دیواروں کے بھی ’ہاتھ‘ ہوتے ہیں۔۔۔
ناداروں کو زندگی کی بنیادی ضرورتیں دیتی مہرباں دیواریں
KARACHI:
''ایک رات انہوں نے گھر کے دریچے سے دیکھا کہ کوڑے کے ڈھیر کے قریب، نیم تاریکی میں ایک شخص ٹٹول ٹٹول کر کچھ کھا رہا ہے۔۔۔ بس، اُس دن سے روزانہ شام ڈھلے انہوں نے اُس منڈیر پر کھانا رکھوانا شروع کردیا۔۔۔ اس طرح اندھیرا پھیلتے ہی وہ شخص وہاں آتا اور کھانا لے جاتا۔۔۔ نہ دینے والا جانتا تھا کہ وہ کسے دے رہا ہے اور نہ لینے والا جانتا تھا کہ اس کا محسن کون ہے۔۔۔''
بچپن میں بزرگوں سے سنا شہر قائد کا یہ سچا قصہ بالکل ''دیوار مہربانی'' جیسا ہی تو تھا، فرق تھا، تو صرف یہ کہ یہ سلسلہ صرف دو افراد تک سمٹا رہا۔۔۔
سرمایہ داروں نے زندگی کی ضروریات کے گرد پیسے کی اونچی اور مضبوط فصیلیں چُن دی ہیں۔۔۔ اب یہ ضرورت بنیادی ہو یا کسی خواہش پر مبنی، تکمیل کا انحصار آپ کے پلّے میں جمع دولت پر ہے، جیب میں مطلوبہ مقدار میں روپیہ نہیں، تو یہ ضرورت تشنہ ہی رہ جائے گی۔ کوئی ضرورت جب انتہا کو پہنچے، تو مجبوری بن جاتی ہے۔۔۔ ایسی مجبوری کہ پھر اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔۔۔ چاروناچار دست دراز کرنا پڑ جاتا ہے۔ ایسے میں خودی کے پیکر افراد بکھر کر رہ جاتے ہیں، ضرورت پوری ہو یا نہ ہو روح ضرور گھائل ہو جاتی ہے۔ سفید پوشی کا بھرم تار تار ہوجاتا ہے۔۔۔ بس اس بھرم کو برقرار رکھنا ہی ''دیوار مہربانی'' کا مقصود ہے۔
گھر کے اضافی کپڑوں اور جوتے ضرورت مند قریبی رشتے داروں اور ہم سائے وغیرہ میں دینے کا رواج تو چلا آ رہا ہے۔۔۔ بالخصوص بچوں کے چھوٹے ہو جانے والے کپڑے خاموشی سے کسی اور کو دے دیے جاتے، کبھی گھر کی ہی بات ہوتی تو کوئی مضائقہ بھی نہ سمجھا جاتا، یا پھر اتنی خاموشی سے کیا جاتا کہ اس کا علم فقط لینے اور دینے والے کو ہوتا۔ استعمال کرنے والے بچے بھی اس سے بے خبر رہتے، لیکن شہری زندگی میں سماجی تعلقات کی نوعیت کافی بدل چکی ہے۔ اس لیے یہ روایت کم زور پڑنے لگی ہے۔
بھلا ہو سماجی ذرایع اِبلاغ کا، جنہوں نے راز داری سے ضرورت مندوں کی مدد کے لیے ''دیوار مہربانی'' کا تصور اس قدر تیزی سے فروغ دیا کہ چند ہفتوں میں یہ ملک بھر میں پھیل گیا۔ دیوار مہربانی کے سلسلے نے چین میں جنم لیا، مگر ہمارے ہاں یہ تصور ہم سائے ملک ایران سے آیا۔
جسے پشاور، کوئٹہ اور لاہور کی طرح کراچی کے مختلف علاقوں میں بھی شروع کیا گیا کہ ایک ایسی دیوار ہو، جہاں آپ ایسے کپڑے، جوتے دیگر اشیاء ضرورت مند افراد کے لیے چھوڑ جائیں، جو وہ آپ سے براہ راست نہیں مانگ سکتے۔ اگرچہ یہ تصور گرم کپڑوں کے حوالے سے تھا، لیکن چوں کہ کراچی میں اس سال سردی نہ ہونے کے برابر رہی، اس لیے یہاں اسے دیگر شہروں جیسی پذیرائی نہ مل سکی، لیکن دھیرے دھیرے اس سے متعلق آگہی پھیل رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ ایک ماہ کے دوران کراچی کے کئی مقامات پر دیوار قائم کی گئی ہے۔
ملیر کی جعفر طیار سوسائٹی میں خیرالعمل فائونڈیشن کی جانب سے قائم کردہ ''دیوار مہربانی'' تین ہفتے قبل قائم کی گئی، جہاں دیوار پر کپڑے ٹانگنے کے لیے کھونٹیوں کے علاوہ ایک بڑا ریک بھی رکھا گیا ہے، جس پر کچھ جوتیوں کے علاوہ کپڑوں کی بہت سی پوٹلیاں بھی دھری ہیں۔۔۔ کسی کھونٹی پر اوورکوٹ ہے، کسی پر قمیص، کسی پر پتلون اور کسی پر دوپٹہ ٹنگا ہوا ہے۔ افلاس کا مارا کوئی ننگے پیر ہو یا کوئی بچی آنچل کے بغیر ہو تو، ہر درد رکھنے والا اسے کسی نہ کسی طرح پیر میں جوتی اور سر پر دوپٹہ ضرور دیتا ہے۔ اس دیوار پر اس کا بھی اہتمام ہے۔
اس دوران ایک شہری پرویز نبی یہاں کپڑے رکھنے آئے، تو ہم نے ان سے پوچھا کہ لوگوں کی مدد کے اس طریقے کو عام طریقوں سے کس طرح مختلف پایا؟ انہوں نے بتایا کہ اس طریقے کے ذریعے لینے والے کی سفید پوشی پر کوئی حرف نہیں آتا، ہم اگر کسی کو براہ راست دیتے ہیں، تو بعض اوقات لینے والا اچھا محسوس نہیں کرتا۔
اس دیوار کے ذریعے چیزیں صحیح طریقے سے مستحق افراد تک پہنچ رہی ہیں۔ پرویز نبی نے یہ دعویٰ کیا کہ یہاں یومیہ پچاس، ساٹھ کپڑے اور جوتے وغیرہ رکھے اور اٹھائے جاتے ہیں۔ اسی دوران جعفرطیار سوسائٹی کے رہائشی کامران اقبال بھی اپنے بچوں کے ساتھ وہاں کچھ کپڑے رکھنے آئے۔ انہوں نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ وہ 'کراچی الیکٹرک' میں انجینئر ہیں، آج اُن کی چھٹی تھی، اس لیے انہوں نے اپنے گھر سے کچھ کپڑے یہاں رکھنے کے لیے نکالے ہیں۔
کچھ دن پہلے وہ ایک پرانا گدا بھی یہاں رکھ گئے تھے اور جب اگلے روز وہ یہاں آئے، تو وہ کوئی لے جا چکا تھا۔۔۔ یہاں دن بھر مختلف چیزیں رکھنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے، جب کہ رات کے اوقات میں ضرورت مند افراد یہاں سے چیزیں لے جاتے ہیں اور ان کی عزت نفس مجروح نہیں ہوتی۔ ''کیا اس طرح غیر مستحق افراد یہاں سے سامان اٹھا کر نہیں لے جا سکتے؟'' اس پر کامران اقبال نے کہا،''ہمارا کام یہ تعین کرنا نہیں کہ کون مستحق ہے اور کون نہیں، آج کل نفسانفسی کا دور ہے، ہم اپنے سماجی تعلقات سے انصاف نہیں کر پارہے۔
ایسے میں 'دیوار مہربانی' کے وسیلے سے مستحقین کی مدد ایک بہترین طریقہ ہے۔ یہاں قرب وجوار میں بہت سی غریب بستیاں بھی ہیں، پھر ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ زندگی میں کسی کا بھی وقت پڑ سکتا ہے، آج میں یہاں کپڑے رکھ رہا ہوں، کل کلاں کو خدانخواستہ میں کسی مشکل سے دوچار ہوجائوں، تو میں بھی رازداری سے یہاں سے کوئی چپل یا کپڑے لے جا سکوں گا اور لوگوں کے سامنے میری سفید پوشی کا بھرم رہ جائے گا!''
