بھوک حس لطافت کو مٹادیتی ہے
غذائی قلت کی وجہ سے دنیا میں روزانہ ویسے تو ہزاروں بچے مررہے ہیں۔
غذائی قلت کی وجہ سے دنیا میں روزانہ ویسے تو ہزاروں بچے مررہے ہیں۔ سب سے زیادہ بچے افریقہ میں مرتے ہیں، مگر پاکستان میں بھی کچھ افریقی ٹکڑے موجود ہیں جیسا کہ چولستان اورتھرپارکر۔ دوہزار پندرہ میں تو سرگودھا اور فیصل آباد میں بھی ہزاروں بچے علاج اور غذائی قلت کے باعث جان سے جاتے رہے،ابھی حال ہی میں پنجاب اور پختون خوا میں سردیوں سے ٹھٹھر کرکچھ بچے مرگئے۔
امریکا میں وائٹ ہاؤس کے سامنے گزشتہ تیس سال سے اسرائیل کے خلاف سراپا احتجاج 80 سالہ خاتون برفانی طوفان کے باعث چل بسیں۔ عالمی ذرایع ابلاغ کے مطابق اسی سالہ سچینووائٹ ہاؤس کے سامنے تیس سال سے اسرائیلی مظالم کے خلاف سراپا احتجاج تھی۔اس نے وائٹ ہاؤس کے سامنے پلاسٹک کی چھت سے بنی جھگی بنا رکھی تھی اور اس کا مطالبہ تھا کہ امریکا سمیت عالمی برادری کو اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے۔اس خاتون کی وائٹ ہاؤس کے سامنے سے جھگی ہٹانے کے لیے اوباما سمیت دیگر امریکی صدور نے متعدد بارکوششیں کیں لیکن امریکی سپریم کورٹ نے اس کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ بزرگ خاتون امریکی صدرکے غیض وغضب کا سامنا کرنے میں توکامیاب رہیں لیکن برفانی طوفان کا مقابلہ نہ کرسکیں اورچل بسیں۔دوہزارگیارہ میں بلدیہ ٹاؤن کراچی کی ایک فیکٹری میں دوسو انسٹھ مزدوروںکو زندہ جلا دیا گیا۔ جن کے قاتلوں کوآج تک کوئی سزا نہیں ہوئی، دو ہزار سولہ کے جنوری سے اب تک تقریبا دوسوبچے تھر پارکر میں جان سے جاتے رہے۔
یہ اموات غذائی قلت اورصحت کی سہولتوں کی عدم دستیابی سے ہوئی ہیں۔اسپتالوں میں دواؤں کی قلت تاحال برقرار ہے، بچوں کی اموات کے بعد اب مویشیوں کی اموات میں اضافہ ہورہا ہے، مرنے والوں میں نومولود، کم سن اور دوسال سے دس سال کے عمر کے زیادہ بچے مرے ہیں۔ ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر ارجن کمار نے چالیس بچوں کی سرکاری اسپتالوں میں موت کی تصدیق کی ہے۔ بچوں کی اموات کا سبب وبائی امراض،نمونیہ، وقت سے پہلے پیدائش،کم وزن اور ڈائیریا بتائی ہے۔
حکومت اور سرمایہ دار اپنے کمیشن اور مفادات کے لیے بڑی بڑی سوسائٹیاں، مساجد، ہوائی اڈے، ٹینک اورمیزائل بناتے رہتے ہیں لیکن کیا ان رقوم کو تھرپارکر میں استعمال نہیں کیا جاسکتا ؟ اس لیے کہ شاید اس میں منافعے کی شرح کم ہو۔ ابھی حال ہی کی بات ہے کہ ڈسٹرکٹ اسپتال کوہاٹ میں صرف ایک ہی ڈاکٹر ہے جب کہ دو ڈاکٹروں کی آسامیاں خالی ہیں، جب ایک باپ اپنے بچے کو لے کر ڈاکٹرکے پاس پہنچا تو باری آتے آتے بچہ مرگیا ۔ اب بتائیں کہ اس کا ذمے دارکون ہوگا ۔
