افغان وعراقی جنگوں کا خوفناک اسکینڈل موت بانٹنے والے آتشی الاؤ

جنھوں نے افغانستان او عراق کے ہزارہا باشندوں ہی نہیں ان گنت امریکی فوجیوں کو بھی خطرناک امراض میں مبتلا کر دیا، رپورٹ

جنھوں نے افغانستان او عراق کے ہزارہا باشندوں ہی نہیں ان گنت امریکی فوجیوں کو بھی خطرناک امراض میں مبتلا کر دیا…سنسنی خیز رپورٹ ۔ فوٹو : فائل

''خود غرضی سے جو کامیابی حاصل کی جائے، وہ محض گناہ ہے اور شرمناک رسوائی۔''( انگریز شاعر، ولیم کوپر)
٭٭
ٹوریس نامی امریکی قصبہ پُر فضا مقام پر واقع ہے۔ اس کے اردگرد دور تک کھیت پھیلے ہیں جہاں گندم کی بالیاں دھوپ میں چمک کر عجب سماں دکھاتی ہیں۔ قصبے میں ملتے جلتے گھر قطار در قطار واقع ہیں۔ انہی میں سے ایک گھر 41 سالہ لی رائے کا بھی ہے۔

لی رائے کے دو بچے ہیں۔ اسے زندگی کی تمام آسائشیں میسر ہیں۔ بظاہر وہ خوش باش زندگی گزار رہا ہے، مگر یہ ایک سراب ہے۔ جب بھی لی رائے اپنی بیگم کے ساتھ تنہا بیٹھے، تو آب دیدہ ہوجاتا ہے۔ اسے بار بار خیال آتا ہے کہ اس کی موت کے بعد معصوم بچوں کا کیا ہوگا؟ کبھی کبھی وہ شدید ڈپریشن کا نشانہ بنے، تو رخساروں پر آنسوؤں کی لڑی بندھ جاتی ہے۔

لی رائے سترہ سال کا تھا کہ امریکی فوج میں بھرتی ہوگیا۔ عسکری تربیت پاکر افسر بنا۔ 2007ء میں اسے عراق بھجوادیا گیا۔ وہاں وہ ایک سال تک جوائنٹ بیس بلد میں تعینات رہا اور پھر واپس امریکا چلا آیا۔ وطن واپس آنے کے چند ماہ بعد وہ بیمار رہنے لگا اور اس کی مصیبت زدہ زندگی کا آغاز ہوگیا۔



شروع میں شدید کھانسی اس سے چمٹ گئی۔ سانس لینے میں دشواری پیش آنے لگی۔ کبھی کبھی سینے میں درد اٹھتا۔ پھر سر میں شدید درد ہونے لگا۔ یہ درد اکثر اتنی شدت اختیار کرلیتا کہ اسے چند دن ہسپتال میں گزارنے پڑتے۔ پھر لی رائے کا پیٹ خراب ہوگیا۔ ایک دن اسے قے میں خون کا لوتھڑا نظر آیا۔ اسے یقین ہوچلا کہ اس کا آخری وقت آپہنچا ہے۔

پریشان حال لی رائے نے کئی ڈاکٹروں سے معائنہ کرایا مگر کوئی بھی بیماری کی تشخیص نہ کرسکا۔ اسی دوران اس پر ایک حیرت انگیز انکشاف ہوا... عراق اور افغانستان میں چھڑی جنگوں کا حصہ رہنے والے دیگر سیکڑوں امریکی فوجی بھی سانس، اعصاب اور پیٹ کی پُراسرار بیماریوں میں مبتلا تھے۔ بعض کو تو کینسر جیسی موذی بیماری چمٹ گئی۔ کچھ فوجی امراض کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

جب سیکڑوں امریکی فوجیوں کو پراسرار بیماریاں چمٹیں، تو سب سے پہلے ڈاکٹروں نے اظہار تشویش کیا۔ پھر سائنس داں ان عجیب بیماریوں پر تحقیق کرنے لگے۔ ان کی تحقیق کے نتائج سامنے آئے، تو سبھی چونک اٹھے۔ انکشاف ہوا کہ ان بیماریوں کوجنم دینے والا مجرم ''کوڑا'' تھا۔
٭٭
جب امریکی فوج 2002ء میں افغانستان اور پھر عراق پر حملہ آورہوئی، تو اس نے مختلف جگہوں پر وسیع و عریض فوجی اڈے قائم کرلیے۔ یہ فوجی اڈے چھوٹے شہر کی مانند تھے جہاں زندگی کی ہر سہولت و آسائش دستیاب تھی۔ جلد ان اڈوں میں روزانہ کئی ٹن کوڑا کرکٹ پیدا ہونے لگا۔ چناں چہ یہ مسئلہ سامنے آیا کہ اس کوڑے کرکٹ کو کس طرح ٹھکانے لگایا جائے؟