ناظم آباد میں واقع نجی یونیورسٹی کے سامنے بھی ایسی ہی ایک 'دیوار مہربانی' موجود ہے۔۔۔ جس پر شہر کی کچھ تصاویر وغیرہ بناکر ''دیوار مہربانی'' لکھ دیا گیا ہے، جب کہ کسی بھی تنظیم کا نام موجود نہیں، جس سے یہ پتا چلتا کہ یہ سلسلہ کس کی جانب سے ہے۔ اس دیوار کا محل وقوع کچھ ایسا ہے کہ اردگرد غریب آبادی ہے۔ اس لیے جوں ہی یہاں کپڑے لٹکائے جاتے ہیں، ویسے ہی کوئی ضرورت مند لے جاتا ہے۔ اس لیے جب ہم یہاں پہنچے، تو اس دیوار کی ایک کھونٹی پر بھی کوئی چیز موجود نہیں تھی۔ البتہ کچھ دیر گزرنے کے بعد یہاں کی کھونٹیاں اور الگنیاں 'آباد' ہونا شروع ہوئیں۔
یہاں ایک شہری ضیا نے کچھ شلوار قمیصیں اور ٹی شرٹیں لاکر لٹکائیں۔ ''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ انہوں نے سماجی ذرایع اِبلاغ (سوشل میڈیا) پر اس دیوار کے بارے میں سنا تھا۔ انہیں یہ خیال بہت پسند آیا اور آج یہاں آنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ لوگوں میں اس کے حوالے سے آگہی ہونی چاہیے۔
ان کی دکان عباسی شہید اسپتال کے قریب واقع ہے، وہ براہ راست بھی ضرورت مند لوگوں کو کپڑے وغیرہ دیتے ہیں، لیکن وہ لوگ جو کسی وجہ سے آپ تک نہیں پہنچ پاتے، یا مانگ نہیں سکتے۔ ان کے لیے بغیر ہاتھ پھیلائے مدد کا یہ اچھا سلسلہ ہے۔ وہ نہیں سمجھتے کہ کوئی غیرضرورت مند یہاں سے کپڑے لے کر جائے گا۔ اُن کے نزدیک مدد کے اس نئے طریقے کی ضرورت یوں بھی محسوس ہوئی کہ پہلے ہمارے بڑے اور بزرگ ضرورت مندوں کا خیال رکھتے تھے، جب کہ آج کل دکھاوا بہت زیادہ ہو گیا ہے۔ لوگوں میں خاموشی سے مدد کا جذبہ شاید کم ہو گیا ہے۔
اس دیوار پر لٹکائے جانے والے بیش تر کپڑے نئے اور اچھی حالت میں معلوم ہوتے تھے۔ کپڑے لٹکاتے وقت تو بیٹھے ہوئے بچے انہیں حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے اور پھر دھیرے دھیرے جا کر لے آتے۔ دیوار پر کپڑے لٹکنے کے ساتھ ہی یہاں گویا ایک میلہ سا لگ گیا۔۔۔ خواتین اور بچے کپڑوں کو ٹھہر کر دیکھتے، ٹٹولتے، کبھی کوئی کپڑا خود پر پھیلاکر دیکھتے، خوش ہوتے اور لے دوڑتے۔ کچھ بچے خود پر قابو نہیں رکھ پاتے اور اپنی پرانی میلی قمیصوں پر ہی یہ اجلی پوشاک چڑھالیتے۔ نجی جامعہ کے محافظ یہاں کے ہینگروں کی حفاظت کرتے رہے کہ کوئی بچہ اچک کر کپڑے اتارتے ہوئے ہینگر نہ توڑ دے۔ کپڑے لے جانے والی خواتین اور بچوں نے اس حوالے سے بات چیت نہیں کی، البتہ جوہر موڑ کا رہائشی ایک مزدور، جو اس وقت نجی جامعہ میں رنگ وروغن کا کام کر رہا ہے، یہاں سے ایک شرٹ لے کر گیا۔
اس نے بتایا کہ اسے یہ شرٹ اچھی لگی، تو اس نے لے لی، وہ کچھ دنوں سے یہاں کپڑے ٹنگے ہوئے دیکھ رہا تھا، لیکن اسے معلوم نہیں تھا کہ یہ کیا سلسلہ ہے۔ وہ کسی سے مانگتا نہیں ہے، اسے ضرورت ہو اور کوئی دے دے، تو وہ لے لیتا ہے۔ نجی جامعہ کے سیکوریٹی انچارج محمد نواز کہتے ہیں کہ یہاں روزانہ بیس سے پچیس کپڑے لائے جاتے ہیں، وہ کسی بھی لے جانے والے کو نہیں روکتے۔ وہ کتنا ضرورت مند ہے، یہ اس کا اپنا ضمیر ہے۔
قلبِ شہر میں گرومندر سے بندرگاہ تک دراز ایم اے جناح روڈ المعروف بندر روڈ پر ہمدرد اسپتال کے مقابل بالائی گزرگاہ کے نیچے بھی دیوار پر زرد رنگ پھیر کر سبز رنگ سے ''دیوار مہربان'' لکھا گیا ہے۔۔۔ اس دیوار پر بھی کسی منتظم کا نام موجود نہیں ہے۔ گرم ہوتی ہوئی اس دوپہر میں یہ دیوار، مہربانی کرنے والوں کی منتظر دکھائی دی۔ اس دیوار پر نصب چند کھونٹیوں پر فقط تین کپڑے ٹنگے ہوئے تھے، یہ ایک گرم قمیص، جیکٹ اور ایک پینٹ تھی۔
ہمیں بتایا گیا کہ ایک روز قبل یہاں زنانہ کپڑے بھی موجود تھے، جو شاید اپنے کسی ضرورت مند تک پہنچ گئے، لیکن فی الحال گرم ہوتے ہوئے اس موسم میں اس لباس کی کسی کو حاجت نہ تھی۔۔۔ کہتے ہیں دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں، لیکن اگر زبان بھی ہوتی، تو ہم دیوار سے ہی پوچھ لیتے ''بتا! اب تک کتنے سفید پوشوں کے تن ڈھانکے ہیں؟ تجھے کب بنایا گیا اور ذرا بتا تو سہی کہ تجھے دینے والے تجھے کیا کیا دے جاتے ہیں؟'' مگر اس مصروف شاہ راہ پر یہ چھوٹی سی دیوار راہ گیروں کو عطیے لیے پکارتی ہوئی محسوس ہوئی۔
صدر کے سینٹ پیٹرک اسکول کی دیوار پر بھی ایسی ہی ایک مددگار دیوار بہ عنوان ''دیوار ضرورت'' (Wall of Help) قائم کی گئی ہے۔ اس پر بھی کسی ادارے کا نام موجود نہیں ہے۔ اس دیوار پر کھونٹیوں کے علاوہ ایک ریک بھی نصب کیا گیا ہے۔ یہاں وضع وضع کے بے شمار کپڑوں کے علاوہ ایک کھونٹی پر کچھ ٹائیاں بھی ٹنگی ہوئی نظر آئیں۔ اس کے علاوہ ایک کھونٹی پر ایک بھاری سفری بیگ بھی لٹکا تھا۔ یہاں پر بھی کسی عطیہ کنندہ یا وصول کرنے والے سے ملاقات نہ ہوسکی۔
شہر میں قائم ہر ''دیوار مہربانی'' دوسرے سے بالکل مختلف دکھائی دی۔ ان کے رنگ وروپ اور نقش ونگار کے علاوہ ان کے نام بھی کہیں 'دیوار ضرورت' اور کہیں 'دیوار مہربان' کی صورت دکھائی دیے۔ ایک دیوار کے علاوہ کسی اور دیوار پر اس کے قائم کرنے والے یا منتظم کا نام بھی دکھائی نہ دیا۔ یہاں رکھی جانے والی چیزیں بھی فقط جوتے اور کپڑوں تک محدود دکھائی نہ دیں۔ یہاں ہر وہ چیز جو ہم کسی بھی ضرورت مند تک پہنچانا چاہتے ہیں، رکھی جا سکتی ہے۔
ویسے تو کراچی میں اَن گنت فلاحی ادارے سرگرم ہیں، مگر کچھ دست دراز کرنے سے گریز کا مزاج ہے، تو کچھ ان فلاحی اداروں کی جانب سے کی جانے والی تکلیف دہ جانچ، کہ لوگ شکایت کناں دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے میں دیوار مہربانی ایک بہت بڑا سہارا ہے۔
٭دیواروں کے مختلف روپ
یوں تو دیوار کے کئی حقیقی اور مجازی معنی لیے جاتے ہیں۔۔۔ دیوار اگر کسی خطرے کے آگے بنے، تو خوب سراہی جاتی ہے، اگر کسی گھر کے صحن میں اٹھائی جائے، تو اس کا تاثر خاصا منفی اور تلخ ہوجاتا ہے۔ ''دیوار چین'' ہو تو عجوبہ بن کر دنیا کا مرکز بن جاتی ہے، تو کبھی 'دیوار برلن' کے نام سے ایک نظریاتی فصیل بن کر یک ساں لوگوں کو الگ الگ ملکوں میں بانٹ دیتی ہے اور بالآخر مسمار کر دی جاتی ہے۔ تاریخ کے اوراق پلٹیں، تو مغل بادشاہ اکبر کی جانب سے شہزادہ سلیم کی محبوبہ انارکلی کو دیوار میں چنوانے کا واقعہ ملتا ہے۔ مذہبی حوالے دیکھیں تو فلسطین میں واقع 'دیوار گریہ' کا تقدس کافی مانا جاتا ہے۔
