پنجاب میں خواتین کے تحفظ کا بل 2016

اس قانون کے نفاذ سے کیا عورتوں کو المناک زندگی سے واقعی نجات مل جائے گی؟

اس قانون کے نفاذ سے کیا عورتوں کو المناک زندگی سے واقعی نجات مل جائے گی؟۔ فوٹو: فائل

گزشتہ ماہ 25 فروری کو پنجاب اسمبلی نے صوبے کی خواتین کو گھریلو تشدد، نفسیاتی جذباتی دباؤ، معاشی استحصال اور سائبر کرائمز سے تحفظ فراہم کرنے کا قانون متفقہ طور پر منظور کیا۔

اس بل کے تحت گھریلو تشدد، معاشی استحصال، جذباتی و نفسیاتی تشدد، بدکلامی اور سائبر کرائمز قابل گرفت ہوں گے۔ خواتین کی شکایات کے لیے ٹال فری نمبر قائم کیا جائے گا جب کہ تحقیقات کے لیے ڈسٹرکٹ پروٹیکشن کمیٹی بنائی جائے گی۔ پروٹیکشن آفیسر شکایت ملنے کے بعد متعلقہ شخص کو مطلع کرنے کا پابند ہو گا۔ بل کے تحت پروٹیکشن آفیسر کے کام میں رکاوٹ ڈالنے پر چھے ماہ تک سزا اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ جب کہ غلط شکایت یا اطلاع پر تین ماہ کی سزا اور پچاس ہزار سے ایک لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جا سکے گا۔

بل میں خواتین پر تشدد کرنے پر جی پی ایس ٹریکر سسٹم کی تنصیب کو عدالت کے حکم سے مشروط کیا گیا ہے۔ جی پی ایس ٹریکر سسٹم والے کڑے کو بازو سے اتارنے یا اس میں ٹمپرنگ کی کوشش کرنے پر ایک سال قید اور پچاس ہزار سے دو لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے۔ تشدد کی شکار خاتون کو گھر سے بے دخل نہیں کیا جا سکے گا جب کہ عدالتی حکم پر مرد، شاکی خاتون کو تمام اخراجات فراہم کرنے کا پابند ہو گا، نان نفقہ ادا نہ کرنے پر عدالت تشدد کے مرتکب مرد کی تنخواہ سے کٹوتی کرکے ادا کر سکے گی۔

بل میں رکھی گئی ایک دلچسپ شق کے مطابق خواتین پر تشدد کرنے والے مرد کو دو دن کے لیے گھر سے بھی نکالا جا سکے گا۔ تشدد کے مرتکب افراد کو اسلحہ خریدنے اور اسلحہ لائسنس حاصل کرنے سے روکا جا سکے گا جب کہ ان کے پاس موجود اسلحہ بھی عدالت میں جمع کرانے کی ہدایت کی جا سکے گی۔

صوبے بھر میں متاثرہ خواتین کے لیے شیلٹر ہومز بنائے جائیں گے، جن میں متاثرہ خواتین اور ان کے بچوں کو بورڈنگ اور لاجنگ کی سہولت فراہم کی جائے گی جب کہ مصالحت کے لیے بھی مراکز قائم کیے جائیں گے۔ جس خاتون پر تشدد کی درخواست موصول ہو گی، اس کی تفصیلات کا باقاعدہ ڈیٹا بیس بھی مرتب کیا جائے گا۔ بل پر تمام اضلاع میں مرحلے وار عمل درآمد ہوگا، ابتداء ملتان سے ہوگی۔ یہ بل تین حصوں پر مشتمل ہے، جو کچھ یوں ہیں:

