مفلوک الحال انسانوں کے جنگل میں سفاری
یہ غریب لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید مہنگائی زیادہ ہو گئی ہے حالانکہ ہوتا یہ ہے کہ حکمرانوں کی ہوس بڑھ چکی ہوتی ہے
یہ وہ بے حس لوگ ہیں جنھیں سب معلوم ہے کہ وہ قرضہ جو وہ اپنی انا کی تسکین کے لیے بنائے گئے منصوبوں کے لیے لیتے ہیں اسے کون روزانہ ادا کر رہا ہے۔ انھیں اچھی طرح علم ہے کہ جس قرض پر یہ اتنی آسانی سے دستخط کر دیتے ہیں اور ان کی روح نہیں کانپتی اسے پٹرول پمپ پر آنے والا رکشہ ڈرائیور، چنگ چی کا مالک یا موٹر سائیکل والا ادا کر رہا ہوتا ہے جو جیب سے تڑے مڑے پسینہ زدہ نوٹ نکالتا ہے اور بعض دفعہ یہی اس کی کل کائنات ہوتی ہے۔
ایسے ہی مفلوک الحال اور غربت زدہ چہرے آپ کو ہر شہر، بستی اور قریے میں لاتعداد نظر آئیں گے، ان بے چاروں کو علم تک نہیں کہ یہ جو چمکتی ہوئی موٹروے ہے، تیزی سے مکمل ہونے والی میٹروبس سروس ہے یا پھر انھیں کے ٹھکانے گرا کر انھیں بے آسرا کر کے جو اورنج ٹرین بنائی جا رہی ہے، ان سارے اللے تللوں کا قرضہ یہ لٹے پٹے عوام ادا کر رہے ہیں۔ یہ لوگ جب صرف زندگی کی سانسیں بحال رکھنے کے لیے آٹا، دال، گھی، چینی وغیرہ خرید رہے ہوتے ہیں تو ان کو علم تک نہیں ہوتا کہ ان اشیاء کی قیمتوں میں ٹیکس بھی شامل ہوتا ہے۔
یہ غریب لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید مہنگائی زیادہ ہو گئی ہے حالانکہ ہوتا یہ ہے کہ حکمرانوں کی ہوس بڑھ چکی ہوتی ہے۔ ان کا قرضہ لے کر عیاشی کرنے کا جنون زیادہ ہو چکا ہوتا ہے۔ اس لیے اشیاء کی قیمتوں پر ٹیکس لگا کر عام آدمی سے قرض اتارنے کے لیے پیسہ اکٹھا نہیں بلکہ لوٹا جاتا ہے۔ یہ قومی قرضہ بھی ایک ایسی لعنت ہے جو قومی ریاستیں بننے کے ساتھ سودی بینکاری نظام نے عطا کی۔ عالمی مالیاتی نظام کے وجود میں آنے سے قبل انسانوں کے انفرادی قرضے ہوتے تھے جو وہ اپنی ضروریات کے لیے لیتے تھے لیکن قومی قرضوں کا کوئی وجود نہیں تھا۔
اسی برصغیر پاک و ہند پر 1947ء سے قبل کوئی قومی قرضہ نہیں تھا جب کہ یہاں بہترین ریلوے بنی، نہروں کا جال بچھایا گیا، تعلیمی ادارے قائم کیے گئے، انسانوں اور جانوروں کے اسپتال بنے، مال روڈ لاہور کی عمارتوں کو ہی ذہن میں لایا جائے اور ایسی ہی عمارتوں کا کلکتہ، بمبئی، دلی، مدراس وغیرہ میں سوچا جائے تو یہ سب کچھ کسی عالمی قرضے کے بغیر بن گیا تھا۔ الٹا یہ کہ ہر سال اس برصغیر و ہند سے پانچ کروڑ پونڈ برطانیہ بھیجے جاتے تھے تا کہ وہاں عیاشیاں کی جا سکیں۔ اسی ہندوستان میں سے جدا ہونے والی مملکت خداداد پاکستان کا ہر شہری خواہ وہ ایک دن کا بچہ ہو یا نوے سال کا بوڑھا آج ایک لاکھ روپے کا مقروض ہو چکا ہے۔ ہمارا کل قرضہ 181 کھرب روپے ہے۔