محاوروں سے لے کر اشعار تک دیوار کے استعارے کا برتائو خوب ملتا ہے، کہیں دیواروں سے باتیں کرنے کا تذکرہ ہے، تو کہیں عالم دیوانگی و بے بسی میں دیوار سے سر ٹکرانے کا خیال۔۔۔ کہیں شاعر اپنے کچے مکان کی دیوار گرنے پر لوگوں کے رستے بنانے کا شکوہ کرتا ہے، تو کہیں 'گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو' کا جذباتی نعرہ بلند کیا جاتا ہے، کہیں دیواروں کے کان ہوتے ہیں جیسی باتیں کرکے لوگوں کو ہوشیار کیا جاتا ہے اور 'دیوار سے لگائے جانے' کا شکوہ تو زبان زدِ عام ہے۔
شاہ راہوں کی دیواروں کا ذکر کیا جائے، تو یہاں پوسٹر اور وال چاکنگ کے ذریعے تشہیر اور جذبات کا اظہار کا سلسلہ خاصا پرانا ہے۔ جلسے کی دعوت سے انتخابی مہم تک، اظہار محبت سے نعرۂ مرگ تک، مطالبوں سے احتجاجی نعروں تک۔۔۔ الغرض دیواریں اپنی تحریروں کے ذریعے ہنستی، روتی اور چیختی چنگھاڑتی دکھائی دیتی ہیں، لیکن ''دیوار مہربانی'' اس کا ایک نیا اور اچھوتا روپ ہے، گویا اجنبی دھرتی پر ایک بے زبان مہربان ضرورت مندوں کی حاجت پوری کرنے کے لیے ہر دم مستعد ہے۔
٭خیراتی دسترخوان سے دیوار مہربانی تک
بھوک نہ مٹ سکے، تو آزمائش بن جاتی ہے اور انتہا کو پہنچے، تو پیٹ کی یہ آگ عذاب کے درجے تک پہنچ جاتی ہے۔۔۔ تب ہی تو خلق خدا کا حقیقی درد رکھنے والے حاکم ایسی کٹھن گھڑی میں 'حد' ساقط کر دیا کرتے تھے۔۔۔ شاید کسی سفید پوش کی بھوک دُہری تکلیف کا باعث ہوتی ہے۔
ایسے ہی سفید پوشوں کی پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے مختلف غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے شہر میں مختلف فلاحی تنظیموں کی جانب سے مختلف جگہوں پر باقاعدہ دو وقت دسترخوان کا انتظام کیا گیا۔ اس طرح ڈیڑھ کروڑ نفوس پر مشتمل اس شہر ناپُرساں میں غربت اور حالات کے ستائے ہوئے لوگوں کو بھوک مٹانے کا ایک ذریعہ میسر آیا، لیکن لباس اور دیگر ضروریات زندگی کے لیے ستم زدہ لوگوں کی ضرورت پوری ہونے کا اس طرح کوئی انتظام نہ تھا، اب شاید سفید پوشی کے بھرم کے ساتھ پوری ہو سکے۔
پاکستان کی پہلی دیوار مہربانی
مردان میں ایسی ہی دیوار تخریب کی نذر ہوگئی
نویدجان(پشاور)
پڑوسی اور بردار اسلامی ملک ایران کے بعد پاکستان میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ چند باہمت اور خدمت کے جذبے سے سرشار نوجوانوں نے پشاور کے پوش علاقے حیات آبادفیز 3 میں دیوارمہربانی بنائی ہے۔ کاوش کی جس کا مقصد ضرورت مند کی ایسے طریقے سے مدد ہے جس سے ان کی عزت نفس پر حرف بھی نہ آئے اور ان کی ضرورت بھی باعزت طریقے سے پوری ہو سکے۔ سماجی کارکن اسد علی لودھی کی جانب سے بھی کی گئی اس کاوش کو یہاں کے عوام نے بہت سراہا ہے۔
واضح رہے کہ ایران کے شہر مشہد کے بعد پاکستان میں یہ اس قسم کی اولین کوشش ہے جس کے بعد یہ سلسلہ ملک کے دیگر بڑے شہروں تک پھیل گیا ہے، جب کہ یہی کاوش خیبر پختون خوا کے دوسرے بڑے شہر مردان میں بھی کی گئی، عبدالولی خان یونی ورسٹی مردان کے شعبہ منیجمنٹ سائنس کے طلباء نے مردان ریلوے اسٹیشن کے قریب مستحقین کے لیے دیوارمہربانی بنانے کی سعی کی۔ ان طلباء میں صدام حسین، عمر خان اور عرفان خان سرفہرست ہیں۔ واضح رہے کہ جب کچھ عرصہ قبل حیات آباد میں یہ دیوار بنانے کی کوشش کی گئی تھی تو یہ خبر پشاور کے ایک نوجوان شہزادہ پرنس نے سماجی رابطے کی ایک ویب سائٹ پر اپ لوڈ کی، جسے 25 ہزار افراد نے شیئر کیا اور 4 لاکھ لوگوں نے دیکھا، جس کی دیکھا دیکھی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں اس کے چرچے ہوئے اور ملک کے دیگر شہروں کے نوجوانوں میں بھی خدمت جذبہ ابھرا۔
دیوار مہربانی کے نام ہی سے آشکار ہے کہ یہاں پر ضرورت مندوں کی ضرورت بغیر کسی معاوضے کے پوری کی جاتی ہے۔ اس حوالے سے سوات کے علاقے خوازہ خیلہ سے تعلق رکھنے والے مستحق اور ضرورت مند رحیم گل کاکا نے بتایا کہ ٹھٹھڑتی سردی میں ہم سوات سے یہاں آکر محنت مزدوری کرتے ہیں، لیکن یہ مزدوری کبھی ملتی ہے اور کبھی نہیں۔ اوپر سے کبھی فٹ پاتھ پر اور کبھی کسی دوسری جگہ پر سرد رات بسرنا پڑتی ہے، ایسے میں اپنی بے بسی پر رونا آجاتا ہے، لیکن یہاں (دیوار مہربانی) آکر گرم کپڑے اور بنیان لے کر یخ بستہ راتوں کا کسی حد تک مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میرے ایک اور ساتھی بخت زادہ نے جب مجھے اس دیوار کے بارے میں بتایا تو پہلے مجھے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ ایسا بھی ہے۔ خیر جیسے تیسے اس جگہ پہنچا اور مختلف اشیاء دیکھیں تو انسانیت پر یقین اور بھی پختہ ہوا کہ ایسے نیک دل لوگ آج بھی اس دنیا میں موجود ہیں جن کے دم قدم سے یہ دنیا آباد ہے۔ مجھے اپنی ضرورت کے لیے جو چیزیں چاہیے تھیں اٹھالیں، لیکن دل میں یہ کھٹکا ضرور لگا رہا کہ اب کوئی آکے اس کی قیمت کا تقاضا کرے گا، لیکن کسی نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔
ہمارے سامنے ایک خاتون گاڑی سے اتریں۔ انھوں نے ہاتھ میں دو شاپنگ بیگز پکڑے ہوئے تھے۔ وہ دیوار مہربانی کے قریب آئیں اور شاپنگ بیگز سے مختلف قسم کے زنانہ و مردانہ کپڑے نکال کر دیوار پر لٹکا دیے۔
انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ حیات آباد کی رہائشی ہیں اور ان کا نام صبیحہ بیگم ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے ہم اپنے پڑوس میں غریبوں کو ضرورت کی اشیاء دیتے تھے، لیکن وہ لینے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے، کیوں کہ بعض لوگ بڑے خوددار ہوتے ہیں۔ وہ بھوک و ننگ کو تو برداشت کر لیتے ہیں لیکن کسی کے سامنے دست سوال دراز نہیں کرتے۔ جب مجھے دیوار مہربانی کا علم ہوا تو میں یہاں آئی اور مختلف اشیاء، جن میں کچھ بالکل نئی اشیاء بھی تھی لے کر آئی، تاکہ کسی خوددار غریب کی عزت نفس کا بھرم بھی قائم رہے اور اس کی ضرورت بھی پوری ہو۔