2003ء تک سائنس دریافت کرچکی تھی کہ کوڑا کھلے عام جلانے سے دھوئیں کے ذریعے خارج شدہ زہریلے عناصر ہوا میں مل جاتے ہیں۔ اسی لیے امریکا اور یورپ سمیت تمام مغربی ممالک نے کھلے عام کوڑا جلانے پر پابندی لگادی۔ اس کے بجائے انسانی بستیوں کا کوڑا کرکٹ زمین میں دبایا یا کنٹرولڈ طریقے سے دیوہیکل بھٹیوں (Incinerators) میں جلایا جانے لگا۔ یوں کوڑے کے مضر صحت اجزا ہوا میں داخل نہ ہوپاتے۔

امریکہ کے محکمہ دفاع کو بھی چاہیے تھا کہ وہ عراق اور افغانستان میں واقع اپنے فوجی اڈوں کے نزدیک زیر زمین کوڑا دبانے یا بھٹیوں میں جلانے کی تدبیر اختیار کرتا۔ مگر ایسا نہ ہوا بلکہ امریکی فوج کو حکم دیا گیا کہ وہ کھلے عام کوڑا کرکٹ جلانے کے لیے اڈوں کے قریب ''آتشی الاؤ'' (Burning Pit) تیار کرلیں۔ یہ اس مخصوص جگہ کا اصطلاحی نام ہے جہاں ہر قسم کا کوڑا جلایا جاتا ہے۔

بظاہر یہ عارضی تدبیر تھی مگر خود غرض امریکی حکمران طبقے نے اس مسئلے کو مستقل حل بنا دیا۔ امریکی حکمرانوں کو عراقی اور افغان شہریوں کی صحت کی تو کیا پروا ہوتی، انہوں نے آتشی الاؤ بناکر اپنے ہی فوجیوں کی جانیں بھی خطرے میں ڈال دیں۔ یہ حقیقت آشکارا کرتی ہے کہ انسانی حقوق اور مساوات کی باتیں کرنے والا امریکی حکمران طبقہ بھی روایتی حکمرانوں کی طرح خود غرض اور بے حس نکلا۔

جوائنٹ بیس بلد
2005ء تک امریکی عراق میں ''پانچ سو سے زائد'' چھوٹے بڑے فوجی اڈے تعمیر کرچکے تھے۔ ان میں الاسد ایئربیس (صوبہ الانبار) کے بعد جوائنٹ بیس بلد ہی سب سے بڑا فوجی اڈہ تھا۔ اس جگہ امریکی فضائیہ اور بری فوج، دونوں کے جوان قیام پذیر تھے۔ یہ فوجی اڈہ بغداد سے 40 میل دور جانب شمال واقع تھا۔

جب جنگ عراق عروج پر تھی، تو جوائنٹ بیس بلد میں پینتیس ہزار سے زائد امریکی فوجی اور غیر فوجی ملازمین رہائش پذیر تھے۔ جنگی سرگرمیاں جاری رکھنے کی خاطر یہ فوجی اڈہ بہت اہم تھا کیونکہ وہاں دو بڑے ہوائی اڈے، ہسپتال اور اسلحہ ڈپو واقع تھے۔ اس عارضی شہر میں رہائشیوں کے لیے سینما گھر، شاپنگ پلازہ، ریستوران اور تفریح کے دیگر مراکز بھی تعمیر کیے گئے تھے۔

جوائنٹ بیس بلد کی ایک خاص شے ''آتشی الاؤ'' تھی۔ بیس سے محض چار ہزار فٹ دور واقع یہ الاؤ تقریباً ''دس ایکڑ رقبے'' پر پھیلا ہوا تھا۔ اس الاؤ میں روزانہ ''ڈیڑھ سو ٹن'' کوڑا کرکٹ جلایا جاتا تھا۔ اس کوڑے میں ہر وہ چیز شامل تھی جسے سوچا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر ٹائر، کپڑے، بیٹریاں، انسانی و حیوانی فضلہ،دھاتیں، کیڑے مار ادویہ کے ڈبے، ہتھیار، سٹائرو فوم، کیمیائی مادے، پینٹ، پلاسٹک، ادویہ حتیٰ کہ انسانی و حیوانی لاشیں بھی!