پروٹیکشن آرڈر

اس کے تحت خواتین کو ہراساں کرنے یا جسمانی تشدد کرنے والوں کے خلاف عدالت پروٹیکشن آرڈر فراہم کرے گی۔ اس آرڈر کے ذریعے عدالت اُن افراد کو پابند کر سکے گی کہ وہ خاتون سے ایک خاص فاصلے پر رہیں۔ اس کو یقینی بنانے کے لیے کہ عدالت کے پروٹیکشن آرڈر کی خلاف ورزی تو نہیں ہو رہی، تشدد کرنے والے شخص کو ایک کڑا یا کہیے کنگن پہنایا جائے گا، جو ''جی پی ایس ٹریکنگ بریسلٹ'' کہا گیا ہے تاہم اس پابندی کا اطلاق شدید خطرہ ثابت ہونے یا سنگین جرم کی صورت میں ہی ہوگا اور اس کا فیصلہ عدالت ثبوت کی بنیاد پر کرے گی۔ اس بریسلٹ کو ٹیمپر کرنے کی کوشش کی جائے تو اس کی اطلاع خودکار سسٹم کے تحت تشدد کے خلاف قائم کیے گئے سینٹرز پر ازخود ہوجائے گی، ٹیمپرنگ یا بریسلٹ کو اتارنے پر چھے ماہ سے ایک سال تک سزا اضافی ہو گی۔

ریزیڈینس آرڈر

اس آرڈ کے تحت خاتون کو اس کی مرضی کے بغیر گھر سے بے دخل نہیں کیا جاسکے گا۔ کوئی خاتون جان کے خطرے کے باعث گھر چھوڑنے پر مجبور ہو یا اسے خاندان کے افراد گھر سے نکال دیں تو ایسی صورت میں عدالت خاندان کو پابند کر سکے گی کہ خاتون کی رہائش کا متبادل بند و بست کرے یا اسے دوبارہ گھر میں رکھا جائے۔

مانیٹری آرڈر

اس آرڈر کے تحت متاثرہ خاتون قانونی چارہ جوئی پر ہونے والے اخراجات تشدد کرنے والے شخص سے حاصل کرسکیے گی۔ اس کے تحت خاتون اپنی تنخواہ یا اپنی جائداد سے ہونے والی آمدنی کو اپنے اختیار میں رکھنے اور اپنی مرضی سے خرچ کرنے پر قادر ہوگی۔وزیراعلیٰ کے امن و امان سے متعلق خصوصی مانیٹرنگ یونٹ نے خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور خواتین رکن اسمبلی کے ساتھ مل کر یہ بل تیار کیا ہے۔اس قانون پر عمل درآمد کے لیے ہر ضلعے میں وائلنس ایگینسٹ ویمن سینڑز بنائے جائیں گے۔ جنوبی ایشیا میںیہ پہلے ایسے سینٹر ہوں گے، جہاں تمام متعلقہ ادارے ایک ہی چھت کے نیچے میسر ہوں گے، جیسے پولیس پراسیکیوشن فرائنزک میڈیولیگل ماہر نفسیات اور شیلڑہوم وغیرہ۔

مانیٹرنگ یونٹ کے سربراہ سلمان صوفی کا دعویٰ ہے کہ قانون میں پروٹیکشن ریزیڈنس اور مانیٹری آرڈر کے تحت تحفظ دینے کے لیے ایک پورا نظام بنایا گیا ہے اور کسی بھی عمر کی خاتون کو کسی بھی قسم کے تشدد سے اس بل کے ذریعے تحفظ دیا جاسکے گا۔ قانون پر عمل درآمد کے لیے ہر ضلعے میں وائلنس ایگینسٹ ویمن سینڑز بنائے جا رہے ہیں۔ ان میں پولیس پراسیکیوشن فرانزک میڈیولیگل ماہر نفسیات اور شیلڑہوم شامل ہیں۔اس قانون کے تحت خواتین کے تحفظ کے لیے ضلعی کمیٹیاں بنائی جائیں گی، جو تمام مراکز میں شکایات کے اندراج کی نگرانی کریں گی اور یقینی بنائیں گی کہ پولیس تمام حقیقی شکایات کے مقدمات درج کرے۔سلمان صوفی کہتے ہیں 'غلط شکایت ثابت ہونے پر چھے ماہ سے ایک سال تک سزا ہوسکے گی لیکن ہم جو مراکز اور کمیٹیاں بنا رہے ہیں، ان سے صرف حقیقی شکایتیں ہی سامنے آسکیں گی۔

خواتین کی اکثریت ظاہر ہے کہ اس بل کے حق میں ہے جب کہ علماء اور مذہبی رجحان رکھنے والے طبقات بل کو خلافِ شریعت گردانتے ہیں۔

