس لیے مستحکم ہو رہی ہیں کہ فیصلوں کا حق افراد کے بجائے فرد کو حاصل ہے جو جمہوری دور میں بادشاہی کی علامت ہے۔
بادشاہوں کے دور میں ایسے بادشاہ گزرے ہیں جن کی سخاوت کی داستانیں زمانے بھر میں مشہور تھیں۔ ایسے ہی ایک بادشاہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جب کسی خاص یا عام کی کسی خدمت یا خدمات سے خوش ہوتا تو ''زہ'' کہتا تھا۔ بادشاہ کی زبان سے جیسے ہی ''زہ'' نکلتا اس کا وزیر مالیات فوری خوش قسمت شخص کے ہاتھ میں اشرفیوں کی ایک تھیلی تھما دیتا تھا، چونکہ بادشاہ کے منہ سے ''زہ'' کی آواز عموماً نکلتی ہی رہتی تھی۔
لہٰذا وزیر مالیات ہمیشہ بہت ساری اشرفیوں کی تھیلیاں تیار رکھتے تھے کہ فوری ''زہ'' کے شاہی حکم کی تعمیل ہو، ہمارا دور چونکہ جمہوری بادشاہوں کا دور ہے، لہٰذا ہمارے حکمران زہ کی اصطلاح استعمال نہیں کرتے البتہ کسی فرد، افراد یا جماعت کی خدمات سے خوش ہوتے ہیں تو ان کے لیے لاکھوں روپے کے انعامات کا اعلان کر دیتے ہیں۔
پچھلے دنوں ہمارے وزیر اعظم نے قومی ہاکی ٹیم کی کارکردگی سے خوش ہو کر ٹیم کے ہر کھلاڑی کو دس دس لاکھ روپے انعام دینے کا اعلان کیا۔ کھلاڑی خواہ ان کا تعلق ہاکی سے ہو، کرکٹ سے ہو، فٹبال سے یا ''شطرنج'' سے بہرحال کھلاڑی ہوتا ہے اگر کوئی کھلاڑی یا کھلاڑیوں کی ٹیم اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرے تو اس کی حوصلہ افزائی کے لیے انعام دینا بڑی اچھی بات ہے۔ چونکہ ہماری جمہوریت موروثیت پر مبنی ہے لہٰذا حکمرانوں کی اولاد بھی جب کسی سے خوش ہوتی ہے تو ''زہ'' کہتی ہے جو یقیناً ایک اچھی روایت ہے لیکن اس ''زہ'' کا ایک مبہم یا پر اسرار پہلو یہ ہے کہ حکمران جو انعامات دیتے ہیں۔
ان سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ انعام خواہ وہ فی کھلاڑی 10 لاکھ کا ہو یا 20 لاکھ کا حکمران اپنی جیب خاص سے ادا کر رہے ہیں، حالانکہ یہ رقم عوام کی محنت کی کمائی کی ہوتی ہے جب کہ اس کی سخاوت میں عوام کا کہیں ذکر نہیں ملتا، ہمارے ملک میں بیرونی ملکوں کے حکمران بھی آتے رہتے ہیں اور ہمارے حکمران ان کی خدمت میں بہت قیمتی تحائف بھی پیش کرتے ہیں۔ اس موقعے پر بھی یہی تاثر ابھرتا ہے کہ یہ قیمتی تحائف حکمرانوں نے اپنی جیب خاص سے پیش کیے ہیں حالانکہ یہ بھی قوم کی دولت کا حصہ ہوتے ہیں۔
اصل مسئلہ یہ نہیں کہ انعامات دیے جانے چاہئیں یا نہیں بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا یہ انعامات مستحق لوگوں کو مل رہے ہیں؟ یا صرف ان لوگوں کو مل رہے ہیں جن سے جمہوری بادشاہ خوش ہوتے ہیں اس قسم کی کارروائیوں کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ میڈیا اسے فل کوریج دیتا ہے جس کی وجہ سے کمپنی کی خوب مشہوری ہوتی ہے۔
ہم شاہی دور کو اس لیے برا کہتے ہیں کہ اس دور میں فیصلے کرنے کا اختیار فرد واحد یعنی بادشاہ کو ہوتا تھا، جمہوریت میں ایسا نہیں ہوتا جمہوری حکمران ''زہ'' نہیں کہہ سکتا بلکہ زہ کہنے سے پہلے اسے کسی نہ کسی مجاز فورم سے منظوری لینی پڑتی ہے جو ایک اچھی روایت ہے اور اگر اس روایت پر درست طریقے سے عمل کیا جائے تو جمہوری حکمرانوں کے سر سے بادشاہتوں کا الزام اتر جاتا ہے۔