جب 2007ء کے موسم گرما میں لی رائے جوائنٹ بیس بلد پہنچا، تو سب سے پہلے اس نے یہ جانا کہ وہاں عجیب سی بو پھیلی ہوئی ہے۔ یہ اس قسم کی تیز بو تھی جو ٹائر جلانے سے فضا میں پھیل جاتی ہے۔ وہ بتاتا ہے ''مجھے یہی خیال آیا کہ خدا خیر کرے، یہاں کی فضا تو انسانی صحت کے لیے خاصی خطرناک ہے۔''

جلد ہی لی کو بو جنم لینے کا سبب بھی معلوم ہوگیا جب اس نے بیس کے قریب ہی دھوئیں کے بادل منڈلاتے دیکھے۔ آتشی الاؤ سے ہر وقت سیاہ و سفید دھواں اٹھتا رہتا۔ کبھی کبھی دھوئیں کے بادل بیس کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے۔ تب دھواں فوجیوں کے سانسوں میں رچنے لگتا اور وہ بہ مشکل سانس لے پاتے۔

افغانستان میں بھی!
جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ یہ الاؤ جوائنٹ بیس بلد سے مخصوص نہ تھا، عراق اور افغانستان میں امریکی و اتحادی افواج کے تمام اڈے اسی قسم کے تین سو سے زائد آتشی الاؤ رکھتے تھے۔ یہ گڑھے کھود کر بنائے گئے تھے۔ جب گڑھا کوڑے سے بھرجاتا، تو اس میں جیٹ ایندھن ڈالا جاتا اور آگ لگادی جاتی۔ کوڑا دھڑا دھڑ جلنے لگتا۔

28 سالہ امریکی فوجی ،ڈان میئر سن دو ہزار چھ میں افغانستان میں واقع قندھار فوجی اڈے پہنچا۔ امریکی فوج نے اس اڈے کے قریب بھی بڑا جلتا الاؤ بنا رکھا تھا۔ ڈان میئر بتاتا ہے ''مجھے یاد ہے، دوسرے دن جب میں بیدار ہوا، تو اپنے لباس پر راکھ جمی دیکھ کر حیران رہ گیا۔ ادھر کثیف دھوئیں نے سورج کو دھندلا کررکھا تھا۔''

ڈان میئر دو سال افغانستان میں رہا اور یہ عرصہ تباہ کن ثابت ہوا۔ آج اس کے گھٹنے ناقابل علاج رسولی کا نشانہ بن چکے۔ چونکہ وہ اکثر سانس لینے میں دشواری محسوس کرتا ہے، اس لیے ہر وقت آکسیجن سلنڈر ڈان کے سرہانے رہتا ہے۔ اس کے پھیپھڑے خراب ہو چکے ہیں۔ ڈان کہتا ہے ''قندھار بیس پر ہر وقت ہم پر راکھ برستی رہتی۔ آخر ہم نے اس کا نام ''سیاہ برف باری'' رکھ دیا۔''

صحت کو لاحق خطرات
اکیسویں صدی کے آغاز میں سبھی باشعور لوگ جان چکے تھے کہ کھلی فضا میں کوڑے کرکٹ کو آگ لگانا مضر صحت اور خطرناک اقدام ہے۔ حتیٰ کہ درختوں کی شاخیں اور برش وغیرہ جلانا بھی ماحول دوست عمل نہیں۔ اس ضمن میں ڈاکٹروں اور ماہرین سائنس کی گئی کئی چشم کشا تحقیقات سامنے آچکیں۔ڈاکٹر انتھونی ویکسر امریکی یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے ادارے، ایئر کوالٹی ریسرچ سینٹر کے سربراہ ہیں۔ یہ ادارہ فضائی آلودگی پر تحقیق کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے ''جب کھلے آسمان تلے گڑھے میں ہر الم غلم کیمیائی و غیر کیمیائی اشیاء جلائی جائیں، تو علاقے کا ماحول تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔''

وجہ یہ کہ آتشی الاؤ میںکوڑا کرکٹ جل کر ننھے منے ذرات میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ یہ ننھے ذرات اصطلاح میں ''فائن پارٹیکلز'' (fine particles) یا مختصراً ''پی ایم 2.5'' (PM2.5 )کہلاتے ہیں۔ ان کی جسامت 2.5 مائکرون ہوتی ہے۔ فضا میں گھومتے پھرتے دیگر بڑے ذروں کے برعکس یہ ننھے ذرات بذریعہ سانس ہمارے جسم میں داخل ہوکر اعضا کی گہرائی میں پہنچ جاتے ہیں۔ یہی نہیں، یہ خون کے بہاؤ میں شامل ہوکر انسانی بدن میں چکر کھاتے اور مختلف اہم اعضا مثلاً دل، پھیپھڑوں، جگر، گردوں کو نشانہ بناتے ہیں۔

امریکی فوجی اڈوں کے آتشی الاؤ سے جن فائن پارٹیکلز نے جنم لیا، ان میں بھاری دھاتوں اور زہریلے مادوں مثلاً سلفر ڈائی آکسائیڈ، آرسینک، ڈائی آکسین (dioxins) اور ہائیڈروکلورک ایسڈ کے ذرات بھی شامل تھے۔ یہ فائن پارٹیکلز انسان کو کینسر سمیت دیگر موذی بیماریوں میں مبتلا کرتے ہیں۔ ان میں امراض تنفس، امراض قلب، الرجی، امراض اعصاب اور قوت مدافعت کی بیماریاں شامل ہیں۔نیز فائن پارٹیکلز کے سبب اولاد بھی معذور پیدا ہوتی ہے۔