حیرت میں ڈوب جائیے کہ ان میں 121 کھرب روپے ہم نے باہر کی دنیا سے نہیں مانگے بلکہ اپنے ہی ملک کے بینکوں سے ادھار لیے ہیں۔ وہ بینک جن میں اس قوم کے غریب عوام نے اپنی جمع پونجی رکھی ہوتی ہے اور لالچ یہ ہوتا ہے کہ اس پر انھیں سود ملے گا۔ حکومت وہ ساری جمع پونجی لے لیتی ہے، اس سے اپنی مرضی کے شاہ خرچیوں والے منصوبے بناتی ہے۔ اس پر ظلم کی بات یہ کہ وہ عوام جن سے یہ قرض لیا ہوتا ہے ان کو واپس ادا کرنے کے لیے انھیں پر ٹیکس لگایا جاتا ہے یعنی پہلے عوام کی جمع پونجی ان سے چھینی جاتی ہے کہ یہ قرض ہے اور ہم ادا کر دینگے۔ پھر ان کی روزمرہ آمدن کا ایک حصہ چھین کر انھیں واپس کیا جاتا ہے کہ یہ لو تمہارے قرضے کی قسط یہ ہے۔
یہ ہے اس مالیاتی نظام کی مضحکہ خیز صورتحال۔ یہ بھکاری حکمران کونسا ایسا دروازہ نہیں جہاں کشکول لے کر کھڑے نہ ہوتے ہوں۔ 121 کھرب مقامی قرضوں کے علاوہ انھوں نے 51 ارب ڈالر دنیا بھر سے لے رکھے ہیں جنھیں ہم سب نے نہیں بلکہ ہماری نسلوں نے بھی ادا کرنا ہے۔ ان قرضوں سے ہمارے یہ حکمران ہمیں تعلیم مہیا نہیں کرتے، صحت کی سہولیات نہیں دیتے، پینے کا صاف پانی میسر نہیں کرتے، روزگار میں اضافہ نہیں کرتے بلکہ اپنے شوق کی تکمیل کے لیے کبھی موٹروے بناتے ہیں تو کبھی مری کی روڈ کو خوبصورت، ایئرپورٹ شاندار ہو جاتے ہیں یا میٹروبس کا تحفہ لاہور اور راولپنڈی کو مل جاتا ہے اور اب اورنج ٹرین۔
گندم جو بنیادی ضرورت ہے جسے حکومت ایک مقرر کردہ قیمت پر خریدتی ہے تا کہ کسانوں کو نقصان نہ ہو اور لوگوں کو گندم میسر رہے۔ اس کے لیے بینک سے قرضہ لے کر خریداری ہوتی ہے اور پھر وہ گندم بیچ کر ادائیگی کی جاتی ہے۔ اسے مالیاتی نظام میں فوڈ اکاؤنٹ کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے سارے مالی اثاثے دو حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔ فوڈ اکاؤنٹ اور نان فوڈ اکاؤنٹ۔ اس فوڈ اکاؤنٹ کے گردشی قرضے 120 ارب روپے ہو چکے ہیں اور اس سال اپریل میں حکومت کے پاس گندم خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہوں گے۔
اس غربت، افلاس، مجبوری، بیماری اور بے روزگاری کے موسم میں مبارک ہو کہ ہم نے قرضہ لے کر لاہور کے شہریوں کو پہلے میٹروبس کا تحفہ دیا، پھر راولپنڈی والوں کو ایسا ہی تحفہ دیا گیا اور اب اورنج ٹرین کے لیے جھولیاں بھر کر قرضہ لیا جا رہا ہے۔ عالم یہ ہے کہ سال کے آغاز میں آپ بجٹ پیش کرتے ہیں۔ وزیر خزانہ تقریر کرتے ہیں کہ ہم نے تعلیم، صحت، صاف پانی وغیرہ کے لیے اتنے زیادہ پیسے رکھے ہیں، تالیاں بجتی ہیں، اداریے لکھے جاتے ہیں۔ لیکن یہ سب سرمایہ میٹروبس اور اورنج ٹرین جیسے منصوبوں کو منتقل کر دیا جاتا ہے۔