جہاں تک تھر پارکرکی بات ہے تو سندھ میں سب سے زیادہ رقبے پر مشتمل ضلع تھر ہے۔ یہاں ڈھاڈکی، سندھی، ماڑواری،گجراتی اور راجستھانی وغیرہ بولی جاتی ہے۔ یہاں کی اسی فیصد آبادی ہندوؤں کی ہے اور ان اسی فیصد میں اکثریت دلت یعنی اچھوتوں کی ہے۔ یہاں موروں اورہرنوں کی ایک بڑی تعداد رہتی ہے۔
ایک جانب ریگستان تو دوسری جانب مٹی کی پہا ڑیاں اور ایک جانب جنگلات۔ برسات میں یہ علاقہ جنت نظیر بن جاتا ہے اور بارش نہ ہو تو جہنم بن جاتا ہے، انسان اور جانور قحط سے مرنے لگتے ہیں، بھوک وپیاس کے مارے لوگ نقل مکانی کرنا شروع کردیتے ہیں ۔ یہ سلسلہ دہائیوں سے چلا آرہا ہے۔ تھرکے لوگ قحط سے مرتے آرہے ہیں اورساتھ ساتھ گائے بکریاں بھی مرتی آرہی ہیں۔ انسانوں کوکسی نہ کسی طور پہ دفنا دیا جاتا ہے لیکن جانوروں کے ڈھانچے جا بجا بکھرے نظرآتے ہیں۔
سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے، عام حالات میں میلوں دور سے خواتین سروں پہ مٹکے رکھ کے پانی لاتی ہیں اور وہ پانی بھی اب تو اتنا آلودہ ہوچکا ہے کہ پینا بھی دشوار ہوجاتا ہے۔حکومت سندھ نے پانی صاف کرنے کا پلانٹ لگایا تھا مگر چند مہینوں کے بعد بند پڑا ہے۔ یہ ہے سرمایہ داری،ایک جانب لوگ بھوک سے مر رہے ہیں تو دوسری جانب لاکھوں روپے کی مہنگی گھڑی ہاتھ پر باندھی جا رہی ہے اور بلیوںکو لے کر اسلام آ باد کی سیر کروائی جاتی ہے ۔
ایک جانب پینے کوگندا پانی بھی میسر نہیں تو دوسری جانب بیرون ملک سے پانی درآمد کرکے پیا جاتا ہے۔ اسی پا کستان میں پوش علاقوں میں ہزاروں گزکی کوٹھیوں میں صرف تین چار افراد رہتے ہیں تو اسی مکان کے سرونٹ کوارٹر میں آ ٹھ دس ملازمین ہوتے ہیں ،چارلینڈکروزر اور پیجیروکھڑی رہتی ہیں تو دوسری جانب مچھرکالونی اورگیدڑ کالونی میں لوگ چالیس چالیس گزکے مکان اور لا کھوں لوگ جھگیوں میں رہتے ہیں اور ستم ظریفی یہ ہے کہ لینڈ مافیا ان جھگیوں کو آگ لگا کر بعد میں قبضہ کر لیتی ہے ۔ہمارے ملک میں وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے۔
صرف بلوچستان میں ہزاروں ٹن سونے کے ذخائر موجود ہیں،اسی تھر میں کوئلے کے عظیم ذخائر ہیں،کھربوں روپے کرپشن میں چلے جاتے ہیں اور حکومت کالے دھن کو سفید بنانے کا گر بھی بتاتی ہے، حکمران غیرملکی دورے پر سو افراد پر مشتمل قافلہ ساتھ لے جاتے ہیں ، جن پرکروڑوں رو پے خرچ ہوجاتے ہیں لیکن ہم تھر، چولستان اوربلوچستان کے لوگوں کو پینے کا صاف پانی فرا ہم کرپاتے اور نہ ان بارانی اور ریگستانی علاقوں کو نہریں فراہم کرپاتے ہیں ۔ ساری رقوم غیر پیداواری اخراجات پر خرچ ہوجاتی ہیں۔ہم اپنے بجٹ کا بڑا حصہ آئی ایم ایف کے سود کی ادائیگی، قرضوں اورگولا بارود پرخرچ کردیتے ہیں۔