لی رائے کو جلد معلوم ہوگیا کہ آتشی الاؤکی وجہ ہی سے وہ بیمار پڑا۔ وہ بتاتا ہے ''جب میں وطن واپس پہنچا، تو چند ماہ بعد مجھے کھانسی آنے لگی۔ کھانستا تو سیاہ بلغم باہر آجاتا۔ ڈاکٹر نے کہا کہ یہ ''عراقی دہی'' ہے جو کچھ عرصے بعد ختم ہوجائے گی لیکن کھانسی ٹھیک نہ ہوسکی۔ حتیٰ کہ فوجی ڈاکٹر بھی بیماری کی تشخیص نہ کرسکے۔ تنگ آکر لی رائے نے چھٹی لے لی۔

اسے ایک واقف کار نے بتایا کہ ماہر امراض پھیپھڑا، ڈاکٹر رابرٹ ملر سے ملو جو امریکی ریاست ٹینسی کے ایک ہسپتال میں بیٹھتا تھا۔ لی جاکر اس سے ملا۔ ڈاکٹر رابرٹ عراق اور افغانستان میں تعینات رہنے والے کئی فوجیوں کا علاج کرچکا تھا۔ ان کی اکثریت امراض تنفس کا شکار تھی۔ اب لی کی شکل میں ایک اور مریض آپہنچا۔

ڈاکٹر رابرٹ نے لی کے پھیپھڑے پر بائیوپسی عمل کیا یعنی اس کا ایک ٹکرا کاٹ لیا۔ جب ٹکرے کا معائنہ ہوا، تو پتا چلا کہ لی تو پھیپھڑوں کے ایک نایاب مرض ''constrictive bronchiolitis'' میں مبتلا ہے۔ یہ ایک خطرناک اور ناقابل علاج بیماری ہے۔ بروقت علاج نہ ہو تو انسان کو قبر میں پہنچا دیتی ہے۔ قدرتاً یہ انکشاف بم بن کر لی رائے پر گرا اور اس سمیت پورے خاندان کو لرزہ براندام کرگیا۔

جرم چھپانے کی کوشش
جب سائنسی تحقیق سے آشکارا ہوا کہ آتشی الاؤ میں کوڑاکرکٹ جلانا مضر ہے، تو امریکی فوج نے 1978ء میں اس کے استعمال پر جزوی پابندی لگادی تھی۔ فوجیوں کو حکم دیا گیا کہ وہ آخری چارہ کار کے طور پر آتشی الاؤ میں کوڑا جلائیں۔ نیز جلد از جلد اس کا متبادل تلاش کیا جائے۔

لیکن ا فغانستان اور عراق میں امریکی و اتحادی افواج کو جنگ شروع کیے برسوں گزر گئے، وہ بدستور ڈھائی سو سے زائد آتشی الاؤ استعمال کرتی رہیں۔ یوں امریکا نے لاکھوں افغانوں اور عراقیوں کے علاوہ اپنے ہزارہا فوجیوں کی قیمتی زندگیاں بھی خطرے میں ڈال دیں۔


سوال یہ ہے کہ امریکی و اتحادی افواج نے ماحول اور انسانی صحت تباہ کرنے والے آتشی الاؤ کیوں برقرار رکھے؟ اس کا جواب اقربا پروری،لالچ اور ہوس میں پوشیدہ ہے۔ دراصل افغانستان اور عراق میں جلتے الاؤ بنانے، چلانے اور سنبھالنے کا ٹھیکہ امریکی وزارت دفاع نے ایک نجی کمپنی ''کے بی آر'' (Kellogg Brown & Root) کے سپرد کردیا تھا۔ یہ ایک بڑی امریکی ملٹی نیشنل کمپنی، ہالبرٹن کی ذیلی کمپنی تھی۔

کے بی آر کو ٹھیکہ تعلقات کے بل بوتے پر ملا۔ حاضر امریکی وزیر دفاع، ڈک چینی 1995ء تا 2000ء ہالبرٹن کمپنی کا سی ای او (چیف ایگزیکٹو آفیسر) رہا تھا۔ مزید براں، صدر بش کا دادا اس کمپنی کے ڈائریکٹروں میں شامل تھا۔ کے پی آر کنسٹریکشن کمپنی تھی۔ چناں چہ افغانستان اور عراق میں دیگر عمارتوں کے علاوہ آتشی الاؤ تعمیر کرنے اور جلانے کا ٹھیکہ بھی اسے دے دیا گیا۔