وطن عزیز میں ''دیوار مہربانی'' کے روح رواں اسد علی لودھی نے اس حوالے سے بتایا کہ ہر انسان کے دل میں کچھ کر گزرنے کا جذبہ تو ہوتا ہے اور جب اسے مہمیز ملتی ہے تو کسی کی بھلائی کی سبیل نکلتی ہے۔
میرے دل میں بھی یہ جذبہ تو تھا لیکن اس کو مہمیز ملنے کی ضرورت تھی۔ سو ایران کے شہر مشہد کی مثال ہمارے سامنے آئی جس کے بعد یہاں بھی نادار اور مستحق لوگوں کے لیے یہ اقدام اٹھایا۔ اسدعلی لودھی نے مزید کہا کہ اب تک 6 سو کے قریب بے گھر اور نادار افراد دیوار مہربانی سے استفادہ کر چکے ہیں، جب کہ یہاں پر صرف استعمال شدہ اشیاء نہیں نئے کپڑے اور دیگر چیزیں بھی لوگ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں، جو ایثار کی بہترین مثال ہے۔ اسد علی لودھی پچھلے رمضان میں 200 بے گھر اور نادار افراد کے لیے افطاری کا بندوبست بھی کر چکے ہیں۔
ہماری قوم کی بدقسمتی رہی ہے کہ ایک طرف ہم پوری دنیا میں کارِخیر کی شرح کے حوالے سے سرفہرست دکھائی دیتے ہیں تو دوسری طرف ہمارے ہاں بعض ایسے عناصر بھی موجود ہیں جو تخریبی سوچ رکھتے ہیں، جس کی ایک مثال یہ واقعہ ہے۔ ''دیوار مہربانی'' بنانے کے جذبے سے سرشار کچھ نوجوانوں نے مردان میں اسی قسم کی کاوش دہرائی جہاں اس کو کافی پذیرائی ملی لیکن بعض سماج دشمن عناصر نے چوروں کی طرح رات کی تاریکی میں اس جذبے کا خون کیا، جو اشیاء لوگوں کی جانب سے عطیہ کی گئی تھیں ان کو غائب کیا اور رنگ برنگی ''دیوار مہربانی'' کو تباہ کردیا۔
اس کے بعد خیبر پختون خوا کے ایک اور شہر ڈیرہ اسماعیل خان کے گومل میڈیکل کالج میں طلباء نے ''دیوار مہربانی'' بنا ڈالی جس کا افتتاح ایک دس سالہ یتیم بچے اویس نے کیا۔ اس موقع پر مخیر افراد نے کپڑے، کتابیں، جوتے، بچوں کے کھیلنے کا سامان اور مصنوعی جیولری جمع کرائی۔
خیر کی حَسین روایت پنجاب میں
ذکر غیرسرکاری تنظیم اخوت کے ملک بھر میں دیواریں بنانے کے منصوبے کا
ایران سے شروع ہونی والی ''دیوار مہربانی'' سے جُڑی مہم اب پاکستان میں بھی مقبول ہورہی ہے۔ لاہور میں سب سے پہلے دیوار مہربانی ماہ فروری کے اوائل میں جام شریں پارک فردوس مارکیٹ، گلبرگ میں قائم کی گئی۔ یہ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کے پانچ طلباء کی کاوش تھی۔ حارث صغیر بھٹی اس مہم کے روح رواں تھے۔ سلمان عالم خان تصاویر اور ویڈیوز سے متعلق امور کی دیکھ بھال کر رہے تھے۔ جاوید مغل نے اس دیوار کی ڈیزائننگ اور پینٹنگ کی ذمہ داری ادا کی، جب کہ حسنین ناصر اور اسد علی اس منفرد پروجیکٹ کوارڈینیٹر تھے۔
زرد رنگ میں رنگی اس دیوار کے ساتھ ٹنگے ہوئے رنگ برنگ کپڑے دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ لوگوں نے اس آئیڈیے کو بھرپور پذیرائی بخشی ہے۔ لوگ گزرتے ہوئے پہلے تو حیران ہوتے ہیں کہ یہ کیا منظر ہے اور پھر بات سمجھ میں آ جانے کے بعد وہی لوگ بعد میں مختلف قسم کے کپڑے اٹھائے اس دیوار کے پاس کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری طرف ایسے مناظر بھی دیکھنے کو ملے ہیں کہ نسبتاً کم آمدنی والے اور ضرورت مند افراد اس دیوار سے اپنی ضرورت کے کپڑے لے رہے ہیں۔
لاہور میں دیوار مہربانی جن دنوں شروع کی گئی اس وقت یہاں کافی سردی تھی۔ اس لیے شروع میں لوگوں نے گرم لباس اور سوئٹرز وغیرہ یہاں پہنچانا شروع کیے۔ بعدازاں موسم قدرے بہتر ہو جانے کی وجہ سے اب ہر طرح کے کپڑے ہمیں دیوار مہربانی پر دکھائی دے رہے ہیں۔
اس دیوار کے بانیوں میں شامل سلمان عالم خان نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شروع میں لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ آئیڈیا یہاں نہیں چل سکے گا، کیوںکہ اگر آپ رات کو یہاں کپڑے اسے طرح لٹکے ہوئے چھوڑ گئے تو ممکن ہے حقیقی ضرورت مند افراد کے بجائے کچھ اور لوگ انہیں لے اڑیں، لیکن ہم نے ہمت نہیں ہاری اور سوشل میڈیا کے ذریعے بھرپور مہم چلائی، جس کی گونج دور دور تک سنائی دی۔ پھر کئی ٹی وی چینلز اور اخبارات بھی اس جانب متوجہ ہو ئے اور اس طرح یہ دیوار مہربانی مزید مقبول ہوگئی۔
سلمان عالم خان نے یہ بھی بتایا کہ جب انہوں نے کام یابی سے یہ پروجیکٹ چلا لیا تو دوسرے شہروں سے بھی ان کے ساتھ رابطے کیے گئے۔ اس کے بعد ملتان، گوجرانولہ، اسلام آباد ، کوئٹہ اور کراچی سمیت کئی شہروں میں یہ آئیڈیا رُوبہ عمل نظر آنے لگا۔ دوسری طرف لاہور میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے طلباء نے بھی متاثر ہو کر جین مندر کے قریب دیوار ِمہربانی قائم کی ہے، جس پر کپڑے عطیہ کرنے والے افراد کافی سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔ اخوت ایک غیرسرکاری فلاحی تنظیم ہے جو اس نوع کے ایک بڑے منصوبے پر کام کر رہی ہے۔
پنجاب یونیورسٹی کے طلباء کی جانب سے قائم کی گئی دیوارِمہربانی کے دورے کے بعد اخوت کے سربراہ ڈاکٹر امجد ثاقب نے انہیں دو سو جوڑے کپڑے فراہم کیے۔ اخوت کے پرنسپل کوارڈینیٹر ابوبکر نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہو ئے بتایا کہ ملک بھر میں ہم ملک بھر میں ''اخوت کلاتھ بینک'' کے نام سے ایک پروجیکٹ کے تحت اب تک ساڑھے تین لاکھ خاندانوں کو کپڑے فراہم کیے جاچکے ہیں۔ انہوں نے کہا،''ہم ایک ہی ڈیزائن کے ساتھ دیوارِاخوت کے نام سے ملک بھر میں لگ بھگ اڑھائی سو دیواریں قائم کر چکے ہیں جب کہ مزید پر کام جاری ہے۔
ہم نے اس تصور کو ذرا مختلف انداز میں اپنایا ہے اور ایک منظم نظام کار کے تحت یہ کام کر رہے ہیں۔ ہم نے کسی کھلی جگہ میں دیوار اخوت بنانے کے بجائے اپنے دفاتر کے ساتھ ملکیتی دیوار کو پینٹ کیا ہے اور وہاں کپڑے رکھنے اور لے جانے کے لیے صبح نو سے شام پانچ بجے تک کا وقت بھی مقرر کیا ہے۔'' انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اخوت نے ہر دیوار ِاخوت کے لیے اپنے اسٹاف کے ایک رکن کو کوارڈینیٹر مقرر کیا ہے جو اپنے علاقے میں لوگوں کو عطیات کے لیے تیار کرنے کے علاوہ شفافیت کے ساتھ کپڑوں کی ضرورت مندوں کو فراہمی بھی یقینی بناتا ہے۔