اسلامی نظریاتی کونسل اس بل کو اسلامی اصولوں کے خلاف قرار دے چکی ہے اس کا موقف ہے کہ اسلامی اصولوں کے خلاف بل پر قانون سازی نہیں کی جاسکتی۔ اسلامی نظریاتی کونسل کا اہم اجلاس چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی کی زیرصدارت اسلام آباد میں اجلاس میں ایجنڈے سے ہٹ کر اس بل پر بحث کی گئی۔ اجلاس کے ایجنڈے میں قرآن بورڈ کی تشکیل ، سود کا خاتمہ ، سائنسی تحقیق کے لیے نعش کے استعمال سمیت دیگر امور ایجنڈے میں شامل تھے تاہم ہنگامی طور پر صرف حقوق نسواں بل زیر غور رہا۔ کونسل کے آئندہ اجلاس میں اس معاملے پر سفارشات مرتب کی جائیںگی۔


پارلیمانی سیکریٹری برائے وویمن ڈیولپمنٹ راشدہ یعقوب نے کہا کہ تحفظ خواتین بل کے حوالے سے لوگوں میں غلط امیج پھیلایا جارہا ہے جبکہ ہم نے اپنی معاشرتی اقدار کومدنظر رکھتے ہوئے یہ بل بنایا ہے، افسوس کہ اس بل کو شوہر اور بیوی تک محدود کردیا گیا جبکہ اس میں ایسا کوئی لفظ نہیں، جس سے مرد یا شوہر کا ذکر ہو بل کہ یہ بل تشدد سے متاثرہ فرد کے لیے بنایا گیا ہے۔ ممبر پنجاب اسمبلی فرزانہ زبیر نے کہا کہ یہ مردوں کا معاشرہ ہے، عورتوں پر تشدد ہوتا ہے، میں سمجھتی ہوں اس بل کا کریڈٹ شہباز شریف کو جاتا ہے، خواتین اس بل پر خوش ہیں۔ عورت فاؤنڈیشن کی سربراہ ممتاز مغل نے کہا کہ یہ بل عدالتوں پر بوجھ کم کرے گا جبکہ تشدد کا شکار خواتین کو ایک ہی جگہ پرایف آئی آر، میڈیکل، شیلٹر و دیگر سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔علماء کی پاکستان علماء کونسل کے مسند نشیں مولانا طاہرمحمود اشرفی نے بل پر تبصرہ کیا کہ جھگڑے پرمردکو توگھر سے نکال دیا جائے گا لیکن خاندان کے دوسرے لوگ اس عورت کا جینا حرام کردیں گے اور ان حالات میں وہ مزید مسائل کا شکارہوجائے گی۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ جناب فضل الرحمٰن نے اس بل کو منظور کرنے والوں کو زن مرید ہونے کا طعنہ دے ڈالا ہے۔

بل سپریم کورٹ میں چیلنج

پنجاب اسمبلی سے منظورہونے والا تحفظ خواتین بل، تین دن بعد ہی سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیاگیا۔درخواست گزار محمود اخترنقوی نے موقف اختیارکیا ہے کہ تحفظ خواتین بل قرآن اورآئین کے خلاف ہے، اراکین صوبائی اسمبلی اس بل کو منظورکرکے قرانی احکامات کے منکر ہوئے جب کہ آئین کے تحت قرآن اور سنت کے خلاف ملک میںکوئی قانون نہیں بنایا جاسکتا۔ اس لیے اس کو کالعدم قرار دیا جائے اور ساتھ ہی گورنراور بل کے حق میں ووٹ دینے والے اراکین صوبائی اسمبلی کونا اہل قراردیا جائے۔ درخواست گزار نے وزیراعظم، گورنر، اراکین پنجاب اسمبلی اور دیگر کو بھی فریق بنایا ہے۔تین رہ نماؤں کا موقف

عورتوں پر تشدد میں اضافہ، پنجاب کا پہلا نمبر

سال 2013 میں سینٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے سامنے ایک رپورٹ پیش کی گئی تھیو جس میں میں بات سامنے آئی کہ جمہوری دور کے گزشتہ دو سال میں تین ہزار سے زیادہ عورتوں کو قتل اور ایک ہزار کو بے حرمت کیا گیا۔ بے حرمت کی گئی خواتین میں سے تین سو کو بعد میں قتل بھی کر دیا گیا جب کہ اس دورانیے میں عورتوں پر تشدد کے تیرہ ہزار واقعات رپورٹ ہوئے۔

