باجوڑ ایجنسی کے محب وطن قبائل مسیحا کے منتظر

قبائلی علاقے ایک طویل عرصہ سے پاکستان کی بقاء اور سالمیت کی جنگ لڑ رہے ہیں

قبائلی علاقے ایک طویل عرصہ سے پاکستان کی بقاء اور سالمیت کی جنگ لڑ رہے ہیں جب بھی پاکستان کو ان کی ضرورت محسوس ہوئی انھوں نے کبھی انکار نہیں کیا جب بھی اورجہاں بھی پاکستان کو مشکل پیش آئی انھوں نے اپنی خدمات پیش کیں ۔جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو قبائلی علاقے اور محب وطن قبائلی پریشانی سے دوچار ہوگئے، جب کچھ عرصہ قبائلی علاقوں میں سکون رہا تب کسی نے ان کا معیار زندگی بہتر بنانے اور انھیں قومی دھارے میں شامل کرنے کی عملی کوشش نہیں کی جب حالیہ دہشت گردی کا آغاز ہوا تو قبائلی قصور وار ٹھہرائے گئے۔

یہی قبائل اپنے گھروں سے بے گھر ہوئے،اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی چھوڑ چھاڑ کر کیمپوں میں مقیم رہے اب بھی ہزاروں قبائل کیمپوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں ان کے بچے تعلیم سے محروم اور وہ پاکستان کے لیے سب کچھ قربان کر دینے کا عزم اور ایک محفوظ مستقبل کا خواب لیے اس امید پر جی رہے ہیں کہ پاکستانی ان کی قربانیوں کا لحاظ کریں گے اور انھیں اپنا جانیں گے۔سیاسی جماعتوں کی کوششوںسے اگرچہ قبائلی علاقوں میں پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ نافذ کیاگیا لیکن ایف سی آر کا کالا قانون ختم نہ کیا جا سکا،قبائلیوں کو اپنے حق کے لیے عدالتوں تک رسائی نہ مل سکی۔

مجھے 1983ء کے وہ دن یاد ہیں جب ہر اتوار کے دن پاکستان ریلوے کی خصوصی ٹرین کالے انجنوں کے ساتھ لنڈی کوتل کے لیے چلا کرتی تھی نہ صرف پاکستانی بلکہ بیرونی ممالک سے سیاح بھی دنیا کا خوبصورت، یادگار اور حیرت انگیز سفر کیا کرتے تھے۔چھک چھک کرتی ٹرین خراماں خراماں اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہوتی تو وہ مناظر زندگی بھر کے لیے دل و دماغ میں رچ بس جاتے ۔قبائلی جس خلوص کے ساتھ اپنے مہمانوں کا استقبال کرتے اس کی یادیں کبھی فراموش نہ کی جا سکیں گی اور پھر قبائلی علاقوں میں جانا بھی خطرناک ہو گیا اور تو اور آج کل پشاور سمیت خیبر پختون خوا میں کوئی غیر ملکی ویزہ لینے کے باوجود وفاقی حکومت کے این او سی بناء داخل نہیں ہو سکتا۔

بہرطور قبائلی علاقوں میں اب آپریشن ضرب عضب جاری ہے سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے نتیجے میں امن کی توقع ہے اور قبائلی اپنی فوج سے خاصی امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ قبائلی علاقوں سے متعلق لکھنے کی تحریک اس لیے ہوئی کہ گذشتہ دنوں باجوڑ ایجنسی جانے کا اتفاق ہوا، یہ ایجنسی صوبہ خیبر پختون خوا کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ اس کے شمال میں ضلع دیر پائیں، جنوب میں مہمند ایجنسی ، مشرق میں ضلع ملاکنڈ اور مغرب میں افغانستان کا صوبہ کنڑ واقع ہے۔

ایجنسی ہیڈ کوارٹر جانے کے لیے دو راستے استعمال ہوتے ہیں ایک تو چارسدہ روڈ سے ہوتے ہوئے مہمند ایجنسی کے ذریعے یہاں تک پہنچا جا سکتا ہے جس کے لیے زیادہ سے زیادہ اڑھائی گھنٹے لگتے ہیں لیکن ایک تو آدھی سڑک بنا کر باقی کام چھوڑ دیا گیا ہے معلوم نہیں کہ باقی کی سڑک کون بنائے گا دوسرا مہمند ایجنسی میں دھماکے کی وجہ سے کچھ عرصہ یہ سڑک ٹریفک کے لیے بند رکھی گئی جس کے باعث پشاور سے مردان، مالاکنڈ اور دیر لوئر سے ہوتے ہوئے چھ گھنٹوں میں خار تک کا سفر مکمل ہوا ۔ 1290مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلے اس علاقے کی کل آبادی تقریباََ 19 لاکھ ہے۔