امریکا میں وائٹ ہاؤس کے سامنے گزشتہ تیس سال سے اسرائیل کے خلاف سراپا احتجاج 80 سالہ خاتون برفانی طوفان کے باعث چل بسیں۔ عالمی ذرایع ابلاغ کے مطابق اسی سالہ سچینووائٹ ہاؤس کے سامنے تیس سال سے اسرائیلی مظالم کے خلاف سراپا احتجاج تھی۔اس نے وائٹ ہاؤس کے سامنے پلاسٹک کی چھت سے بنی جھگی بنا رکھی تھی اور اس کا مطالبہ تھا کہ امریکا سمیت عالمی برادری کو اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے۔اس خاتون کی وائٹ ہاؤس کے سامنے سے جھگی ہٹانے کے لیے اوباما سمیت دیگر امریکی صدور نے متعدد بارکوششیں کیں لیکن امریکی سپریم کورٹ نے اس کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ بزرگ خاتون امریکی صدرکے غیض وغضب کا سامنا کرنے میں توکامیاب رہیں لیکن برفانی طوفان کا مقابلہ نہ کرسکیں اورچل بسیں۔دوہزارگیارہ میں بلدیہ ٹاؤن کراچی کی ایک فیکٹری میں دوسو انسٹھ مزدوروںکو زندہ جلا دیا گیا۔ جن کے قاتلوں کوآج تک کوئی سزا نہیں ہوئی، دو ہزار سولہ کے جنوری سے اب تک تقریبا دوسوبچے تھر پارکر میں جان سے جاتے رہے۔
یہ اموات غذائی قلت اورصحت کی سہولتوں کی عدم دستیابی سے ہوئی ہیں۔اسپتالوں میں دواؤں کی قلت تاحال برقرار ہے، بچوں کی اموات کے بعد اب مویشیوں کی اموات میں اضافہ ہورہا ہے، مرنے والوں میں نومولود، کم سن اور دوسال سے دس سال کے عمر کے زیادہ بچے مرے ہیں۔ ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر ارجن کمار نے چالیس بچوں کی سرکاری اسپتالوں میں موت کی تصدیق کی ہے۔ بچوں کی اموات کا سبب وبائی امراض،نمونیہ، وقت سے پہلے پیدائش،کم وزن اور ڈائیریا بتائی ہے۔
حکومت اور سرمایہ دار اپنے کمیشن اور مفادات کے لیے بڑی بڑی سوسائٹیاں، مساجد، ہوائی اڈے، ٹینک اورمیزائل بناتے رہتے ہیں لیکن کیا ان رقوم کو تھرپارکر میں استعمال نہیں کیا جاسکتا ؟ اس لیے کہ شاید اس میں منافعے کی شرح کم ہو۔ ابھی حال ہی کی بات ہے کہ ڈسٹرکٹ اسپتال کوہاٹ میں صرف ایک ہی ڈاکٹر ہے جب کہ دو ڈاکٹروں کی آسامیاں خالی ہیں، جب ایک باپ اپنے بچے کو لے کر ڈاکٹرکے پاس پہنچا تو باری آتے آتے بچہ مرگیا ۔ اب بتائیں کہ اس کا ذمے دارکون ہوگا ۔
