مارٹن کرو ایک عہد کا اختتام
یقیناً کرکٹ ایک قبیلہ، ایک خاندان کی طرح ہے، اور مارٹن کرو کی شکل میں ایک بہت ہی قریبی عزیز اس خاندان سے بچھڑ گیا ہے۔
گزشتہ روز سے کچھ ایسی مصروفیات میں گھرا کہ اخبار پڑھنے کا وقت بھی میسر نہیں آسکا۔ صبح حالات حاضرہ اور دنیا بھر کی خبریں جاننے کے لئے انٹرنیٹ کھولا تو ایک افسوسناک اور دکھ بھری خبر منتظر تھی کہ نیوزی لینڈ کےعظیم بلے باز مارٹن کرو 53 برس کی عمر میں سرطان کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار گئے ہیں۔
مارٹن کرو نیوزی لینڈ کرکٹ کے ہی نہیں بلکہ عالمی کرکٹ کا ایک درخشاں ستارہ تھے۔ نیوزی لینڈ کے نام کے ساتھ ہمیشہ مارٹن کرو کا نام ایسے ہی ذہن میں آتا تھا جیسے برازیل کا نام لیتے ہی 'پیلے' یا ارجنٹائن کا نام سنتے ہی 'ڈیگو میرا ڈونا کا نام آتا ہے۔ نیوزی لینڈ کبھی بھی دنیا کی بہترین ٹیم نہیں رہی مگر اس نے بڑی ٹیموں کو اسی اور نوے کی دہائی میں ناکوں چنے چبوائے۔ اس میں سب سے اہم کردار مارٹن کرو اور سر رچرڈ ہیڈلی کا تھا۔
1980ء کی دہائی میں کرکٹ آج سے بہت مختلف تھی، ٹی ٹوئنٹی کا جنم نہیں ہوا تھا۔ کرکٹ سیریز ایک روزہ اور ٹیسٹ میچوں پر مشتمل ہوا کرتی تھی۔ اُس دور میں بلے بازوں کے بجائے گیند بازوں کی حمایت کے لیے قوانین بنا کرتے تھے، یہاں تک کہ وہ 6 کی 6 گیندیں باؤنسر کرسکتے تھے۔ اس دہائی نے کرکٹ کو بہت بڑے نام دیئے۔ پاکستان میں عمران خان، جاوید میانداد، بھارت میں کیپل دیو، سنیل گواسکر، انگلستان میں آئن بوتھم، جیف بائیکاٹ، آسٹریلیا میں ایلن بورڈر، للی، تھامسن اور ویسٹ انڈیز میں گورڈن گرینج، ویو رچرڈز سے لے کر میلکم مارشل، گارنر، ایمبروز تک ایک لمبی فہرست ہے۔ اگر آپ ریکارڑز دیکھیں تو آپ کو 1980ء سے 1992ء تک بلے بازی کے شعبے میں بہت ہی کم ریکارڈز دیکھنے کو ملیں گے، ایسا صرف اِس لیے ہوتا تھا کہ اُس وقت کرکٹ کے قوانین بھی گیند بازوں کی حمایت کرتے تھے اور وکٹیں بھی گیند بازوں کے لیے ہی سازگار ہوا کرتی تھی، اور پھر یہی وہ دور تھا جس دور میں دنیا نے بڑے بڑے گیند بازوں کو ایکشن میں دیکھا۔
پھر ایسے دور میں مارٹن کرو نیوزی لینڈ کے پہلےعالمی معیار کے بلے باز کے طور پر ابھرے۔ آسٹریلیا، ویسٹ انڈیز، پاکستان، بھارت، انگلستان اور سری لنکا کس ملک میں انہوں نے اپنا لوہا نہیں منوایا؟ ویسٹ انڈیز میں منجھے ہوئے باؤلرز کے خلاف اسکور کرنا اور آسٹریلیا کی وکٹوں پر تیز رنز بنانا اس زمانے میں بلے بازی کا معیار ہوتا تھا۔ انہوں نے ویسٹ انڈیز میں 188 رنز بنا کر میچ ڈرا کیا جبکہ برسبین میں جہاں رچرڈ ہیڈلی نے 15 وکٹیں لیں وہیں مارٹن کرو نے 188 رنز بنا کر فتح میں اپنا حصہ ڈالا۔ 1990ء میں جب وہ پاکستان آئے تو وسیم اور وقار نے نیوزی لینڈ کے بیٹسمینوں کو تنکوں کو مانند اڑا دیا مگر مارٹن کرو نے تین ٹیسٹ میچوں میں دو سینکڑے بنا کر ریورس سوئنگ کے خلاف بھی اپنی مہارت ثابت کی۔ پھر سری لنکا کے خلاف 1990ء میں 299 رنز کی اننگ ہم کیسے بھول سکتے ہیں۔ اگرچہ صرف ایک رن کے فرق سے وہ 300 کا سنگ میل عبور نہ کرسکے لیکن 26 برسوں تک نیوزی لینڈ کے لیے سب سے بڑی انفرادی اننگ کھیلنے کا اعزاز انہی کے پاس رہا جو گزشتہ ماہ برینڈن مک کولم کے ہاتھوں ٹوٹا جب انہوں نے آسٹریلیا کے خلاف کسی بھی کیوی بلے بازی کی طرف سے پہلی ٹرپل سنچری اسکور کی تھی۔
جب مک کولم نے ان کا ریکارڈ توڑا تو اپنے ایک کالم میں لکھا کہ میں 26 سال سے احساسِ ندامت میں گھرا تھا کہ نیوزی لینڈ کے کسی کھلاڑی نے کیونکر 300 رنز کا سنگ میل عبور نہیں کیا، مگر آج مک کولم نے مجھے اس ندامت سے آزاد کیا۔ یقیناً کرکٹ ایک قبیلہ، ایک خاندان کی طرح ہے، اور سچ پوچھا جائے تو مارٹن کرو کی شکل میں ایک بہت ہی قریبی عزیز اس خاندان سے بچھڑ گیا ہے۔
مجھے یاد ہے کہ 1994ء میں ایک انٹرویو میں وقار یونس سے سوال کیا گیا کہ کبھی کسی بلے باز کو باؤلنگ کرواتے ہوئے مشکل پیش آئی تو ان کا جواب تھا، ''جب گیند باز فارم میں ہو تو پھر یہ کوئی معنی نہیں رکھتا کہ سامنے کون بے، سوائے مارٹن کرو کے۔ ان کو جتنی اچھی باؤلنگ کراؤ وہ اتنا ہی اعلیٰ جواب دیتے ہیں''۔
زیادہ لوگ انہیں 1992ء کے ورلڈ کپ کے حوالے سے جانتے ہیں، جس میں وہ ٹورنامنٹ کے بہترین کھلاڑی تھے اور انہوں نے اوسط درجے کی ٹیم کوعالمی کپ کے دھانے تک پہنچا دیا تھا۔ وہ ٹورنامنٹ کے سب سے زیادہ رنز بنانے والے بلے باز تو تھے ہی، مگر ان کی کپتانی اس سے بھی لاجواب تھی۔ اسپنر سے پہلا اوور کرواکر دنیا بھر کے بلے بازوں کو حیران و پریشان کردیا۔ سیمی فائنل میں انہوں نے پاکستان کی انتہائی متنوع اور معیاری باؤلنگ کو جس طرح فتح کیا وہ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر وہ زخمی ہو کر فیلڈ سے باہر نہ ہوتے تو شاید ہی پاکستان وہ سیمی فائنل جیت پاتا۔
مارٹن کرو ایک انتہائی با صلاحیت بیٹسمین، زیرک کپتان ہونے کے ساتھ ایک اچھے انسان بھی تھے، انہیں کبھی میدان میں بدتمیزی کرتے یا امپائر کے کسی فیصلے پر اعتراض کرتے نہیں دیکھا گیا۔ ہمیشہ انہوں نے معیاری کرکٹ کھیلی کہ یہ ان کا عشق تھا۔ انہیں اپنے گھٹنے کی بیماری کے باعث محض 31 برس کی عمر میں کرکٹ سے ریٹائر ہونا پڑا، لیکن آج بھی نیوزی لیںڈ کی جانب سے سب سے زیادہ 17 ٹیسٹ سنچریوں کا ریکارڈ اب بھی انہی کے پاس ہے۔
اُن کا کمال یہ ہے کہ جب تک وہ کرکٹ کے میدان میں اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے تو بہت ہی کامیاب رہے، لیکن کرکٹ سے فارغ ہونے کے بعد ایک دن بھی گوشہ تنہائی میں نہیں گئے بلکہ کرکٹ سے فارغ ہونے کے بعد وہ کمنٹری اور کالم نویسی سے منسلک ہو گئے تھے۔ لیکن اُن کا سب سے بڑا کردار یہ تھا کہ جس ٹی ٹوئنٹی کرکٹ سے آج ہم روزانہ کی بنیاد پر محظوظ ہوتے ہیں، درحقیقت یہ مارٹن کرو کی تخلیق کردہ ہے جس کا نسخہ انہوں نے بہت طویل محنت کے بعد دنیا کے سامنے پیش کیا کہ کس طرح کم وقت میں کرکٹ کے کھیل سے بھی لوگ محظوظ ہوسکتے ہیں۔