دیوار ِ مہربانی ہو یا دیوارِ اخوت ان دونوں کی مقبولیت اور عوامی سطح پر پذیرائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی عوام معاشرتی فلاح اور انسانیت کی خدمت کے جذبات سے سرشار ہیں۔اس نوع کے انسان دوست کاموں میں سب سے زیادہ اہمیت شفافیت اور نظم ضبط کو یقینی بنانے کی ہوتی ہے۔ ادارہ اخوت اب اس آئیڈیے کو منظم شکل دے کر آگے بڑھ رہا ہے جو قابل تقلید بات ہے۔
''ایک رات انہوں نے گھر کے دریچے سے دیکھا کہ کوڑے کے ڈھیر کے قریب، نیم تاریکی میں ایک شخص ٹٹول ٹٹول کر کچھ کھا رہا ہے۔۔۔ بس، اُس دن سے روزانہ شام ڈھلے انہوں نے اُس منڈیر پر کھانا رکھوانا شروع کردیا۔۔۔ اس طرح اندھیرا پھیلتے ہی وہ شخص وہاں آتا اور کھانا لے جاتا۔۔۔ نہ دینے والا جانتا تھا کہ وہ کسے دے رہا ہے اور نہ لینے والا جانتا تھا کہ اس کا محسن کون ہے۔۔۔''
بچپن میں بزرگوں سے سنا شہر قائد کا یہ سچا قصہ بالکل ''دیوار مہربانی'' جیسا ہی تو تھا، فرق تھا، تو صرف یہ کہ یہ سلسلہ صرف دو افراد تک سمٹا رہا۔۔۔
سرمایہ داروں نے زندگی کی ضروریات کے گرد پیسے کی اونچی اور مضبوط فصیلیں چُن دی ہیں۔۔۔ اب یہ ضرورت بنیادی ہو یا کسی خواہش پر مبنی، تکمیل کا انحصار آپ کے پلّے میں جمع دولت پر ہے، جیب میں مطلوبہ مقدار میں روپیہ نہیں، تو یہ ضرورت تشنہ ہی رہ جائے گی۔ کوئی ضرورت جب انتہا کو پہنچے، تو مجبوری بن جاتی ہے۔۔۔ ایسی مجبوری کہ پھر اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔۔۔ چاروناچار دست دراز کرنا پڑ جاتا ہے۔ ایسے میں خودی کے پیکر افراد بکھر کر رہ جاتے ہیں، ضرورت پوری ہو یا نہ ہو روح ضرور گھائل ہو جاتی ہے۔ سفید پوشی کا بھرم تار تار ہوجاتا ہے۔۔۔ بس اس بھرم کو برقرار رکھنا ہی ''دیوار مہربانی'' کا مقصود ہے۔
گھر کے اضافی کپڑوں اور جوتے ضرورت مند قریبی رشتے داروں اور ہم سائے وغیرہ میں دینے کا رواج تو چلا آ رہا ہے۔۔۔ بالخصوص بچوں کے چھوٹے ہو جانے والے کپڑے خاموشی سے کسی اور کو دے دیے جاتے، کبھی گھر کی ہی بات ہوتی تو کوئی مضائقہ بھی نہ سمجھا جاتا، یا پھر اتنی خاموشی سے کیا جاتا کہ اس کا علم فقط لینے اور دینے والے کو ہوتا۔ استعمال کرنے والے بچے بھی اس سے بے خبر رہتے، لیکن شہری زندگی میں سماجی تعلقات کی نوعیت کافی بدل چکی ہے۔ اس لیے یہ روایت کم زور پڑنے لگی ہے۔
بھلا ہو سماجی ذرایع اِبلاغ کا، جنہوں نے راز داری سے ضرورت مندوں کی مدد کے لیے ''دیوار مہربانی'' کا تصور اس قدر تیزی سے فروغ دیا کہ چند ہفتوں میں یہ ملک بھر میں پھیل گیا۔ دیوار مہربانی کے سلسلے نے چین میں جنم لیا، مگر ہمارے ہاں یہ تصور ہم سائے ملک ایران سے آیا۔
جسے پشاور، کوئٹہ اور لاہور کی طرح کراچی کے مختلف علاقوں میں بھی شروع کیا گیا کہ ایک ایسی دیوار ہو، جہاں آپ ایسے کپڑے، جوتے دیگر اشیاء ضرورت مند افراد کے لیے چھوڑ جائیں، جو وہ آپ سے براہ راست نہیں مانگ سکتے۔ اگرچہ یہ تصور گرم کپڑوں کے حوالے سے تھا، لیکن چوں کہ کراچی میں اس سال سردی نہ ہونے کے برابر رہی، اس لیے یہاں اسے دیگر شہروں جیسی پذیرائی نہ مل سکی، لیکن دھیرے دھیرے اس سے متعلق آگہی پھیل رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ ایک ماہ کے دوران کراچی کے کئی مقامات پر دیوار قائم کی گئی ہے۔
ملیر کی جعفر طیار سوسائٹی میں خیرالعمل فائونڈیشن کی جانب سے قائم کردہ ''دیوار مہربانی'' تین ہفتے قبل قائم کی گئی، جہاں دیوار پر کپڑے ٹانگنے کے لیے کھونٹیوں کے علاوہ ایک بڑا ریک بھی رکھا گیا ہے، جس پر کچھ جوتیوں کے علاوہ کپڑوں کی بہت سی پوٹلیاں بھی دھری ہیں۔۔۔ کسی کھونٹی پر اوورکوٹ ہے، کسی پر قمیص، کسی پر پتلون اور کسی پر دوپٹہ ٹنگا ہوا ہے۔ افلاس کا مارا کوئی ننگے پیر ہو یا کوئی بچی آنچل کے بغیر ہو تو، ہر درد رکھنے والا اسے کسی نہ کسی طرح پیر میں جوتی اور سر پر دوپٹہ ضرور دیتا ہے۔ اس دیوار پر اس کا بھی اہتمام ہے۔
اس دوران ایک شہری پرویز نبی یہاں کپڑے رکھنے آئے، تو ہم نے ان سے پوچھا کہ لوگوں کی مدد کے اس طریقے کو عام طریقوں سے کس طرح مختلف پایا؟ انہوں نے بتایا کہ اس طریقے کے ذریعے لینے والے کی سفید پوشی پر کوئی حرف نہیں آتا، ہم اگر کسی کو براہ راست دیتے ہیں، تو بعض اوقات لینے والا اچھا محسوس نہیں کرتا۔
اس دیوار کے ذریعے چیزیں صحیح طریقے سے مستحق افراد تک پہنچ رہی ہیں۔ پرویز نبی نے یہ دعویٰ کیا کہ یہاں یومیہ پچاس، ساٹھ کپڑے اور جوتے وغیرہ رکھے اور اٹھائے جاتے ہیں۔ اسی دوران جعفرطیار سوسائٹی کے رہائشی کامران اقبال بھی اپنے بچوں کے ساتھ وہاں کچھ کپڑے رکھنے آئے۔ انہوں نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ وہ 'کراچی الیکٹرک' میں انجینئر ہیں، آج اُن کی چھٹی تھی، اس لیے انہوں نے اپنے گھر سے کچھ کپڑے یہاں رکھنے کے لیے نکالے ہیں۔
کچھ دن پہلے وہ ایک پرانا گدا بھی یہاں رکھ گئے تھے اور جب اگلے روز وہ یہاں آئے، تو وہ کوئی لے جا چکا تھا۔۔۔ یہاں دن بھر مختلف چیزیں رکھنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے، جب کہ رات کے اوقات میں ضرورت مند افراد یہاں سے چیزیں لے جاتے ہیں اور ان کی عزت نفس مجروح نہیں ہوتی۔ ''کیا اس طرح غیر مستحق افراد یہاں سے سامان اٹھا کر نہیں لے جا سکتے؟'' اس پر کامران اقبال نے کہا،''ہمارا کام یہ تعین کرنا نہیں کہ کون مستحق ہے اور کون نہیں، آج کل نفسانفسی کا دور ہے، ہم اپنے سماجی تعلقات سے انصاف نہیں کر پارہے۔
ایسے میں 'دیوار مہربانی' کے وسیلے سے مستحقین کی مدد ایک بہترین طریقہ ہے۔ یہاں قرب وجوار میں بہت سی غریب بستیاں بھی ہیں، پھر ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ زندگی میں کسی کا بھی وقت پڑ سکتا ہے، آج میں یہاں کپڑے رکھ رہا ہوں، کل کلاں کو خدانخواستہ میں کسی مشکل سے دوچار ہوجائوں، تو میں بھی رازداری سے یہاں سے کوئی چپل یا کپڑے لے جا سکوں گا اور لوگوں کے سامنے میری سفید پوشی کا بھرم رہ جائے گا!''