لاہور میں جب میٹروبس بنائی جا رہی تھی تو 2011-12ء کے بجٹ میں جن اسکیموں کے پیسے اس میٹروبس کو دیے گئے۔ اس میں صوبے میں صاف پانی کی اسکیمیں، کوئلے سے بجلی بنانے کی اسکیمیں، پسماندہ علاقوں کی لنک روڈ کی اسکیمیں، جنوبی پنجاب کے چولستان کی معاشرتی حالت بہتر بنانے کی اسکیمیں، جنوبی پنجاب کے غربت کے خاتمے کی اسکیمیں، چھوٹے ڈیم بنانے کی اسکیمیں، ان سب کے فنڈز میٹروبس پر لگا دیے گئے۔ اسپتال دوائیوں سے محروم کر دیے گئے اور اسکول اجڑتے چلے گئے، پورے کا پورا صوبہ محروم ہوتا چلا گیا۔ لیکن شہر لاہور کے شہریوں کو میٹروبس کی ایئرکنڈیشنڈ سواری مل گئی۔
قرضہ لے کر اپنی مغلیہ خواہشات کی تکمیل کرنے والے حکمرانوں کو اس بات کی پروا نہیں کہ یہ قرضہ اس قوم اور اس کی نسلوں نے ادا کرنا ہے۔ انھیں تو اس بات کی بھی پرواہ نہیں کہ اس سرمائے سے عوام کے لیے ایسے منصوبے ہی بنا لیے جائیں جن سے ان کو تعلیم میسر ہو، صحت بہتر ہو، پینے کا صاف پانی ہی مل جائے۔ اورنج ٹرین منصوبے پر 6 ارب فی کلو میٹر خرچ کیے جائیں گے۔ اس کے کرائے میں سبسڈی کے لیے 14 کروڑ روپے صرف ہوں گے۔ اس کی دیکھ بھال پر 4 کروڑ روپے لگیں گے اور 10 کروڑ قرضے میں چکائے جائیں گے۔ یعنی 28 کروڑ روپے ماہانہ جو 28 ارب روپے سالانہ بنتے ہیں۔
جو ڈھائی لاکھ لوگ اس پر سفر کریں گے، ان پر اس منصوبے کی تعمیر کی فی کس لاگت 6 لاکھ پچاس ہزار روپے بنتی ہے جب کہ پانچ لاکھ 50 ہزار میں ایک سوزوکی مہران خریدی جا سکتی ہے۔ اس سارے سرمائے سے شوکت خانم اسپتال جیسے 41 اسپتال تعمیر کیے جا سکتے ہیں۔ اس سرمائے سے ہر ضلع میں 300 اسکول بنائے جا سکتے ہیں۔ یعنی پورے پنجاب میں دس ہزار نئے اسکول قائم ہو جاتے ہیں۔ پنجاب میں ہم تعلیم پر 600 روپے فی کس خرچ کرتے ہیں۔
صحت پر فی کس 500/- روپے خرچ کرتے ہیں جب کہ اورنج ٹرین کا فی کس قرضہ ہی 1600 روپے ہے۔ یہ ہیں ہماری ترجیحات، یہ ہے ہماری پلاننگ اور یہ ہے ہمارے حکمرانوں کا اس قوم کو آگے لے جانے کا وژن۔ کہتے ہیں جہاں سے سڑک گزرتی ہے وہاں ترقی خود بخود آتی ہے۔ آج سے بیس سال پہلے لاہور سے اسلام آباد تک موٹروے بچھائی گئی تھی۔ آج بیس سال گزرنے کے بعد بھی آپ کو موٹروے کے ایک جانب کروڑوں بھوکے، ننگے، نادار اور مفلوک الحال افراد نظر آئیں گے اور موٹروے کے دوسری جانب بھی۔