صدر بش کے آٹھ سالہ دور حکومت میں ہالبرٹن کمپنی نے مختلف سرکاری ٹھیکے لے کر ''چالیس ارب ڈالر (چالیس کھرب روپے سے زیادہ رقم) کمائی۔ چونکہ اس کمپنی میں ڈک چینی کے بھی حصص تھے لہٰذا وہ آٹھ برس میں ارب پتی بن گیا۔ بش خانوادے اور اس کے حواریوں کو بھی خوب مالی فائدہ پہنچا اور وہ اربوں ڈالروںمیں کھیلنے لگے۔



دوسری طرف افغانستان اور عراق میں مصروف کار امریکی فوجیوںکو کئی مسائل اور مشکلات سے نبردآزما ہونا پڑا۔ جنگجوؤں سے لڑتے ہوئے ہزارہا امریکی فوجی اپنے حکمرانوں کی توسیع پسندی اور ہوس زر کی بھینٹ چڑھ گئے اور ان کے خاندانوں کا شیرازہ بکھر گیا۔ حتیٰ کہ عام فوجیوں کو آتشی الاؤ جیسی خطرناک جگہوں سے بچانے کی کوششیںنہیں ہوئیں۔ ظاہر ہے، یہ الاؤ بند ہوجاتے، تو ڈک چینی کی چہیتی کمپنی، کے بی آر ایک منافع بخش منصوبے سے ہاتھ دھو بیٹھتی۔ یوں امریکی حکمران طبقے نے ایک خطرناک منصوبہ جاری رکھ کر اپنے ہزارہا فوجیوں کی زندگیاں داؤ پر لگادیں۔ یہ خود غرضی اور لالچ کی افسوس ناک مثال ہے۔

غلط تحقیق
جب سیکڑوں آتشی الاؤ کے قرب و جوار میں رہنے والے امریکی فوجی پراسرار اور عجیب و غریب بیماریوں میں مبتلا ہونے لگے، تو سب کا ماتھا ٹھنکا۔ تب فوجیوں کے اصرار پر امریکی وزارت دفاع نے فضائیہ سے منسلک ایک حیاتی ماحولیاتی ( bioenvironmental) انجینئر، لیفٹیننٹ کرنل ڈیرن کرٹس کو ایک کام پر مامور کیا۔ اسے جوائنٹ بیس بلد کے آتشی الاؤ پر یہ تحقیق کرنی تھی کہ وہاں جلنے والا کوڑا کرکٹ انسانی صحت پر کس قسم کے اثرات مرتب کرتا ہے۔

امریکی وزارت دفاع نے بعدازاں ماہرین کی تین اور ٹیموں سے بھی یہ تحقیق کرائی۔ چاروں تحقیقات سے یہ نتیجہ نکلا کہ آتشی الاؤ کی آلودگی انسانوں کو امراض تنفس میں ضرور مبتلا کرتی ہے مگر اس کے طویل المعیاد طبی اثرات دریافت نہیں ہوسکے۔ یوں امریکی وزارت دفاع کو آتشی الاؤ برقرار رکھنے کا سرٹیفکیٹ مل گیا۔

حقیقت یہ تھی کہ چاروں ٹیموں نے ناکارہ آلات اور فرسودہ تکنیکوں کی مدد سے تحقیق کی، اس لیے درست نتائج سامنے نہیں آسکے۔ 2009ء میں امریکی سینٹ کے سامنے بیان دیتے ہوئے لیفٹیننٹ کرنل ڈیرن کرٹس نے بھی اقرار کیا کہ آتشی الاؤ کے مضر صحت اثرات کا پتا چلانے والی تحقیقات خام تھیں۔ یہ بھی ممکن ہے، امریکی وزارت دفاع کے افسران بالا نے تحقیقاتی ٹیموں کو حکم دیا ہو کہ تحقیق سرسری اور ''کام چلاؤ'' انداز میں کی جائے۔ مدعا یہی تھا کہ آتشی الاؤ کا ٹھیکہ بدستور کے بی آر کو حاصل رہے... چاہے وہ خطرناک مواد اگل کر انسانوں کی جانیں خطرے میں ڈالتے رہیں۔

الاؤ کے خلاف احتجاج
امریکا میں آتشی الاؤ کے خلاف پہلی آواز ان ڈاکٹروں نے اٹھائی جو متاثرہ فوجیوں کا علاج کررہے تھے۔ انہی میں ڈاکٹر رابرٹ ملر بھی شامل تھے۔ وہ بتاتے ہیں۔ ''آتشی الاؤ کی آلودگی نے سیکڑوں صحت مند اور خوش باش فوجیوں کو بیمار و پژمردہ انسانوں میں بدل ڈالا۔ چناں چہ میں نے اواخر 2008ء میں وزارت دفاع کو تجویز دی کہ آتشی الاؤ بند کردیئے جائیں۔ وہ تندرست امریکی فوجیوں کو موت کے گڑھوں میں دھکیل رہے تھے۔