اس سرکاری رپورٹ میں عورتوں پر ہونے والے تشدد کی تفصیلات اور اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں2008 کے انتخابات کے بعد موجودہ سیاسی اور جمہوری حکومتوں کے قیام کے بعد ان واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، خصوصا پنجاب اور سندھ میں۔ ایک مبصر کے بقول اس کی وجہ سیاستدانوں کا تھانوں پر قبضہ ہے کیوںکہ کوئی بھی تھانے دار پنجاب اور سندھ میں علاقے کے ایم این اے یا ایم پی اے کی ہدایت کے بغیر کسی بھی کیس پر کارروائی کرنے کو تیار نہیں، جس سے پاکستان میں ان کرائمز میں اضافہ ہوا ہے۔

2009-2010 میں تیرہ ہزار عورتوں پر تشدد کے واقعات میں صرف پنجاب میں 6754 واقعات رپورٹ ہوئے تھے، جس میں قتل، ریپ اور گینگ ریپ کے واقعات سرفہرست تھے جب کہ سندھ میں تین ہزار، خبیر پختون خواہ میں اٹھارہ سو اور بلوچستان میں تشدد کے آٹھ سو واقعات رونما ہوئے۔ یوں 2008 کے الیکشن میں جلاوطنی کے بعد اقتدار میں آنے والے شہباز شریف اور آصف زرداری کی حکومتیں بننے کے بعد عورتوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا۔

ان اعدادوشمار سے یہ اندازہ ہوا کہ پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت ہو یا سندھ میں پیپلز پارٹی کی، ان جمہوری حکومتوں کے دور میں پاکستان میں عورتیں زیادہ تعداد میں تشدد کا نشانہ بنیں۔ کمیٹی کے سامنے پیش کی گئی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سے بڑی بدنصیبی کیا ہو گی کہ عورتیں جنہیں اپنے گھروں میں سب سے زیادہ محفوظ ہونا چاہیے تھا، وہ وہاں زیادہ غیر محفوظ تھیں، جہاں ان کے اپنے ان پر تشدد کرتے ہیں اور انہیں موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے۔ جن رشتوں پر انہیں سب سے زیادہ اعتبار ہو تا ہے ان ہی کے ہاتھوں وہ نہ صرف مار کھاتی ہیں بل کہ ماری بھی جاتی ہیں۔ یہ عورتیں نہ صرف جسمانی تشدد کا شکار ہو رہی ہیں بل کہ ان پر نفسیاتی تشدد بھی کیا جاتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق عورتوں کو معاشی مواقع نہ ملنے سے بھی وہ کمزور ہو رہی ہیں اور ان پر تشدد کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان میں بچی کا پیدا ہونا آج تک برا شگون سمجھا جاتا ہے اور اس کی پیدائش پر بہت کم لوگ خوش ہوتے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ چولہوں کے پھٹنے کے واقعات، عزت کے نام پر قتل، جہیز، تیزاب پھینکنا، اجتماعی تشدد، عورتوں کی تجارت، عورتوں کا اغوا، عورتوں کو زبردستی طوائف بنانا اور جنسی تشدد کے واقعات میں کمی کی بجائے ان میں اضافہ ہوا ہے۔پاکستان بھی اس گلوبل ویلیج کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ جہاں خواتین پر تشدد کی کیفیت توجہ طلب صورتحال اختیار کرتی جارہی ہے، جس کا اندازہ عورت فاؤنڈیشن کی رپورٹ برائے 2013 کے اعداد وشمار سے لگایا جاسکتا ہے۔