اِنتظامی طور پر ایجنسی کو دو سب ڈویژنز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک سب ڈویژن کو خار جب کہ دوسرے کو ناواگئی کہا جاتا ہے۔ خار ایجنسی کا صدر مقام بھی ہے۔ جہاں ایجنسی کے تمام مرکزی دفاتر واقع ہیں۔ بنیادی طور پر یہاں دو بڑی اقوام ترکھانی اور اتمان خیل آباد ہیں۔ باجوڑ ایجنسی کے زیادہ تر مکینوں کا ذریعہ معاش زراعت اور گلہ بانی سے وابستہ ہے ۔اس کے علاوہ ایجنسی کے اکثر نوجوان محنت مزدوری کے لیے پنجاب اوربیرون ممالک کا رُخ کرتے ہیں۔ خوبصورت وادیوں اور سرسبز و شاداب پہاڑوں کی سرزمین باجوڑ ایجنسی، یہاں پر کھلنے والے خوبصورت پھولوں کے لیے خصوصی شہرت رکھتی ہے۔

دل کش نظاروں کے ساتھ ساتھ قدرت نے اس خطے کو قدرتی وسائل سے بھی خوب مالا مال کر رکھا ہے۔ ماربل، کرومائیٹ، منگنیز ، قیمتی پتھر اور دیگر کئی معدنیات یہاں کثیر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ ان معدنیات کی کان کنی، ترسیل اور خریدوفروخت سے بھی یہاں کے کافی مکینوں کا ذریعہ معاش وابستہ ہے۔ معدنیات کے ساتھ ساتھ قدرت نے باجوڑ ایجنسی کو خوبصورت وادیوں اور دلکش نظاروں سے بھی نوازا ہے۔ وادی پشت، ماموند وادی، چارمنگ وادی ، وادی ارنگ اور برنگ کی سرسبز زمینیں اور پہاڑ اپنے اندر دل موہ لینے والی خوبصورتی سمیٹے ہوئے ہیں۔

سردیوں کے موسم میں کوہِ مور اور دیگر پہاڑی سلسلوں پر برف کی چادر ان وادیوں کے حسن کو مزید دوبالا کر دیتی ہے، باجوڑ ایجنسی کے دلکش نظاروں میں سے ایک نظارہ دریائے سوات اور دریائے پنجکوڑہ کا سنگم بھی ہے۔ تحصیل برنگ میں واقع سیلیے پٹے کے مقام پر خوبصورت پہاڑوں کی درمیان ان دونوں دریاؤں کا ملاپ قدرت کے حسین نظاروں میں سے ایک ہے۔

یہاں کے لوگ دوسرے قبائلی ایجنسیوں کی نسبت زیادہ پر امن تصور کیے جاتے ہیں۔ تاہم بدقسمتی سے چند سال قبل عسکریت پسندی کے اثرات یہاں بھی منتقل ہوئے مگر مشکل حالات کے باوجود باجوڑ کے غیرت مند قبائیلی عوام نے صبر اور استقامت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور حکومت کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر علاقے سے عسکریت پسندی کا خاتمہ کیا۔

آج باجوڑ ایجنسی میں دوبارہ وہی چہل پہل تو نظر آنا شروع ہوگئی ہے لیکن سڑک کنارے آپ کو بے شمار شہیدوں کے نام بورڈز پر دکھائی دیں گے جس سے یہ اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں کہ اس ایجنسی نے قیام امن کے لیے ہزاروں قربانیاں دی ہیں، دستیاب اعداد و شمار کے مطابق 50 کے قریب مقامی ملک صاحبان نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے اس ایجنسی کے15 سو سے زیادہ غیور عوام نے قربانیاں دیں ۔لیویز کے55 اہل کاروں نے جام شہادت نوش کیا،فوج اور فرنٹئیر کانسٹیبلری کے سیکڑوں اہل کار مادر وطن پر قربان ہو گئے۔

یہ قربانیاں صرف اس بات کا تقاضا کرتی تھیں اور ہیں کہ باجوڑ ایجنسی کو پھر سے پھولوں کی سرزمین بنایا جائے لیکن اس ایجنسی سے شوکت اللہ کو گورنر بنایا گیا وہ کچھ عرصہ گورنر رہے لیکن کچھ زیادہ اپنے علاقے کے لیے نہیں کر سکے۔مجھے کئی مقامی مشران ملے وہ تو کچھ نہیں مانگتے لیکن ان کی آنکھیں بہت سے سوالات پوچھتی ہیں!وہ تو کوئی گلہ بھی نہیں کرتے لیکن ان کے ماتھے کی شکنیں بہت سے شکوے کررہی ہیں! ان کے دل پاکستانیوں کے دلوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں لیکن یہ دھڑکن سنی جا سکتی ہے اور میرے عظیم باجوڑی کچھ کہے بناء اسکول چاہتے ہیں، پینے کا صاف پانی مانگتے ہیں، صحت کی سہولتیں چاہتے ہیں، کھیلوں کے ٹوٹے پھوٹے اسٹیڈیمز کی تعمیر کے درخواست گزار ہیں ،پھولوں کی سرزمین کو پھر سے پھولوں سے بھر دینا چاہتے ہیں کوئی ہے جو ان کی بھی تو سنے؟
Load Next Story