کبھی کبھی ان تمام اسکیموں کو دیکھ کر یہ احساس ہوتا ہے جیسے ہم سفاری ایکسپریس وے بنا رہے ہیں۔ افریقہ کے جنگلوں میں شاندار سڑک بنائی گئی ہے کہ ہم چیتے، شیر یا دیگر جانور ایئرکنڈیشنڈ گاڑیوں میں بیٹھے دیکھ سکیں۔ اسی طرح ہم موٹروے پر سفر کرتے ہوئے، میٹروبس یا اورنج ٹرین میں بیٹھے ہوئے جانور نہیں بلکہ غریب اور مفلوک الحال انسانوں کو دیکھتے ہیں جو بیمار ہیں، بے روزگار ہیں، مفلس و نادار ہیں، انھیں نہ پینے کا صاف پانی ملتا ہے، نہ تعلیم اور نہ صحت۔ کیا خوبصورت سفر ہے نا ان تمام سہولیات سے عاری انسانوں کے درمیان۔
ایسے ہی مفلوک الحال اور غربت زدہ چہرے آپ کو ہر شہر، بستی اور قریے میں لاتعداد نظر آئیں گے، ان بے چاروں کو علم تک نہیں کہ یہ جو چمکتی ہوئی موٹروے ہے، تیزی سے مکمل ہونے والی میٹروبس سروس ہے یا پھر انھیں کے ٹھکانے گرا کر انھیں بے آسرا کر کے جو اورنج ٹرین بنائی جا رہی ہے، ان سارے اللے تللوں کا قرضہ یہ لٹے پٹے عوام ادا کر رہے ہیں۔ یہ لوگ جب صرف زندگی کی سانسیں بحال رکھنے کے لیے آٹا، دال، گھی، چینی وغیرہ خرید رہے ہوتے ہیں تو ان کو علم تک نہیں ہوتا کہ ان اشیاء کی قیمتوں میں ٹیکس بھی شامل ہوتا ہے۔
یہ غریب لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید مہنگائی زیادہ ہو گئی ہے حالانکہ ہوتا یہ ہے کہ حکمرانوں کی ہوس بڑھ چکی ہوتی ہے۔ ان کا قرضہ لے کر عیاشی کرنے کا جنون زیادہ ہو چکا ہوتا ہے۔ اس لیے اشیاء کی قیمتوں پر ٹیکس لگا کر عام آدمی سے قرض اتارنے کے لیے پیسہ اکٹھا نہیں بلکہ لوٹا جاتا ہے۔ یہ قومی قرضہ بھی ایک ایسی لعنت ہے جو قومی ریاستیں بننے کے ساتھ سودی بینکاری نظام نے عطا کی۔ عالمی مالیاتی نظام کے وجود میں آنے سے قبل انسانوں کے انفرادی قرضے ہوتے تھے جو وہ اپنی ضروریات کے لیے لیتے تھے لیکن قومی قرضوں کا کوئی وجود نہیں تھا۔
اسی برصغیر پاک و ہند پر 1947ء سے قبل کوئی قومی قرضہ نہیں تھا جب کہ یہاں بہترین ریلوے بنی، نہروں کا جال بچھایا گیا، تعلیمی ادارے قائم کیے گئے، انسانوں اور جانوروں کے اسپتال بنے، مال روڈ لاہور کی عمارتوں کو ہی ذہن میں لایا جائے اور ایسی ہی عمارتوں کا کلکتہ، بمبئی، دلی، مدراس وغیرہ میں سوچا جائے تو یہ سب کچھ کسی عالمی قرضے کے بغیر بن گیا تھا۔ الٹا یہ کہ ہر سال اس برصغیر و ہند سے پانچ کروڑ پونڈ برطانیہ بھیجے جاتے تھے تا کہ وہاں عیاشیاں کی جا سکیں۔ اسی ہندوستان میں سے جدا ہونے والی مملکت خداداد پاکستان کا ہر شہری خواہ وہ ایک دن کا بچہ ہو یا نوے سال کا بوڑھا آج ایک لاکھ روپے کا مقروض ہو چکا ہے۔ ہمارا کل قرضہ 181 کھرب روپے ہے۔