ناظم آباد میں واقع نجی یونیورسٹی کے سامنے بھی ایسی ہی ایک 'دیوار مہربانی' موجود ہے۔۔۔ جس پر شہر کی کچھ تصاویر وغیرہ بناکر ''دیوار مہربانی'' لکھ دیا گیا ہے، جب کہ کسی بھی تنظیم کا نام موجود نہیں، جس سے یہ پتا چلتا کہ یہ سلسلہ کس کی جانب سے ہے۔ اس دیوار کا محل وقوع کچھ ایسا ہے کہ اردگرد غریب آبادی ہے۔ اس لیے جوں ہی یہاں کپڑے لٹکائے جاتے ہیں، ویسے ہی کوئی ضرورت مند لے جاتا ہے۔ اس لیے جب ہم یہاں پہنچے، تو اس دیوار کی ایک کھونٹی پر بھی کوئی چیز موجود نہیں تھی۔ البتہ کچھ دیر گزرنے کے بعد یہاں کی کھونٹیاں اور الگنیاں 'آباد' ہونا شروع ہوئیں۔
یہاں ایک شہری ضیا نے کچھ شلوار قمیصیں اور ٹی شرٹیں لاکر لٹکائیں۔ ''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ انہوں نے سماجی ذرایع اِبلاغ (سوشل میڈیا) پر اس دیوار کے بارے میں سنا تھا۔ انہیں یہ خیال بہت پسند آیا اور آج یہاں آنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ لوگوں میں اس کے حوالے سے آگہی ہونی چاہیے۔
ان کی دکان عباسی شہید اسپتال کے قریب واقع ہے، وہ براہ راست بھی ضرورت مند لوگوں کو کپڑے وغیرہ دیتے ہیں، لیکن وہ لوگ جو کسی وجہ سے آپ تک نہیں پہنچ پاتے، یا مانگ نہیں سکتے۔ ان کے لیے بغیر ہاتھ پھیلائے مدد کا یہ اچھا سلسلہ ہے۔ وہ نہیں سمجھتے کہ کوئی غیرضرورت مند یہاں سے کپڑے لے کر جائے گا۔ اُن کے نزدیک مدد کے اس نئے طریقے کی ضرورت یوں بھی محسوس ہوئی کہ پہلے ہمارے بڑے اور بزرگ ضرورت مندوں کا خیال رکھتے تھے، جب کہ آج کل دکھاوا بہت زیادہ ہو گیا ہے۔ لوگوں میں خاموشی سے مدد کا جذبہ شاید کم ہو گیا ہے۔
اس دیوار پر لٹکائے جانے والے بیش تر کپڑے نئے اور اچھی حالت میں معلوم ہوتے تھے۔ کپڑے لٹکاتے وقت تو بیٹھے ہوئے بچے انہیں حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے اور پھر دھیرے دھیرے جا کر لے آتے۔ دیوار پر کپڑے لٹکنے کے ساتھ ہی یہاں گویا ایک میلہ سا لگ گیا۔۔۔ خواتین اور بچے کپڑوں کو ٹھہر کر دیکھتے، ٹٹولتے، کبھی کوئی کپڑا خود پر پھیلاکر دیکھتے، خوش ہوتے اور لے دوڑتے۔ کچھ بچے خود پر قابو نہیں رکھ پاتے اور اپنی پرانی میلی قمیصوں پر ہی یہ اجلی پوشاک چڑھالیتے۔ نجی جامعہ کے محافظ یہاں کے ہینگروں کی حفاظت کرتے رہے کہ کوئی بچہ اچک کر کپڑے اتارتے ہوئے ہینگر نہ توڑ دے۔ کپڑے لے جانے والی خواتین اور بچوں نے اس حوالے سے بات چیت نہیں کی، البتہ جوہر موڑ کا رہائشی ایک مزدور، جو اس وقت نجی جامعہ میں رنگ وروغن کا کام کر رہا ہے، یہاں سے ایک شرٹ لے کر گیا۔
اس نے بتایا کہ اسے یہ شرٹ اچھی لگی، تو اس نے لے لی، وہ کچھ دنوں سے یہاں کپڑے ٹنگے ہوئے دیکھ رہا تھا، لیکن اسے معلوم نہیں تھا کہ یہ کیا سلسلہ ہے۔ وہ کسی سے مانگتا نہیں ہے، اسے ضرورت ہو اور کوئی دے دے، تو وہ لے لیتا ہے۔ نجی جامعہ کے سیکوریٹی انچارج محمد نواز کہتے ہیں کہ یہاں روزانہ بیس سے پچیس کپڑے لائے جاتے ہیں، وہ کسی بھی لے جانے والے کو نہیں روکتے۔ وہ کتنا ضرورت مند ہے، یہ اس کا اپنا ضمیر ہے۔
قلبِ شہر میں گرومندر سے بندرگاہ تک دراز ایم اے جناح روڈ المعروف بندر روڈ پر ہمدرد اسپتال کے مقابل بالائی گزرگاہ کے نیچے بھی دیوار پر زرد رنگ پھیر کر سبز رنگ سے ''دیوار مہربان'' لکھا گیا ہے۔۔۔ اس دیوار پر بھی کسی منتظم کا نام موجود نہیں ہے۔ گرم ہوتی ہوئی اس دوپہر میں یہ دیوار، مہربانی کرنے والوں کی منتظر دکھائی دی۔ اس دیوار پر نصب چند کھونٹیوں پر فقط تین کپڑے ٹنگے ہوئے تھے، یہ ایک گرم قمیص، جیکٹ اور ایک پینٹ تھی۔
ہمیں بتایا گیا کہ ایک روز قبل یہاں زنانہ کپڑے بھی موجود تھے، جو شاید اپنے کسی ضرورت مند تک پہنچ گئے، لیکن فی الحال گرم ہوتے ہوئے اس موسم میں اس لباس کی کسی کو حاجت نہ تھی۔۔۔ کہتے ہیں دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں، لیکن اگر زبان بھی ہوتی، تو ہم دیوار سے ہی پوچھ لیتے ''بتا! اب تک کتنے سفید پوشوں کے تن ڈھانکے ہیں؟ تجھے کب بنایا گیا اور ذرا بتا تو سہی کہ تجھے دینے والے تجھے کیا کیا دے جاتے ہیں؟'' مگر اس مصروف شاہ راہ پر یہ چھوٹی سی دیوار راہ گیروں کو عطیے لیے پکارتی ہوئی محسوس ہوئی۔
صدر کے سینٹ پیٹرک اسکول کی دیوار پر بھی ایسی ہی ایک مددگار دیوار بہ عنوان ''دیوار ضرورت'' (Wall of Help) قائم کی گئی ہے۔ اس پر بھی کسی ادارے کا نام موجود نہیں ہے۔ اس دیوار پر کھونٹیوں کے علاوہ ایک ریک بھی نصب کیا گیا ہے۔ یہاں وضع وضع کے بے شمار کپڑوں کے علاوہ ایک کھونٹی پر کچھ ٹائیاں بھی ٹنگی ہوئی نظر آئیں۔ اس کے علاوہ ایک کھونٹی پر ایک بھاری سفری بیگ بھی لٹکا تھا۔ یہاں پر بھی کسی عطیہ کنندہ یا وصول کرنے والے سے ملاقات نہ ہوسکی۔
شہر میں قائم ہر ''دیوار مہربانی'' دوسرے سے بالکل مختلف دکھائی دی۔ ان کے رنگ وروپ اور نقش ونگار کے علاوہ ان کے نام بھی کہیں 'دیوار ضرورت' اور کہیں 'دیوار مہربان' کی صورت دکھائی دیے۔ ایک دیوار کے علاوہ کسی اور دیوار پر اس کے قائم کرنے والے یا منتظم کا نام بھی دکھائی نہ دیا۔ یہاں رکھی جانے والی چیزیں بھی فقط جوتے اور کپڑوں تک محدود دکھائی نہ دیں۔ یہاں ہر وہ چیز جو ہم کسی بھی ضرورت مند تک پہنچانا چاہتے ہیں، رکھی جا سکتی ہے۔
ویسے تو کراچی میں اَن گنت فلاحی ادارے سرگرم ہیں، مگر کچھ دست دراز کرنے سے گریز کا مزاج ہے، تو کچھ ان فلاحی اداروں کی جانب سے کی جانے والی تکلیف دہ جانچ، کہ لوگ شکایت کناں دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے میں دیوار مہربانی ایک بہت بڑا سہارا ہے۔
٭دیواروں کے مختلف روپ
یوں تو دیوار کے کئی حقیقی اور مجازی معنی لیے جاتے ہیں۔۔۔ دیوار اگر کسی خطرے کے آگے بنے، تو خوب سراہی جاتی ہے، اگر کسی گھر کے صحن میں اٹھائی جائے، تو اس کا تاثر خاصا منفی اور تلخ ہوجاتا ہے۔ ''دیوار چین'' ہو تو عجوبہ بن کر دنیا کا مرکز بن جاتی ہے، تو کبھی 'دیوار برلن' کے نام سے ایک نظریاتی فصیل بن کر یک ساں لوگوں کو الگ الگ ملکوں میں بانٹ دیتی ہے اور بالآخر مسمار کر دی جاتی ہے۔ تاریخ کے اوراق پلٹیں، تو مغل بادشاہ اکبر کی جانب سے شہزادہ سلیم کی محبوبہ انارکلی کو دیوار میں چنوانے کا واقعہ ملتا ہے۔ مذہبی حوالے دیکھیں تو فلسطین میں واقع 'دیوار گریہ' کا تقدس کافی مانا جاتا ہے۔