[poll id="997"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
مارٹن کرو نیوزی لینڈ کرکٹ کے ہی نہیں بلکہ عالمی کرکٹ کا ایک درخشاں ستارہ تھے۔ نیوزی لینڈ کے نام کے ساتھ ہمیشہ مارٹن کرو کا نام ایسے ہی ذہن میں آتا تھا جیسے برازیل کا نام لیتے ہی 'پیلے' یا ارجنٹائن کا نام سنتے ہی 'ڈیگو میرا ڈونا کا نام آتا ہے۔ نیوزی لینڈ کبھی بھی دنیا کی بہترین ٹیم نہیں رہی مگر اس نے بڑی ٹیموں کو اسی اور نوے کی دہائی میں ناکوں چنے چبوائے۔ اس میں سب سے اہم کردار مارٹن کرو اور سر رچرڈ ہیڈلی کا تھا۔
1980ء کی دہائی میں کرکٹ آج سے بہت مختلف تھی، ٹی ٹوئنٹی کا جنم نہیں ہوا تھا۔ کرکٹ سیریز ایک روزہ اور ٹیسٹ میچوں پر مشتمل ہوا کرتی تھی۔ اُس دور میں بلے بازوں کے بجائے گیند بازوں کی حمایت کے لیے قوانین بنا کرتے تھے، یہاں تک کہ وہ 6 کی 6 گیندیں باؤنسر کرسکتے تھے۔ اس دہائی نے کرکٹ کو بہت بڑے نام دیئے۔ پاکستان میں عمران خان، جاوید میانداد، بھارت میں کیپل دیو، سنیل گواسکر، انگلستان میں آئن بوتھم، جیف بائیکاٹ، آسٹریلیا میں ایلن بورڈر، للی، تھامسن اور ویسٹ انڈیز میں گورڈن گرینج، ویو رچرڈز سے لے کر میلکم مارشل، گارنر، ایمبروز تک ایک لمبی فہرست ہے۔ اگر آپ ریکارڑز دیکھیں تو آپ کو 1980ء سے 1992ء تک بلے بازی کے شعبے میں بہت ہی کم ریکارڈز دیکھنے کو ملیں گے، ایسا صرف اِس لیے ہوتا تھا کہ اُس وقت کرکٹ کے قوانین بھی گیند بازوں کی حمایت کرتے تھے اور وکٹیں بھی گیند بازوں کے لیے ہی سازگار ہوا کرتی تھی، اور پھر یہی وہ دور تھا جس دور میں دنیا نے بڑے بڑے گیند بازوں کو ایکشن میں دیکھا۔
پھر ایسے دور میں مارٹن کرو نیوزی لینڈ کے پہلےعالمی معیار کے بلے باز کے طور پر ابھرے۔ آسٹریلیا، ویسٹ انڈیز، پاکستان، بھارت، انگلستان اور سری لنکا کس ملک میں انہوں نے اپنا لوہا نہیں منوایا؟ ویسٹ انڈیز میں منجھے ہوئے باؤلرز کے خلاف اسکور کرنا اور آسٹریلیا کی وکٹوں پر تیز رنز بنانا اس زمانے میں بلے بازی کا معیار ہوتا تھا۔ انہوں نے ویسٹ انڈیز میں 188 رنز بنا کر میچ ڈرا کیا جبکہ برسبین میں جہاں رچرڈ ہیڈلی نے 15 وکٹیں لیں وہیں مارٹن کرو نے 188 رنز بنا کر فتح میں اپنا حصہ ڈالا۔ 1990ء میں جب وہ پاکستان آئے تو وسیم اور وقار نے نیوزی لینڈ کے بیٹسمینوں کو تنکوں کو مانند اڑا دیا مگر مارٹن کرو نے تین ٹیسٹ میچوں میں دو سینکڑے بنا کر ریورس سوئنگ کے خلاف بھی اپنی مہارت ثابت کی۔ پھر سری لنکا کے خلاف 1990ء میں 299 رنز کی اننگ ہم کیسے بھول سکتے ہیں۔ اگرچہ صرف ایک رن کے فرق سے وہ 300 کا سنگ میل عبور نہ کرسکے لیکن 26 برسوں تک نیوزی لینڈ کے لیے سب سے بڑی انفرادی اننگ کھیلنے کا اعزاز انہی کے پاس رہا جو گزشتہ ماہ برینڈن مک کولم کے ہاتھوں ٹوٹا جب انہوں نے آسٹریلیا کے خلاف کسی بھی کیوی بلے بازی کی طرف سے پہلی ٹرپل سنچری اسکور کی تھی۔