جہاں تک تھر پارکرکی بات ہے تو سندھ میں سب سے زیادہ رقبے پر مشتمل ضلع تھر ہے۔ یہاں ڈھاڈکی، سندھی، ماڑواری،گجراتی اور راجستھانی وغیرہ بولی جاتی ہے۔ یہاں کی اسی فیصد آبادی ہندوؤں کی ہے اور ان اسی فیصد میں اکثریت دلت یعنی اچھوتوں کی ہے۔ یہاں موروں اورہرنوں کی ایک بڑی تعداد رہتی ہے۔
ایک جانب ریگستان تو دوسری جانب مٹی کی پہا ڑیاں اور ایک جانب جنگلات۔ برسات میں یہ علاقہ جنت نظیر بن جاتا ہے اور بارش نہ ہو تو جہنم بن جاتا ہے، انسان اور جانور قحط سے مرنے لگتے ہیں، بھوک وپیاس کے مارے لوگ نقل مکانی کرنا شروع کردیتے ہیں ۔ یہ سلسلہ دہائیوں سے چلا آرہا ہے۔ تھرکے لوگ قحط سے مرتے آرہے ہیں اورساتھ ساتھ گائے بکریاں بھی مرتی آرہی ہیں۔ انسانوں کوکسی نہ کسی طور پہ دفنا دیا جاتا ہے لیکن جانوروں کے ڈھانچے جا بجا بکھرے نظرآتے ہیں۔
سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے، عام حالات میں میلوں دور سے خواتین سروں پہ مٹکے رکھ کے پانی لاتی ہیں اور وہ پانی بھی اب تو اتنا آلودہ ہوچکا ہے کہ پینا بھی دشوار ہوجاتا ہے۔حکومت سندھ نے پانی صاف کرنے کا پلانٹ لگایا تھا مگر چند مہینوں کے بعد بند پڑا ہے۔ یہ ہے سرمایہ داری،ایک جانب لوگ بھوک سے مر رہے ہیں تو دوسری جانب لاکھوں روپے کی مہنگی گھڑی ہاتھ پر باندھی جا رہی ہے اور بلیوںکو لے کر اسلام آ باد کی سیر کروائی جاتی ہے ۔
ایک جانب پینے کوگندا پانی بھی میسر نہیں تو دوسری جانب بیرون ملک سے پانی درآمد کرکے پیا جاتا ہے۔ اسی پا کستان میں پوش علاقوں میں ہزاروں گزکی کوٹھیوں میں صرف تین چار افراد رہتے ہیں تو اسی مکان کے سرونٹ کوارٹر میں آ ٹھ دس ملازمین ہوتے ہیں ،چارلینڈکروزر اور پیجیروکھڑی رہتی ہیں تو دوسری جانب مچھرکالونی اورگیدڑ کالونی میں لوگ چالیس چالیس گزکے مکان اور لا کھوں لوگ جھگیوں میں رہتے ہیں اور ستم ظریفی یہ ہے کہ لینڈ مافیا ان جھگیوں کو آگ لگا کر بعد میں قبضہ کر لیتی ہے ۔ہمارے ملک میں وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے۔
صرف بلوچستان میں ہزاروں ٹن سونے کے ذخائر موجود ہیں،اسی تھر میں کوئلے کے عظیم ذخائر ہیں،کھربوں روپے کرپشن میں چلے جاتے ہیں اور حکومت کالے دھن کو سفید بنانے کا گر بھی بتاتی ہے، حکمران غیرملکی دورے پر سو افراد پر مشتمل قافلہ ساتھ لے جاتے ہیں ، جن پرکروڑوں رو پے خرچ ہوجاتے ہیں لیکن ہم تھر، چولستان اوربلوچستان کے لوگوں کو پینے کا صاف پانی فرا ہم کرپاتے اور نہ ان بارانی اور ریگستانی علاقوں کو نہریں فراہم کرپاتے ہیں ۔ ساری رقوم غیر پیداواری اخراجات پر خرچ ہوجاتی ہیں۔ہم اپنے بجٹ کا بڑا حصہ آئی ایم ایف کے سود کی ادائیگی، قرضوں اورگولا بارود پرخرچ کردیتے ہیں۔