اس مسئلے پر ہمیں قلم اٹھانے کی ضرورت یوں پڑی کہ میڈیا میں زندگی کے مختلف شعبوں میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کے ساتھ ان حوالوں سے سخت غفلت برتی جا رہی ہے۔ ماجد جہانگیر کا شمار ماضی کے بہترین کامیڈینز میں ہوتا ہے، ماجد جہانگیر ایک عرصے سے معاشی تنگ دستی کا شکار ہے اور اپنی اس حالت زار سے وزیر اعظم کو آگاہ کرنے کے لیے اسلام آباد کے چکر کاٹ رہا ہے جب بھارت سے آئی ہوئی ایک ماضی کی فلمی اداکارہ شرمیلا ٹیگور لاہور آئیں تو ہمارے وزیر اعظم نے ترنت نہ صرف ان سے ملاقات کی بلکہ رائے ونڈ کے محل میں اپنے بال بچوں کے ساتھ شرمیلا ٹیگور کی خوب مہمان نوازی بھی کی۔ بیرون ملک کے مہمانوں کے ساتھ اس طرح کے سلوک سے ملک کا نام روشن ہوتا ہے۔
ماجد جہانگیر کو یہ شکایت نہیں تھی کہ وزیر اعظم نے شرمیلا ٹیگور سے کیوں ملاقات کی بلکہ اسے یہ شکایت تھی جو جائز بھی ہے کہ ملک کے فنکاروں کے ساتھ امتیازی سلوک کیوں کیا جا رہا ہے۔ ماجد جہانگیربھی فنکار ہیں اور پاکستانی ہیں لیکن اس سے وزیر اعظم نے ملاقات نہ کر کے اسے ایک شدید احساس کمتری میں ضرور مبتلا کر دیا 'اب ماجد جہانگیر اگر امتیازی سلوک اور ناانصافی کا رونا روتا ہے تو ہم اسے غلط نہیں کہہ سکتے۔
مسئلہ صرف ایک ماجد جہانگیر کا نہیں بلکہ بے شمار فنکار اسی قسم کی شکایت کر رہے ہیں، پچھلے دنوں فلم انڈسٹری کی دو سابق معروف ہیروئینوںکے اس حوالے سے بیانات میڈیا میں دیکھے گئے کہ وہ بہت کٹھن زندگی گزار رہی ہیں، ان کا کوئی پرسان حال نہیں' ان دونوں کا شمار اپنے وقت کی مشہور اداکاراؤں میں ہوتا ہے'ان جیسے بے شمار فنکار انتہائی کٹھن زندگی گزار رہے ہیں حاضر سروس کھلاڑی خواہ ان کا تعلق ہاکی سے ہو، کرکٹ سے یا فٹ بال وغیرہ سے اگر معروف ہیں اور برسر روزگار ہیں تو انھیں اپنی کارکردگی کا اتنا معاوضہ مل رہا ہے کہ وہ کروڑ پتی بنے ہوئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماجد جہانگیر جیسے فنکار جو اپنے وقت میں عوام میں بے حد مقبول تھے کیا وہ سرکار کی اعانت کے مستحق نہیں؟ ایسے بے شمار فنکار اپنی زندگی کے آخری دن انتہائی غربت اور کسمپرسی میں گزار کر جان سے جاتے رہے ہیں۔
یہ درست ہے کہ ہر ضرورت مند فنکار سے وزیر اعظم کا ملنا مشکل ہے لیکن اس کا حل یہ ہے کہ حکومت ایک ایسی ذمے دار کمیٹی بنائے جو فنکاروں اور سرکاری حکام پر مشتمل ہو جو ملک بھر میں ماضی کے نامور فنکاروں کی فہرست بنائے اور اس بات کا جائزہ لے کہ انھیں کس قسم کی دشواریوں اور مشکلات کا سامنا ہے اور ضرورت کے مطابق ان کی داد رسی کی کوشش کرے تا کہ ماضی کے یہ نامور فنکار مشکل زندگی اور گمنامی کی موت سے بچ سکیں۔
رہا ''زہ'' کا سوال تو اس حوالے سے بھی کوئی طریقہ کار طے کرنے کی ضرورت ہے، ہمارے یہاں دہشت گردی کا شکار ہو کر موت کے منہ میں جانے والوں کے لواحقین کو دی جانے والی امداد کا بھی سر پیر نہیں، کسی کو 20 لاکھ کی مدد دی جا رہی ہے کسی کو ایک کروڑ کی تو کسی کو چار پانچ لاکھ کی۔ کیا انسانی جان کی قیمت بھی سستی مہنگی ہوتی ہے؟ یہ ساری غلط روایات اس لیے مستحکم ہو رہی ہیں کہ فیصلوں کا حق افراد کے بجائے فرد کو حاصل ہے جو جمہوری دور میں بادشاہی کی علامت ہے۔