حیرت میں ڈوب جائیے کہ ان میں 121 کھرب روپے ہم نے باہر کی دنیا سے نہیں مانگے بلکہ اپنے ہی ملک کے بینکوں سے ادھار لیے ہیں۔ وہ بینک جن میں اس قوم کے غریب عوام نے اپنی جمع پونجی رکھی ہوتی ہے اور لالچ یہ ہوتا ہے کہ اس پر انھیں سود ملے گا۔ حکومت وہ ساری جمع پونجی لے لیتی ہے، اس سے اپنی مرضی کے شاہ خرچیوں والے منصوبے بناتی ہے۔ اس پر ظلم کی بات یہ کہ وہ عوام جن سے یہ قرض لیا ہوتا ہے ان کو واپس ادا کرنے کے لیے انھیں پر ٹیکس لگایا جاتا ہے یعنی پہلے عوام کی جمع پونجی ان سے چھینی جاتی ہے کہ یہ قرض ہے اور ہم ادا کر دینگے۔ پھر ان کی روزمرہ آمدن کا ایک حصہ چھین کر انھیں واپس کیا جاتا ہے کہ یہ لو تمہارے قرضے کی قسط یہ ہے۔
یہ ہے اس مالیاتی نظام کی مضحکہ خیز صورتحال۔ یہ بھکاری حکمران کونسا ایسا دروازہ نہیں جہاں کشکول لے کر کھڑے نہ ہوتے ہوں۔ 121 کھرب مقامی قرضوں کے علاوہ انھوں نے 51 ارب ڈالر دنیا بھر سے لے رکھے ہیں جنھیں ہم سب نے نہیں بلکہ ہماری نسلوں نے بھی ادا کرنا ہے۔ ان قرضوں سے ہمارے یہ حکمران ہمیں تعلیم مہیا نہیں کرتے، صحت کی سہولیات نہیں دیتے، پینے کا صاف پانی میسر نہیں کرتے، روزگار میں اضافہ نہیں کرتے بلکہ اپنے شوق کی تکمیل کے لیے کبھی موٹروے بناتے ہیں تو کبھی مری کی روڈ کو خوبصورت، ایئرپورٹ شاندار ہو جاتے ہیں یا میٹروبس کا تحفہ لاہور اور راولپنڈی کو مل جاتا ہے اور اب اورنج ٹرین۔
گندم جو بنیادی ضرورت ہے جسے حکومت ایک مقرر کردہ قیمت پر خریدتی ہے تا کہ کسانوں کو نقصان نہ ہو اور لوگوں کو گندم میسر رہے۔ اس کے لیے بینک سے قرضہ لے کر خریداری ہوتی ہے اور پھر وہ گندم بیچ کر ادائیگی کی جاتی ہے۔ اسے مالیاتی نظام میں فوڈ اکاؤنٹ کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے سارے مالی اثاثے دو حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔ فوڈ اکاؤنٹ اور نان فوڈ اکاؤنٹ۔ اس فوڈ اکاؤنٹ کے گردشی قرضے 120 ارب روپے ہو چکے ہیں اور اس سال اپریل میں حکومت کے پاس گندم خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہوں گے۔
اس غربت، افلاس، مجبوری، بیماری اور بے روزگاری کے موسم میں مبارک ہو کہ ہم نے قرضہ لے کر لاہور کے شہریوں کو پہلے میٹروبس کا تحفہ دیا، پھر راولپنڈی والوں کو ایسا ہی تحفہ دیا گیا اور اب اورنج ٹرین کے لیے جھولیاں بھر کر قرضہ لیا جا رہا ہے۔ عالم یہ ہے کہ سال کے آغاز میں آپ بجٹ پیش کرتے ہیں۔ وزیر خزانہ تقریر کرتے ہیں کہ ہم نے تعلیم، صحت، صاف پانی وغیرہ کے لیے اتنے زیادہ پیسے رکھے ہیں، تالیاں بجتی ہیں، اداریے لکھے جاتے ہیں۔ لیکن یہ سب سرمایہ میٹروبس اور اورنج ٹرین جیسے منصوبوں کو منتقل کر دیا جاتا ہے۔