لیکن اس تجویز کا الٹا اثر ہوا۔ وزارت دفاع نے اپنے فوجی ڈاکٹروں کو حکم دیا کہ اب وہ کوئی اور کیس ڈاکٹر رابرٹ ملر کی طرف نہ بھجوائیں۔ غرض امریکی وزارت دفاع نے اپنے ناقد ڈاکٹر ملر سے ہر قسم کا رابطہ منقطع کردیا۔ مقصد یہی تھا کہ اپنا مجرمانہ منصوبہ ہر قیمت پر محفوظ رکھا جائے۔

2009ء کے آخر میں امریکی سیاست داں اورجرنیل آتشی الاؤ سے متاثر اپنے فوجیوں کی حالت زار پر توجہ دینے لگے۔ امریکی ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی) کے ایک رکن، ٹیم بشپ نے یہ بل ایوان میں پیش کیا کہ جہاں 100 سے زائد فوجی تعینات ہوں، وہاں الاؤ تعمیر نہ کیے جائیں۔اس دوران عراق اور افغانستان میں آتشی الاؤ کے نزدیک وقت گزارنے والے دیگر امریکی فوجی پُراسرار بیماریوں کا شکار ہوکر چل بسے۔ ان میں امریکی فوجی، ڈینئل سولیوان کا چھوٹا بھائی سویوان بھی شامل تھا۔ وہ ایک سال عراق میں گزار کر وطن واپس پہنچا تو دل، پھیپھڑوں اور جگر کے امراض میں مبتلا ہوگیا۔ علاج ہوا مگر تھامس سنبھل نہ سکا اور 2009ء میں قبر اس کا گھر بن گئی۔

ڈینئل اپنے بھائی سے بہت محبت کرتا تھا۔ وہ تحقیق کرنے لگا کہ کن وجوہ کی بنا پر اس کا جوان جہان بھائی اپنی زندگی ہار بیٹھا۔ تحقیق سے انکشاف ہوا کہ عراق و افغانستان میں جن فوجیوں نے آتشی الاؤ کے نزدیک وقت گزار ا، ان کی اکثریت پراسرار بیماریوں کا نشانہ بن کر سسک رہی ہے۔ ڈینئل تھامس نے پھر ایک غیر منافع بخش تنظیم ''سارجنٹ تھامس جوزف سلیوان سینٹر'' کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم نے ڈاکٹر بھرتی کیے۔ ان کے ذمے صرف یہ کام لگایا گیا کہ وہ تحقیق کریں، آتشی الاؤ انسانوں میں کس قسم کے اور کیونکر امراض پیدا کرتے ہیں۔

اس تحقیقی مرکز کے محقق طویل عرصہ معروف تحقیق رہے۔ انہوں نے پھر یہی نتیجہ نکالا کہ آتشی الاؤ کا دھواں زہریلا ہوتا ہے۔ یہ دھواں انسانی جسم میں پہنچ کے مختلف غدود اور اعضا خراب کر ڈالتا ہے۔ چونکہ اس دھوئیں میں کیمیائی دھاتوں کے اجزاء بھی شامل ہوتے ہیں، لہٰذا وہ غدود پر اتنا کاری وار کرتے ہیں کہ علاج سے بھی ٹھیک نہیں ہوپاتے۔ یہ تحقیق منظرعام پر آنے کے بعد امریکی فوج نے آتشی الاؤ میں کیمیائی دھاتیں جلانے پر پابندی عائد کردی۔

سارجنٹ تھامس جوزف سلیوان سینٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان و عراق جنگوں کے دوران آتشی الاؤ کے زہریلے دھوئیں نے پندرہ سے بیس ہزار امریکی فوجیوں کو متاثر کیا۔ لیکن امریکی حکومت اور امریکی فوج، دونوں نے یہی رٹ لگا رکھی ہے کہ آتشی الاؤ خطرناک بیماریاں پیدا نہیں کرتے۔ اس ہٹ دھرمی کی ایک بڑی وجہ ہے۔

اگر امریکی حکومت و فوج نے تسلیم کرلیا کہ آتشی الاؤ کے دھوئیں نے ہزاروں فوجیوں کو بیمار کر ڈالا، تو ان کے علاج کا خرچ انہیں برداشت کرنا پڑے گا۔ یہی نہیں، امریکی حکومت ان فوجیوں کو ہرجانہ بھی ادا کرے گی۔ چونکہ اس مسئلے کے مجموعی اخراجات اربوں ڈالر میں ہیں لہٰذا امریکی حکمران طبقے نے اس دیوہیکل خرچ سے بچنے کے لیے یہی سوچا کہ اپنے جرم سے انکار کردیا جائے۔
آتشی الاؤ سے وابستہ اسیکنڈل کا خوفناک پہلو یہ ہے کہ ان سے نکلتے زہریلے دھوئیں نے ہزارہا افغان اور عراقی باشندوں کو بھی اپنا شکار بنایا ہوگا۔ لیکن کوئی خبر نہیں کہ ان میں سے کتنے چل بسے اور کتنے سسک سسک کر زندگی گزار رہے ہیں۔ امریکی تو حملہ آور تھے، افغان اور عراقی حکومتوں نے بھی اپنے عوام کی دادرسی نہ کی اور انہیں جلتے الاؤ کے زہریلے دھوئیں کی نذر کردیا۔