جب مک کولم نے ان کا ریکارڈ توڑا تو اپنے ایک کالم میں لکھا کہ میں 26 سال سے احساسِ ندامت میں گھرا تھا کہ نیوزی لینڈ کے کسی کھلاڑی نے کیونکر 300 رنز کا سنگ میل عبور نہیں کیا، مگر آج مک کولم نے مجھے اس ندامت سے آزاد کیا۔ یقیناً کرکٹ ایک قبیلہ، ایک خاندان کی طرح ہے، اور سچ پوچھا جائے تو مارٹن کرو کی شکل میں ایک بہت ہی قریبی عزیز اس خاندان سے بچھڑ گیا ہے۔
مجھے یاد ہے کہ 1994ء میں ایک انٹرویو میں وقار یونس سے سوال کیا گیا کہ کبھی کسی بلے باز کو باؤلنگ کرواتے ہوئے مشکل پیش آئی تو ان کا جواب تھا، ''جب گیند باز فارم میں ہو تو پھر یہ کوئی معنی نہیں رکھتا کہ سامنے کون بے، سوائے مارٹن کرو کے۔ ان کو جتنی اچھی باؤلنگ کراؤ وہ اتنا ہی اعلیٰ جواب دیتے ہیں''۔
زیادہ لوگ انہیں 1992ء کے ورلڈ کپ کے حوالے سے جانتے ہیں، جس میں وہ ٹورنامنٹ کے بہترین کھلاڑی تھے اور انہوں نے اوسط درجے کی ٹیم کوعالمی کپ کے دھانے تک پہنچا دیا تھا۔ وہ ٹورنامنٹ کے سب سے زیادہ رنز بنانے والے بلے باز تو تھے ہی، مگر ان کی کپتانی اس سے بھی لاجواب تھی۔ اسپنر سے پہلا اوور کرواکر دنیا بھر کے بلے بازوں کو حیران و پریشان کردیا۔ سیمی فائنل میں انہوں نے پاکستان کی انتہائی متنوع اور معیاری باؤلنگ کو جس طرح فتح کیا وہ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر وہ زخمی ہو کر فیلڈ سے باہر نہ ہوتے تو شاید ہی پاکستان وہ سیمی فائنل جیت پاتا۔
مارٹن کرو ایک انتہائی با صلاحیت بیٹسمین، زیرک کپتان ہونے کے ساتھ ایک اچھے انسان بھی تھے، انہیں کبھی میدان میں بدتمیزی کرتے یا امپائر کے کسی فیصلے پر اعتراض کرتے نہیں دیکھا گیا۔ ہمیشہ انہوں نے معیاری کرکٹ کھیلی کہ یہ ان کا عشق تھا۔ انہیں اپنے گھٹنے کی بیماری کے باعث محض 31 برس کی عمر میں کرکٹ سے ریٹائر ہونا پڑا، لیکن آج بھی نیوزی لیںڈ کی جانب سے سب سے زیادہ 17 ٹیسٹ سنچریوں کا ریکارڈ اب بھی انہی کے پاس ہے۔
اُن کا کمال یہ ہے کہ جب تک وہ کرکٹ کے میدان میں اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے تو بہت ہی کامیاب رہے، لیکن کرکٹ سے فارغ ہونے کے بعد ایک دن بھی گوشہ تنہائی میں نہیں گئے بلکہ کرکٹ سے فارغ ہونے کے بعد وہ کمنٹری اور کالم نویسی سے منسلک ہو گئے تھے۔ لیکن اُن کا سب سے بڑا کردار یہ تھا کہ جس ٹی ٹوئنٹی کرکٹ سے آج ہم روزانہ کی بنیاد پر محظوظ ہوتے ہیں، درحقیقت یہ مارٹن کرو کی تخلیق کردہ ہے جس کا نسخہ انہوں نے بہت طویل محنت کے بعد دنیا کے سامنے پیش کیا کہ کس طرح کم وقت میں کرکٹ کے کھیل سے بھی لوگ محظوظ ہوسکتے ہیں۔
[poll id="997"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