محاوروں سے لے کر اشعار تک دیوار کے استعارے کا برتائو خوب ملتا ہے، کہیں دیواروں سے باتیں کرنے کا تذکرہ ہے، تو کہیں عالم دیوانگی و بے بسی میں دیوار سے سر ٹکرانے کا خیال۔۔۔ کہیں شاعر اپنے کچے مکان کی دیوار گرنے پر لوگوں کے رستے بنانے کا شکوہ کرتا ہے، تو کہیں 'گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو' کا جذباتی نعرہ بلند کیا جاتا ہے، کہیں دیواروں کے کان ہوتے ہیں جیسی باتیں کرکے لوگوں کو ہوشیار کیا جاتا ہے اور 'دیوار سے لگائے جانے' کا شکوہ تو زبان زدِ عام ہے۔
شاہ راہوں کی دیواروں کا ذکر کیا جائے، تو یہاں پوسٹر اور وال چاکنگ کے ذریعے تشہیر اور جذبات کا اظہار کا سلسلہ خاصا پرانا ہے۔ جلسے کی دعوت سے انتخابی مہم تک، اظہار محبت سے نعرۂ مرگ تک، مطالبوں سے احتجاجی نعروں تک۔۔۔ الغرض دیواریں اپنی تحریروں کے ذریعے ہنستی، روتی اور چیختی چنگھاڑتی دکھائی دیتی ہیں، لیکن ''دیوار مہربانی'' اس کا ایک نیا اور اچھوتا روپ ہے، گویا اجنبی دھرتی پر ایک بے زبان مہربان ضرورت مندوں کی حاجت پوری کرنے کے لیے ہر دم مستعد ہے۔
٭خیراتی دسترخوان سے دیوار مہربانی تک
بھوک نہ مٹ سکے، تو آزمائش بن جاتی ہے اور انتہا کو پہنچے، تو پیٹ کی یہ آگ عذاب کے درجے تک پہنچ جاتی ہے۔۔۔ تب ہی تو خلق خدا کا حقیقی درد رکھنے والے حاکم ایسی کٹھن گھڑی میں 'حد' ساقط کر دیا کرتے تھے۔۔۔ شاید کسی سفید پوش کی بھوک دُہری تکلیف کا باعث ہوتی ہے۔
ایسے ہی سفید پوشوں کی پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے مختلف غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے شہر میں مختلف فلاحی تنظیموں کی جانب سے مختلف جگہوں پر باقاعدہ دو وقت دسترخوان کا انتظام کیا گیا۔ اس طرح ڈیڑھ کروڑ نفوس پر مشتمل اس شہر ناپُرساں میں غربت اور حالات کے ستائے ہوئے لوگوں کو بھوک مٹانے کا ایک ذریعہ میسر آیا، لیکن لباس اور دیگر ضروریات زندگی کے لیے ستم زدہ لوگوں کی ضرورت پوری ہونے کا اس طرح کوئی انتظام نہ تھا، اب شاید سفید پوشی کے بھرم کے ساتھ پوری ہو سکے۔
پاکستان کی پہلی دیوار مہربانی
مردان میں ایسی ہی دیوار تخریب کی نذر ہوگئی
نویدجان(پشاور)
پڑوسی اور بردار اسلامی ملک ایران کے بعد پاکستان میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ چند باہمت اور خدمت کے جذبے سے سرشار نوجوانوں نے پشاور کے پوش علاقے حیات آبادفیز 3 میں دیوارمہربانی بنائی ہے۔ کاوش کی جس کا مقصد ضرورت مند کی ایسے طریقے سے مدد ہے جس سے ان کی عزت نفس پر حرف بھی نہ آئے اور ان کی ضرورت بھی باعزت طریقے سے پوری ہو سکے۔ سماجی کارکن اسد علی لودھی کی جانب سے بھی کی گئی اس کاوش کو یہاں کے عوام نے بہت سراہا ہے۔
واضح رہے کہ ایران کے شہر مشہد کے بعد پاکستان میں یہ اس قسم کی اولین کوشش ہے جس کے بعد یہ سلسلہ ملک کے دیگر بڑے شہروں تک پھیل گیا ہے، جب کہ یہی کاوش خیبر پختون خوا کے دوسرے بڑے شہر مردان میں بھی کی گئی، عبدالولی خان یونی ورسٹی مردان کے شعبہ منیجمنٹ سائنس کے طلباء نے مردان ریلوے اسٹیشن کے قریب مستحقین کے لیے دیوارمہربانی بنانے کی سعی کی۔ ان طلباء میں صدام حسین، عمر خان اور عرفان خان سرفہرست ہیں۔ واضح رہے کہ جب کچھ عرصہ قبل حیات آباد میں یہ دیوار بنانے کی کوشش کی گئی تھی تو یہ خبر پشاور کے ایک نوجوان شہزادہ پرنس نے سماجی رابطے کی ایک ویب سائٹ پر اپ لوڈ کی، جسے 25 ہزار افراد نے شیئر کیا اور 4 لاکھ لوگوں نے دیکھا، جس کی دیکھا دیکھی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں اس کے چرچے ہوئے اور ملک کے دیگر شہروں کے نوجوانوں میں بھی خدمت جذبہ ابھرا۔
دیوار مہربانی کے نام ہی سے آشکار ہے کہ یہاں پر ضرورت مندوں کی ضرورت بغیر کسی معاوضے کے پوری کی جاتی ہے۔ اس حوالے سے سوات کے علاقے خوازہ خیلہ سے تعلق رکھنے والے مستحق اور ضرورت مند رحیم گل کاکا نے بتایا کہ ٹھٹھڑتی سردی میں ہم سوات سے یہاں آکر محنت مزدوری کرتے ہیں، لیکن یہ مزدوری کبھی ملتی ہے اور کبھی نہیں۔ اوپر سے کبھی فٹ پاتھ پر اور کبھی کسی دوسری جگہ پر سرد رات بسرنا پڑتی ہے، ایسے میں اپنی بے بسی پر رونا آجاتا ہے، لیکن یہاں (دیوار مہربانی) آکر گرم کپڑے اور بنیان لے کر یخ بستہ راتوں کا کسی حد تک مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میرے ایک اور ساتھی بخت زادہ نے جب مجھے اس دیوار کے بارے میں بتایا تو پہلے مجھے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ ایسا بھی ہے۔ خیر جیسے تیسے اس جگہ پہنچا اور مختلف اشیاء دیکھیں تو انسانیت پر یقین اور بھی پختہ ہوا کہ ایسے نیک دل لوگ آج بھی اس دنیا میں موجود ہیں جن کے دم قدم سے یہ دنیا آباد ہے۔ مجھے اپنی ضرورت کے لیے جو چیزیں چاہیے تھیں اٹھالیں، لیکن دل میں یہ کھٹکا ضرور لگا رہا کہ اب کوئی آکے اس کی قیمت کا تقاضا کرے گا، لیکن کسی نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔
ہمارے سامنے ایک خاتون گاڑی سے اتریں۔ انھوں نے ہاتھ میں دو شاپنگ بیگز پکڑے ہوئے تھے۔ وہ دیوار مہربانی کے قریب آئیں اور شاپنگ بیگز سے مختلف قسم کے زنانہ و مردانہ کپڑے نکال کر دیوار پر لٹکا دیے۔
انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ حیات آباد کی رہائشی ہیں اور ان کا نام صبیحہ بیگم ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے ہم اپنے پڑوس میں غریبوں کو ضرورت کی اشیاء دیتے تھے، لیکن وہ لینے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے، کیوں کہ بعض لوگ بڑے خوددار ہوتے ہیں۔ وہ بھوک و ننگ کو تو برداشت کر لیتے ہیں لیکن کسی کے سامنے دست سوال دراز نہیں کرتے۔ جب مجھے دیوار مہربانی کا علم ہوا تو میں یہاں آئی اور مختلف اشیاء، جن میں کچھ بالکل نئی اشیاء بھی تھی لے کر آئی، تاکہ کسی خوددار غریب کی عزت نفس کا بھرم بھی قائم رہے اور اس کی ضرورت بھی پوری ہو۔
وطن عزیز میں ''دیوار مہربانی'' کے روح رواں اسد علی لودھی نے اس حوالے سے بتایا کہ ہر انسان کے دل میں کچھ کر گزرنے کا جذبہ تو ہوتا ہے اور جب اسے مہمیز ملتی ہے تو کسی کی بھلائی کی سبیل نکلتی ہے۔