دہشت گردی کے خلاف امریکیوں کی چھیڑی نام نہاد جنگ کا یہ ایک اور مکروہ پہلو ہے جواب آ کردنیا والوں کے سامنے آیا۔ اس نام نہاد جنگ کے مزید خوفناک پہلو مستقبل میں عیاں ہوسکتے ہیں۔ مگر امریکی حکمران طبقہ اب بھی اپنے مفادات کی خاطر دنیا میں جنگ کی آگ بھڑکانے میں مصروف ہے۔ شاید جب یہ آگ امریکا تک پہنچی، تبھی وہاں کے حکمران طبقے کو ہوش آئے گا۔



جو امریکی حکومت کے جرائم منظر عام پہ لایا
امریکا میں بظاہر میڈیا آزاد ہے مگر ''قومی سلامتی'' کے نام پر امریکی حکمران طبقے کے جرائم کی پردہ پوشی بھی کرتا رہتا ہے۔ تاہم کوئی امریکی یہ جرائم منظر عام پر لانے کا تہیہ کرلے، تو عموماً کوئی اسے روک نہیں پاتا۔ انہی دلیر امریکیوں میں سابق امریکی فوجی، سارجنٹ جوزف ہکمین بھی شامل ہے۔پچھلے سا ل جوزف ہکمین نے ایک کتاب'' Murder at Camp Delta ''تحریر کی تھی۔ اس میں جوزف نے انکشاف کیا کہ امریکی خفیہ ایجنسی، سی آئی اے کے اہلکاروں نے گوانتانامو جیل میں تین مسلمان قیدی تشدد سے مار ڈالے۔ بعدازاں امریکی حکومت کی سر توڑ سعی رہی کہ اس ''سرکاری قتل'' کا راز افشا نہ ہونے پائے۔ جوزف نے کتاب میں یہ انکشاف بھی کیا کہ سی آئی اے نے مسلمان قیدیوں کو اپنا کارندہ بنانے کی خاطر گوانتانامو میں ایک خفیہ مرکز تعمیر کررکھا تھا جہاں اعلیٰ ہائش سہولیات دستیاب تھیں۔

اب جوزف ہکمین نے نئی کتاب "The Burn Pits: The Poisoning of America's Soldiers" لکھ کر امریکی حکمران طبقے کا ایک اور جرم افشا کیا ہے... یہ کہ افغانستان اور عراق میں غیر قانونی آتشی الاؤ تعمیر کرکے ہزارہا فوجیوں اور مقامی شہریوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال دی گئیں۔ مقصد یہی تھا کہ حکمران طبقے کومالی فوائد پہنچ سکیں۔ اور جب آتشی الاؤ کی خرابیاں سامنے آئیں تو امریکی حکومت ہر ممکن کوشش کرتی رہی کہ وہ افشا نہ ہوسکیں۔ کتاب میں جو چونکا دینے والے انکشاف کیے گئے ، ان کا بیان درج ذیل ہے:

اقوام متحدہ اور امریکی حکومت کا دباؤ
جب یہ چرچا پھیلا کہ آتشی الاؤ کا زہریلا دھواں انسانوں میں بیماریاں پھیلا رہا ہے، تو کئی غیر جانبدار امریکی ڈاکٹروں نے ان جگہوں کا دورہ کیا جہاں یہ الاؤ واقع تھے۔ ان میں ایرانی نژاد امریکی ماہر سمیات(environmental toxicologist) ڈاکٹر مژگان اصفہانی بھی شامل تھیں۔ ان ڈاکٹروں کی تحقیق نے افشا کیا کہ آتشی الاؤ کے نزدیک رہنے والے بہت سے افغان اور عراقی باشندے پیدائشی نقائض (Birth Defects) کینسر، خونی سرطان (لیکومیا) اور دیگر سرطانی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ اس تحقیق نے امریکا میں خاصی ہلچل پیدا کردی۔



اس تحقیق کے اثرات کم کرنے کے لیے امریکی حکومت نے پھر ایک چال چلی۔ اس نے اقوام متحدہ کے ادارے، WHO (ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن) کے ڈاکٹروں سے ایک تحقیق کرائی۔ اس تحقیق میں دعویٰ کیا گیا کہ آتشی الاؤ کا دھواں انسانوں میں محض وقتی منفی اثرات پیدا کرتا ہے اور یہ اثرات علاج سے دور ہو جاتے ہیں۔یہ حقیقت اقوام متحدہ میں امریکی اثرورسوخ عیاں کرتی ہے۔