لاہور میں جب میٹروبس بنائی جا رہی تھی تو 2011-12ء کے بجٹ میں جن اسکیموں کے پیسے اس میٹروبس کو دیے گئے۔ اس میں صوبے میں صاف پانی کی اسکیمیں، کوئلے سے بجلی بنانے کی اسکیمیں، پسماندہ علاقوں کی لنک روڈ کی اسکیمیں، جنوبی پنجاب کے چولستان کی معاشرتی حالت بہتر بنانے کی اسکیمیں، جنوبی پنجاب کے غربت کے خاتمے کی اسکیمیں، چھوٹے ڈیم بنانے کی اسکیمیں، ان سب کے فنڈز میٹروبس پر لگا دیے گئے۔ اسپتال دوائیوں سے محروم کر دیے گئے اور اسکول اجڑتے چلے گئے، پورے کا پورا صوبہ محروم ہوتا چلا گیا۔ لیکن شہر لاہور کے شہریوں کو میٹروبس کی ایئرکنڈیشنڈ سواری مل گئی۔
قرضہ لے کر اپنی مغلیہ خواہشات کی تکمیل کرنے والے حکمرانوں کو اس بات کی پروا نہیں کہ یہ قرضہ اس قوم اور اس کی نسلوں نے ادا کرنا ہے۔ انھیں تو اس بات کی بھی پرواہ نہیں کہ اس سرمائے سے عوام کے لیے ایسے منصوبے ہی بنا لیے جائیں جن سے ان کو تعلیم میسر ہو، صحت بہتر ہو، پینے کا صاف پانی ہی مل جائے۔ اورنج ٹرین منصوبے پر 6 ارب فی کلو میٹر خرچ کیے جائیں گے۔ اس کے کرائے میں سبسڈی کے لیے 14 کروڑ روپے صرف ہوں گے۔ اس کی دیکھ بھال پر 4 کروڑ روپے لگیں گے اور 10 کروڑ قرضے میں چکائے جائیں گے۔ یعنی 28 کروڑ روپے ماہانہ جو 28 ارب روپے سالانہ بنتے ہیں۔
جو ڈھائی لاکھ لوگ اس پر سفر کریں گے، ان پر اس منصوبے کی تعمیر کی فی کس لاگت 6 لاکھ پچاس ہزار روپے بنتی ہے جب کہ پانچ لاکھ 50 ہزار میں ایک سوزوکی مہران خریدی جا سکتی ہے۔ اس سارے سرمائے سے شوکت خانم اسپتال جیسے 41 اسپتال تعمیر کیے جا سکتے ہیں۔ اس سرمائے سے ہر ضلع میں 300 اسکول بنائے جا سکتے ہیں۔ یعنی پورے پنجاب میں دس ہزار نئے اسکول قائم ہو جاتے ہیں۔ پنجاب میں ہم تعلیم پر 600 روپے فی کس خرچ کرتے ہیں۔
صحت پر فی کس 500/- روپے خرچ کرتے ہیں جب کہ اورنج ٹرین کا فی کس قرضہ ہی 1600 روپے ہے۔ یہ ہیں ہماری ترجیحات، یہ ہے ہماری پلاننگ اور یہ ہے ہمارے حکمرانوں کا اس قوم کو آگے لے جانے کا وژن۔ کہتے ہیں جہاں سے سڑک گزرتی ہے وہاں ترقی خود بخود آتی ہے۔ آج سے بیس سال پہلے لاہور سے اسلام آباد تک موٹروے بچھائی گئی تھی۔ آج بیس سال گزرنے کے بعد بھی آپ کو موٹروے کے ایک جانب کروڑوں بھوکے، ننگے، نادار اور مفلوک الحال افراد نظر آئیں گے اور موٹروے کے دوسری جانب بھی۔
کبھی کبھی ان تمام اسکیموں کو دیکھ کر یہ احساس ہوتا ہے جیسے ہم سفاری ایکسپریس وے بنا رہے ہیں۔ افریقہ کے جنگلوں میں شاندار سڑک بنائی گئی ہے کہ ہم چیتے، شیر یا دیگر جانور ایئرکنڈیشنڈ گاڑیوں میں بیٹھے دیکھ سکیں۔ اسی طرح ہم موٹروے پر سفر کرتے ہوئے، میٹروبس یا اورنج ٹرین میں بیٹھے ہوئے جانور نہیں بلکہ غریب اور مفلوک الحال انسانوں کو دیکھتے ہیں جو بیمار ہیں، بے روزگار ہیں، مفلس و نادار ہیں، انھیں نہ پینے کا صاف پانی ملتا ہے، نہ تعلیم اور نہ صحت۔ کیا خوبصورت سفر ہے نا ان تمام سہولیات سے عاری انسانوں کے درمیان۔