پاکستان میں2008 سے 2013 تک خواتین پر تشدد کے واقعات میں 3.71 فی صد اضافہ ہوا ہے۔اور 7571 سے بڑھ کر 7852 واقعات ریکارڈ ہوئے۔ یوں 2013 میں پاکستان میں ہر روز خواتین پر تشدد کے اوسطاً 22 واقعات رپورٹ ہوئے۔ مذکورہ سال خواتین پر تشدد کے حوالے سے ڈسٹرکٹ فیصل آبادکی صورت حال سب سے ابتر رہی جہاں خواتین پر تشدد کے 1038 واقعات رپورٹ ہوئے۔598 پْرتشدد واقعات کے ساتھ لاہور دوسرے اور راولپنڈی خواتین پر تشدد کے 430 واقعات کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہا۔ پاکستان میں خواتین پر تشدد کے یہ واقعات ملک میں خواتین پر تشدد کی کسی حد تک صورتحال تو واضح کرتے ہیں لیکن مکمل منظر کشی نہیں کرتے۔کیونکہ یہ تمام اعدادوشمار اخباری خبروں پر مشتمل ہوتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق دنیا میں ہر تین میں سے ایک خاتون اپنی زندگی میں Gender Based Abuse کے تلخ تجربے سے گزرتی ہے۔پاکستان میں بھی خواتین پر Unreported تشدد کی تعداد و مقدار دنیا سے مختلف نہیں اور شاید کچھ زیادہ ہے۔ پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے13 - 2012 ملک میںخواتین پر ہونے والے تشدد کے بارے میں جو حقائق سامنے لاتا ہے اْس کے مطابق ملک میں 15 سے 49 سال کی عمر کی 32.2 فی صد شادی شدہ خواتین جسمانی تشدد برداشت کرتی ہیں جب کہ 38.5 فی صداپنے شوہروں کے ہاتھوںجسمانی یا جذباتی تشدد سہتی ہیں۔

ملک میں سب سے زیادہ تشدد کی شکار بیویوں کے تناسب کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے، جہاں 57.4 فی صد خواتین اپنے رفیقِ حیات کے ہاتھوں جسمانی یا جذباتی تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ صنف نازک پر تشدد کی دوسری بڑی شرح بلوچستان کی خواتین پر مشتمل ہے، جہاں50.1 فی صد خواتین، شوہروں کی وحشت کا نشانہ بنتی ہیں۔اس شرمناکی کی تیسری نمایاں شرح پنجاب کی خواتین پر مبنی ہے، جہاں 39.3 فی صد خواتین، شوہروں کا تشدد سہتی ہیں۔

اسلام آباد میں یہ شرح 38.9 فی صد اور سندھ میں23 فی صد ہے۔ سب سے کم شرح گلگت بلتستان میں ہے، جہاں20 فی صد زوجائیں اس قبیح فعل کی زد پر آتی ہیں۔ خواتین پر تشدد کی ایک اور اہم وجہ اْن کی کم عمری کی شادی بھی ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق دنیا میں ہر سال اٹھارہ سال سے کم عمر ایک کروڑ 40 لاکھ بچیاں شادی کے بندھن میں باندھ دی جاتی ہیں۔ یعنی 38 ہزار روزانہ اور ہر 30 سیکنڈ میں 13 کم سن بچیوں کی شادیاں کر دی جاتی ہیں۔

یونیسیف کی رپورٹ اسٹیٹ آف دی ورلڈ چلڈرن 2015 کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان18 سال سے کم عمر لڑکیوں کی شادی کی شرح کے حوالے سے دنیا بھر میں64 ویں اور 15 سال سے کم عمر بچیوں کی شادی کی شرح کے حوالے سے 70 ویں نمبرپر ہے۔خواتین کے خلاف جرائم کا ڈیٹا بیس بنانے کا منصوبہ بھی سب سے پہلے پنجاب میں دیا گیا۔25 جولائی 2013 کو پنجاب حکومت نے خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کے اعداد وشمار اور معلومات اکٹھی کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔

خواتین پر ہونے والے تشدد سے متعلق اعدادوشمار کے حصول کے لیے پہلے کوئی بہت مستند ذریعہ موجود نہیں تھا۔ خواتین کے حقوق کے اکثر ادارے یہ معلومات اکٹھی کرنے کے لیے میڈیا میں رپورٹ ہونے والی خبروں پر انحصار کرتے تھے لیکن انسانی حقوق کے کارکن سمجھتے تھے کہ ان واقعات کی بڑی تعداد تو ذرائع ابلاغ میں رپورٹ ہی نہیں ہو پاتی۔
Load Next Story