فوجیوں اور سیاست دانوں کا گٹھ جوڑ
جب کئی فوجیوں کا مناسب علاج نہیں ہوا، تو انہوں نے اپنے اپنے علاقے کے سینڑوں اور ارکان ایوان نمائندگان سے رابطہ کیا تاکہ وہ حکومت پر تنقید اور ان کی حالت زار سے سبھی کو آگاہ کریں۔ لیکن 99 فیصد سینٹر اور ارکان ایوان نمائندگان چپ سادھ کر بیٹھ گئے۔خاموشی کی وجہ یہ ہے کہ بیشتر امریکی سیاست دانوں نے نجی عسکری کمپنیوں میں سرمایہ کاری کررکھی ہے۔ لہٰذا وہ ان پر تنقید کرکے اپنے سرمائے سے محروم نہیں ہونا چاہتے۔

احتساب سے ماورا فوج
ایک امریکی وفاقی قانون کے مطابق دوران جنگ غلطیوں کا ذمے دار امریکی فوج کو نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ گویا امریکی فوج جنگوں میں جو چاہے کرتی پھرے، بعدازاں اس کا احتساب نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے، امریکی وزارت دفاع میں نازک معاملات لٹک جاتے ہیں اور ان پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔

مثال کے طور پر جنگ ویت نام میں امریکی فوج نے ویت نام، کمبوڈیا اور لاؤس کے وسیع علاقے پر ''ایجنٹ اورنج'' نامی کیمیائی مادہ چھڑکا تھا۔ مدعا یہ تھا کہ یہ مادہ درختوں اور جھاڑیوں کو ختم کرڈالے اور جنگجوؤں کو چھپنے کی آڑ میسر نہ آئے۔ لیکن اس کیمیائی مادے نے ''چالیس لاکھ'' ویت نامیوں اور ''چالیس ہزار'' امریکی فوجیوں کو خطرناک بیماریوں میں مبتلا کردیا۔ حتیٰ کہ اس کیمیکل کی وجہ سے معذور بچے تولد ہوئے۔چالیس ہزار امریکی فوجیوں نے اپنی حکومت کو معذوری کلیم دیئے مگر اب تک صرف ''5 فیصد'' فوجی ہی رقم پاسکے ہیں۔ بقیہ فوجیوں کا معاملہ لٹکا ہوا ہے۔ اس دوران کئی فوجی اگلے جہان پہنچ چکے۔

وسل بلوئر کی جان کو خطرہ
آتشی الاؤ تعمیر کرنے والی کمپنی، کے بی آر کے ایک اہل کار کو احساس ہوگیا کہ یہ الاؤ مضر صحت دھواں خارج کرتے ہیں۔ اس نے پھر ساتھیوں کو بتایا کہ وہ یہ انکشاف میڈیا کے سامنے پیش کر سکتا ہے۔ لیجیے جناب، کے بی آر کی انتظامیہ پنجے جھاڑ کر اس اہل کار کے پچھے پڑگئی۔ اسے دھمکی دی گئی کہ اگر اس نے میڈیا کو کچھ بتایا، تو وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ چناں چہ اہل کار کو مجبوراً خاموشی اختیار کرنا پڑی۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ جو امریکی وسل بلوئر اپنی حکومت یا بااثر طبقے کے جرائم کا پردہ چاک کرے، اسے معتوب بنا دیا جاتا ہے۔ وہ پھر غدار قرار پاتا ہے۔ بریڈلے میننگ اور ایڈورڈ سنوڈن اس ضمن میں نمایاں مثالیں ہیں۔

نائب صدر کا بیٹا بھی مقتول ہوا
امریکا کے نائب صدر، جو بائیڈن کا ہونہار اور پرکشش بیٹا، بیوبائیڈن بھی 2008ء تا 2009ء عراق کی جوائنٹ بیس بلد میں تعینات رہا۔ جب وہ واپس آیا، تو جلد ہی دماغ کے کینسر میں مبتلا ہوگیا۔ جوزف ہکمین کا دعویٰ ہے کہ آتشی الاؤ کے زہریلے دھوئیں ہی نے تندرست بیوبائیڈن کو راتوںراست کینسرمیں مبتلا کردیا۔ یوں ایک ہنستا کھیلتا اور خوشیوں سے بھر پور نوجوان جلتے الاؤ کی آلودگی سے موت کے گھاٹ اترگیا۔ اس کی ناگہانی موت نے پورے خاندان کوجیتے جی زندہ درگور کردیا۔ وہ دو خوبصورت بچوں کا باپ تھا۔
Load Next Story