میرے دل میں بھی یہ جذبہ تو تھا لیکن اس کو مہمیز ملنے کی ضرورت تھی۔ سو ایران کے شہر مشہد کی مثال ہمارے سامنے آئی جس کے بعد یہاں بھی نادار اور مستحق لوگوں کے لیے یہ اقدام اٹھایا۔ اسدعلی لودھی نے مزید کہا کہ اب تک 6 سو کے قریب بے گھر اور نادار افراد دیوار مہربانی سے استفادہ کر چکے ہیں، جب کہ یہاں پر صرف استعمال شدہ اشیاء نہیں نئے کپڑے اور دیگر چیزیں بھی لوگ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں، جو ایثار کی بہترین مثال ہے۔ اسد علی لودھی پچھلے رمضان میں 200 بے گھر اور نادار افراد کے لیے افطاری کا بندوبست بھی کر چکے ہیں۔
ہماری قوم کی بدقسمتی رہی ہے کہ ایک طرف ہم پوری دنیا میں کارِخیر کی شرح کے حوالے سے سرفہرست دکھائی دیتے ہیں تو دوسری طرف ہمارے ہاں بعض ایسے عناصر بھی موجود ہیں جو تخریبی سوچ رکھتے ہیں، جس کی ایک مثال یہ واقعہ ہے۔ ''دیوار مہربانی'' بنانے کے جذبے سے سرشار کچھ نوجوانوں نے مردان میں اسی قسم کی کاوش دہرائی جہاں اس کو کافی پذیرائی ملی لیکن بعض سماج دشمن عناصر نے چوروں کی طرح رات کی تاریکی میں اس جذبے کا خون کیا، جو اشیاء لوگوں کی جانب سے عطیہ کی گئی تھیں ان کو غائب کیا اور رنگ برنگی ''دیوار مہربانی'' کو تباہ کردیا۔
اس کے بعد خیبر پختون خوا کے ایک اور شہر ڈیرہ اسماعیل خان کے گومل میڈیکل کالج میں طلباء نے ''دیوار مہربانی'' بنا ڈالی جس کا افتتاح ایک دس سالہ یتیم بچے اویس نے کیا۔ اس موقع پر مخیر افراد نے کپڑے، کتابیں، جوتے، بچوں کے کھیلنے کا سامان اور مصنوعی جیولری جمع کرائی۔
خیر کی حَسین روایت پنجاب میں
ذکر غیرسرکاری تنظیم اخوت کے ملک بھر میں دیواریں بنانے کے منصوبے کا
ایران سے شروع ہونی والی ''دیوار مہربانی'' سے جُڑی مہم اب پاکستان میں بھی مقبول ہورہی ہے۔ لاہور میں سب سے پہلے دیوار مہربانی ماہ فروری کے اوائل میں جام شریں پارک فردوس مارکیٹ، گلبرگ میں قائم کی گئی۔ یہ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کے پانچ طلباء کی کاوش تھی۔ حارث صغیر بھٹی اس مہم کے روح رواں تھے۔ سلمان عالم خان تصاویر اور ویڈیوز سے متعلق امور کی دیکھ بھال کر رہے تھے۔ جاوید مغل نے اس دیوار کی ڈیزائننگ اور پینٹنگ کی ذمہ داری ادا کی، جب کہ حسنین ناصر اور اسد علی اس منفرد پروجیکٹ کوارڈینیٹر تھے۔
زرد رنگ میں رنگی اس دیوار کے ساتھ ٹنگے ہوئے رنگ برنگ کپڑے دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ لوگوں نے اس آئیڈیے کو بھرپور پذیرائی بخشی ہے۔ لوگ گزرتے ہوئے پہلے تو حیران ہوتے ہیں کہ یہ کیا منظر ہے اور پھر بات سمجھ میں آ جانے کے بعد وہی لوگ بعد میں مختلف قسم کے کپڑے اٹھائے اس دیوار کے پاس کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری طرف ایسے مناظر بھی دیکھنے کو ملے ہیں کہ نسبتاً کم آمدنی والے اور ضرورت مند افراد اس دیوار سے اپنی ضرورت کے کپڑے لے رہے ہیں۔
لاہور میں دیوار مہربانی جن دنوں شروع کی گئی اس وقت یہاں کافی سردی تھی۔ اس لیے شروع میں لوگوں نے گرم لباس اور سوئٹرز وغیرہ یہاں پہنچانا شروع کیے۔ بعدازاں موسم قدرے بہتر ہو جانے کی وجہ سے اب ہر طرح کے کپڑے ہمیں دیوار مہربانی پر دکھائی دے رہے ہیں۔
اس دیوار کے بانیوں میں شامل سلمان عالم خان نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شروع میں لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ آئیڈیا یہاں نہیں چل سکے گا، کیوںکہ اگر آپ رات کو یہاں کپڑے اسے طرح لٹکے ہوئے چھوڑ گئے تو ممکن ہے حقیقی ضرورت مند افراد کے بجائے کچھ اور لوگ انہیں لے اڑیں، لیکن ہم نے ہمت نہیں ہاری اور سوشل میڈیا کے ذریعے بھرپور مہم چلائی، جس کی گونج دور دور تک سنائی دی۔ پھر کئی ٹی وی چینلز اور اخبارات بھی اس جانب متوجہ ہو ئے اور اس طرح یہ دیوار مہربانی مزید مقبول ہوگئی۔
سلمان عالم خان نے یہ بھی بتایا کہ جب انہوں نے کام یابی سے یہ پروجیکٹ چلا لیا تو دوسرے شہروں سے بھی ان کے ساتھ رابطے کیے گئے۔ اس کے بعد ملتان، گوجرانولہ، اسلام آباد ، کوئٹہ اور کراچی سمیت کئی شہروں میں یہ آئیڈیا رُوبہ عمل نظر آنے لگا۔ دوسری طرف لاہور میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے طلباء نے بھی متاثر ہو کر جین مندر کے قریب دیوار ِمہربانی قائم کی ہے، جس پر کپڑے عطیہ کرنے والے افراد کافی سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔ اخوت ایک غیرسرکاری فلاحی تنظیم ہے جو اس نوع کے ایک بڑے منصوبے پر کام کر رہی ہے۔
پنجاب یونیورسٹی کے طلباء کی جانب سے قائم کی گئی دیوارِمہربانی کے دورے کے بعد اخوت کے سربراہ ڈاکٹر امجد ثاقب نے انہیں دو سو جوڑے کپڑے فراہم کیے۔ اخوت کے پرنسپل کوارڈینیٹر ابوبکر نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہو ئے بتایا کہ ملک بھر میں ہم ملک بھر میں ''اخوت کلاتھ بینک'' کے نام سے ایک پروجیکٹ کے تحت اب تک ساڑھے تین لاکھ خاندانوں کو کپڑے فراہم کیے جاچکے ہیں۔ انہوں نے کہا،''ہم ایک ہی ڈیزائن کے ساتھ دیوارِاخوت کے نام سے ملک بھر میں لگ بھگ اڑھائی سو دیواریں قائم کر چکے ہیں جب کہ مزید پر کام جاری ہے۔
ہم نے اس تصور کو ذرا مختلف انداز میں اپنایا ہے اور ایک منظم نظام کار کے تحت یہ کام کر رہے ہیں۔ ہم نے کسی کھلی جگہ میں دیوار اخوت بنانے کے بجائے اپنے دفاتر کے ساتھ ملکیتی دیوار کو پینٹ کیا ہے اور وہاں کپڑے رکھنے اور لے جانے کے لیے صبح نو سے شام پانچ بجے تک کا وقت بھی مقرر کیا ہے۔'' انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اخوت نے ہر دیوار ِاخوت کے لیے اپنے اسٹاف کے ایک رکن کو کوارڈینیٹر مقرر کیا ہے جو اپنے علاقے میں لوگوں کو عطیات کے لیے تیار کرنے کے علاوہ شفافیت کے ساتھ کپڑوں کی ضرورت مندوں کو فراہمی بھی یقینی بناتا ہے۔
دیوار ِ مہربانی ہو یا دیوارِ اخوت ان دونوں کی مقبولیت اور عوامی سطح پر پذیرائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی عوام معاشرتی فلاح اور انسانیت کی خدمت کے جذبات سے سرشار ہیں۔اس نوع کے انسان دوست کاموں میں سب سے زیادہ اہمیت شفافیت اور نظم ضبط کو یقینی بنانے کی ہوتی ہے۔ ادارہ اخوت اب اس آئیڈیے کو منظم شکل دے کر آگے بڑھ رہا ہے جو قابل تقلید بات ہے۔